0
Saturday 29 Sep 2012 20:08

فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر

امریکی مفادات کے نگران اتحاد اُمت پر ضربیں لگانے کیلئے سرگرم
فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر
تحریر: علی ناصر الحسینی

ملک میں جاری مکتب تشیع کی نسل کشی اور متعصبانہ کارروائیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ اپنا دامن ہر گزرنے والے دن کے ساتھ دراز کر رہا ہے۔ ملک کے بیشتر شہر تعصب، تنگ نظری، فرقہ پرستی، جاہلیت اور مختلف حکومتی حلقوں و اداروں کی جانبداری کی بدولت آگ و خون کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ گلگت، کراچی، کوئٹہ، ہنگو، کوہاٹ، مستونگ تو مستقل طور پر دہشت گردوں کی کارروائیوں سے متاثرہ شہروں میں شمار ہوتے ہیں، جہاں آئے روز وارداتیں ہونا معمول بن چکا ہے، جبکہ دیگر شہروں اور علاقوں میں کوئی نہ کوئی واردات اور واقعہ رپورٹ ہوتا ہے۔ 

جب سے موجودہ حکومت آئی ہے کالعدم گروہ کو کھل کھیلنے کے مواقع مل گئے ہیں، خصوصی طور پر اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب کے حکمرانوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں ناصبی دہشت گرد گروہ کو مذہبی و سیاسی میدان میں کھُلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ہمیشہ سے اتحادی ایک بار پھر "وطن کے دفاع" کے نام پر اکٹھے کئے گئے ہیں، جن کے پردے میں ناصبی و خارجی گروہ بھی اپنی فعالیت اور ملک دشمن کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ گویا لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے دفاع وطن کا ٹائٹل اور ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے ملکی اداروں چاہے وہ کامرہ کا ائیر بیس ہو یا فوجی و انٹیلی جنس اداروں کے دفاتر، کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ 

اسی طرح ملک کے معصوم اور بے گناہ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک کے امن و امان پر کاری ضرب لگا رہے ہیں، جس سے اقتصادی طور پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام و پاکستان دشمن ممالک کی خدمت ہوئی ہے، ان کے مقاصد اور اہدف کی تکمیل ہوتی ہے، جب بھی فرقہ وارانہ فسادات اور قتل و مقاتلہ کا سلسلہ بڑھتا ہے تو مغربی ایوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ 

آپ خود ہی سوچیں کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں آئی ایس او اور MWM کے مشترکہ مظاہروں اور امریکی قونصلیٹ و سفارت خانے پر کامیاب وار کے بعد، جس امریکہ نے کراچی میں اپنا قونصلیٹ بند کرکے عملہ کو فوری طور پر اسلام آباد بھیج دیا تھا، اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے فرقہ واریت اور قتل عام کے ذریعے بدلہ لینے کی کوشش کی ہے۔ سفارت خانوں پر شیعہ مجاہدین کی یلغار نے اگرچہ اس کی نیندیں حرام کر دی تھیں، مگر اس کے بعد امریکی نمک خواروں نے اپنے آقاؤں کی دلجوئی کیلئے عشق رسول (ص) میں غرق حسینی پروانوں پر اپنی بندوقوں کی آگ اُگل کر اُمت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرُا گھونپا ہے۔
 
اس بات کے خدشات کا اظہار پہلے سے کیا جا رہا تھا کہ شیعیان حیدر کرار (ع) کی طرف سے کامیاب ترین احتجاجات کے بعد اتحاد و وحدت اور یکجہتی کی فضا کو مکدر کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ایسا ہی ہوا، آج پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ کراچی لہولہان ہے، کوئٹہ کی سرزمین بے گناہوں کے خون سے رنگین ہے، گلگت میں کشیدگی برقرار ہے، ممکن ہے استعمار کے نمک خوار امریکہ کے خلاف بنی ہوئی فضا کو بدلنے کیلئے کام کر جائیں۔
 
بہر حال اس بات کا امکان موجود ہے کہ کوئی بڑا ٹارگٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، کسی بڑی شخصیت کو نشانہ بنائے جانے کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس صورت حال میں ملت تشیع کو بےحد محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کراچی میں ایک ہی دن میں آٹھ شیعہ مسلمان مختلف علاقوں میں شہید کئے گئے ہیں۔ اس سے پہلے ایک باپ اور دو بیٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ ملک کی بنیادیں ہلانے کی دشمن کی سازش ہی تو ہے۔
 
سندھ کی نااہل پولیس اور حکمران دہشت گردوں کو لگام دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے بجائے معصوم شیعہ نوجوانوں کی گرفتاریاں کی گئیں، شیعہ مساجد اور گھروں میں چھاپے مارے گئے، چادر اور چار دیواری کا تقدس پائمال کیا گیا، یہ عجیب اور افسوسناک ہے کہ ہم ایک دن میں 10،10 شہداء کے جنازے بھی اُٹھائیں اور شہداء کی الم ناک شہادت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی گرفتاریوں پر بھی سراپا احتجاج ہوں۔
 
27 ستمبر کو نمائش چورنگی پر تین جنازے رکھ کر اسیران کی رہائی کیلئے دھرنا دیا گیا، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ پولیس اہلکار او ر اعلٰی آفیسرز دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، ان کو نہ تو کالعدم گروہ کے وہ دہشت گرد نظر آتے ہیں جن پر سینکڑوں بے گناہوں کے خون کی FIR درج ہیں اور نہ ہی انہیں دندناتے قاتل دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے پورے کراچی کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور مدرسوں میں پناہ لیے بیٹھے ہیں۔ یہ بات بھی اب زبان زد عام ہو چکی ہے کہ شہرِ کراچی میں شیعہ مسلمانوں کی زیادہ تر شہادتیں ان ایریاز میں ہوئی ہیں، جن پر متحدہ کی حکمرانی کا پرچم لہرا رہا ہے اور عمومی طور پر ان کی مرضی کے بغیر یہاں پتہ بھی نہیں ہلتا۔

جب انگلیاں متحدہ کی طرف اُٹھنے لگیں تو لے پالک پولیس کے ذریعے گرفتاریاں شروع کر دی گئیں، مگر شیعیان حیدر کرار (ع) کی استقامت اور اتحاد و وحدت ان کے راستے کی دیوار بن گئے، انشاءاللہ یہ استقامت، شجاعت اور اتحاد و نظم قائم رہے گا اور استعمار کے نمک خواروں کو شکست ہوگی، شہادتوں، اسارتوں اور گرفتاریوں سے ہمیں مایوس اور نااُمید نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس مکتب حسینی کے پیروکاروں کو دبایا جاسکتا ہے، سیاسی مداری اور چالباز ہوں یا مذہبی گرو گھنٹال، سب کے چہروں سے نقاب الٹتے رہیں گے۔
 
جو بھی شیعہ دشمن ہوگا وہ اسلام دشمن ہوگا، چونکہ اصل اسلام تو شیعیت ہی ہے، باقی سب تو یزیدیت ہے۔ اصل اسلام کی بقا اور ترویج و تبلیغ کے جرم میں اس ماہ یزیدی ٹولے اور ناصبی گروہ کی کارروائیوں کے نتیجہ میں ابدی سعادت سے سرفراز ہونے والوں کو سلام۔ ایک نظر کارروانِ شہداء کی طرف بڑھنے والے نئے مسافروں کی فہرست پر نظر دوڑاتے ہیں۔ 

یکم ستمبر: کوئٹہ میں ہزار گنجی سے سبزی منڈی جانے والے ہزارہ مومنین پر فائرنگ 7 افراد شہید جبکہ احتجاج کرنے والوں پر بھی فائرنگ کی گئی کل 10 افراد شہید ہوگئے۔
2 ستمبر: لاہور، باٹا پور میں ایک اہل تشیع کے گھر پر یزیدیوں کا حملہ، تشدد، عَلم پاک کی بیحرمتی، رات بھر دھرنا، FIR درج، کوئٹہ میں احتجاج کے دوران زخمی ہونے والے قاسم علی شہید۔
3 ستمبر: بھکر، دریا خان، حسن شاہ شہید کے بیٹے علی شاہ پر قاتلانہ حملہ معمولی زخمی۔
4 ستمبر: کراچی، کشمیر روڈ پر ماڈل ٹاؤن تھانے کے ASI سید علی محسن جعفری شہید کر دیئے گئے۔
4 ستمبر: کوئٹہ، کیرانی روڈ پر ڈینٹل کلینک پر فائرنگ سے ڈینٹسٹ سید نعمت اللہ شہید۔
 
5 ستمبر: کوئٹہ، ہزار گنجی سانحہ کے احتجاج کے دوران فائرنگ سے زخمی ہونے والا لیاقت علی شہادت سے ہمکنار۔
5 ستمبر: کراچی، IRC ٹرسٹ کے مختار اعظمی اور ان کے فرزند باقر علی پرانی سبزی منڈی کے پاس دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید، پوتا زخمی، تدفین وادی حسین (ع) میں ہوئی۔
9 ستمبر: پاراچنار، کشمیر چوک میں ایک گاڑی میں نصب بم پھٹنے سے 16 اہل تشیع شہید جبکہ 65زخمی، جبکہ 15 سے زائد کی حالت تشویشناک، 40 سے زائد دکانیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔
 14 ستمبر: کراچی، محمد علی ولد مقدس رضا ملیر ندی کے پاس یزیدیوں کی فائرنگ سے شہید جبکہ نواز زخمی ہوگئے، آفس جا رہے تھے۔
 
16 ستمبر: گستاخانہ فلم کے خلاف لبیک یارسول اللہ (ص) ریلی پر امریکی قونصلیٹ کراچی کے پاس پولیس کی فائرنگ، شیلنگ اور تشدد، آئی ایس او کے سابق رکن سید علی رضا تقوی شہید، درجنوں زخمی، مظاہرین تمام رکاوٹیں توڑ کر امریکن قونصلیٹ تک پہنچنے میں کامیاب۔
18 ستمبر: مستونگ کے قریب تفتان سے آنے والی زائرین کی بس پر بم حملہ، 6 اہل تشیع شہید، بس مکمل تباہ، 40 سے زائد اہل تشیع سوار تھے۔ زخمیوں میں کئی ایک کی حالت تشویشناک، آج کراچی میں برادر رضا تقوی شہید کی نماز جنازہ پڑھائی گئی۔
22 ستمبر: کراچی، اورنگی کے علاقے چشتی نگر میں 25 سالہ علی حسین خرم ولد اظہر حسین فائرنگ سے شہید ہوگئے، پک اینڈ ڈراپ کا کام کرتے تھے۔
 
25 ستمبر: ایک ہی خاندان کے 3 اہل تشیع ایک دکاندار رضا دیوجی جوڑیا بازار کی دکان سے گھر جاتے ہوئے بیٹوں کمیل رضا، محمد عباس سمیت فائرنگ سے شہید جبکہ ان کے ایک دوست علی رضا زخمی ہوگئے۔
26 ستمبر: کراچی، لی مارکیٹ میں بلال نامی شیعہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید۔ آج کوئٹہ میں بھی ڈپٹی ڈائریکٹر جیالوجیکل سروے سید محمد محسن کو بھی سریاب روڈ پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا، انچولی میں نماز جنازہ پڑھائی گئی، کراچی کے علاقے گلبرگ میں شیعہ نوجوان ظہیر عباس شہادت سے سرفراز۔ گزشتہ رات پان منڈی میں شہید ہونے والے شہید عباس رضا، شہید کمیل رضا، شہید محمد رضا کی نماز جنازہ کراچی میں ادا کردی گئی۔ ایک ہی گھر سے تین جنازے اُٹھے تو ہر طرف کہرام مچ گیا، ہر آنکھ اشک بار تھی۔
 
گلشن چورنگی پر ایک اہل تشیع عمران حسین دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید، نیو کراچی میں بھی نثار علی شہید جبکہ دوسرے بھائی ندیم علی اور واحد علی زخمی، گولیمار جعفریہ میں بھی سید زاہد حسین زیدی فائرنگ سے شہید ،ایک مسجد کے مؤذن شبیر بھی فائرنگ سے شہید۔ ایک ہی دن میں مختلف علاقوں میں 9 اہل تشیع دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے۔ دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں، انہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ کوئٹہ میں 2 اہل تشیع شہید کر دیئے گئے، ان کے نام گلاب شاہ اور غلام سخی بتائے گئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 199537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش