0
Tuesday 20 Jul 2021 22:39
احسان اللہ احسان ڈکلیئرڈ دہشتگرد تھا پھر اداروں کی تحویل سے کیسے فرار ہوا؟ 

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار رضی الدین رضی کا اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو 

امریکہ پاکستان سے ناراض نہیں ہے، کیونکہ اس نے تو اڈے مانگے ہی نہیں تھے
متعلقہ فائیلیںرضی الدین رضی 7 مئی 1965ء کو لائل پور میں پیدا ہوئے، میٹرک فیڈرل بورڈ آف اسلام آباد، انٹرمیڈیٹ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور جبکہ گریجوایشن بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کی۔ مارچ 1983ء میں صحافتی کیریئر کا آغاز روزنامہ سنگ میل سے بطور نیوز ایڈیٹر کیا، جسکے بعد درجن سے زائد علاقائی و قومی اخبارات میں مختلف ذمہ داریوں پر کام کیا، 2009ء میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان ملتان کے شعبہ اُردو کی بطور انچارج ذمہ داری سنبھالی اور تاحال اسی ادارے کیساتھ وابستہ ہیں، رضی الدین رضی 20 کتابوں کے مصنف ہیں اور کئی کتابیں زیر طبع ہیں، ملتان میں ادبی تاریخ کو مرتب کرنے کیساتھ ساتھ ادب اور شاعری کے فروغ کیلئے بھی کوشاں ہیں، پاکستان سمیت عالمی صورتحال بالخصوصی مشرق وسطیٰ پر گہری نظر رکھتے ہیں، اسلام ٹائمز نے اُن سے موجود پاک افغان صورتحال، امریکی انخلاء اور خطے پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا، جو حاضرین کیلئے پیش خدمت ہے۔ قارئین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/c/IslamtimesurOfficial/videos 

اسلام ٹائمز کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں صرف انڈیا کے ساتھ سفارتکاری ماضی میں مشکل رہی، لیکن اب افغانستان کے ساتھ بھی مشکل ہوتی جا رہی ہے، اسلام آباد میں سفارتکار کی بیٹی کا اغواء اور پھر اداروں کی جانب سے کارروائیاں، افغان سفیر کی جانب سے ٹوئٹ اور بھارت کی جانب سے تصاویر شیئر کیے جانے کی مخالفت جبکہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی طرف سے پہلے کچھ افراد کے خلاف کارروائی کی باتیں، اداروں کی جانب سے آپس میں ہم آہنگی نہ ہونا، پولیس اور وزارت خارجہ کے درمیان ہم آہنگی نہ تھی، پھر افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے سفارتخانے کے عملے کو واپس بلا لینا، اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا نے افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں، ایک وقت تھا جب طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کو سائیڈ لائن کر دیا گیا۔

افغانستان کی صورتحال پاکستان کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے، افغانستان کی صورتحال کی پاکستان کے امن کے ساتھ وابستگی ہے، پاکستان کی داخلی اور فرقہ وارانہ صورتحال کا افغانستان کے ساتھ عمل دخل ہے، ماضی میں پاکستان نے افغانستان کے ایشو بہت اہمیت دی ہے (strategec depth) قرار دیا۔ بینظیر بھٹو شہید نے طالبان کو اپنے بچے کہا، نصیر اللہ بابر کے زمانے میں اس کو چلایا گیا، پاکستان کی خارجہ پالیسی بلاشبہ پاک فوج کنٹرول کرتی ہے، سرحدوں پر کون ہو، کس کے ہونے سے ہماری سرحدیں محفوظ رہیں گی، یہ پاک فوج طے کرتی ہے، ہمیں اچھے طالبان اور بُرے طالبان کے فیز سے نکلنا چاہیئے، اگر منتخب افغان صدر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کسی اور کو سپورٹ (طالبان) کر رہا ہے، اس میں ہمیں افغان صدر کی کمزوری نظر آتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ اشرف غنی کی عوام میں جڑیں نہیں ہیں، امریکہ جتنا عرصہ افغانستان میں رہا، جو اُس کے لیے قابل قبول تھا، اُسے صدر بنوایا لیکن ہمیشہ کی طرح امریکہ افغانستان سے بغیر کسی حل کے نکل گیا تو اب عوام کی مرضی ہے کہ وہ امریکی حمایت کے ساتھ ہوں یا طالبان کے ساتھ۔

طالبان کی ان فتوحات میں شمالی اتحاد کا ذکر کہیں نہیں آیا، جو کہ ایک خطرناک عمل ہے، کیونکہ شمالی اتحاد میں شیعہ عناصر موجود ہیں، جس طرح پاکستان میں فرقہ واریت موجود ہے، اسی طرح افغانستان میں بھی فرقہ وارانہ مسائل ہیں، دعا کرنی چاہیئے کہ مستقبل میں پاکستان ان اثرات سے محفوظ رہے۔ اگر افغانستان میں ایران، سعودی عرب اور پاکستان اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں تو یہ ایک خطرناک عمل ہوگا، ماضی میں ہم نے قربانیاں دی ہیں، عالمی قوتیں مسئلہ افغانستان کو حل نہیں کرنا چاہتیں۔ ہمارے ہاں یہ سمجھ نہیں آتی کہ ایک وقت کا دہشتگرد دوسرے وقت میں مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھا ہوتا ہے، ملا ضعیف اور احسان اللہ احسان ڈکلیئرڈ دہشتگرد تھے، پھر یہ احسان اللہ احسان اداروں کی تحویل سے کیسے فرار ہوئے، یہ فرار ہوئے یا انہیں فرار کرایا گیا؟ کسی کے ساتھ بات چیت کے لیے؟ یا کسی کے ساتھ ڈیل کے لیے؟ کیونکہ آپ کے مہرے ہوتے ہیں، آپ وہ مہرے چل رہے ہوتے ہیں، اُن میں بہت سارے مہرے مارے جاتے ہیں یا کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی ضرورت نہیں رہتی، وہ مار دیئے جاتے ہیں۔

اس صورتحال میں پاکستان کی سرحد کو خطرہ لاحق رہے گا، لیکن اگر پاکستان یہ سوچتا ہے کہ طالبان کے آجانے سے یہ سرحد محفوظ ہو جائے گی تو دوسری طرف خطرات بڑھ جائیں گے، داسو ڈیم کے واقعے کو اسی نظر میں دیکھنا چاہیئے، امریکہ اگر افغانستان میں پیادہ تبدیل کرنا چاہتا ہے تو وہ الیکشن کی صورت میں ہوگا، بندوق یا طاقت کے زور پر نہیں، امریکہ پاکستان سے ناراض نہیں ہے، کیونکہ امریکہ نے کہا ہے کہ ہم نے تو اڈے مانگے ہی نہیں تھے، امریکہ جس کے ساتھ ناراض ہوتا ہے، اُس کی ناراضگی نظر آرہی ہوتی ہے، امریکہ جس سے ناراض ہوتا ہے اُس کی امداد بند کر دیتا ہے، اُس کی ادویات بند کر دیتا ہے، اُس پر پابندیاں عائد کر دیتا ہے، امریکہ تو اُس وقت بھی ناراض نہیں ہوا تھا، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
خبر کا کوڈ : 944365
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش