0
Thursday 13 Sep 2012 17:14

مسلم کون؟

مسلم کون؟
تحریر: محمد سجاد شاکری
(Email: msshakri@yahoo.com) 

موجودہ عالمی، ملکی اور خاص طور پر علاقائی حالات کو مدنظر رکھ کر جب ہم امت مسلمہ کے باہمی تعلقات کے شیرازے کو بکھرتے دیکھتے ہیں تو بعنوان ایک مسلمان کے ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے کہ وہ امت، کہ جسے خداوند عالم نے اپنے پیارے رسول (ص) کے ذریعے "إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَة" (مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں) کے جس رشتے میں جوڑا تھا، اور "وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا " (اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو) کے قانون کا پابند بنا دیا تھا، آج اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مارنے پر تلی ہوئی ہے۔ 

استعماری اور استکباری طاقتوں کی مسلمان کشی کی بات اپنی جگہ، یہاں خود مسلمانوں کی صفوں میں مسلمان کشی کا بازار بڑے آب و تاب کے ساتھ گرم ہے۔ اس موقع پر ذہنوں میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ اسلام اب ہمارے درمیان نہیں رہا، جو محمد عربی (ص) لائے تھے، جو رواداری، برابری، اور برادری کا درس دیتا تھا؟ یا ہم وہ مسلمان نہیں رہے جس کا خواب رسول اسلام (ص) دیکھا کرتے تھے۔؟ 

اگر ہم اس دین، مکتب اور فکر کے بارے میں تھوڑا بہت بھی شک کریں جسے خداوند عالم نے اپنے رسول (ص) کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے تو خدا ہمیں نہ بخشے۔ کیونکہ وہ دین و مکتب آج کم سے کم قرآن مجید کی شکل میں ہمارے درمیان صحیح و سالم موجود ہے۔ پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں سوال کے دوسرے حصے کی طرف رخ کرتے ہوئے خود اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، کہ ہم اپنے مسلمان ہونے کو پرکھیں۔ مسلمان کی وہ کونسی صفات ہیں جنہیں ہم نے ترک کر دیا ہے؟ اور ان کے بجائے ہم کن بری صفات کے مالک بن گئے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات ہم خود اللہ تعالٰی کے کلام اور اس کے رسول (ص) کی احادیث سے ہی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
اسلام اور سلامتی:
صحیح بخاری اور اصول کافی میں حضور اکرم (ص) کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا: الْمُسْلِمُ‏ مَنْ‏ سَلِمَ‏ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَ يَدِهِ "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان امن میں ہوں۔"
قارئین سے ہماری گزارش ہے کہ خدا کے لئے ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ آج آپ ملک کے کس علاقے کو مسلمان کشی اور ایک دوسرے کے خلاف کفر کی فتوے بازیوں سے پاک قرار دے سکتے ہیں؟ کیا یہ افراد، چاہے ان کا تعلق جس مکتب فکر اور مذہب سے ہو، پیغمبر اکرم (ص) کی اس حدیث کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں؟ کیا چند سازشی اور تنگ نظر افراد کے ہاتھوں پورے ملک کی سلامتی اور امن کو سبوتاژ نہیں کیا جا رہا؟ کیا ہم اپنی ہی آستین میں موجود ان سانپوں سے اپنے آپ اور اپنے معاشرے کو بچانے کے لئے جذبات کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی زحمت کرتے ہیں۔؟ 

مسلمان اور مسلمان کشی:
کیا کسی مسلمان کے لئے ممکن ہے کہ وہ اپنے چند غیر منطقی افکار کی بنیاد پر کسی دوسرے مسلمان کو کافر اور مشرک ثابت کرکے معاشرے میں مسلمان کشی کی بدعت ایجاد کرے…؟ کیا قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے ہماری نگاہ قرآن کی اس آیت پر نہیں ٹھہرتی؟ جہاں رب لایزال بیان فرما رہا ہے :
وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فِيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظِيماً
"اور جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اور ایسے شخص کے لیے اس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔" 

ممکن ہے کہ کوئی شخص اس آیت کی یہ کہہ کر توجیہ کر دے کہ یہ آیت تو مومن کے قتل سے منع کر رہی ہے لیکن جو منافق ہے، جو دل سے ایمان نہیں لایا، یا وہ شخص جو مشکل دیکھ کر مصلحتی جھوٹ بول رہا ہے، یا تقیہ کر رہا ہے، اس کے قتل سے منع نہیں کر رہی۔ تو میں یہاں ان کے سامنے اس سے بعد والی آیت اور اس کے شان نزول کو پیش کرتا ہوں، جسے تمام مکاتب فکر کے علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے۔ آیت اور اس کا شان نزول یہ ہے۔ وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى‏ إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً " اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تو مومن نہیں ہے" 

اس آیت کے نزول کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب حضور اکرم (ص) غزوہ خیبر سے واپس پلٹے تو حضرت اسامہ بن زید (ر) کو فدک کی اطراف میں موجود چند یہودی بستیوں کی طرف بھیجا، تاکہ ان کو اسلام کی طرف دعوت دے۔ انہی میں سے کسی بستی میں مرادس بن نہیک فدکی نامی کسی یہودی سے ان کا سامنا ہوا، جب اس نے لشکر اسلام کی موجودگی کا احساس کیا تو دوسرے لوگوں کی طرح مقابلہ پر اترنے کے بجائے اپنے مال واسباب اور بچوں کو جمع کیا اور پہاڑ کے دامن میں ہولیا۔ اور اسلام قبول کرتے ہوئے "أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ‏ اللَّهِ " کہا۔
 
لیکن اسامہ نے اس بات کا اعتناء کئے بغیر اسے قتل کر دیا۔ اور جب رسول اللہ (ص) کے پاس واپس پہنچے تو آپ (ص) کو اس بارے میں خبر دی تو حضور (ص) نے اس سے کہا: تو نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جس نے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کی گواہی دی تھی۔ تو اسامہ نے جواب دیتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے تو یہ کلمہ قتل سے بچنے کے لئے کہا تھا، تو رسول اللہ (ص) فرمانے لگے: تو نے اس کے دل کا پردہ تو چاک نہیں کیا تھا؟ تو نے تو نہ اس کی زبان کے اقرار کو قبول کیا اور نہ ہی تو اس کے نفس کے باطن سے آگاہ تھا! اس کے بعد اسامہ نے قسم کھائی کہ وہ آج کے بعد سے خدا کی وحدانیت اور اللہ کے رسول (ص) کی رسالت کی گواہی دینے والے کسی شخص کو قتل نہیں کرے گا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوگئی تھی۔ 

مسلمان اور ظلم و زیادتی:
جو ملک و معاشرہ اور جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں پر ظلم کرنے پر فخر کرے یا کسی مسلمان پر ظلم ہوتے دیکھ کر خوش ہو جائے تو اس کے اسلام کو آپ کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ مجھے نہیں معلوم، لیکن میں تو اس اسلام کو اسلام ناب محمدی (خالص اسلام) میں شامل کرنے پر ہرگز تیار نہیں ہوں گا۔ البتہ کسی عالمی استعماری و استکباری طاقت یا کسی مقامی استبدادی طاقت یا شیطانی فکر پر پلنے والے شخص کے اسلام کے طور پر شمار کرنے میں کوئی حرج نہیں دیکھتا۔ کیونکہ میرے پیارے نبی (ص) نے مسلمان کی تعریف یوں کی ہے:
اَلْمُسْلِمُ‏ أَخُو الْمُسْلِمِ‏ لَا يَظْلِمُهُ‏ وَ لَا يَشْتِمُهُ "مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ ایک دوسرے پر نہ ظلم کرتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں"اور بعض دیگر احادیث میں" لَا يَخْذُلُهُ وَ لَا يَحْرِمُهُ ،لا يغشّه ولايغتابه ولايخونه" (نہ ایک دوسرے کو بے یار و مددگار چھوڑتے، نہ محروم کرتے، نہ دھوکہ دیتے، نہ غیبت کرتے اور نہ ہی خیانت کرتے ہیں) جیسی عبارتیں موجود ہیں۔
 
مسلمان ید ِواحد:
اگر مسلمان اب بھی خدا اور اس کے رسول (ص) کے پیغام کو سمجھیں اور اپنے مشترکہ دشمن کی طرف سے اپنے خلاف کی جانے والی سازشوں کے خطرے کو بھانپ لیں تو اب بھی ان کی عظمت رفتہ واپس آ سکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے تنگ نظری، تعصب، فرقہ پرستی ، قوم پرستی اور نسل پرستی جیسی لعنتوں سے نجات پانے اور دنیا کے شور و غل پر دھیان دینے کے بجائے حضور اکرم (ص) کی اس پیاری حدیث پر لبیک کہنے کی ضرورت ہے جو آپ (ص) نے حجۃ الوداع کے موقع پر مسجد خیف میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے بیان فرمائی:
الْمُسْلِمُونَ‏ إِخْوَةٌ تَتَكَافَى دِمَاؤُهُمْ- وَ هُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُم‏
"مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، سب کے خون کی ایک ہی حیثیت ہے، غیر مسلمانوں کے خلاف یہ ایک ہاتھ کی مانند ہیں اور اپنے سے کمزور اور چھوٹے لوگوں کی نسبت اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوشش کرتے ہیں۔"
 
پیغمبر اکرم (ص) کی اس حدیث کو پڑھنے کے بعد سے میرے دل میں یہ شدید تمنا پیدا ہوگئی ہے کہ ایسی صفات کا حامل کسی مسلمان کو دیکھوں کہ وہ کس قسم کا ہوتا ہے؟ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کیونکہ آج ہمارے اس معاشرے میں ایسی صفات کے مالک شخصیات نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ آج بھی ان لوگوں کو ہوش آنا چاہئے جو پانی کی طرح اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے میں کوئی گناہ محسوس نہیں کرتے۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام نے سارے مسلمانوں کے خون کو ایک ہی جیسی حرمت و حیثیت دی ہے۔ حضور اکرم (ص) خود اس مطلب کو یوں بیان فرماتے ہیں: الْمُؤْمِنُ حَرَامٌ كُلُّهُ عِرْضُهُ وَ مَالُهُ وَ دَمُه‏ "مومن کی عزت و ناموس، مال و دولت اور خون سب کے سب قابل احترام ہیں"
 
پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ اگر ہم اپنی ناموس، مال اور خون کی عزت و حرمت کو پسند کرتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کو تیار ہیں تو کیوں ہمیں دوسروں کی ناموس کی فکر نہیں ہوتی؟ کیوں ہم دوسروں کے مال و دولت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں؟ اور کیوں دوسروں کے خون کے رائیگاں جانے پر خوش ہوتے ہیں؟ بالآخر اسلام نے یہ بھی تو کہا ہے کہ آپ جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔ پھر کیوں ہم قرآن کے ان سنہرے اصولوں کو پیروں تلے روند ڈالتے ہیں اور ان کی جگہ شیطانی افکار کو بسا کر امت مسلمہ کے جلتے آشیانے پر تیل چھڑکتے ہیں؟ ہمارے پیارے رسول (ص) نے تو اس عمل کو ایمان سے جوڑتے ہوئے یوں فرمایا ہے:
لَا يَؤُمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُ‏ لِنَفْسِه‏ " تم میں سے کوئی بھی جو چیز اپنے لئے پسند کرے ؛ لیکن اسے اپنے بھائی کے لئے پسند نہ کرے، اس کا ایمان کامل نہیں ہے۔" 

مسلمان اور امورِ مسلمین:
خداوند عالم نے انسان کو اجتماعی اور سماجی مخلوق بنا کر بھیجا ہے تو کیا کوئی انسان یہ کہہ کر اپنے آپ کو دوسروں سے الگ رکھ سکتا ہے کہ میرے معاملات تو ٹھیک چل رہے ہیں، کسی کے ساتھ کوئی مشکل ہے تو مجھے کیا …؟! کوئی ہمسایہ یہ کہہ کر تماشائی بنے رہ سکتا ہے کہ آگ تو دوسرے کے گھر میں لگی ہے، میرے گھر میں تو نہیں …؟ اس صورت میں یہ آگ اس کے گھر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ لہٰذا عقل مندی یہی ہے کہ وہ اپنے ہمسایے کی مدد کو نکلے، اور ہمارے پیارے نبی (ص) نے تو ایک مسلمان کے مسلمان باقی رہنے کو دوسرے مسلمانوں کے امور کی فکر کرنے اور ان کے امور کی اصلاح کرنے سے مشروط قرار دیا ہے:
 مَنْ‏ أَصْبَحَ‏ لَا يَهْتَمُ‏ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِينَ‏ فَلَيْسَ مِنْهُمْ وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يُنَادِي يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ.
"جو کوئی صبح کرے اور مسلمانوں کے امور کے بارے میں کوئی سوچ اور فکر بھی نہ کرے تو وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جو کوئی مسلمانوں کی فریاد سنے اور اس کا جواب نہ دے تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔"
 
سوچنے کا مقام: ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ حقیقی مسلمان وہ شخص ہے جو مذکورہ بالا آیات اور احادیث پر کسی بھی صورت عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا وہ کہ جو اپنے مسلمان بھائی کی جان سے کھیلتا ہے، دوسرے مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگاتا ہے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف گندی زبان استعمال کرتا ہے …؟؟؟
خبر کا کوڈ : 194649
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش