0
Tuesday 27 Sep 2011 22:08

پاکستان امریکہ تعلقات

پاکستان امریکہ تعلقات
 تحریر:جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
امریکہ افغانستان میں جس فتح کا متمنی تھا اس کا دُور دُور تک کوئی نشان نہیں، دس سالہ جنگ نے امریکہ کو معاشی لحاظ سے بدحال کر دیا ہے، امریکہ 4 ٹریلین ڈالرز کا مقروض ہو چکا ہے، امریکہ کا بجٹ خسارہ 1.4 ٹرملین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے، ہزاروں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں، 2012ء کا امریکی صدارتی انتخابات سر پر ہے، امریکی حکومت اور اُن کا عسکری سربراہ اپنی غلط حکمت عملیوں کی بدولت قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، اس لئے اب وہ امریکی قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ امریکی فوجی اور فتح کے درمیان اگر کوئی چیز حائل ہے تو وہ چند ہزار مقامی حقانی نیٹ ورک کے مجاہد ہیں، اس لئے پاکستان پر الزام تراشی زوروں پر ہے، جو انتہائی لغو اور بے معنی ہے۔
حقانی گروپ کا تعلق افغانستان کے قبیلے زردان سے ہے جو صوبہ پاکتیا میں مقیم ہے، حقانی گروپ کے سربراہ جلال الدین حقانی شروع میں حزب اسلامی میں شامل ہوئے، اس کے بعد یہ گلبدین حکمت یار کو چھوڑ کر یونس خالص گروپ میں چلے گئے، سردار داؤد کی حکومت میں اس قبیلے کے کچھ لوگ ملک چھوڑ کر شمالی وزیرستان میں آ گئے، جہاں ستر کی دہائی ہیں ان کو سی آئی اے اور مشرق وسطٰی کے ممالک نے مالی اور عسکری لحاظ سے مضبوط کیا، حقانیوں نے سویت یونین کو افغانستان سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا اور اب بھی پاکتیا، پاکتیکا، خوست اور گردیز کے علاقوں میں ان کا مکمل کنٹرول ہے۔ سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کیوں جائیں گے ہم تو افغانستان میں زیادہ آزاد ہیں، چونکہ 80 فیصد افغانستان پر اتحادیوں کا کوئی کنٹرول نہیں۔
 حقانی القاعدہ کے نہیں بلکہ افغان طالبان کے ساتھی ہیں اور افغانستان میں بہت فعال ہیں لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں طالبان کے جھنڈے کے نیچے اور بہت سارے جنگجو گروپ بھی ہیں جو لڑ رہے ہیں، مثلاً ہیلمند میں امریکی فتح کے راستے میں حقانی تو بالکل حائل نہیں ہوئے، نہ حقانیوں نے قندھار میں امریکی دانٹ کھٹے کرانے میں کوئی کردار ادا کیا، وہ تو مشرقی افغانستان میں ہیں اور زبردست لڑاکا فورس ہیں۔ جنوبی افغانستان میں اتحادیوں کے خلاف فیصلہ کن جنگیں تو دوسرے طالبان نے لڑیں۔ اس میں شک نہیں کہ امریکی حماقتوں کی وجہ سے طالبان تحریک کو قوت ملی ہے۔ 
امریکی اور اتحادی افواج کے حوصلے اس لئے پست ہیں کہ وہ ایک بے معنی اور بے مقصد ایسی جنگ کے عذاب میں گرفتار ہیں جس میں اُن کو فتح نہیں ہو سکتی۔ افواج اُسی وقت موثر طریقے سے لڑتی ہیں جب اُن کے پیچھے اُن کی تمام قوم کی سپورٹ ہو اور جنگ کے واضح مقاصد بھی ہوں، جس سے اُن کے اندر Will to fight کا جذبہ جنم لیتا ہے۔ 60 فیصد امریکی قوم افغان جنگ کے خلاف ہے اور اتحادی فوج میں Will to fight کازبر دست فقدان ہے، اس لئے وہ خودکشیاں بھی کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا کنٹرول افغانستان میں سکڑ رہا ہے اور 80 فیصد افغانستان پر طالبان قابض ہیں۔
یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ حقانی گروپ سے دوسری طاقتوں کے رابطے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ CIA سمیت دنیا کی ساری انٹیلی جینس ایجنسیاں ہر طبقہ فکر سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطوں کے لئے بے تاب ہوتی ہیں۔ یہ اُن کے فرائض میں شامل ہے۔ آئی ایس آئی کے اگر حقانی گروپ سے روابط نہیں تو یہ ہمارے لئے حیران کن بات ہو گی۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ یہ ملکی مفادات کے دفاع کے لئے جھکنے کو تیار نہیں، پاکستان قوم کو سخت فکر اس وقت لاحق ہو گی جب پاکستان دشمن بیرونی طاقتیں پاک فوج اور آئی ایس آئی کی تعریف کرنا شروع کر دیں گی۔
پاکستان پر حملہ کر کے امریکہ بہت بڑی غلطی کرے گا، پاکستان میں امریکہ کا بڑا ہدف بظاہر تو شمالی وزیرستان ہو گا لیکن وہ ہوائی حملوں کا دائرہ ہماری ایٹمی تنصیبات تک بڑھا سکتے ہیں۔ چونکہ ہندوستان اور اسرائیل کے یہی مطالبات ہیں۔ اگر امریکہ نے یہ غلطی کی تو جنوبی ایشیا آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ امریکہ کی Af-Pak حکمتِ عملی، تحریک طالبان کی پاکستان میں بیرونی طاقتوں کی ایما پر پراکسی جنگ اور ہندوستان کی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرین Big game منصوبے کی اہم کڑیاں ہیں۔ امریکہ ہندوستان والا ترپ کا پتہ آخری وقت میں کھیلے گا۔ 
چین کے بیان کا پاکستانی قوم خیر مقدم کرتی ہے، لیکن امریکہ ہمیں دنیا میں تنہا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ مغربی میڈیا، یہودی اور ہندؤ لابیاں اس مقصد کے لئے سر توڑ کوشش کر رہی ہیں، ہماری قیادت کو اس کا احساس نہیں۔ امریکہ میں ایک پیشہ ور سفیر کی ضرورت ہے۔ دفتر خارجہ میں کوئی تجربہ کار وزیر نہیں اور ہماری پارلیمنٹ بالکل غیر فعال ہے۔ قومی اسمبلی کی امورِ خارجہ سے متعلق کمیٹی کے پچھلے ساڑھے تین سالوں میں صرف سترہ اجلاس ہوئے۔ جن میں سے دس اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین اسفند یار ولی غیر حاضر تھے۔ بین الاقوامی تنہائی سے نکلنے کے لئے سفارتیOffensive لانچ کرنا بہت ضروری ہے۔ امریکی دباؤ اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے ملک کے اندر فعال پارلیمنٹ، آزاد عدلیہ، موثر نظام احتساب اور دیانتدار اور اہل قیادت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں پارلیمنٹ کی امور خارجہ، دفاع اور مالیات کی کمیٹیوں کو فعال بنانا چاہیے۔ امریکہ میں پیشہ ور سفیر لگایا جائے۔ سارے پاکستانی سفیروں کو بلا کر اُن کو خارجہ پالیسی کی نئی جہت سے آشنا کروایا جائے۔ ہمارے وفد بھی دنیا کے اہم ممالک میں بھیجے جائیں جو ہمارے نقطہ نظر کو واضح کریں۔ امریکہ سے روابط کو بالکل ٹوٹنے سے بچانے کے لئے موثر سفارت کاری کی جائے اور امریکہ کو بتایا جائے کہ پوری دنیا کے امن کی کنجی بین الاقوامی سطح پر انصاف کرنے میں پنہاں ہے۔
 امریکہ اپنی مشرقِ وسطٰی کی پالیسی پر نظرثانی کرے، فلسطینوں کی ریاست کو تسلیم کرے اور اسرائیل کو لگام دے۔ جنوب ایشاء میں کشمیریوں کو حقِ خودارادی دیا جائے۔ ملک میں جلد انتخابات ہوں، چونکہ موجودہ نظام بالکل ناکام ہو چکا ہے۔ پاکستان کی عسکری قوت کی صلاحیت میں تو کوئی شک نہیں، لیکن بدقسمتی سے NRO کے قائم کئے گئے موجودہ نظام میں جہاں کرپشن، قتل اور ڈاکے معاف ہی نہیں ہوئے بلکہ ان لوگوں میں سے بعض ایسے لوگ بھی اقتدار کی اہم کرسیوں پر آ بیٹھے، جن کے ماضی بدقسمتی سے بڑے بڑے بدنما دھبوں سے داغدار تھے۔
امریکہ اور پاکستان کے اچھے تعلقات دونوں ممالک کے مفادات میں ہیں۔ اس لئے یہ بہت بہتر ہو گا کہ امریکہ رعونت کی پالیسی چھوڑ کر پاکستان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت دے اور باہمی اختلافات کو سفارتی اور سیاسی سطح پر حل کیا جائے، افغان جنگ کا حل بھی آخر کار سیاسی ہی ہو گا، اس لئے امریکہ فوج کشی سے جتنا جلدی ہاتھ کھینچ لے مسائل اُتنے جلدی حل ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 102006
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش