0
Tuesday 3 Dec 2013 18:46

عدالت اور قیام امام حسین (ع)

عدالت اور قیام امام حسین (ع)
تحریر: جاوید عباس رضوی

پروردگار عالم کا ارشاد ہے کہ ہم نے تمام انبیاء کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ دنیا میں عدل و انصاف قائم ہوکر معاشرے سے ظلم و جہالت کا خاتمہ ہوجائے، وَلَقَد اَرسَلنا رُسُلنا بِالبیناتِ وَ اَنزَلنا مَعَھم الکتابَ وَاعیزانَ لِیقومَ الناسُ بِالقِسط (سورہ الحدید آیۃ ۲۵) سب سے پہلے ہم عدالت کا معنیٰ بیان کریں گے، عدالت کا معنیٰ یہ ہے کہ ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھنا اور جو شخص ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھے وہ عادل بھی کہلاتا ہے اور عاقل بھی، چونکہ عادل اور عاقل دونوں ایک ہی معنیٰ کو سمجھا رہے ہیں، ہم اس طرح سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس معاشرے میں عدالت ہو وہ معاشرہ عاقل معاشرہ کہلاتا ہے اور جس معاشرے میں عقلانیت ہو وہ معاشرہ عادل کہلاتا ہے، عدالت ایک ایسی صفت ہے جو تمام انسانی صفات پر بالاتری اور فوقیت رکھتی ہے لہذاٰ جس معاشرے میں عدالت و انصاف موجود ہو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس میں تمام صفات اور خوبیاں پائی جاتی ہیں اور اگر کسی معاشرے میں عدالت نہ ہو وہاں کوئی اچھائی یا خوبی نہیں رہتی ہے۔

عقل اور عدل کی اسی اہمیت کے پیش نظر تمام پیغمبروں کا مشترکہ ہدف دنیا میں عادلانہ اور عاقلانہ نظام کو وجود میں لاکر ظلم اور جہالت کا خاتمہ کرنا تھا، سارے انبیاء (ع) اور بالخصوص حضرت ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے لوگوں کو عادل و عاقل بنانے کے لئے لامثال قربانیاں دی اور انکی ان عظیم قربانیوں کی ہی وجہ سے وہ معاشرہ جو بت پرستی، تعصباتِ قبیلگی، ظلم و جہل اور بدعتوں میں غرق ہوچکا تھا، نجات پا گیا اور امت وسط کا لقب پاکر دوسری امتوں کے لئے نمونہ عمل بن گیا۔ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس۔۔۔ (آل عمران آیۃ ۱۱۰) لیکن قومی تعصبات اور قبیلہ پرستی وہ مذموم صفتیں تھیں جو مکمل طور سے سرزمین حجاز کے لوگوں کے دلوں سے صاف نہ ہوئیں اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد آہستہ آہستہ یہ صفتیں پھر سے زندہ ہوگئیں اور ’’منا الامیر اور منا الامیر‘‘ کی صدائیں بلند ہونے لگیں حق پرستی کی جگہ قبیلہ پرستی نے، اتحاد و وحدت کی جگہ تفرقہ نے، سنت کی جگہ بدعت نے، عدالت کی جگہ ظلم نے اور عقل کی جگہ جہل نے لی ہے اور امت مسلمہ ترقی اور ارتقاء کے ایک مختصر دور کے بعد دوبارہ انحطاط اور تنزل کی شکار ہوگئی اور دیانت اور شرافت کا معیار اس حد تک گرا کہ 60 ہجری میں یزید بن معاویہ بن ابوسفیان جیسا فاسق و فاجر شخص مسلمانوں کے دنیوی اور اخروی تقدیر کا مالک کہلانے لگا۔

یزید بن معاویہ کو دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا بلکہ وہ ایک بے دین ماحول میں پلا ہوا ایک ہوس ران جوان تھا کہ جس نے تمام پیغمبروں کی زحمات اور اصل اسلام کی حقیقت پر سوالیہ نشان لگایا اور علی الاعلان کہنے لگا کہ رسالتِ پیغمر اکرم (ص) ایک ڈھونگ تھا اور پیغمبر (ص) پر کسی بھی قسم کی وحی نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس قسم کی باتیں بنی ہاشم نے اپنے اقتدار کے لئے اختراع کی تھی، یہ مشرکانہ خیالانہ اس وقت اس موروثی خلیفہ کی نجس زبان سے باہر آتے ہیں کہ ابھی پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کو 50 برس بھی نہیں گذرے تھے، یزید کے عقیدے و عمل میں فساد نے پوری سرکاری مشینری پر اپنا اثر ڈال دیا اور اس طرح سے نہ ہی اعتقادات اور نہ ہی اخلاق و احکام کے باقی رہنے کی ضمانت رہی۔

معاشرے کی اکثریت فکری اور عملی طور سے آلودہ سے آلودہ تو ہوگئی اور اسلامی اور انسانی اقدار نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی، امر بالمعروف پہلے ہی ختم ہوچکا تھا اب دنیا طلبی، فریب اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز جیسی مذموم صفتیں تازہ مسلمانوں کے دامن گیر ہوگئیں، ان حالات میں فرزند رسول خدا (ص) حضرت امام حسین ابن علی (ع) نے امت کو اس جہالت اور سفاہت سے نجات دینے کے لئے قیام کا اعلان کیا اور وہی حق طلبی اور عدالت خواہی کی صدا بلند کی جو تمام انبیاء (ع) کا ہدف واحد تھا، البتہ حضرت سید الشہداء (ع) کا یہ قیام انکی مظلومانہ شہادت اور انکے اہل بیت (ع) کی اسارت پر تمام ہوا لیکن اس عظیم قربانی نے امت پیغمبر اسلام (ص) کی انحرافی راہ بدل دی اور وہ انسانی اور اسلامی قدریں جو معاشرے سے گم ہوچکی تھیں دوبارہ اعلان حیات کر گئیں۔
خبر کا کوڈ : 326590
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش