0
Sunday 23 Mar 2014 17:26

پاراچنار، انجمن حسینیہ کی تشکیل کا معمہ پھر زور پکڑ گیا

پاراچنار، انجمن حسینیہ کی تشکیل کا معمہ پھر زور پکڑ گیا
رپورٹ: ایس این حسینی
 
کرم ایجنسی میں انجمن حسینیہ کی تشکیل کے حوالے سے 20 مارچ کو 16 رکنی جرگہ ممبران میں سے کچھ کی جانب سے مرکزی امام بارگاہ میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا تھا، جبکہ اس حوالے سے جرگہ ممبران تقسیم کا شکار رہے۔ 19 مارچ کو گاؤں گاؤں میں اعلان اس طریقے سے کیا گیا کہ متفقہ طور پر فیصلہ ہوچکا ہے اور انتہائی برادرانہ ماحول میں جلسے کا انعقاد ہوگا اور پھر اگلے دن امام بارگاہ میں پروگرام کا انعقاد ہوگیا۔ جس سے سابق پولیٹیکل ایجنٹ لائق حسین، جرگہ ممبر اور سابق سینیٹر سید سجاد حسین میاں، جرگہ ممبر قاضی سید افتخار حسین اور حاجی اصغر حسین نے خطاب کیا۔ مقررین نے شرکائے جلسہ پر زور دے کر کہا کہ جس طرح ہم نے اپنے اختلافات ختم کئے ہیں، اسی طرح آپ سے بھی امید ہے کہ آپ اپنے تمام تر اختلافات ختم کر دیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ گاؤں گاؤں تک ہماری یہ گزارش پہنچائی جائے کہ مرکزی انجمن حسینیہ کے حوالے سے آئندہ کسی قسم کے پراپیگنڈے سے احتراز کیا جائے، بلکہ آج سے ہم سب بھائی بھائی ہیں اور تمام اختلافات ختم ہوچکے ہیں۔

انجمن کی تشکیل کے حوالے سے مقررین نے کہا کہ ہر قوم چار چار نمائندے منتخب کرکے 5 اپریل تک 16 رکنی جرگہ کے حوالے کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چھ اقوام (ھمزہ خیل، مستو خیل، علی زئی غنڈی خیل، دوپرزئی اور بنگش) کے کل 24 نمائندے ہونگے، ان کے علاوہ چار چھوٹے اقوام ( بڈا خیل، لسیانی، ہزارہ اور خوشی) سے ایک ایک نمائندہ لیکر 28 بن جائیں گے، جبکہ لوئر کرم کے علاقے علی زئی، بالش خیل اور اپر کرم کے علاقے مالی خیل سے ایک علیحدہ نمائندہ لیا جائے گا۔ اسی طرح کل تعداد 31 ہو جائے گی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ انتخاب کے بعد مشران قوم اور انجمن کے اراکین سیکریٹری کا انتخاب کریں گے۔ 

واضح رہے کہ منیر سید میاں اور اسکے دیگر ساتھیوں کے طے کردہ معاہدے میں نمائندوں کی تعداد کو قبیلوں کی آبادی کے مطابق رکھا گیا تھا۔ جس کی رو سے بنگش قوم سے 7، ہمزہ خیل، مستوخیل دوپرزئی اور غنڈی خیل سے پانچ پانچ جبکہ علی زئی سے 4 نمائندے لئے جانے تھے، جبکہ چار چھوٹی اقوام (بڈا خیل، لسیانی، ہزارہ اور خوشی) سے ایک ایک نمائندہ لیا جانا تھا۔ نیز معاہدے کے علاوہ بعد میں منیر سید میاں نے ایک روڈ میپ کا اعلان کرتے ہوئے انتخاب کا طریقہ، حلقوں کی حدود بندی اور دیگر تفصیلات شائع کی تھیں۔ یوں ہر علاقے کے عوام کو اپنا دائرہ کار اور انتخاب کی تاریخ معلوم ہوگئی تھی۔ پھر اسی کے مطابق لوگوں نے مقررہ تاریخوں پر اپنے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرکے انکے نام منیر سید میاں کے حوالے کئے تھے۔ 

اسکے اگلے روز جمعہ اور نوروز تھا۔ اس دن ایک بار پھر مشران اور جرگہ ممبران مرکزی جامع مسجد میں جمع ہوئے اور انہوں نے تقریریں کیں۔ اسکے اگلے ہی دن 22 مارچ کو مشکل اس وقت پیدا ہوگئی جب کچھ جرگہ ممبران نے ان تمام تر فیصلوں اور انتظام سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ انہیں اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انہوں اپنی شکایت سے انتظامیہ کو بھی آگاہ کر دیا۔ اگلے دن 23 مارچ کو مرکزی قومی انجمن کے دفتر میں اس گروپ کی جانب سے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا اور حکومت کو شکایات پر مبنی ایک یاداشت پیش کی گئی۔ جس میں انہوں نے اپنے تحفظات کا تفصیلی ذکر کیا تھا۔

اللہ کرے سب کچھ ٹھیک ہو۔ ہماری غیور قوم ایک بار پھر وہی حیثیت اختیار کرے جو قائد شہید کے زمانے میں تھی۔ کرم ایجنسی میں آباد اقوام سے یہ گزارش کی جاتی ہے کہ انجمن کی اہمیت اور حیثیت کے اگر وہ قائل ہیں تو ہر شخص یہ سوچنے کی کوشش کرے کہ انکے گاؤں میں ایسا شخص کون ہے، جو انکے حقوق کا صحیح طریقے سے دفاع کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے کسی کو بھی تعصب سے کام نہیں لینا چاہئے کہ اس دفعہ انکی باری ہے، یا میرا حق ہے بلکہ نہایت وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر قبیلے کا ہر فرد یہ کہے کہ میرا نہیں بلکہ دوسرے کا حق اس سے کہیں زیادہ ہے، یا فلاں شخص میری نسبت ہماری نمائندگی کا حق بہتر انداز میں ادا کرسکتا ہے۔
 
اس حوالے سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ نمائندے کے انتخاب کے وقت ووٹر اپنے نمائندے سے یہ عہد لیں کہ ہر قومی مسئلے میں انہیں اعتماد میں لے گا، ان سے مشورہ کیا جائے گا، اور یہ کہ ان کا ہر مسئلہ مرکزی انجمن کے توسط سے حکومت یا متعلقہ ادارے تک بروقت پہنچایا جائے گا، کیونکہ اس سے قبل روایت یہ تھی کہ نمائندہ بے چارہ دو سال تک قوم سے کٹ کر رہتا تھا، وہ قوم کے مسائل کو مرکز تک پہنچاتا تھا، نہ ہی مرکز میں ہونے والے فیصلوں یا حالات سے اپنی قوم (قبیلے) کو آگاہ کرنے کا حق ادا کرتا تھا۔ یہ بھی واضح ہو کہ اس سے قبل منتخب یا چنے جانے والے نمائندوں کو بھی کوئی خاص اختیار حاصل نہیں رہتا تھا، بلکہ انکی صرف حاضری لگتی تھی، جبکہ اصل فیصلوں کا اختیار انجمن کے سابقہ افراد کے پاس رہتا تھا، جو کبھی کے فارغ ہوچکے ہوتے۔ وہی لوگ سب فیصلے کرتے رہتے تھے۔ نئے نمائندوں کی حیثیت فقط ربڑ کی مہر کے برابر تھی۔ لہذا عرض یہ ہے کہ اس دفعہ ایسے نمائندوں کا انتخاب کیا جائے، جو خود قوت فیصلہ کے مالک اور دانا افراد ہوں، نیز ان میں مجمع کے سامنے بولنے کی صلاحیت بھی موجود ہو، کیونکہ اپنا ما فی الضمیر بیان نہ کرسکنے والے افراد سے متعلقہ قوم کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 364192
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش