0
Tuesday 23 Oct 2012 01:28

یورپی یونین کی ایران پر نئی پابندیاں

یورپی یونین کی ایران پر نئی پابندیاں
تحریر: ثاقب اکبر
 
یورپی یونین نے گذشتہ سوموار (15 اکتوبر 2012ء) کو ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پابندیاں ایران کے بینکنگ سیکٹر، انڈسٹری، شپنگ اور دیگر کئی شعبوں پر عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں یورپی تاجروں کو کسی بھی تجارتی سودے میں ایران کو ادائیگی کے لیے پہلے اپنی حکومت سے اجازت لینا ہوگی۔ علاوہ ازیں یونین نے 34 ایرانی کمپنیوں کے اثاثے بھی منجمد کر دیئے ہیں۔ پابندیوں کے نتیجے میں ایران کو مختلف دھاتیں، گریفائٹ اور سٹیل کی تجارت ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔ موجودہ پابندیاں ایران پر عائد کی جانے والی گذشتہ پابندیوں کا تسلسل ہیں، جو امریکہ کی ایما اور اصرار پر یکے بعد دیگرے عائد کی جا رہی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپی یونین کے اجلاس میں سویڈن، سائپرس اور مالٹا نے پابندیوں کی تجویز پر اعتراض کیا تھا، لیکن یورپ کی بڑی اور موثر قوتوں نے اعتراضات کو مورد اعتنا نہیں جانا۔
 
یہ پابندیاں اس کے باوجود عائد کی گئی ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے 5اکتوبر کو متنبہ کیا تھا کہ ایران پر مغربی پابندیوں کے نتیجے میں عام ایرانی روز مرہ کی بعض اہم ضروریات سے محروم ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مغرب جانتا ہے کہ اس کے اقدامات کے غیر انسانی اثرات بیمار لوگوں پر پڑیں گے۔ ان پابندیوں سے ایک اندازے کے مطابق 60 لاکھ ایرانی مریض متاثر ہو رہے ہیں، جن میں خاص طور پر کینسر، تھیلیسمیا، ایم ایس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا مریض قابل ذکر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 50 قسم کی شدید ضرورت کی ادویات پر ان پابندیوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے یورپی پابندیوں کو غیر منطقی اور ظالمانہ قرار دیا ہے۔
 
دریں اثنا چین نے ایران پر یورپی یونین کی یکطرفہ پابندیوں کی مذمت کی ہے۔ یورپی یونین کی پابندیوں کے اگلے روز 16 اکتوبر کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہانگ لی نے کہا کہ ہم ایران پر یکطرفہ پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ دباؤ بڑھانے کے لیے پابندیوں کا نفاذ ایران کے جوہری مسئلے کو بنیادی طور پر حل نہیں کرسکتا۔ اس سے صورت حال صرف مزید پیچیدہ ہوگی اور مخاصمت کو گہرا کرے گی۔ انھوں نے طرفین سے توقع کی کہ وہ مزید مذاکرات کی راہ اختیار کریں گے۔
 
یاد رہے کہ امریکہ کی قیادت میں ایران کے اقتصادی محاصرے کے لیے اس کے جوہری پروگرام کو بہانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ ایران بارہا اعلان کرچکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن اقتصادی مقاصد کے لیے ہے۔ علاوہ ازیں ابھی تک کسی عالمی ادارے کو اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ایران جوہری اسلحہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مغرب کا تمام تر پراپیگنڈہ اور اقدامات فقط امکان اور احتمال کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں، جبکہ ایران کا موقف ہے کہ وہ این پی ٹی پر دستخط کے بعد عالمی قوانین کے مطابق حق رکھتا ہے کہ وہ سول مقاصد کے لیے اپنے جوہری پروگرام کو ترقی دے۔ علاوہ ازیں ایران کی ایٹمی تنصیبات عالمی توانائی ایجنسی کے معائنہ کاروں کے لیے کھلی ہیں اور اس کے نمائندے مسلسل ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔
 
ایرانی قیادت کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کو اپنے مذہبی تصورات کے مطابق درست نہیں سمجھتی۔ اُس کا مطالبہ ہے کہ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں اپنے ایٹمی اسلحے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلف کر دیں۔ ایرانی قیادت کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں جبکہ اسرائیل نے نہ فقط این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے بلکہ وہ عالمی معائنہ کاروں کو اپنی تنصیبات کے معائنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اس طرز عمل کو ایرانی مغربی دنیا کی منافقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ مغربی دنیا کی مخالفت کے باوجود پرامن مقاصد کے لیے جوہری پروگرام کی ترقی کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔
 
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نئی پابندیوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایرانی قوم مغربی دباؤ میں نہیں آئے گی، مغربی پابندیاں ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ صہیونیوں کا یورپ کے میڈیا پر اس قدر اثر ہے کہ میڈیا کی رپورٹیں یورپی سیاستدانوں کے فیصلوں کی سمت متعین کرتی ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیاں غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر منطقی ہیں۔ شہری ہوائی جہازوں کے پرزوں پر پابندی کی مثال دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ یورپی ممالک نے خود اپنے وقار کے منافی اقدام کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم اپنی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور دوسری طاقتوں کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے۔
 
ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے یورپی یونین کی ایران کے خلاف پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر قانونی پابندیاں دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایران کی نسبت اس کا نقصان یورپ کو زیادہ ہے۔ 17 اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ نئی پابندیاں دراصل امریکی دباؤ کا نتیجہ ہیں، جو چاہتا ہے کہ یورپی یونین بھی ایران کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات منقطع کرلے، کیونکہ خود امریکہ 33 برس سے ان روابط کو منقطع کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پابندیاں صرف یورپ کو متاثر کریں گی۔ انھوں نے کہا کہ یورپی اقتصادیات پہلے ہی تباہی کے دہانے پر ہیں۔ یورپ نے خود سے 5 سال تک ایران کا بائیکاٹ کیے رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج ایران کی اقتصادی حالت زیادہ بری ہے یا یورپ کی۔
 
یورپ کی اقتصادی حالت کی طرف ڈاکٹر احمدی نژاد نے جو اشارہ کیا ہے اس کی گواہی خود یورپ کا میڈیا اور یورپی یونین کے متعدد اقدامات دے رہے ہیں۔ اسی ہفتے میں ایک مرتبہ یورپی منڈیوں کے حصص کی قیمتیں تیزی سے گری ہیں اور ابھی تک یورپی یونین اس صورت حال کو سنبھالا نہیں دے سکی۔ اقتصادی ماہرین کے نزدیک تنزل پذیر یورپی اقتصادیات ایران پر نئی پابندیوں کے نتیجے میں خود بھی مزید متاثر ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے یورپی سیاستدان اور دانشور یورپی قیادت کو امریکہ کی اندھی پیروی کے نتائج سے خبردار کر رہے ہیں۔ یورپ کے کئی ملکوں میں لوگ اپنے حکمرانوں پر امریکی پٹھو ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ انہی الزامات کی زد میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی آچکے ہیں۔
 
یونان سمیت کئی ملکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے یورپی یونین خصوصی فنڈ مہیا کر چکی ہے۔ ان حالات میں یورپ کی قیادت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کب تک اپنے ملکوں کے عوام اور مفادات کو امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس میں شک نہیں کہ اس کے عوام 1979ء کے انقلاب کے بعد سے کٹھن امتحانات دیتے چلے آئے ہیں۔ ان کی حوصلہ مند قیادت اپنے عوام کو حقائق سے باخبر رکھتی ہے اور ان کے اعتماد کے سہارے آگے بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ اس سے توقع ہے کہ وہ اس امتحان سے بھی سرخرو نکلے گی۔
خبر کا کوڈ : 205561
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش