0
Monday 30 Jan 2012 14:24

شام کیخلاف متحرک امریکی نیوکونز کی پراپیگنڈہ مشین (حصہ سوئم)

شام کیخلاف متحرک امریکی نیوکونز کی پراپیگنڈہ مشین (حصہ سوئم)
تحریر: زاہد مرتضٰی 


شام کے حالات کے تناظر میں "پاتھ ٹو پرشیا" کے سیکشن iii میں بیان کی گئی رپورٹ اس کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے۔ یہ قدم بہ قدم ان اساسی رہنما اُصولوں پر مبنی ہے۔ جس میں ایک مقبول تحریک کو ابھارنے اور اس کی حمایت کرنے کے آپشنز تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ کسی ملک میں ہنگامی حالات کیسے پیدا کئے جائیں یا بغاوت کو کیسے ابھارا جائے۔؟ خامیوں اور خوبیوں پر مبنی رپورٹ کے مطابق کسی ملک میں "بغاوت باہر سے بیٹھ کر مدد و حمایت اور ترغیب دینے سے زیادہ آسان عمل ہے۔ بغاوت معروف طور پر ایک کم لاگت ذریعہ ہے۔ بغاوت کی خفیہ مدد و حمایت اور پشت پناہی امریکہ کو سیاسی و سفارتی جکڑ بندیوں سے نہایت آسانی سے انکار کا موقع فراہم کر سکے گی۔ اب اگر امریکہ ڈائریکٹ فوجی ایکشن کا فیصلہ کرتا ہے تو خطہ ایک بڑے بحران سے دوچار ہو جائے گا البتہ یہ صورتحال یعنی بغاوت کی خفیہ مدد ایک موقع مہیا کر رہی ہے۔" رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جب پہلی آپشن یعنی لوگوں کو بغاوت پر اکسانا اگر ناکام ہو جائے تو اس صورت میں فوجی حملہ صرف دوسری آپشن کے طور پر استعمال کیا جائے گا، اور عالمی برادری بھی اسی وقت فوجی حملے کا ساتھ دے گی، جب حکومت پر یہ الزام ثابت کر دیا جائے کہ وہ ایک عمدہ ڈیل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔
 
ایک مقبول عوامی لہر کو ابھار کر مکمل بغاوت میں تبدیل کرنے کا منظر آج کل شام میں بہتر طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ مالی سرپرستی اور امداد حکومت کے مقامی باغیوں کو متحد کر سکتے ہیں، اگر ناراض نسلی گروہوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو متحرک اپوزیشن کی استعداد کو بڑھاتے ہوئے متاثر گروپ بنا کر ایک متبادل قیادت منظر عام پر لائی جا سکتی ہے جو اقتدار کو اپنی گرفت میں لے لے۔ باغی گروپوں کو مختلف آلات اسلحہ، فیکس مشین، انٹرنیٹ کی سہولت اور مالی امداد کی خفیہ فراہمی۔ (رپورٹ کے مطابق سی آئی اے ان گروپس کی سپلائی اور تربیت میں اتنی ہی دلچسپی لے گی جیسے وہ دسیوں سال سے پوری دنیا میں جاری رکھے ہوئے ہے)بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر یقینی بنائی جائے۔
 
اپوزیشن گروپس کیلئے تربیت اور پیغام رسانی کی سہولت:
امریکی میڈیا اور جرائد کی پشت پناہی سے کہانی گھڑنے کا عمل بہتر بنا کر حکومت کی کمزوریوں کو نمایاں طور پر شائع کرا سکتا ہے۔ عوامی رائے پر اثرانداز ہونیوالے تجزیہ نگاروں کے درمیان حکومت کے بارے میں بدگمانی پیدا کی جائے، تاکہ ان کی تنقید حکومت کے خاتمے کا سبب بن جائے۔
 
سول سوسائٹی کی بڑے پیمانے پر صف بندی کر کے ان کیلئے بڑے بجٹ کا اہتمام کرنا (جیسے سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس کے زیر کنٹرول نام نہاد ایران ڈیسک کے نام سے 75بلین ڈالر پر مشتمل فنڈ قائم کیا گیا جس کا مقصد سول سوسائٹی، تھنک ٹینکس اور اداروں کی امداد کرنا تھا)۔
 
* امدادی آپریشن کی پشت پناہی کیلئے ایک مضبوط انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے ہمسایہ ملک سے متصل ایک زمینی کوریڈور قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
 
* مزید برآں امریکہ کی طرف سے اقتصادی دباؤ ( اور فوجی، عسکری دباؤ بھی) حکومت کو کمزور کر سکتا ہے۔ 

عوام میں بالخصوص باغی یا مخالف قیادت کی حمایت و مقبولیت میں اضافہ کر دینا، امریکہ اور اس کے اتحادی بالخصوص برطانیہ اور فرانس نے ابتداء ہی میں اس معاملے پر اچھی خاصی فنڈنگ کر رکھی ہے تاکہ اپوزیشن کو ایک تشکل دیا جا سکے۔ دونوں کی کوششوں کے علاوہ امریکہ نے 2006ء سے اسد حکومت کے خلاف ایک متفقہ محاذ قائم کر رکھا ہے۔ لیبیا ٹرانزیشنل نیشنل کونسل کی کامیابی سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے۔
 
ایک تجزیہ نگار کے مطابق مغرب کی مہینوں سے جاری کوششوں کے باوجود کہ شام کے اپوزیشن گروپ متحد ہو کر ایک بہتر تحریک کی شکل اختیار کر لیں، وہ گوناں گوں گروپس میں تقسیم ہیں۔ یہ رویہ ان کی نظریاتی، فرقہ وارانہ اور نسلی تقسیم کا عکاس ہے۔ یہ گروپس آپس میں مخالفانہ سیاسی نظریات اور مکمل طور پر متضاد نظریاتی پس منظر رکھنے کی وجہ سے ہم آہنگی یا اتحاد کیلئے فطری رجحان رکھتے تھے اور نہ ہی رکھتے ہیں۔ 

برطانوی سیکرٹری خارجہ سے حالیہ ملاقات کے دوران یہ گروپس ولیم ہاگ سے اکٹھے نہ ملے، اور علیحدہ علیحدہ ملاقات کی۔ تاہم اکٹھے رہنے کے جذبے، آئین و قانون اور داخلی ساکھ کی کمی کے باوجود اپوزیشن SNC ( Syrian National Counsil) کی چھتری تلے ایک آفس کے قیام کیلئے آمادہ ہو گئے ہیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی گنجائش کے اس رویئے کی تصدیق شام کے امریکہ میں سابق سفیر رفیق جواجاتی (Rafiq Juajati) جو اب اپوزیشن کا حصہ ہے نے کی۔ دسمبر 2011ء کے وسط میں واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران اس نے تصدیق کی کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اورSWP، جرمن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سکیورٹی افیئرز (ایک تھنک ٹینک ہے جو جرمن حکومت کو فارن پالیسی سے متعلق تجزیات پیش کرتا ہے) دونوں ایک پراجیکٹ کیلئے فنڈنگ کر رہے ہیں، یہ پراجیکٹ یو ایس انسٹی ٹیوٹ فار پیس اور SWP کے زیر انتظام SNC کی شراکت میں چل رہا ہے، تاکہ SNC کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ شام میں زمامِ حکومت سنبھال کر اس پر کنٹرول کر سکے۔
 
 SNC کے لیڈر برہان غالیون نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا کہ مغرب اس سے یہ توقع کر رہا ہے کہ (اسد حکومت کے خاتمے کے مرحلے کو جلد مکمل کیا جائے)۔ اس کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ایران کے ساتھ کسی قسم کے"خاص" تعلقات قائم نہیں رہیں گے۔ خاص تعلقات کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے ساتھ اسٹریٹجک ملٹری الائنس کا خاتمہ۔ مزید کہا کہ اسد حکومت کے خاتمہ کے بعد حزب اللہ پہلے جیسی طاقت کی حامل جماعت نہیں رہے گی۔
 
"سلیٹ"میگزین لکھتا ہے کہ عرب کی بیداری کی لہر میں سیکولر نظریات کے حامل، مغرب دوست، شامی اپوزیشن گروپس ایسے فرمانبردار ہونے کے اشارے دے رہے ہیں جیسے معمر قذافی کی موت سے قبل لیبئن باغی دے رہے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سیکولر نظریات رکھنے والے پروفیشنل وکلاء، اکیڈمک، کاروباری طبقہ کی طرف سے جمہوریت، ثقافت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے مطالبے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حقیقی نتائج کیلئے لیبیاء کے سابق اسلامی جہادی گروپ کے لیڈر عبدالحکیم بہلاج اور اس کے جہادی ساتھی ان تک نہیں پہنچ جاتے۔ اسلحہ، دیگر آلات اورا فرادی قوت (زیادہ تر لیبیا سے) کی ترسیل، امریکہ، نیٹو اور ان کے مقامی اتحادیوں سے منسلک حکومتوں اور گروپس کی تربیت، اپریل مئی 2011ء سے شروع ہو چکی ہے۔ جنوبی ترکی کے علاقے انرلک میں واقع امریکی ائیر فورس کا اڈہ اس سلسلے میں معاونت کر رہا ہے۔
 
انرلک سے اطلاعاتی جنگ کا پورا ڈویژن "فری شام آرمی" کے ذریعے شام میں براہ راست رابطے میں ہے۔ اس جاری خفیہ امداد و حمایت کے بارے میں امریکی کنزرویٹوز کی رپورٹ دسمبر کے وسط میں جاری ہوئی، رپورٹ کے مطابق نیٹو کے لاتعداد جنگی جہاز شام کے سرحدی علاقے کے قریبی واقع ترکی کے شہر سکنڈریم میں واقع فوجی اڈے پر اتر رہے ہیں۔ یہ جہاز اسلحہ اور لبیئن ٹرانزیشنل نیشنل کونسل کے رضا کاروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ سکنڈریم فری سیرئین آرمی کابیس کیمپ بن چکا ہے، فری سیرئین آرمی، سیرئین نیشنل کونسل کا مسلح ونگ ہے۔
 
فرانسیسی اور برطانیہ کی سپیشل فورس کے ٹرینر بھی وہاں پر موجود ہیں اور شامی باغیوں کی تربیت میں مصروف ہیں جبکہ سی آئی اے اور امریکی Spec ops (سپیشل فورسز) باغیوں کو مواصلاتی آلات اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کر رہے ہیں، تاکہ مسلح باغی شامی فورسز سے اپنے آپ کو پوشیدہ رکھ سکیں۔
 
واشنگٹن پوسٹ نے اپریل 2011ء میں انکشاف کیا کہ وکی لیکس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ 2006ء سے اب تک مختلف شامی جلاوطن گروپس کو کئی ملین ڈالر امداد دے چکا ہے۔ امداد حاصل کرنے والوں میں اخوان المسلمین سے منسلک موومنٹ فار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ لندن بھی شامل ہے)۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یہ امداد امریکی فاؤنڈیشن جمہوری کونسل کے ذریعے فراہم کر رہا ہے۔
 
وکی لیکس کیبل تصدیق کرتی ہے کہ درحقیقت یہ فنڈنگ 2010ء سے جاری ہے۔ جس کا مقصد صرف ایسے رجحان کا فروغ تھا کہ "سافٹ پاور" کی تبدیلی کا آپشن استعمال کرتے ہوئے شام میں حکومت کو تبدیل کر دیا جائے، جیسے شام میں حکومت کی تبدیلی کے امریکی نیوکونز کے آئیڈئیے کو امریکی انتظامیہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ایسے ہی یہ پالیسی ان اہم امریکی فارن پالیسی تھنک ٹینکس کی مرکزِ نگاہ بن گئی ہے جو شامی اپوزیشن گروپس یا انفرادی شخصیات سے باہم مل کر علیحدہ شام ورکنگ گروپس میں حکومت کی تبدیلی کا کیس تیار کرنے کیلئے بڑی تعداد میں پالیسی ڈاکومنٹس تیار کر چکے ہیں۔ 

اسی طرح انگلینڈ میں نیو کونز ہنری جیکسن سوسائٹی جو امریکہ یورپی یونین اور دوسری جمہوری طاقتوں پر مشتمل ایک فوج تیار کرنے کا حامی ہے۔ ایسی فوج جو مہماتی اہلیت کی حامل اور سریع الحرکت ہو اور یہ یقین بھی رکھتی ہو کہ صرف ماڈرن لبرل جمہوری ریاستیں ہی قانونی حیثیت رکھتی ہیں) بھی شام میں حکومت کی تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ شامی اپوزیشن لیڈرز جن میں اسامہ مناجد جو کہ شامی جلاوطن گروپ کا سابق رہنما، موومنٹ فار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ جو اخوان المسلمین سے منسلک ہے، کے اشتراک سے کام کر رہا ہے۔ مناجید SNC کا رکن اور حال ہی میں لندن میں قائم ہونے والی پبلک ریلیشن فرم کا ڈائریکٹر ہے، اور اتفاق کی بات ہے کہ مناجید پہلا آدمی ہے جس نے شام کے حالات کے تناظر میں SNC کی ایک پریس ریلیز میں "نسل کشی" کی اصلاح استعمال کی ہے۔ 

شام میں حالات کی خرابی کی شروعات سے ہی ترکی پر معنی خیز دباؤ ڈالا گیا کہ وہ شام کے سرحد سے ملحقہ جنوبی بارڈر پر " انسانی بنیادوں پر کوریڈور" قائم کرے۔ "پاتھ ٹو پرشیا" رپورٹ کے منصوبے کے مطابق اس کوریڈور کے قیام کا اہم ہدف یہ تھا کہ بیرونی حمایت یافتہ بغاوت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرنے کیلئے ایک بیس کیمپ فراہم کیا جا سکے۔
 
کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ شام میں جبر و تشدد میں ملوث سکیورٹی فورسز اور وہ انفراسٹرکچر جس نے عوامی زندگی کے ہر پہلو کو دبائے رکھا کے خلاف تبدیلی کی عوامی طلب حقیقی نہیں، نہ ہی یہ کہ شامی فورسز اور مسلح اپوزیشن گروپوں اور تیسری پراسرار قوت جو شام میں بحران کی ابتداء سے متحرک ہے، علاوہ ازیں اگر ان مزاحمت کاروں کو بھی شامل کر لیا جائے جو ہمسایہ اور دیگر عرب ممالک، عراق، لبنان اور اردن، قطر اور لیبیا سے تعلق رکھتے ہیں، جو وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث نہیں ہیں۔ ایسی خلاف ورزیاں شدید تصادم میں ناگزیر ہیں۔ 

امریکہ، فرانس، برطانیہ اور گلف ریاستوں کے "حکومت تبدیل کرو پراجیکٹ" کے اہم نقاد شروع سے ہی مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر کوئی افسر یا سکیورٹی فورسز بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث پایا جائے تو اس کا مکمل احتساب ہونا چاہیے اور انہیں سزا کا مستحق قرار دینا چاہیے۔ تجزیہ نگار ابراہیم الامینی لکھتے ہیں کہ حکومت نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس سے بہت سے معاملات میں سکیورٹی تدابیر ناکام ہوئیں اور خطے میں مقبول تظاہرات کی صورت میں ردعمل ایک غلطی تھی۔ بہرحال سیاسی دھارے میں دیگر گروپوں کو شامل کرنے کا مطالبہ اور ہر طرف پھیلے ہوئے ظلم و تشدد کا خاتمہ دونوں اہم اور فوری طور پر ضروری ہیں۔ 

 20 دسمبر کا دن شام میں دس ماہ سے جاری بحران کا سب سے ہلاکت خیز دن تھا۔ عالمی پریس نے عدلیب، شمالی شام میں شامی فوج سے غداری کے مرتکب فوجی منحرفوں کے قتل عام کی رپورٹس کو نمایاں جگہ دی۔ اس واقعہ کے تناظر میں عالمی میڈیا نے کہا کہ شام اب بڑے پیمانے پر نسل کشی کا ارتکاب کرنے والے ملک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ SNC نے 48 گھنٹوں میں 250 ہیروز کی ہلاکت کو افسوسناک قرار دیا۔ یہ اعداد و شمار سیرئین آبزروری فار ہیومن رائٹس نے مہیا کئے۔ انہی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے گارڈین نے رپورٹ پیش کی کہ سیرئین آرمی کے 150 کے قریب باغی فوجی کیمپوں سے فرار ہوتے ہوئے شامی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔
 
ایک تصویر بھی شائع کی گئی، جس میں دکھایا گیا کہ شامی فورسز نے بیس سے فرار ہونے والے باغی فوجیوں کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ بعدازاں جو باغی فوجی فرار ہوئے کو نزدیکی پہاڑوں میں بنی پناہ گاہوں میں موجود فوجیوں نے نشانہ بنا ڈالا۔ کئی ذرائع نے رپورٹ کیا کہ سیرئین آبزروری نے محاصرے میں موجود باغی فوجیوں کی تعداد 100 بتائی جو بعد میں مارے گئے یا زخمی ہوئے، شامی فورسز نے ان مقامی رہائشیوں کو بھی نشانہ بنایا، جنہوں نے باغیوں کو پناہ دی تھی۔
 
گارڈین کے لائیو بلاگ میں (Avaaz) نے سیئرین پولیٹیکل ایڈووکیسی اور پبلک ریلیشنز گروپ کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ اس تصادم میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 269 تھی، جس میں 163 منحرف فوجی، 97 شامی ٹروپس اور 9 شہری تھے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ (Avaaz) نے اپنے دعوے کی تصدیق کیلئے کوئی شواہد مہیا نہیں کئے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جب اس کے نمائندے نے (Avaaz) کے کارکن سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک مقامی کارکن اور میڈیکل گروپس جنہوں نے علاقے سے نعشیں اکٹھی کی ہیں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 269 تھی۔ منحرف باغیوں کی ہلاکتوں کی ابتدائی رپورٹ کے ایک دن بعد پوری کہانی تبدیل کر دی گئی۔
 
 23 دسمبر 2011ء کو کیلیگراف رپورٹ کرتا ہے: پہلے یہ کہا گیا کہ وہ منحرف فوجی تھے جو ترکی میں قائم FSA (Fre Syrian Army) میں شمولیت کیلئے فرار ہو رہے تھے لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ فرار ہونے والے عام شہری تھے، جنہیں شامی فوج اپنے زیر کنٹرول صوبے میں واپس لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ نیویارک ٹائمز 21 دسمبر کی رپورٹ میں بتاتا ہے کہ سیرئین آبزروری کے مطابق قتل عام کا شکار ہونے والے غیر مسلح اور سیاسی کارکن تھے اور ان کے درمیان کوئی منحرف فوجی موجود نہ تھا۔ 

آبزروری کا سربراہ جو اس واقعہ کو قتل عام قرار دیتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس کے اعداد و شمار کفرِ اوید میں ایک عینی شاہد کے اعداد و شمار کے تصدیق کردہ ہیں، جس کے مطابق "سکیورٹی فورسز کے پاس حکومت مخالف مظاہروں کو منظم کرنے والوں کی لسٹیں موجود تھیں اس کے بعد فورسز نے ٹینکوں، راکٹوں اور مشین گنوں کے دہانے کھول دیئے۔ 

لاس اینجلس ٹائمز حوالہ دیتا ہے کہ ایک کارکن نے جو سیٹلائیٹ کے ذریعے رابطے میں تھا نے بتایا کہ وہ لکڑیوں کے بنے ہوئے ایک شیلٹر سے گفتگو کر رہا ہے، اس کے مطابق اس نے جو کچھ دیکھا یا جو کچھ یہاں رونما ہوا ہے، قتل عام کی اصلاح اس سے کہیں کمتر ہے۔ اسی اثناء میں شامی حکومت نے ایک رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق 20، 19 دسمبر کو دسیوں مسلح دہشتگرد حمص اور عندلب میں شامی فورسز سے جھڑپوں میں مارے گئے اور بہت سے مطلوب دہشتگرد گرفتار ہوئے ہیں۔ امکان ہے ان دو دنوں میں رونما ہونے والے واقعات کی حقیقت کبھی معلوم نہیں ہو سکے گی۔ دونوں اطراف سے پیش کیے گئے ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں اس قدر تضادات موجود ہیں کہ سچ تک رسائی حاصل کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔
 
"سٹار فار" کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حمص میں قتل عام کا دعویٰ جھوٹا ہے اور وہاں قتل عام کے کوئی شواہد نظر نہیں آتے۔ اپوزیشن قوتیں قتل عام کے پراپیگنڈے کو ناگزیر تصور کرتی ہیں، تاکہ لیبیاء کی طرز پر ملک میں بیرونی مداخلت کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس کے باوجود 20،19 دسمبر کو عندلیب میں ہونے والے "قتل عام" کی رپورٹ درست تھی، جس کے بارے میں یہ کہانی تراشی گئی کہ اس میں اسد کی کلنگ مشین ملوث تھی۔
 
اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن اور گارڈین کی طرف سے 13 دسمبر کو سامنے آنے والی دونوں رپورٹس میں دو مثالیں موجود ہیں، جن میں شام کے بحران سے متعلق ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے "سچ" تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان رپورٹس کا بیشتر انحصار اپوزیشن کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا پر ہے، جس میں فوجی باغیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 263 بتائی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کا انحصار سیرئین آبزروری فارہیومن رائٹس جبکہ گارڈین کے ڈیٹا بلاگ کا انحصار ایل سی سیز اور الجزیرہ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر ہے۔ 

گارڈین نے جنوری تا نومبر 2011ء تک شہری ہلاکتوں کی تعداد 1441 بتائی ہے جس میں 144 شامی فوجی بھی شامل ہیں۔ ان اطلاعات کا انحصار فقط میڈیا رپورٹس پر ہے۔ ان رپورٹس کی بنیاد درست معلومات پر مبنی نہیں۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ان رپورٹس میں 10 مہینوں کے دوران ایک بھی مسلح مزاحمت کار کی ہلاکت کا ذکر نہیں کیا گیا جبکہ شامی فورسز کا نشانہ بننے والے تمام "مظاہرین" غیر مسلح اور عام شہری ہیں۔ رپورٹس کا 70فیصد ڈیٹا فراہم کرنے کا ذریعہ سیرئین آبزروری، ایل سی سیز اور سیاسی کارکن ہیں۔ 38فیصد حصہ الجزیرہ کی فراہم کردہ پریس رپورٹس کا ہے، 3 فیصد ایمنسٹی انٹرنیشنل جبکہ صرف 1.5 فیصد شامی سرکاری ذرائع سے حاصل کی گئی ہے۔ 

اقوام متحدہ کے کمشنر کی رپورٹ کے ردعمل میں اظہار خیال کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں شام کے سفیر نے کہا :منحرفین کیسے شام کی حکومت کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔؟ بے شک وہ حکومت کے بارے میں منفی رائے دیں گے کیونکہ وہ باغی اور غدار ہیں۔ 

جانی نقصان کے حوالے سے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوششیں، پبلک ریلیشنز گروپ آواز "Avaaz" مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے بھی " Avaa " کے بارے میں کھلے عام اظہار کیا ہے کہ آواز، باغی کارکنوں کی سمگلنگ، ملک سے باہر لے جانے، انہیں پناہ دینے کیلئے سیف ہاؤس چلانے میں ملوث ہے۔ "Avaaz " آواز بھی یہ بات بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ بی بی سی اور سی این این کو شام سے متعلق کوریج کا 30 فیصد Avaaz فراہم کرتا ہے۔ 

گارڈین Avaaz کے حالیہ تازہ ترین دعویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمارے پاس 6200 افراد کی ہلاکتوں (جس میں سکیورٹی فورسز اور 400 بچوں کی ہلاکتیں بھی شامل ہیں)۔ تشدد سے ہلاک ہونے والے 617 افراد کے شواہد موجود ہیں۔ ہر ہلاکت کی تصدیق 3 افراد کرتے ہیں، جن میں علماء اور ہلاک ہونے والوں کے رشتہ دار شامل ہیں۔ Avaaz کا یہ دعویٰ بعید العقل ہے۔
 
مثال کے طور پر دیکھتے ہیں کہ : حمص میں پچھلے سال 13 اپریل 2011ء کو ایک بریگیڈئر جنرل اور اس کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا۔ یہ کتنا ناممکن ہے بالخصوص ایسے ماحول میں جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی پائی جاتی ہو کہ ایک قتل کی بھی تصدیق ہو جائے۔ اس کیس میں تو باپ بیٹا قتل ہوئے ہیں۔ جنرل ابو علاوی کو اس کے بیٹے اور بھتیجے سمیت اس وقت قتل کیا گیا جب وہ ایک گاڑی میں سوار مظاہرین کے نزدیک سے گزر رہے تھے۔ یہاں دو رائے سامنے آتی ہیں کہ ان اور ان کی فیملی کے ساتھ کیا ہوا اور یہ دونوں آراء عقیدے کے بنا پر نشانہ بننے کی رائے کے متضاد ہیں۔
 
حکومتی وفاداروں کا کہنا ہے کہ جنرل ابو علاوی کو تکفیریوں نے قتل کیا کیونکہ جنرل علوی فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ دوسری طرف مظاہرین کا کہنا ہے کہ جنرل حمص کی علوی فیملی سے تعلق رکھتا تھا، اسے سکیورٹی فورسز نے قتل کیا تاکہ اپوزیشن پر الزام لگا کر اس کی پوزیشن کو خراب کیا جا سکے۔ بعض کا یہ دعویٰ ہے کہ اسے اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ اس نے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس صورتحال میں حمص میں پائی جانے والی دو انتہا پسندانہ آرا کی موجودگی میں تیسری رائے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ وہ رائے یہ ہے کہ برگیڈئیر جنرل اس لیے قتل ہوئے کیونکہ وہ ایک فوجی گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان کے قتل میں ملوث افراد کو ان کے مسلک سے کوئی پر خاش نہ تھی لیکن یہ قتل اپنے اندر حکومت کیلئے مسائل کے انبار لیے ہوئے تھا۔ پس اس قتل کے نتیجے میں شدید کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس نے احتجاجی تحریک کو حکومت مخالف انتشار یا مسلح مزاحمت کے دائرے میں تبدیل کر دیا۔
 
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ عرب لیگ کے مبصرین کی رپورٹ اگرچہ شائع تو نہیں ہوئی، لیکن اس کی روشنی میں عرب لیگ نے اپنے حالیہ اجلاس میں اپنے مبصرین کا شام میں مزید ایک ماہ قیام کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مبصرین کی رپورٹ اپنی توقعات کے برعکس آنے پر سعودی عرب اور گلف کی ریاستوں نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے مبصرین شام سے واپس بلا لیے ہیں اور اس معاملے کو سلامتی کونسل میں لے جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ آخری اطلاعات تک سعودی عرب نے بعض یورپی ممالک سے مل کر سلامتی کونسل میں درخواست دائر کر دی ہے کہ شام کے معاملات کے حل کیلئے امریکہ و یورپ ملکر کارروائی کریں۔ سعودی عرب اور گلف کی ریاستوں کے اس اقدامات سے واضح ہو گیا کہ یہ ممالک شام میں بدامنی اور انتشار میں ملوث ہیں، سلامتی کونسل میں جانے کا مقصد شام میں بیرونی فوجی مداخلت کا مطالبہ کرنا ہے۔ جو عرب غیرت و حمیت کے برعکس ہے۔ 

دراصل سعودی عرب اور گلف کی ریاستوں کی اس خواہش کے عقب میں امریکہ و اسرائیل کا ایجنڈا واضح طور پر جھکتا نظر آتا ہے۔ جس کے پورے نہ ہونے پر ان ممالک نے امریکہ و اسرائیل کی شہہ پر سلامتی کونسل میں جانے کا فیصلہ کیا، اگر آج بھی مسلمان قوم سعودی عرب دیگر امریکی و مغرب نواز عرب رہنماؤں کو مسلمانوں کا ہمدرد سمجھتے ہیں تو اس سے بڑی بدبختی ہو نہیں سکتی۔ لیکن اس صورتحال پر روس نے علی الاعلان کہا ہے کہ سلامتی کونسل میں شام مخالف کوئی قرار داد پاس نہیں ہونے دی جائے گی اور دمشق مخالف ہر قرارداد کو ویٹو کر دیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 133796
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش