0
Sunday 4 Mar 2012 15:49

شہید محمد علی نقوی ایک زندہ و تابندہ کردار

شہید محمد علی نقوی ایک زندہ و تابندہ کردار
تحریر: محمد علی نقوی
 
آج ہم ایک ایسے شہید کی یاد میں سوگوار ہیں جس کو ہم سے بچھڑے سترہ سال ہوگئے ہیں، لیکن اب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی ابھی کہیں سے ہمیں آواز دیں گے کہ برادر یہ کام آپ کے ذمے ہے، ابھی تک انجام نہیں پایا ہے۔ سترہ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود وہ ہمارے معاشرے میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ان کے کام، ان کے تیار کردہ شاگرد، ان کے افکار نظریات اور سب سے بڑھ کر ان کا عملی کردار ہمارے معاشرے میں ببانگ دہل اپنے وجود کا اظہار کر رہا ہے۔
آج جب ان کے بارے میں کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں تو یادوں کا ایک ہجوم ہے جس نے میرے قلب و ذہن کو اپنے محاصرے میں لے لیا ہے۔ شخصیت جتی عظیم ہو اس کے بارے میں اظہار رائے کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ میں اگر یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ وہ اپنے جد امجد امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی طرح مجموعہ اضداد تھے، وہ قرآن مجید کے الفاظ میں کفار کے مقابلے میں شدید اور مومنین کے ساتھ رحم دل اور مہربان تھے۔
 
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بارے میں اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو بس یہی کہوں گا کہ وہ ایسی شخصیت تھے جو ماضی، حال اور مستقبل میں یکساں طور پر جھانکنے کی صلاحیت رکھتے تھے، وہ زمانے کی بدلتی ہوئي صورتحال کی ضروریات کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت کے تقاضوں سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ انھیں تاریخ میں رونما ہونے والی کامیابیوں اور ناکامیوں کی وجوہات کا زبردست ادراک تھا۔ وہ پاکستانی معاشرے بلکہ عالمی معاشرے کی معاشی، سماجی، سیاسی اور بالخصوص دینی اور مـذہبی حالات کا ادراک اور اس کو تبدیل کرنے کا عزم بالجزم رکھتے تھے۔ وہ اپنے شعور، آگہی اور قوت عمل کی وجہ سے اس کائنات کو بہتر سے بہتر بنانے کی آرزو رکھتے تھے، وہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے اس شعر کا عملی مظہر تھے۔
میں ظلمت شب میں لے کر نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہو گا 

طالب علمی کے زمانے سے ڈاکٹر صاحب نے قوم و ملت کو منظم کر کے اسے منزل مقصود تک پہنچانے کا جو عزم کیا تھا وہ ان کی شہادت تک پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ و تابندہ رہا۔ مایوس کن صورتحال میں بھی وہ روشن مستقبل اور جہد مسلسل کی بات کرتے تھے۔ ان کی کوششیں وقتی ضروریات پورے کرنے تک محدود نہ تھیں بلکہ وہ ایک عملی انسان ہونے کے ناتے مستقبل کی منصوبہ بندی کے ساتھ اکیلے نہیں بلکہ پورے کاروان کو ساتھ لے کر چلنے کے قائل تھے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے۔ وہ خاموشی اور غیر جانبداری کے بجائے زندگی کے تلخ حقائق کا مردانہ وار مقابلہ کرنے پر یقین رکھتے تھے، انھیں زندگي کے بہت سے مواقع پر سخت ترین آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا، لیکن انھوں نے کسی مقام پر پست ہمتی اور بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ جذبۂ ایمان اور وحدت فکر و عمل کے ساتھ قدم بقدم اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے۔
 
ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی ایک عملی زندگی تھی اور اس میں بھی کوئي شک نہیں کہ ایک مضبوط اور مستحکم نظریئے کے بغیر لمبے عرصے تک پوری آب و تاب کے ساتھ عملی زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ وہ افراد جو کسی فکر و نظریئے کے بغیر صرف وقتی جوش و جزبے کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم ہوتے ہیں وہ یا تو جلد تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں یا اپنے راستے سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ لیکن نظریاتی انسان انتھک مجاہد کی طرح ہوتا ہے جو شہادت تک اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے۔ فتح و شکست اس کے سامنے بے معنی ہو جاتی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک انتھک مجاہد کا عملی نمونہ تھے۔ میڈیکل کے ایک طالب علم میں انتھک مجاہد کی خصوصیات کیسے پیدا ہوئيں۔ یہ وہ سوال ہے جو آج کے کالج اور یونیورسٹی کے ہر طالب علم کے ذہن میں ضرور اٹھتا ہو گا۔
 
آج پاکستانی نوجوانوں اور پڑھے لکھے طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد ڈاکٹر صاحب کو اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہے۔ انسان اپنے آئیڈیل کی طرح بننے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک مذہبی گھرانے اور عالم دین کے گھر میں پیدا ہوئے، لیکن کیا یہی وجہ ہے جس کی بنیاد پر وہ اس مقام و مرتبے پر پہنچے کہ لوگ انھیں اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ اگر اس مفروضے کو مان لیا جائے تو ہر عالم دین کے گھر میں متولد ہونے والے فرد کو شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی طرح ہونا چاہیے حالانکہ عملی میدان میں ایسا نہیں ہے۔
 
یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ اگـر عالم دین کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو تو اس کی تاثیر یقیناً دوسروں پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے والد محترم چونکہ ایک باعمل دینی مبلغ تھے، لہذا ڈاکٹر صاحب کے قلب و ذہن میں تبلیغ اور محمد و آل محمد کے افکار و نظریات کی ترویج اہمیت اختیار کر گئی ہو، لیکن ان کی قربت اور ان کے افکار و نظریات کا سرسری مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ذاتی تزکیہ سے یہ مقام حاصل کیا، نیز ان کے افکار و نظریات پر امام خمینی رح کی شخصیت کی چھاپ بہت زیادہ گہری تھی اور اس کے لئے میرے پاس دلیل یہ ہے کہ وہ خود ببانگ دہل شہید باقر الصدر کے اس قول کہ "امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم ہو جاؤ جس طرح وہ اسلام میں ضم ہو چکے ہیں" کو کثرت سے دہراتے تھے۔ 

مجھے جہاں تک یاد ہے ڈاکٹر صاحب نے امام خمینی رح کا کوئي حکم ایسا نہیں تھا جو ان تک پہنچا ہو اور انھوں نے اس پر عمل نہ کیا ہو۔ مثلاً امام خمینی رح نے جب یہ فرمایا کہ جو محاذ پر جا سکتا ہے اس کو محاذ پر ضرور جانا چاہیے، تو ڈاکٹر صاحب نے ملکی سرحدوں اور ہر طرح کی خاندانی اور قومی ذمے داریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امام خمینی رح کے حکم کی تعمیل کی اور ایران عراق جنگ کے محاذ پر پہنچ گئے۔ آل سعود نے جب ایرانی حجاج کا قتل عام کیا اور مشرکین سے برائت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، تو سخت ترین حالات میں امام خمینی رح کے حکم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حج کے موقع پر مشرکین سے برائت کے فریضے کو انجام دیا۔ اگرچہ اس کے لئے قید و بند اور دوسری صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
 
شیعہ تنظیموں کے اندر انقلابی شعور کی بیداری اور پاکستانی معاشرے میں اتحاد بین المسلمین اور سامراج دشمنی کی تحریک پیدا کرنے میں ڈاکٹر صاحب کا کردار سب پر واضح ہے اور اس کے پیچھے بھی امام خمینی رح کے نظریات کی پیروی اور اطاعت نظر آتی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی تنظیمی اور اجتماعی زندگی میں ہر شعبے میں کام کیا اور آج ہمارے معاشرے میں اگر کوئی بھی بنیادی کام نظر آتا ہے تو اس کے پیچھے ڈاکٹر صاحب کی سوچ، آپ کے تربیت یافتہ ساتھیوں کی عملی کوشش یا خود آپ کا براہ راست کردار نظر آتا ہے۔
 
قومی وحدت، ملی فلاح و بہبود، نوجوانوں کی تربیت، انقلابی جذبے کی بیداری، ملی تنظیموں کی تاسیس و استحکام، سامراج دشمنی، معاشرے کی اصلاح، دینی شعور کی پختگی، عالمی اسلامی تحریکوں کی حمایت، اسلامی انقلاب کا تعارف اور حقیقی اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لئے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کو پاکستان کی قومی و ملی تاریخ میں ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
 
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شخصیت اور افکار و نظریات ہمارا فکری، علمی اور قومی اثاثہ ہیں۔ ایسی دولت ہر قوم اور معاشرے کو میسر نہیں۔ یہ ہمارے فکر و عمل کے لئے مہمیز کا کام دے سکتی ہے۔ استحکام پاکستان شیعہ قوم کی مضبوطی اور ولایت فقیہ کے نظریئے سے عملی وابستگی شہید ڈاکٹر سے محبت و الفت کا عملی نتیجہ ہونا چاہیے۔
 
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی یاد، ان کی برسی کی تقریبات، ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پروگراموں کا انعقاد، ان کی یاد میں لکھے گئے مضامین صرف ایک رسم اور تنظیمی کارروائی نہیں بننا چاہیں بلکہ ان کا نام اور افکار و کردار ظلمتوں میں اجالے، خوابیدہ دلوں کا جگانے، ہاتھ پر ہاتھ رکھے ہوئے انسانوں کو متحرک کرنے، غیر جانبداری اور مصلحتوں میں گھرے پرانے ساتھیوں کو فعال و سرگرم کرنے، مایوسیوں اور ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو چاک کرنے، فکر خمینی رہ و حسینی رہ کو ایک بار پھر اجاگر کرنے، کربلائی جوش و جذبے کو بیدار کرنے اور زینبی کردار کو انجام دینے کا باعث بننا چاہیے۔
قرآن مجید نے شہید کو زندہ کہا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی زندہ ہیں، وہ پہلے کی طرح آج بھی ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ وہ آج بھی دعوت حق دے رہے ہیں۔ کیا ہمیں ان کی آواز سنائی دے رہی ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 142649
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش