0
Saturday 15 Dec 2012 00:30

قیام امام حسین (ع) اہلسنت علماء کی نظر میں (3)

قیام امام حسین (ع) اہلسنت علماء کی نظر میں (3)
تحریر: سردار تنویر حیدر

امام حسین (ع) انبیا ء کے وارث ہیں:
گذشتہ تفصیل سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ کامیابی صرف انبیاء کرام ہی کا مقدر ہے نہیں، قیامت تک جو انسان بھی عناصر فلاح اپنائیں گے اور انبیاء کی راہ پر چلیں گے کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ فوز و فلاح کے یہ اصول انسان کے لیے ہیں صرف انبیاء کے لیے نہیں۔ انبیاء تو نمونہ اور اسوہ ہیں۔ چنانچہ خلافت راشدہ کے بعد جب امت پر کڑا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ حقیقی کامیابی کا ایک نمونہ پیش فرماتا ہے، عناصر فلاح کے حَسین مجموعے، حُسین کو کھڑا کیا جاتا ہے اور انبیاء کے بعد قیامت تک کے لیے انہیں حق و صداقت کا معیار قرار دے دیا جاتا ہے۔ امام حسین (ع) کی کامیابی کو سمجھنے کے لیے سورہ العصر کے بیان کردہ اصول اربعہ کی روشنی میں آپ (ع) کی حیات طیبہ کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں:
 
(ا) ایمان:
جس نے علی و فاطمہ (رض) کے گھر جنم لیا ہو، جس کے کان میں پہلی آواز اللہ اکبر کی پڑی ہو اور وہ بھی لسان رسالت سے، جسے گھٹی میں لعاب نبوت ملا ہو، جس کی تربیت آغوش رسالت اور دامن ولایت میں ہوئی ہو، اس کی ایمانی کیفیت کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟
(ب) عمل صالح:
آپ (رض)کا بچپن اور جوانی مسجد نبوی کے پرنور ماحول میں گزرے، رسالت و ولایت کی عنایتوں کے ساتھ تمام صحابہ کرام (رض) کی محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز تھے۔ ذوق عبادت فطری تھا، نماز گھٹی میں پڑی تھی، روزے کے دلدادہ تھے۔ شہادت کے روز بھی روزے سے تھے اور زندگی کی آخرب عبادت نماز تھی۔ زکوٰۃ و صدقات میں رغبت اتنی تھی کہ تین دفعہ اپنا تمام اثاثہ اور گھر بار اللہ کی راہ میں خیرات کیا۔ حج کے اتنے شائق تھے اور احترام بیت اللہ اس قدر تھا کہ سواری ہونے کے باوجود پچیس مرتبہ پیدل حج کیا۔ ایمان اور عمل صالح کے عناصر سے جب آپ (رض) کی تکمیل ذات ہو جاتی ہے اور امت کی قیادت کی ذمے داری آپ (رض) کے کندھوں پر آ پڑتی ہے تو تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا نور آپ (رض) کی شخصیت سے پھوٹتا ہے۔ 

(ج) تواصی بالحق:
امام حسین (رض) کی تواصی بالحق آپ (رض) کے خطبات میں نظر آتی ہے، یہ خطبات آپ (رض) کے قیام کے اسباب بھی بیان کرتے ہیں اور آپ(رض)  کے موقف کی ترجمانی بھی۔ کوفہ کی راہ میں مقام بیضہ پر دوستوں اور دشمنوں، سب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو!رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتا ہے اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کو پامال کرتا ہے، عبدالٰہی توڑتا ہے، سنت کی مخالفت کرتا ہے بندگان خدا پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتا ہے اور دیکھنے والا دیکھنے کے بعد اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرتا ہے، نہ اپنے قول سے تو ایسے لوگوں کو اللہ اچھا ٹھکانہ نہیں بخشے گا۔ دیکھو! یہ لوگ شیطان کے پیرو بن گئے ہیں، رحمان سے سرکش ہو گئے ہیں، ہر طرف فساد ہے، حدود الٰہی معطل ہیں، مال غنیمت پر ناجائز قبضہ ہے، اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایا جارہا ہے۔ ان حالات میں ان کی سرکشی کو حق و عدل سے بدل دینے کا میں سب سے زیادہ حق دار ہوں‘‘۔(طبری:۵/۴۰۳)
ذی حسم میں ایک اورخطاب میں فرمایا: افسوس! تم دیکھتے نہیں کہ حق پس پشت ڈال دیا گیا ہے، باطل پر اعلانیہ عمل کیا جا رہا ہے، وقت آگیا ہے کہ مومن راہ حق پر چلتے ہوئے لقاے الٰہی کی خواہش کرے۔ میرے نزدیک موت شہادت کی موت ہے اور ظالموں کے ساتھ حیات بجائے خود ایک جرم ہے۔ (طبری:۵/۴۰۴) 

(د) تواصی بالصبر:

یوں تو سارا سفر کربلا صبر و رضا کا مرقع ہے، لیکن درج ذیل واقعے سے امام حسین (ع) کے مقام صبر کا اندازہ ہوتا ہے:
’’امام علی بن حسین زین العابدین (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس رات کی صبح کو میدان شہادت گرم ہونے والا تھا، عین اسی شب کا قصہ ہے کہ میں بیمار پڑا تھا، میری پھوپھی زینب (رض) میری تیمارداری میں مصروف تھی، میرے والد (رض) اصحاب کے ساتھ اپنے خیمے میں چلے گئے، ابو ذر غفاری (رض) کا غلام حوی آپ (رض) کی تلوار کو صیقل کررہا تھا اور آپ (رض) چند اشعار پڑھ رہے تھے، میں سمجھ گیا کہ آپ (رض) کا ارادہ کیا ہے؟ میری آنکھوں سے بےاختیار آنسو جاری ہو گئے اور مجھے یقین ہو گیا کہ ہم پر ابتلاء الٰہی نازل ہو گئی ہے اور اب اس سے چارہ نہیں۔ 

پھوپھی جان نے بھی اشعار سن لیے، وہ ضبط نہ کر سکیں، کیونکہ عورتیں قدرتی طور پر نرم دل ہوتی ہیں، وہ چلا اٹھیں: ’’ہائے بدنصیبی! کاش مجھے موت آ جاتی، آج اماں فاطمہ، ابا علی اور بھائی حسن کی (پھر) موت ہو رہی ہے!‘‘۔ حسین (رض) ان کے پاس گئے اور فرمایا: ’’پیاری بہن! حلم کا دامن تھامے رکھو‘‘۔ لیکن زینب (رض) شدت غم و حزن سے بےقرار تھیں، وہ دیکھ رہی تھیں کہ آنے والی صبح کیسی خونیں صبح ہے، فرط غم میں چہرہ پیٹ لیا اور واویلا، واحسرتا پکارتی ہوئی بےہوش ہوکر گر پڑیں۔ 

حسین ان کی جانب بڑھے، ان کے چہرے پر پانی ڈالا جب ہوش میں آئیں تو فرمایا: پیاری بہن! اللہ سے ڈرو اور اللہ کے فرمان کے مطابق عزا کا جو طریقہ ہے اسے اختیار کرو اور خوب سمجھ لو کہ زمین والے بھی مر جائیں گے اور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گے، ہرشی ہلاک ہونے والی ہے، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے، جس نے اپنی قدرت سے زمین کو پیدا کیا اور مخلوق کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ ابا، اماں، بھائی سب مجھ سے بہتر تھے۔ (وہ نہ رہے، میں بھی نہیں رہوں گا)۔ چنانچہ امام حسین (رض) نے اسی موقعہ پر وصیت کی: ’’پیاری بہن! میں تمھیں قسم دیتا ہوں اور میری قسم پوری کرنا جب میں شہید ہوجاؤں تو گریبان نہ پھاڑنا، چہرہ نہ چھیلنا اور ہائے مصیبت، وائے نصیب نہ پکارنا۔‘‘(تاریخ طبری، ۵/۴۲۱) حق کی خاطر اپنی اولاد اور اعزہ کی قربانیاں پیش کرنے کے بعد خود اپنی شہادت پر امام حسین (رض) نے جس انداز میں صبر کیا، اس سے اولوالعزم انبیاء کی سنت زندہ ہوئی، ھابیل کی باتیں یاد آئیں، مسیح کی مظلومی اور بےکسی کے دردناک مناظر سے سرزمین کربلا لرز اٹھی اور سورۃ العصر کا تاریخی دعویٰ ایک مرتبہ پھر اپنی حقیقتوں کے ساتھ یوں ثابت ہوا کہ:
ایمان غالب رہا طغیان مغلوب ہوا
عمل صالح جیتا فسق و فجور ہارا
حق باقی رہا باطل فنا ہو گیا
صبر بامراد ہوا جبر نامراد ہوا
 

حسین (رض) اب بھی زندہ ہے اور عزت کے ساتھ زندہ ہے، یزید زندگی میں مرگیا اور ذلت کی موت مرا، یزید کی دولت، قوت، وجاہت، حکومت سب کچھ ہار گئی، حسین (رض) کی بےچارگی، بےکسی اور کمزوری جیت گئی۔ اس لیے کہ حسین (رض) کے شب و روز سورۃالعصر کے سایے میں بسر ہوتے تھے، سورۃ العصر آپ (رض) کے رگ و ریشے میں سرایت کیے ہوئے تھی، بلکہ آپ کے خیر میں گندھی ہوئی تھی!اور امام العصر وہی ہو سکتا ہے، سورۃ العصر جس کے خمیر میں گندھی ہو! شہادت امام (رض) کو صدیاں بیتیں اور نہ معلوم کتنی اور بیتیں گی، لیکن سورۃ العصر شہادت دے رہی ہے کہ: عصر حاضر کے امام، حسین (رض) ہیں۔
خبر کا کوڈ : 220682
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش