0
Monday 30 Jan 2023 09:21

عمران خان، اصل دشمن کو شناخت کریں

عمران خان، اصل دشمن کو شناخت کریں
تحریر: تصور حسین شہزاد

سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں قتل کروانے کیلئے سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو ان کی ’’سپاری‘‘ دیدی ہے۔ سپاری کا لفظ بھارتی فلموں میں استعمال ہوتا ہے، جس سے مراد کسی کو قتل کروانے کیلئے کسی غنڈے یا کرائے کے قاتل کو جو ٹاسک سونپا جاتا ہے، اس معاہدے کو ’’سپاری دینا‘‘ کہتے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنماء کہتے ہیں کہ عمران خان کی نہ صرف ’’سپاری‘‘ دی گئی ہے، بلکہ ’’قاتل‘‘ کو باقاعدہ ’’ادائیگی‘‘ بھی ہوگئی ہے۔ اب یہ قاتل کسی بھی جلسے، ریلی یا کسی بلند عمارت سے عمران خان کو ہدف بنا سکتا ہے۔

عمران خان کے اس ’’انکشاف‘‘ کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک نئی بحث چل نکلی ہے۔ بالخصوص بھارت میں اس بیان کو لے کر کافی لے دے ہو رہی ہیں۔ بھارت تو دنیا بھر میں اسی بیان کو لے کر یہ باور کروا رہا ہے کہ ’’ہم نہ کہتے تھے، پاکستان کے دہشتگردوں کیساتھ تعلقات ہیں، اب پاکستان کا سابق صدر ٹی ٹی پی کو اپنے سابق وزیراعظم کی سپاریاں دے رہا ہے، یہ دہشتگردوں کیساتھ مضبوط تعلقات نہیں تو اور کیا ہیں۔‘‘ عمران خان کے اس بیان نے یقیناً پاکستان کی دنیا میں بہتر ہوتی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر تو عمران خان کے پاس مصدقہ ثبوت ہیں، تو انہیں منظرِ عام پر لا کر آصف علی زرداری کیخلاف اقدام قتل کا شاندار مقدمہ بنایا جا سکتا ہے اور اگر کوئی ثبوت نہیں اور عمران خان نے سنی سنائی پر اتنا بڑا انکشاف کر ڈالا ہے، تو پھر خان صاحب کانوں کے بہت ہی کچے ہیں، انہیں آصف علی زرداری اور پوری پاکستانی قوم سے معافی مانگنی چاہیئے۔

عمران خان جب وزیراعظم بنے تھے تو ان کی ہمشیرہ نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ عمران خان جو فیصلہ کر لیں، پھر اُس سے یوٹرن نہیں لیتے، خواہ اپنا ہی نقصان ہو جائے۔ عمران خان نے بہت سے فیصلوں میں اپنی ہمشیرہ محترمہ کی یہ بات سچ ثابت کی۔ کچھ فیصلوں میں انہیں مجبوراً (ملک کے وسیع تر مفاد میں) یوٹرن لینا پڑا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ چودھری پرویزالہیٰ سمیت سینیئر رہنماوں کی جانب سے ہزار سمجھانے کے باوجود عمران خان نے اپنے فیصلے پر عمل کیا اور اسمبلیاں توڑ دیں، جس پر انہیں اپنے رہنماوں کی گرفتاریوں کی شکل میں نقصان اُٹھانا پڑا اور مزید آنیوالے دن بھی خان صاحب کیلئے سخت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی نے اسٹیبلشمنٹ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ عمران خان کو سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں گے، انہیں کچھ مہلت دی جائے۔ عارف علوی نے گذشتہ دنوں لاہور میں عمران خان سے یکے بعد دیگر ملاقاتیں کیں۔ مگر وہی ڈھاک کے تین پات، عمران خان نے لچک دکھانے سے انکار کر دیا۔

میرے ذرائع نے بتایا کہ عارف علوی صاحب مسلسل عمران خان کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ پی ڈی ایم کیساتھ بیٹھ کر معاملات حل کر لئے جائیں اور ملک کو معاشی بحران سے نجات دلائی جائے۔ لیکن خان صاحب نے عارف علوی کو صاف جواب دے دیا۔ عمران خان نے کہا کہ وہ کسی طور بھی چوروں کیساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ اِنہوں نے میرے ملک کا پیسہ لوٹا ہے، اب بھی لُوٹ رہے ہیں، میں کیسے یزید کی بیعت کر لوں۔؟ عارف علوی مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے۔ اسلام آباد پہنچنے پر جن قوتوں سے عارف علوی نے مہلت مانگی تھی، انہوں نے آکر علوی صاحب کو کھری کھری سنا دیں۔ ’’اُن‘‘ کی جانب سے کہا گیا کہ آپ بہت کہتے تھے کہ خان کو سمجھا لیں گے، مگر نہیں سمجھا سکے، اس لئے آج کے بعد خان کیلئے ہم سے کسی اچھے کی اُمید نہ رکھیئے گا اور اب نہ کبھی خان کی حمایت کیجیئے گا، جس کے بعد صدر مملکت بہت مایوس ہیں۔

ہمارے ذرائع نے تو یہ بھی بتا دیا ہے کہ عارف علوی صاحب استعفیٰ دینے پر غور کر رہے ہیں۔ کیونکہ حکومت اس لئے صدر کی کوئی بات نہیں مانتی کہ وہ پی ٹی آئی کے صدر ہیں اور عمران خان نے بھی ان کی کوئی بات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، یوں صدر مملک خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں اور اب تو ایوان صدر کی دیواریں بھی انہیں کھانے کو دوڑتی ہیں، گویا وہ کسی آسیب زدہ عمارت میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ تو جب حالات ایسے پیدا ہو جائیں تو پھر بہتر یہی ہے کہ علوی صاحب بے فیض صدارت کو ٹھوکر مار کر واپس اپنا کلینک ہی کھول لیں۔ دو چار گاہگ تو آہی جاتے ہیں اور ان کی ہر بات مانتے بھی ہیں۔ تو آئندہ کچھ روز میں متوقع ہے کہ صدر صاحب استعفیٰ دے کر کراچی کیلئے رختِ سفر باندھ لیں۔

دوسری جانب پنجاب میں نگران حکومت آچکی ہے۔ لیکن ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی سدھار دکھائی نہیں دے رہا اور نہ ہی مجھے اکتوبر سے پہلے الیکشن ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ملکی خزانہ خالی ہے، الیکشن کروانے کیلئے کروڑوں روپے کا بجٹ درکار ہوتا ہے، الیکشن کمیشن انتخابات کو مینیج کرنے کی پوزیشن میں نہیں، اس لئے یہ توقع کرنا کہ الیکشن ہو جائیں گے اور ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی، عبث ہے۔ البتہ آئی ایم ایف کی ایماء پر پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی اور بڑی لہر کا باعث بننے گا، جس سے موجودہ حکومت کی ساکھ بہت بُری طرح متاثر ہوگی، عوام میں ان حکمرانوں کیخلاف نفرت اور عمران کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ یہ ویسے حیران کن عمل ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد عمران خان کی مقبولیت کم کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں، وہ تدبیر اُلٹی پڑ جاتی ہے اور خان اور زیادہ مقبول ہو جاتا ہے۔

عمران خان کو شائد ابھی سیاست کے داو پیج نہیں آئے کہ وہ بعض مقامات پر ’’ٹریپ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ ان کی خفیہ اداروں میں جو ’’مخبر‘‘ ہیں، ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے، جنہیں نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ملازمتیں ملی تھیں، وہ ابھی تک ان جماعتوں کیساتھ مخلص ہیں۔ اپنی شہرت کو سنبھالنا اور قائم رکھنا بھی ایک کام ہوتا ہے، جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور عمران خان کیلئے بھی اپنی شہرت کو قائم رکھنا مشکل بنتا جا رہا ہے۔ کیونکہ ہم پاکستانی ایک قوم نہیں ہیں۔ ایرانی ایک قوم ہیں، جنہوں نے اپنے دشمن کو شناخت کیا۔ امام خمینیؒ نے قوم سے واضح کہا کہ ہماری تمام تر مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہے، یہاں تک کہ گلی میں پڑے ہوئے پتھر سے تمہیں ٹھوکر لگ جائے تو اس کا ذمہ دار بھی امریکہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری ایرانی قوم اپنے دشمن کی شناخت کرکے اس کیخلاف ’’مرگ بر‘‘ کے شعار بلند کرتی دکھائی دیتی ہے۔

لیکن عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ یہ اصل دشمن کی شناخت میں ابھی تک ناکام ہیں، آصف علی زرداری پر الزام لگا کر خان نے اپنے اصل دشمن کو ’’محفوظ‘‘ کر دیا ہے۔ قتل کوئی اور کروانا چاہتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اُسی دشمن نے ہی زرداری کو سپاری دی ہو اور زرداری نے آگے ٹی ٹی پی کو دیدی ہو، لیکن اگر عمران خان اصل دشمن کا نام لے دیتے تو یہ شور شرابہ نہ ہوتا، جو اب ہو رہا ہے۔ ایرانیوں کی طرح ہمیں بھی قوم بننا ہوگا اور اپنے حقیقی دشمن کی شناخت کرنا ہوگی۔ ہم شیعہ، سنی، پنجابی، بلوچی، سندھی، پٹھان کے دائرہ میں تقسیم ہیں۔ ہمیں اس تقسیم سے نکل کر صرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا، تب ہی ہمارے مسائل حل ہوں گے، بصورت دیگر ہم اسی طرح دشمن کیلئے ’’سافٹ ٹارگٹ‘‘ بنتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 1038505
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش