0
Saturday 7 Jul 2012 09:30

پاکستان کیخلاف ايک نئی گھناونی سازش

پاکستان کیخلاف ايک نئی گھناونی سازش
تحریر: سليم صافی 

برطانيہ امريکہ کا قريب ترين حليف بلکہ خارجہ پاليسي کے حوالے سے اس کا کارندہ ہے، ليکن پاکستان سے متعلق امريکہ کے مقابلے ميں برطانيہ کا موقف خاصا نرم اور مصالحانہ ہے۔ سلالہ چيک پوسٹ پر حملے کے بعد پاکستان اور امريکہ کے تعلقات کي خرابي کي وجہ سے ترکي کے بعد اگر کوئي ملک زيادہ پريشان تھا تو وہ برطانيہ ہي تھا۔ گزشتہ روز ميں نے لندن ميں جيو نيوز کے پروگرام ”جرگہ“ کے لئے برطانيہ کے خصوصي نمائندے برائے پاکستان و افغانستان مارک سيڈول کا تفصيلي انٹرويو کيا، اس ميں بھي ان کا رويہ امريکيوں کے مقابلے ميں کافي مثبت تھا۔ اس روز شام کو ميں نے لندن ميں مقيم اپنے صحافي دوستوں سے اس کي علت جاننے کي کوشش کي تو ان کا کہنا تھا کہ ديگر عوامل کے علاوہ ايک بڑا عامل يہ بھي ہے کہ اس وقت پاکستان سے برطانيہ ميں بے تحاشہ پيسہ آرہا ہے اور برطانيہ نہيں چاہتا کہ يہ سلسلہ ختم ہو۔

اس کي تفصيل انہوں نے يوں بيان کي کہ اس وقت پاکستان کے اندر جو جتنا زيادہ طاقتور اور بااختيار ہے، وہ اتني زيادہ رقم بيرون ملک منتقل کر رہا ہے، جس کا بڑا حصہ برطانيہ ميں ہي آ رہا ہے۔ پھر وہ مجھے لندن کے پوش علاقے ايجوير روڈ کے اس پوش علاقے ميں لے گئے، جہاں پر ہمارے وزير داخلہ رحمان ملک صاحب اور سابق صدر جنرل پرويز مشرف صاحب کے عالي شان فليٹس واقع ہيں۔ يہاں سے ہم چند سو گز کے فاصلے پر واقع ہائيڈ پارک کي طرف نکلے اور اس عالي شان فليٹ کا نظارہ کيا جہاں مياں نواز شريف قيام کرتے ہيں۔ ان کے بيٹے کا کاروباري دفتر بھي اسي علاقے ميں واقع ہے۔ اگلے روز ميں لندن کے علاقے ايجوير ميں واقع ايم کيو ايم کے انٹرنيشنل سيکرٹريٹ ميں دوپہر کے کھانے پر مدعو تھا۔ جو پوش علاقے (ايجور روڈ اور ايجور الگ الگ علاقے ہيں) ميں نہيں، ليکن پاکستاني سياست کو کنٹرول کرنے والي ايم کيو ايم يہاں سے کنٹرول ہوتي ہے۔

عادل شاہ زيب اور جان اچکزئي کے ساتھ يہاں سليم شہزاد اور مصطفٰي عزيز آبادي سے تفصيلي گپ شپ ہوئي، ليکن قائد تحريک الطاف حسين صاحب سے ملاقات نہ ہوسکي، کيونکہ وہ علاج کے لئے يا پھر چھٹي منانے کے لئے لندن سے باہر گئے تھے۔ افسوس کہ الطاف حسين صاحب جو کہ پاکستان کي ايک سياسي جماعت کے سربراہ ہيں، چھٹي منانے بھي پاکستان نہيں آسکتے اور اس کے لئے انہيں برطانيہ ميں کسي اور مقام يا پھر يورپ کے کسي اور ملک جانا پڑتا ہے۔ اسي طرح ہمارے مستقبل کے حکمران اور بے نظير بھٹو صاحبہ کے صاحبزادے بلاول بھٹو بھي يہاں مقيم ہيں، جبکہ عمران خان صاحب کو بھي سال ميں کئي مرتبہ يہاں پر مقيم اپنے بچوں سے ملنے کے لئے آنا پڑتا ہے جبکہ چوہدري برادران نے برطانيہ کي بجائے اسي طرح کي سرگرميوں کے لئے سپين کو منتخب کيا ہے۔
 
