0
Friday 18 May 2018 23:20

اسرائیل کی تین اسٹریٹجک ناکامیاں

اسرائیل کی تین اسٹریٹجک ناکامیاں
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

اسرائیل ایک عرصے سے ایران کی جانب سے جوابی کاروائی کا منتظر ہے اور فوجی اعتبار سے ریڈ الرٹ پر ہے خاص طور پر جب سے اس نے شام میں ٹی فور ایئربیس پر میزائل حملے کیا جس میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سات افراد شہید ہو گئے تھے۔ دوسری طرف اسرائیلی جنگی طیارے گذشتہ چار ہفتوں کے دوران فلسطین کے شمالی حصوں، لبنان کے جنوبی حصوں اور شام کے جنوب مغربی حصوں پر مسلسل پرواز کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے حالات میں جب اسرائیلی مسلح افواج مکمل طور پر تیار تھیں اسلامی مزاحمت نے جمعرات 10 مئی کو گولان ہائٹس میں واقع اسرائیل کے اہم اور اسٹریٹجک فوجی ٹھکانوں کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا۔
 
گولان ہائٹس میں اسلامی مزاحمت کی اس کاروائی کے محدود علاقے اور اسرائیل کے پاس موجود وسیع انٹیلی جنس وسائل کی موجودگی کے پیش نظر توقع کی جا رہی تھی کہ اسرائیل اس کاروائی کے وقت، جگہ، وسعت اور نوعیت کی پیشن گوئی کر پائے گا لیکن 10 مئی کے واقعے نے ظاہر کیا کہ اسرائیل اس حملے کا وقت اور دیگر عوامل جیسے وہ مقامات جہاں سے راکٹ فائر کئے گئے، نشانہ بنائے گئے اہداف، فائر ہونے والے راکٹس کی تعداد وغیرہ کی شناسائی میں قاصر رہا۔ اسرائیل آرمی پوری طرح تیاری کی حالت میں اسلامی مزاحمت کی ایسی کاری ضرب کا نشانہ بنی جس کا وہ ہر گز تصور نہیں کر رہی تھی۔
 
اس راکٹ حملے میں اسلامی مزاحمت نے اسرائیل کے انتہائی حساس فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں اسرائیل کے 50 سے زائد فوجی ہلاک جبکہ دسیوں دیگر زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ اسرائیل کیلئے بہت بڑی انٹیلی جنس ناکامی اور رسوائی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ اسرائیل گذشتہ 70 برس کے دوران اپنی انٹیلی جنس اور سکیورٹی صلاحیتیں بڑھانے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے 2007ء میں کہا تھا کہ صرف حیفا بندرگاہ کی سکیورٹی پر پندرہ برس کے دوران 10 ارب ڈالر اخراجات کئے جا چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گولان ہائٹس جہاں شام آرمی کے حملے کا ہر وقت خطرہ موجود ہے، اسرائیل نے اس مد میں کئی گنا زیادہ اخراجات کئے ہوں گے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل آرمی شام آرمی کی جانب سے راکٹ حملوں کے وقت اور جگہ کا تعین کرنے میں ناکام رہی ہے۔
 
دوسری طرف اسلامی مزاحمتی بلاک اپنی ایکٹنگ فورس اور راکٹ فائر ہونے والی جگہوں کو دشمن کی نگاہوں سے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی اور متعدد مزاحمتی کاروائیوں کے ذریعے دشمن کی توجہ اصلی آپریشن سے منحرف کر دی جس کے نتیجے میں تقریباً دو گھنٹے جاری رہنے والی جھڑپ کے دوران اسرائیل اسلامی مزاحمتی فورسز پر موثر ضرب لگانے میں ناکامی کا شکار رہا۔ فوجی اعتبار سے اسرائیل کا دعوی ہے کہ وہ علاقے کی سب سے بڑی آرمی کا مالک ہے۔ اسی طرح اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی میں اس کے 28 ایف 15 اور ایف 16 جنگی طیارے شامل تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اسلامی مزاحمت کی فوجی کاروائی کو روکنے اور اسلامی مزاحمت پر کاری ضرب لگانے میں ناکام رہا۔
 
مزید برآں، اسرائیل کے "فولادی گنبد" نامی میزائل ڈیفنس سسٹم کا موثر واقع نہ ہونا بھی اسرائیل کیلئے ایک بڑی فوجی ناکامی تصور کی جاتی ہے۔ لہذا اب حتی اسرائیل کے اندر بھی کوئی بنجمن نیتن یاہو کی ڈینگوں پر توجہ نہیں دیتا۔ گولان ہائٹس پر شام آرمی کا راکٹ حملہ اسرائیل کیلئے سیاسی اعتبار سے بھی ایک بڑی ناکامی اور شکست محسوب ہوتا ہے۔ امریکی حکام ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسرائیل کی سلامتی ان کی سلامتی ہے جبکہ اکثر یورپی حکومتوں کا بھی یہی موقف ہے کہ وہ اسرائیل کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے ہر اقدام کا مقابلہ کریں گے۔ دوسری طرف اسرائیلی حکام نے روسی حکام سے اپنے پرانے تعلقات کے پیش نظر یہ امید لگا رکھی تھی کہ شام کی جانب سے کسی حملے کی صورت میں روس آڑے آ جائے گا لیکن عمل کے میدان میں روس نے نہ صرف شام کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کی مذمت کرنے سے بھی گریز کیا۔
 
گولان ہائٹس پر شام آرمی کے راکٹ حملوں پر روس نے خاموشی اختیار کی۔ جبکہ صرف تین دن پہلے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ماسکو کے دورے پر تھے اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سمیت اعلی سطحی حکام سے ملاقات کر چکے تھے۔ اس ملاقات میں نیتن یاہو نے صدر پیوٹن سے عاجزانہ درخواست کی کہ وہ اس بات کی ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ دوبارہ شام پر ایرانی فورسز کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا لہذا ایران کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ ٹی فور ایئربیس پر اسرائیلی حملے کا انتقام لینے سے دستبردار ہو جائے۔ لہذا اسرائیل اپنے دو بڑے منصوبوں میں بری طرح ناکامی کا شکار ہو چکا ہے۔ پہلی شکست نیتن یاہو کی درخواست ہے جو شام آرمی کی جانب سے راکٹ حملوں کے دوران کئی بار روسی، امریکی اور یورپی حکام سے کی گئی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ان ٹیلیفونک رابطوں سے نیتن یاہو کو کچھ حاصل نہ ہوا۔
 
جمعرات 10 مئی کا واقعہ ایک اسٹریٹجک اقدام تھا جس میں دونوں مدمقابل قوتوں نے اقدام، تشخیص، صورتحال کی شناسائی اور ایکدوسرے کی صلاحیتوں کی جانچ پرکھ انجام دی۔ ایک طرف اسرائیلی تھے جنہیں اسلامی مزاحمت کی جانب سے یقینی ردعمل کی خبر تھی لیکن اس کے باوجود وہ خود کو اس جوابی کاروائی سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی بلاک تھا جس نے دشمن پر کاری ضرب لگا کر ثابت کر دیا کہ اسرائیل کے خلاف اس کے منہ توڑ اقدامات کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔
 
 
 
خبر کا کوڈ : 725622
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش