1
0
Sunday 16 Sep 2012 22:17

توہین آمیز فلم اور ’’آزاد دنیا‘‘ کا ردعمل

توہین آمیز فلم اور ’’آزاد دنیا‘‘ کا ردعمل
تحریر: ثاقب اکبر

امریکا سمیت فوجی اتحاد میں شریک نیٹو ممالک اپنے آپ کو ’’آزاد دنیا‘‘ اور ’’عالمی برادری‘‘ قرار دیتے ہیں۔ باقی دنیا سے آواز اٹھے تو اسے آزاد دنیا کی آواز نہیں کہتے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اکثریتی قرارداد منظور ہو تو اسے عالمی برادری کی آواز قرار نہیں دیتے، جبکہ امریکا کے ایما پر سلامتی کونسل کے گنتی کے چند یا نیٹو ممالک فیصلہ کریں تو اسے عالمی برادری کی رائے کہا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بدنام زمانہ توہین آمیز فلم جس کے خلاف پوری دنیا میں رنج و غم اور غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے، اس پر اس آزاد دنیا اور اس کے لے پالکوں کا ردعمل کیا ہے، تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ اس فلم کے اصل محرکات کیا ہیں اور اس آزاد دنیا کی اسے کس قدر حمایت یا مخالفت کا سامنا ہے، نیز جن لوگوں کے ایمان اور دینی غیرت پر حملہ کیا گیا ہے، ان کے بارے میں یہ دنیا کیا رائے رکھتی ہے۔
 
پست مقاصد کی حامل مذکورہ فلم پر عرب ممالک میں جس ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے، اسے امریکا اور اس کے ہم فکر ممالک نے عام طور پر تشدد اور دہشت گردی کا نام دیا ہے۔ چنانچہ یورپی کمیشن کے صدر جوزمینؤل نے اس ردعمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’ناقابل برداشت‘‘ اور ’’مہذب دنیا کے اصولوں کے خلاف‘‘ قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ مہذب دنیا بھی امریکا اور اس کے نیٹو کے حواری اپنے آپ کو قرار دیتے ہیں اور باقی دنیا کو وہ مہذب دنیا نہیں کہتے۔ 

یورپی یونین کے صدر نے اپنے بیان میں فلم سازوں کی حرکت کو اصلاً نظرانداز کر دیا ہے۔ گویا انھوں نے جو کچھ کیا ہے وہ ان کی مہذب دنیا کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ یورپی یونین کی فارن پالیسی کی سربراہ کیتھیرین ایشٹن نے مسلمان ممالک جن میں عوام نے ردعمل کا اظہار کیا ہے کے حکام سے سفارتی مشنز اور اسٹاف کی حفاظت یقینی بنانے کی استدعا کی ہے۔ انھوں نے کہا ’’یہ بات بہت اہم ہے کہ متاثرہ خطوں کے راہنما ان پر تشدد مظاہروں کو ختم کروانے اور وہاں امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردارادا کریں۔‘‘
 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مس کیتھیرین ایشٹن کو دراصل اپنے سفارتی مشنز کی حفاظت سے دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مسلمان ممالک کے حکام کو ’’استدعا‘‘ کے نام پر یہ حکم جاری کیا ہے۔ انھیں بھی فلم بنانے والوں اور فلم کی وجہ سے مسلمانوں میں جو فطری ردعمل پیدا ہوا ہے، اس کے محرکات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ گویا ان کی رائے ہے کہ ’’مہذب دنیا‘‘ کے ٹیری جونز اور نکولا باسیلے جیسے افراد جو بھی حرکتیں کرتے رہیں، وہ ساری دنیا نہایت صبر اور حوصلے سے برداشت کرتی رہے۔
 
جرمنی کے وزیر خارجہ گائیڈویسٹروفیلڈ نے کہا ہے کہ جمعہ (14ستمبر 2012) کو برلن میں سوڈان کے سفیر کو طلب کرکے انھیں سفارتی مشن کے حوالے سے ان کی ڈیوٹی کے بارے میں یاد دلایا گیا ہے۔ اسی طرح وائٹ ہاؤس کی جانب سے جمعہ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی نائب صدر جوہائیڈن نے اپنے ہم منصب علی عثمان سے بات کرتے ہوئے خرطوم میں امریکی اور دیگر سفارت خانوں کی حفاظت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
 
اظہار تشویش کی ان کارروائیوں کے پیچھے فقط اپنے شہریوں کی حفاظت سے دلچسپی ہے۔ ہم نہیں کہتے ہیں کہ متعلقہ حکومتیں غیر ملکوں میں موجود اپنے شہریوں اور سفارتکاروں کی حفاظت میں دلچسپی نہ لیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ ڈیڑھ ارب کے قریب دنیا کے مسلمانوں کے سینوں کو زخمی کر دینے والی حرکت کو وہ حقیقی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔
 
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس فلم کے نتیجے میں ہونے والے’’تشدد‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس تشدد اور ان حملوں کا کوئی جواز نہیں۔ یہ نفرت انگیز فلم جان بوجھ کر تعصب اور خون خرابے کے بیج بونے کے لیے بنائی گئی ہے۔ ذرا غور کیجیے تو واضح ہو جاتا ہے کہ جناب بان کی مون نے آگے پیچھے ایک دوسرے سے متضاد باتیں کہی ہیں۔ اگر یہ فلم جان بوجھ کر تعصب اور خون خرابے کے لیے بنائی گئی ہے تو پھر اس کے نتیجے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا کوئی جواز نہیں، دو متضاد باتیں نہیں تو اور کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فلم اور اس طرح کی دیگر حرکات کو اقوام متحدہ اور اس کے اصل چلانے والے جس انداز سے تحفظ دیتے چلے آئے ہیں، آج اس کے نتائج انھیں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ 

امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ اسلام مخالف فلم کے خلاف احتجاج میں امریکی شہریوں پر حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے، جبکہ وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ امریکا اسلامی ممالک میں فوجیوں کی تعیناتی پر غور کر رہا ہے۔ ان بیانات میں اس سوال پر غور کرنے کی بھی دعوت دی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں یہ فلم دراصل مسلمان ممالک میں مزید امریکی فوجی تعینات کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ 

ابھی تک امریکا لیبیا، یمن اور سوڈان میں تعیناتی کے لیے اپنے کمانڈوز روانہ کر چکا ہے اور اب امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ مزید ممالک میں بھی اپنے سفارتی مشنز کی حفاظت کے نام پر فوجی بھجوانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا آزاد دنیا اور تیسری مجبور دنیا اس سوال پر غور کرنے کے لیے تیار ہے کہ کیا یہ فلم امریکی سلطنت کی توسیع اور دوام کے لیے کی جانے والی کوششوں کا حصہ تو نہیں؟ 

یہ سوال اس پس منظر میں اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ اس فلم کے پیچھے جن لوگوں کا کردار سامنے آیا ہے، ان میں بدنام زمانہ پادری ٹیری جونز بھی شامل ہے جو گذشتہ کئی برسوں سے اسلام کے خلاف طرح طرح کی حرکتیں کرتاچلا آیا ہے گذشتہ برس اس نے قرآن حکیم کو جلانے کی ناپاک حرکت کی تھی، لیکن امریکی حکومت ایسے افراد کی ہمیشہ نازبرداری کرتی چلی آئی ہے۔ قبل ازیں گستاخ رسول سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات منظر عام پر آئی تو امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں اسے مدعو کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا ایسی حرکات کرنے والوں کی مسلسل سرپرستی کرتا چلا آیا ہے۔
 
مغربی ’’آزاد دنیا‘‘ کے سیاسی راہنماؤں کی طرح اسلام مخالف فلم بنانے والے ہدایتکار نے بھی مظاہرین ہی پر تنقید کی ہے۔ ہدایتکار جس کا نام کئی مرحلوں سے گزر کر اب نکولاباسیلے کے طور پر سامنے آیا ہے، نے فلم کے خلاف مظاہروں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے مسلمانوں کو برداشت سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ امریکی ریڈیو ’’ساوا‘‘ کو جمعے کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں مبینہ ہدایتکار نے کہا کہ عربوں کو ’’اختلافی معاملات پر پرامن احتجاج کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔‘‘
 
انسانی پستی کی یہ انتہا ہے کہ جھوٹ، توہین، تہمت، بےحیائی اور منافرت انگیز مواد پر مبنی فلم کو ایک اختلافی معاملہ قرار دے دیا جائے اور اس پر پرامن احتجاج کا سلیقہ سیکھنے کی بھی دعوت دی جائے۔ یہ دعوت وہ شخص دے رہا ہے جو پہلے ہی امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک بینک فراڈ میں سزا یافتہ ہے۔ آج ’’آزاد اور مہذب دنیا‘‘ کا ایک چور اور ڈاکو جو یہ فلم بنانے کے بعد پہلے چھپتا پھرتا رہا اور پھر مختلف ناموں سے اس فلم کے حوالے سے انٹرویو دیتا رہا، اپنی دریدہ دہنی اور انسانیت کی توہین پر مبنی حرکت کو اختلافی معاملہ قرار دے کر مسئلے کو کوئی دوسرا رخ دینے کے درپے ہے۔ 

گذشتہ دو دہائیوں میں دنیا میں کئی ایسے معاملات ہوئے کہ مشرق و مغرب کے انسانوں نے جن کے بارے میں ایک جیسا ردعمل ظاہر کیا، لیکن موجودہ فلم کے حوالے سے فقط عالم اسلام میں نمایاں ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اگرچہ مغرب کے کئی آزاد ضمیر لوگوں نے بھی اس توہین آمیز فلم کی مذمت کی ہے، لیکن عوام پر حقیقت آشکار نہ ہونے کی وجہ سے مغرب کے باضمیر اور آزاد فطرت لوگ اس پست حرکت کے خلاف باہر نہیں نکلے۔ اس پر یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں کے تجربات کے بعد مغرب کا ظالم سرمایہ دار حکمران طبقہ عیسائیوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے جن میں سے ایک یہی توہین آمیز فلم ہے۔ 

ہم مغرب کے انہی آزاد فطرت عوام کو مسئلے کے اخلاقی اور انسانی پہلوؤں پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ وہی عوام جنھوں نے عراق پر امریکی چڑھائی کے موقع پر اس کے خلاف ملین مارچ کیے اور وہی عوام جنھوں نے اپنے آٹھ سو شہروں میں بیک وقت مغرب کی ظالم سرمایہ داری کے خلاف وال اسٹریٹ تحریک کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مظاہرے کیے۔ آئیے انسانیت کی اس تذلیل پر مبنی حرکت کے خلاف مشرق و مغرب کے سب انسان ایک ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 195877
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

true
ہماری پیشکش