1
Tuesday 28 Mar 2023 19:37

ایران کے مقابلے میں جو بائیڈن کے پاس موجود آپشنز

ایران کے مقابلے میں جو بائیڈن کے پاس موجود آپشنز
تحریر: لیلا نقولا (لبنانی تجزیہ نگار)
 
خطے اور عالمی حالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حالات اس سمت میں آگے نہیں بڑھ رہے جو امریکہ کو مطلوب ہے۔ اس بات کا ثبوت یہ حقیقت ہے کہ اگرچہ امریکی حکومت نے صدر بشار اسد کی سربراہی میں شام حکومت سے تعلقات بحال کرنے کو مسترد کر دیا ہے لیکن اس کا یہ اقدام ترکی اور امریکہ کے اتحادی عرب ممالک کی جانب سے بھی اس کی پیروی کا سبب نہیں بنا اور ترکی اور عرب ممالک شام حکومت سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری بات کا دوسرا ثبوت امریکہ کی جانب سے ایران کے اندر تناو پیدا کر کے اسے اپنے سامنے جھکانے میں ناکامی ہے۔ امریکہ نے ایران میں جنم لینے والے ہنگاموں کا سہار لے کر یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ ایرانی حکومت اپنے شہریوں پر ظلم و ستم کر رہی ہے اور خطے میں عدم استحکام پھیلا رہی ہے۔
 
لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ خطے میں امریکہ کا اہم اتحادی یعنی سعودی عرب، ایران سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے تہران سے معاہدہ کر چکا ہے۔ لہذا امریکی حکومت کی جانب سے ایران کے خلاف شدت پسندانہ موقف اس کے تاریخی اتحادی سعودی عرب کو ایران سے معاہدہ کرنے سے نہیں روک پایا۔ شاید اس مسئلے میں جو چیز امریکہ کیلئے زیادہ پریشان کن ہے وہ مشرق وسطی کے امور میں چین کی مداخلت اور امن کا حامی بن کر سامنے آنا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت جب اس خطے میں امریکی مداخلت نے اسے انارکی، بدامنی اور عدم استحکام کی جانب دھکیل دیا ہے اور خطے کے ممالک ایکدوسرے کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ جو بائیڈن اپنی صدارتی مہم کے دوران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے تھے کہ وہ یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے کیوں دستبردار ہو گئے اور اس اقدام کو غلط قرار دیتے تھے۔
 
لیکن جب جو بائیڈن خود برسراقتدار آئے تو اب تک وہ ایران سے جوہری معاہدے میں واپس نہیں جا سکے۔ اندرونی سطح پر جو بائیڈن کا ریپبلکنز سے ٹکراو، مخالفین کی تنقید کے مقابلے میں بائیڈن حکومت کی کمزوری، امریکی حکومت کی جانب سے ایران پر یوکرین جنگ میں مداخلت کا الزام وغیرہ وہ اسباب ہیں جو امریکہ کی ایران سے جوہری معاہدے میں ممکنہ واپسی کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا خطے میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیاں جو بائیڈن کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپس جانے کی ترغیب دلائیں گی یا انہیں اس معاہدے سے بہت زیادہ دور کر دیں گی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی جانب سے ایران سے جوہری معاہدے میں واپسی سے انکار بہت منفی نتائج کا باعث بنے گا۔
 
اس کا ایک اثر یہ ہو گا کہ مستقبل میں خطے میں انجام پانے والے معاہدوں میں امریکہ کسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کا فطری نتیجہ یہ نکلے گا کہ مستقبل میں چین خطے میں زیادہ موثر اور وسیع کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ اس کا دوسرا اثر ایران کی جانب سے جوہری معاہدے میں ذکر شدہ پابندیوں سے آزادی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ جوہری معاہدے کی رو سے ایران پر مختلف قسم کی محدودیتیں اور پابندیاں تھیں اور اگر امریکہ طویل عرصے تک اس معاہدے میں واپسی سے گریز کرتا ہے تو ایران بھی آسانی سے ان محدودیتوں کو ختم کر سکے گا۔ مغربی انٹیلی جنس ذرائع کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران علمی اور فنی لحاظ سے چند ماہ کے اندر جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر امریکہ کے سامنے محدود آپشنز باقی رہ جاتے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
 
الف) ایٹمی ایران جیسی حقیقت کو قبول کر لینا۔ اس کا نتیجہ خطے میں موجود تمام امریکی ہتھکنڈوں کی ناکامی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اسی طرح اکثر عرب ممالک بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے خواہاں ہوں گے جسے قبول کرنا امریکی حکمرانوں کیلئے بہت ہی مشکل ہے۔
ب) ایران کے خلاف پابندیوں میں مزید اضافہ اور زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا۔ اس سے پہلے بھی امریکہ ایران کے خلاف شدید ترین اقتصادی پابندیاں عائد کر چکا ہے جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور وہ ایران کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکیں۔ لہذا آئندہ بھی وہ مفید ثابت نہیں ہوں گی۔
ج) اسرائیل کی مرضی کے مطابق ایران کے خلاف فوجی اقدام کرنا۔ یہ وہ اقدام ہے جو اسرائیل شدت سے چاہتا ہے کیونکہ اس طرح بنجمن نیتن یاہو ملک کے اندر درپیش شدید بحران کو ملک سے باہر منتقل کر سکتا ہے۔
 
جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت کیلئے بہترین راستہ ایران سے جوہری مذاکرات کی میز پر واپسی ہے۔ یوں جو بائیڈن اپنی صدارتی مہم کے دوران کئے گئے وعدے کو بھی پورا کر سکتا ہے اور اکتوبر 2022ء میں اعلان کردہ قومی سلامتی اسٹریٹجی پر بھی عمل پیرا ہو سکتا ہے۔ اس اسٹریٹجی میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ امریکہ خطے میں رجیم چینج پالیسی ترک کر دے گا اور سفارتکاری کے ذریعے خطے میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ چونکہ امریکہ میں اسرائیلی لابی بہت مضبوط ہے اور امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں خود کو اسرائیل کا محتاج تصور کرتی ہیں لہذا ممکن ہے امریکہ کی جانب سے ایران سے مذاکرات شروع کر دیے جائیں لیکن ان کا واحد مقصد مزید وقت خریدنا ہو گا اور مذاکرات نتیجہ خیز بنانے کا ارادہ شامل نہیں ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 1049236
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش