0
Sunday 11 Jul 2021 23:16

بڑھتی آبادی سے بڑا خطرہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، علامہ ساجد نقوی

بڑھتی آبادی سے بڑا خطرہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، علامہ ساجد نقوی
اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا کو بڑھتی آبادی کے خوفناک خطرے کے گھیر رکھا ہے اور پاکستان سمیت مختلف ممالک میں آبادی کنٹرول پروگرامز بھی چل رہے ہیں مگر افسوس اس خطرے کی بنیادی وجوہ کو ہی نظر انداز کیا جارہا ہے، بڑھتی آبادی کو ہی غربت کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ سب سے بڑی وجہ طبقاتی، استحصالی اور غیرعادلانہ نظام ہے، معاشی و معاشرتی نظام کو عادلانہ رکھنے کے لئے ہی قرآن کریم رہنمائی فرماتا ہے کہ ”مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے“، مگر ان واضح احکامات کے باوجود عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ ہر گزرتے منٹ میں 11 افراد غذاتی قلت و غربت کے باعث موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی یوم آبادی پر اپنے پیغام میں کیا۔ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ پوری دنیا میں اس وقت بڑھتی آبادی کے خطرے کی مہم زورں پر ہے، اس حوالے سے مختلف پروگرامز اور پراجیکٹس پر بھی کام کیا جارہا ہے حالانکہ اصل مسئلہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، غیر منصفانہ فیصلے، بنیادی انسانی حقوق کی عدم فراہمی ہے لیکن اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے گئے؟

انہوں نے مزید کہا کہ قرآن پاک میں واضح الفاظ میں کہا گیا کہ ”اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے، ہم تمہیں بھی اور انہیں بھی روزی دینگے بے شک ان کا قتل بڑا گناہ ہے“ (سورة الاسراءآیت 31)، سورة نور آیت 32 میں انسان کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ ”اور تم میں جو لوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، علم والا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے خاندانی نظام سے ریاستی نظام تک ہر معاملے میں میانہ روی پر زور دیا ہے لیکن افسوس آبادی کنٹرول پر زور تو بہت زیادہ دیا جاتا ہے اور بڑھتی آبادی کو غربت کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے، حقیقت میں بڑا مسئلہ تو طبقاتی تفریق کا ہے، جو معاشروں میں پروان چڑھ رہی ہے اور یہ کلچر سوشل ازم اور کیپٹل ازم جیسے بظاہر خوشنما نعروں اور سٹیٹس کے ساتھ پروان چڑھا، مگر یہ انسانیت کو معاشی انصاف کی فراہمی کیا یقینی بناتا بلکہ انسانیت پہلے سے بھی بدترصورتحال سے دوچار ہوگئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ خود اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 15 فیصد تک دنیا کی آبادی نان شبینہ کو ترستی ہے جبکہ غربت خاتمے بارے کام کرنیوالے ادارے اوکسفیم کی رپورٹ کے مطابق ہر منٹ میں 11 افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں، تو ایسے میں غور کیا جائے کہ اس کی بنیادی وجہ کیا یہ غاصبانہ طرز حکومت و غاصب معاشی نظام نہیں؟ اسلام جو مکمل ضابطہ حیات ہے، جو مساوی بنیادی حقوق و معاشی مساوات کا علمبردار ہے، قرآن پاک کی سورة الحشر ”مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے“ کیا آج صورتحال ایسی نہیں ہے کہ چند خاندان، چند ممالک دنیا کے 80 فیصد وسائل پر کسی نہ کسی شکل میں قابض ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی پالیسیز میں نظر انداز کیا جاتا ہے اور جو معاشرے خود انحصاری و خود مختاری کی بنیاد پر ترقی کی طرف بڑھتے ہیں انہیں بھی مختلف حیلوں سے ظالمانہ پابندیوں کے ذریعے دبایا جاتا ہے، عالمی معیشت کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے اداروں نے جکڑ رکھا ہے، جب تک اس استحصالی، غیر منصفانہ نظام کا خاتمہ نہیں ہوگا، دنیا میں امن، مساوی حقوق کی فراہمی صرف نعروں تک ہی محدود رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 942895
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش