2
0
Thursday 24 Nov 2022 16:12

کیا فٹبال ورلڈ کپ میں صرف مغربی اقدار پھیلائی جا سکتی ہیں؟

کیا فٹبال ورلڈ کپ میں صرف مغربی اقدار پھیلائی جا سکتی ہیں؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

2013ء میں ایک کورس میں میرے رومیٹ برازیل کے سنتیارو تھے، جنہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام یوسف رکھا تھا۔ وہ کئی کتب کے مترجم اور روشن دماغ کے مالک تھے۔ مغرب و مشرق کی سیاحت کر رکھی تھی۔ میں اگرچہ تھیسز لکھنے میں مصروف تھا، پھر بھی ان سے کافی گپ شپ لگ جاتی۔ ایک دن کہنے لگے کہ استعمار نے دنیا کے مختلف حصوں پر قبضے کے لیے مختلف ہتھیار بنائے ہیں، جو بڑی تحقیق اور عمرانیاتی ماہرین کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ ایک چیز کا اتنا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ چیز قومی سطح پر اسی چیز سے محبت کرنے لگتی ہے۔ برازیل کی قوم کا ذہن کھیلوں کی پسندیدگی کی طرف راغب کیا اور اس قدر کامیاب ہوئے کہ میں نے تجربہ کیا کہ برازیل میں ہزاروں فیلٹس کے کمپلکس والی لائن میں کھڑے ہو جائیں اور وہ وقت برازیل فٹ بال میچ کا ہو تو آپ محسوس کریں گے کہ ہزاروں فلیٹس کی لائٹس ایک ساتھ رنگ تبدیل کر رہی ہیں۔ یعنی انسانی ذہن پر تسلط جما لیتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ میں نے اپنے گلگت بلتستان کے دورے کے دوران پاکستان کے سب سے کم آلودہ علاقے میں جہاں چشموں کی بہتاب تھی، وہاں بھی کھانے کی ٹیبل پر منرل واٹر کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی بوتل سجی دیکھی۔

بہت عرصے سے اس بات پر غور و فکر کر رہا ہوں کہ آزادی، ترقی، انسانی حقوق سمیت تمام جدید نعروں کی اپنی اپنی حدود قیود ہیں۔ ہر نعرہ لگانے والا اس سے اپنا ہی مطلب مراد لے رہا ہوتا ہے۔ جب مغرب آزادی کی بات کرتا ہے تو اہل مشرق خوش ہوتے ہیں کہ اس سے مراد شائد تمام انسانوں کی آزادی ہے، حالانکہ یہ خام خیالی ہے اور ایسا کچھ نہیں ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ قانون کے سابق سربراہ اور بین الاقوامی قانون پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر مشتاق صاحب کی بات یاد آگئی، وہ لکھتے ہیں کہ شروع شروع میں جب اہل مغرب انسانی حقوق لکھتے تھے تو اس سے مراد اہل مغرب کے حقوق ہوا کرتے تھے، ان کے وہم و گمان میں بھی افریقہ اور ایشیاء کے لوگ نہیں تھے۔ میرے خیال میں افریقہ اور ایشیاء تو کافی دور ہیں، امریکہ میں بسنے والے سیاہ فاموں کو بھی یہ حقوق نام کی چڑیا میسر نہ تھی۔

عرب کتنے عرب ہیں اور وہاں اسلام کتنا ہے۔؟ یہ الگ موضوعات ہیں، جن پر تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے۔ قطر نے اس ورلڈ کپ کو بوجوہ ذرا سا اسلامی ٹچ دیا ہے۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب مغربی میڈیا پر بڑے پیمانے پر یہ خبریں آنے لگیں کہ کچھ لوگ بائیکاٹ قطر کی مہم چلا رہے ہیں۔ غور کیا تو پتہ چلا کہ انہیں مسئلہ مذہب سے ہے، مشرقی اقدار سے ہے۔ مغرب اپنی اقدار میں اتنا متعصب واقع ہوا ہے کہ وہ ان کے علاوہ کسی دوسرے کی اقدار کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ وہ کہیں گے کہ آپ کو ہمارے ہاں ہر طرح کی آزادی ہے، مگر کچھ مسجدوں کی مینار نہیں بننے دیں گے، کچھ کو حجاب قبول نہیں اور کچھ جہاد کے تصور کو قتال بنانے پر بضد ہیں۔ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کو دنیا دیکھ رہی تھی۔ قطر نے ایک معذور سے اس کا افتتاح کروا کر اور قرآن مجید کی آیت مجیدہ سے افتتاح کروایا: جَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْرٌ۔(سورہ حجرات) "پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیاو تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقیناً وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقیناً خوب جاننے والا، باخبر ہے۔"

اس آیت مجیدہ میں دوسری اقوم و مذاہب کو قبول کرنے کے قرآنی حکم کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ اسلام دوسروں کو قبول کرتا ہے۔ یہ بات استعمار کے فکر سازوں کے اس پروپیگنڈے کے خلاف تھی کہ اسلام اور مذہب دوسروں کو قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح قطر نے بڑے پیمانے پر احادیث اور آیات کی بھی نشر و اشاعت کی، اس سے بھی بہت سے لوگوں کو تکلیف پہنچی۔ ایک بات جس کا برا منایا گیا، وہ عربی کلچر کا اظہار تھا۔ ایک تصویر مغربی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ہم جنس پرستوں کی ترویج والا لباس پہن کر فٹبال گراونڈ میں جانے سے روکا گیا ہے۔ اس پر ایک قطری نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ دیکھیں ہم جنس پرستی کی ترویج آپ کا کلچر ہے اور آپ کا کلچر پوری دنیا کا کلچر نہیں ہے۔ اس خود ساختہ ٹھیکیداری سے نکل آئیں اور دوسروں کے کلچر کو قبول کریں۔ ایک اور قطری کا بیان بھی بڑا دلچسپ لگا کہ ہم اٹھائس دنوں کے لیے اپنا مذہب اور کلچر تبدیل نہیں کرسکتے۔ غزہ فی قلوبنا کے نعرے بھی عرب حکومتوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ نوجوان عرب فلسطین کو نہیں بھولے، اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرو۔

مغربیت کے علمداروں نے ایشیاء اور مسلم و عرب دنیا میں فٹ بال کا ورلڈ کپ اس لیے رکھا تھا کہ یہاں مغربی اقدار کا ہی فروغ ہوگا اور بڑی تعداد میں مغربی نظریہ حیات کو فروغ ملے گا۔ ان کی اس تدبیر کی راہ میں چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں آئی ہیں، جو انہیں ناگوار گزری ہیں، کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ذریعے فقط اور فقط مغربی اقدار اور روایات کی ہی ترویج ہو اور کسی اور فکر کو کوئی جگہ نہ ملے۔ جین سانتر ہمیشہ مغربی تہذیبی یلغار پر اعلیٰ تبصرہ کرتے ہیں، موجود منفی ردعمل کے جواب لکھتے ہیں: اگلے فٹبال ورلڈ کپ سے پہلے تمام کھلاڑیوں، آفیشلز اور تماشائیوں سے حلف نامہ لیا جائے کہ وہ کسی مذہب کی پیروی نہیں کرتے، بجز مذہب لبرل ازم کے، فرقہ سرمایہ داریہ کے۔۔۔۔ نیز کھلاڑیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ گول کرنے یا میچ جیتنے پر اضطراری طور پر بھی مقدس صلیب کا نشان بنانے، سجدہ کرنے یا آسمان کی جانب دیکھنے سے احتراز کریں گے، کیونکہ اس سے کمرشل لبرلز کی دل آزاری ہوتی ہے۔ منجانب دیسی کمرشل لبرلز ایسوسی ایشن۔
خبر کا کوڈ : 1026610
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Haroon
Pakistan
بہت ہی اعلی تحریر ہے۔
مغرب کی دورنگی کا خوب محاسبہ کیا ہے👌
سید کاظمی
United Kingdom
ایل جی بی ٹی کے پرچم لباس کی اجازت تو مل گئی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ہم مسلمان ہر کام کرتے ہیں مگر چھپ چھپا کے جبکہ مغرب کھل کھلا کے۔ شراب، بقول اقلیتی راھنماء کے، بوٹا مسیح کے نام پر کشید اور درآمد کی جاتی ہے اور پیتا محمد بوٹا ہے۔ دوسروں پر تنقید سے نہیں اپنی منافقت کا گریبان چاک کرکے زوردار حل بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری پیشکش