ليکن يہ اعزاز صرف سياسي قائدين کو حاصل نہيں، وہ تو چونکہ عوام اور ميڈيا کي توجہ کا مرکز ہوتے ہيں، اس لئے ان کي طرف سے اخفا ميں رکھنے کي بھرپور کوشش کے باوجود ان کے کچھ نہ کچھ معاملات باہر آجاتے ہيں، ليکن مذکورہ اعزازات صرف ان کو حاصل نہيں۔ برطانيہ، يورپ، امريکہ، دبئي اور ملائشياء ميں سياسي رہبروں کے علاوہ ہزاروں کي تعداد ميں ہمارے جرنيلوں، بيوروکريٹس اور جج صاحبان نے بھي اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہيں۔ ہمارے مذہبي سياسي رہنما وں کے يہاں ٹھکانے نہيں ہيں، (سوائے علامہ طاہر القادري صاحب کے)۔
 
اب کي بار ميرا ارادہ نيٹو سپلائي کي بحالي کے موضوع پر لکھنے کا تھا، ليکن مجھے لندن ميں ہي معلوم ہوا کہ پاکستان کے خلاف موجودہ حکمران ايک ايسي گہري اور گھناوني سازش تيار کر رہے ہيں کہ جس کے پاکستان کے مستقبل پر منفي اثرات نيٹو سپلائي کي بحالي سميت کسي بھي واقعے سے زيادہ ہوں گے، اس لئے مجھے اس موضوع کو موخر کرکے اس سازش سے متعلق لکھنا پڑ رہا ہے۔ بظاہر تو دہري شہريت کے قانون ميں تبديلي کے لئے آئيني ترميم صرف چند اشخاص کو بچانے کے لئے لائي جا رہي ہے، ليکن حقيقت يہ ہے کہ يہ ترميم مستقبل ميں پاکستان کے لئے بڑي مہلک ثابت ہوگي۔

بکواس کرتے ہيں وہ لوگ جو اوورسيز پاکستانيوں کي آڑ لے کر دہري شہرت کے حامل لوگوں کو پارليمنٹ ميں لا بٹھانا چاہتے ہيں۔ امريکہ جيسے ملک ميں تو اسرائيل جيسے ملک کي شہريت رکھنے والے کو پارليمنٹ کا ممبر بننے کي اجازت نہيں، ليکن اب يہ لوگ امريکہ اور برطانيہ کي وفاداري کے حلف اٹھانے والوں کو پاکستان کا قانوني حکمران بنانا چاہتے ہيں۔ لندن ميں قيام کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ برطانيہ نے اپني شہريت لينے والوں کيلئے گزشتہ ہفتہ قانون ميں تبديلي کي ہے اور نئے قانون کي روسے اب شہريت لينے والوں کے لئے مذہبي کتاب پر ہاتھ رکھ کر برطانيہ کي وفاداري کا حلف اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کے قومي ترانے (گاڈ سيو دي کوئين) کو زباني ياد کرنا بھي لازم کر ديا گيا ہے۔
 
اب سوال يہ ہے کہ برطانيہ کے ساتھ تنازعہ آجانے يا خاکم بدہن جنگ چھڑ جانے کي صورت ميں رحمان ملک صاحب اور الطاف حسين صاحب ”پاک سرزمين شاد باد گائيں گے“ يا پھر ”گاڈ سيو دي کوئين“؟ 
شرم آني چاہئے قانون ميں تبديلي کرنے والے پاکستاني ليڈروں کو کہ اس معاملے ميں وہ پاکستان کو افغانستان سے بھي بڑھ کر بيروني قوتوں کي چراگاہ بنانا چاہتے ہيں۔ افغانستان ميں آئيني پابندي ہونے کي وجہ سے درجنوں اميدواروں نے غيرملکي شہريت سرنڈر کر دي۔

ليکن يہ حضرات مملکت خداداد پاکستان ميں امريکہ، برطانيہ، کينيڈا، ڈنمارک اور آسٹريليا جيسے ممالک کي وفاداري کے حلف اٹھانے والوں کو پاکستان کے سياہ و سفيد کا مالک بنانا چاہتے ہيں۔ بات بڑي سادہ ہے۔ قانون ميں تبديلي ہوني چاہئے اور فوري ہوني چاہئے، ليکن وہ نہيں جو حکمران تجويز کر رہے ہيں، تبديلي يہ ہوني چاہئے کہ جو شخص خود يا اس کي بيوي يا بچے غير ملک کے شہري ہيں تو وہ پاکستان ميں پارليمنٹ کي ممبرشپ اور سرکاري عہدے کيلئے نااہل ہوگا۔ يہ پابندي سياستدانوں کے ساتھ ساتھ جرنيلوں، ججز، سرکاري افسران بلکہ ہم جيسے جرنلسٹس کے لئے بھي ہوني چاہئے۔ جو شخص خود پاکستان ميں نہيں رہ سکتا يا اپنے بچوں کو يہاں نہيں رکھ سکتا، اس کا مطلب يہ ہے کہ اسے اس ملک کے مستقبل پر يقين نہيں اور جس کو اس ملک کے مستقبل پر يقين نہيں، اس کو يہاں پر حکمراني کا کوئي حق نہيں ہونا چاہئے۔
 
جب تک پاکستان کے بااختيار لوگ خود اور ان کے بچے اس ملک ميں نہيں رہيں گے، اس ملک ميں امن نہيں آسکتا۔ جب تک ان لوگوں کے بچے يہاں کے اسکولوں اور کالجوں ميں نہيں پڑھيں گے، يہاں کا تعليمي نظام درست نہيں ہوسکتا۔ جب تک ان کے بچوں کا علاج پاکستان کے ہسپتالوں ميں نہيں ہوگا يہاں کا نظام صحت ٹھيک نہيں ہوسکتا۔ کوئي شخص اگر خود يہاں نہيں رہ سکتا اور اپنے بچوں کو يہاں نہيں رکھ سکتا اور وہ کسي بھي وجہ سے کسي غير ملک کي شہريت اپنے لئے ضروري سمجھتا ہے تو وہ آرام سے اس ملک ميں رہے اور پاکستان کو معاف کردے۔ اپني قيادت، مہارت يا دولت کو اپنے پاس رکھے۔ ميں ان کو يقين دلاتا ہوں کہ پاکستاني قوم ان کيلئے روئے گي اور نہ جلوس نکال کر مطالبہ کرے گي کہ وہ پاکستان آکر ان کي قيادت کريں۔
 
ماشاءاللہ پاکستان اٹھارہ کروڑ باصلاحيت انسانوں کا ملک ہے۔ ان ميں سے ايسے لاکھوں ليڈر، جرنيل، جج اور جرنلسٹس نکل آئيں گے، جو اس ملک ميں رہيں گے بھي اور اس کے وفادار بھي ہوں گے۔ ميں تو تجويز کروں گا کہ پاکستان ميں يہ قانون بھي بننا چاہئے کہ جو شخص پاکستان ميں کسي اہم عہدے پر فائز رہے، وہ فراغت کے بعد دس سال تک بيرون ملک سکونت اختيار نہيں کرسکے گا۔ يہ کيا ان لوگوں نے پاکستان کو چراگاہ بنا رکھا ہے۔ آکر حکومت کرتے اور لوٹتے ہيں اور پھر بيرون ملک چلے جاتے ہيں۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 177120
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش