0
Friday 21 May 2010 16:06

ایران مخالف امریکی مجوزہ قرارداد کس بنیاد پر؟

ایران مخالف امریکی مجوزہ قرارداد کس بنیاد پر؟
آر اے سید
ایک ایسے وقت جب ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے فارمولے پر ایران برازیل اور ترکی کے درمیان ہونے والے سمجھوتے اور اس کے اعلامیہ کی خبریں ابھی بھی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں ہيں امریکہ نے اپنے ایک عاجزانہ اقدام کے تحت ایران کے خلاف ایک اور قرارداد منظور کرانے کے لئے نیا مسودہ سلامتی کونسل میں پیش کیا ہے۔
امریکہ کا یہ اقدام غیر متوقع بھی نہيں تھا کیونکہ امریکی حکام کے موقف کے پیش نظر جو انھوں نے تہران اجلاس سے پہلے ہی اپنا رکھا تھا۔چنانچہ واشنگٹن نے تہران میں ہونے والی ترک اسلحہ کانفرنس میں اٹھائے جانے والے موضوعات سے لوگوں کے اذہان کو منحرف کرنے کے لئے پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی تھی۔اگرچہ سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف پیش کئے گئے امریکی مسودے کے مندرجات ابھی تک باضابطہ طور پر شائع نہيں ہوئے ہيں۔لیکن بعض نیوز ایجنسیوں نے اس حوالے سے جو خبریں نشر کی ہيں،ان کے مطابق اس مسودے میں ملکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایران کو بھاری ہتھیار،جن میں ٹینک، بکتربند گاڑیاں اور میزائیلی سسٹم کے علاوہ جنگی ہیلی کاپٹر اور جنگی کشتیاں شامل ہيں،فروخت نہ کریں۔ 
اس مسودے میں اسی طرح دوسرے ملکوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنے اپنے ملکوں میں ایسے ایرانی بینکوں کی برانچیں نہ کھولنے دیں جن کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہوں کہ یہ بینک ایران کے ایٹمی پروگرام ميں کسی نہ کسی طرح دخیل ہيں۔سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے پیش کئے گئے مسودے میں انحرافی موضوعات کا بیان کیا جانا،جن میں یورینیم کی افزودگی کو بھاری ہتھیاروں کی فروخت سے مربوط گردانا گیا ہے،اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ کا مقصد کچھ اور ہے۔دراصل امریکہ اسرائیل کے شانہ بشانہ پہلے دن سے ہی اپنا اصل مقصد اعلان کر چکا ہے۔اور اس کی کوشش ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو دھوکہ دے کر عالمی رائے عامہ کی توجہات کو اصل معاملے سے منحرف کر دے۔
امریکہ نے پانچ سال قبل بھی جب اس وقت کے آئی اے ای اے کے سربراہ محمد البرادعی نے اعلان کیا تھا کہ ایران کا ایٹمی مسئلہ حل ہو گیا ہے اور اس میں کوئی انحراف نہيں پایا جاتا اور اس کا ایٹمی معاملہ اب سلامتی کونسل سے آئی اے ای اے میں دوبارہ واپس لوٹایا جاسکتا ہے،اسی طرح کے اقدامات کئے تھے۔امریکہ نے اس وقت بھی ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام میں انحراف کے حوالے سے جھوٹے دعوے کر کے کہا تھا کہ اس کے پاس اس سلسلے میں ثبوت موجود ہيں،مگر اس نے آج تک ایک بھی ثبوت پیش نہيں کیا۔اس وقت بھی امریکہ کو تہران میں ہونے والے سہ فریقی سمجھوتے کے اعلامیہ سے تشویش لاحق ہے کیونکہ اس صورت حال نے اسے سخت مخصمے میں ڈال دیا ہے۔
دوسری جانب اگر واشنگٹن ایٹمی معاملے میں ایران کے ساتھ منطقی راہ حل کو قبول کر لے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکہ نے ایران کو ایک ایٹمی ملک کی حیثيت سے تسلیم کر لیا ہے اور امریکہ نہیں چاہتا کہ ایٹمی ٹکنالوجی پر اس کی اجارہ داری ختم ہو جائے۔ تہران اعلامیہ اور ترکی میں ایٹمی ایندھن کے تبادلے پر مبنی برازیل اور ترکی کی تجویز کا ایران کی طرف سے قبول کر لیا جانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایران دوسروں کی باتوں کا احترام کرتا ہے۔
اس موقع پر اب سب کی نظریں اس بات پر لگی ہوئي ہيں کہ سلامتی کونسل امریکہ کے غیر قانونی اقدام پر کیا قدم اٹھاتی ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ آيا یہ کونسل صرف امریکہ اور چند ديگر ملکوں کے قبضہ میں ہے یا پھر اپنے فیصلے اور ارادوں میں آزاد و خود مختار ہے اور کس حد تک وہ صحیح سمت میں قدم اٹھا سکتی ہے؟
خبر کا کوڈ : 26293
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش