1
0
Thursday 26 Dec 2013 17:19

وزیراعلٰی گلگت بلتستان کے نام!

وزیراعلٰی گلگت بلتستان کے نام!
تحریر: سجاد کامل

بے شمار قومی اور بین الاقوامی موضوعات ایسے ہیں جن پر قلم اٹھانا ناگزیر ہے۔ حالات اتنی تیزی سے ڈرامائی رخ اختیار کرتے ہیں کہ ذہن پر بے شمار موضوعات ہر وقت گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ راقم التحریر کی زیادہ تر تحریریں بین الاقوامی موضوعات پر ہوتی ہیں مگر جب کبھی میں کوئی کالم گلگت بلتستان پر لکھتا ہوں اور خطے کے مسائل کی نشاندہی کرتا ہوں، لوگوں کی مشکلات کو اجاگر کرتا ہوں تو فون کالز یا ایس یم ایس کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ان بکس لوگوں کی ای میلز سے بھر جاتا ہے۔ لوگ فریادوں کے پلندے بھیج رہے ہوتے ہیں۔ مسائل اور ظلم کی داستانیں سنائی جاتی ہیں۔ زیادتیوں کے قصوں کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ سب سے زیادہ رشوت ستانی پر چیخ پکار سنائی دیتی ہے۔ دراصل عوام کی کوئی آواز نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ صاحب اقتدار ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی ان کے حق میں آواز اٹھاتا ہے تو انہیں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کوئی مسیحا ہو۔ وہ اپنی امیدیں اس سے جوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آمروں کے ابتدائی ادوار بھی عوام کیلئے امیدوں کا محور رہے ہیں اور گذشتہ عدلیہ تحریک بھی ایک ایسی ہی کڑی تھی۔

قلمکاری کی آج کی اس کوشش کے ذریعے محرومیوں پر سے پردہ ہٹانا ہے۔ یقین کا رشتہ اس حد تک ہے کہ یہ کالم درجن بھر نامور اخبارات میں جگہ حاصل کریگا۔ کوئی ڈیڑھ سو بلاگز میں نمودار ہوگا اور سوشل میڈیا میں گردش بھی کر رہا ہوگا مگر ذرہ برابر بھی امید نہیں ہے کہ یہ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے افراد کی نظر سے گزرے اور وہ اپنی کارستانیوں کی روداد سن کر ندامت و خجالت ہی محسوس کرلیں۔ لگتا ہے طبقہء اشرافیہ کسی دوسرے سیارے میں عوامی مال سے پر تعیش زندگی کے مزے لے رہے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعلٰی گلگت بلتستان سے مطلق بات کرنا محض وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ پوری پارٹی اب ناسمجھ اور فارغ افراد کا گروہ بن چکی ہے۔ پارٹی ابھی تک 70ء کے طرز پر سیاست کرنے میں مصروف ہے۔ 30 سال پرانے نعرے جو موجودہ صورت حال اور لوگوں کی امنگوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
 
پی ٹی آئی، نون لیگ اور حتٰی کہ ایم کیو ایم کے فعال اور متحرک میڈیا سیلز موجود ہیں۔ تعلیم یافتہ، چاک و چوبند نوجوان میڈیا اور سوشل میڈیا پر پارٹی کیلئے کام کر رہے ہیں۔ مختلف بلاگز، گروپس اور پلیٹ فارمز پر جدید ذرائع سے لوگوں سے اس طرح رابطے میں ہیں کہ لوگوں کی خواہش و آراء سے واقفیت ہوتی ہے۔ جسے وہ اپنی پارٹی کے تھنک ٹینک تک پہنچاتے ہیں۔ حالات و واقعات کے مطابق انکی پراسیسنگ کے بعد نتائج کو سائنسی انداز میں موثر طریقے سے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح پارٹی اور عوام الناس کے درمیان ایک رابطہ قائم ہو جاتا ہے جبکہ پی پی پی ان طریقوں پر اکتفا کر رہی ہے جو 30 سال پرانے تھے۔ مثلاً ماضی بعید کی قربانیوں کے نعرے یا علاقے کے وڈیرے، ٹھیکیدار اور ان پڑھ طبقات کو رشوت اور سفارش کا جھانسہ دے کر خریدنا۔ انکے ناجائز اور غیر قانونی کام کرنا اور علاقے کے ووٹ حاصل کرنا۔ اب وقت بدل چکا ہے۔ میڈیا گھر گھر شعور کے در وا کر رہا ہے۔ لوگ بہت تیزی سے سمجھ داری سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پارٹی ایک صوبہ تک محدود ہوگئی ہے اور آئندہ انتخابات تک اسکی گرفت وہاں سے بھی ختم ہوچکی ہوگی۔

گلگت بلتستان بدامنی اور بدعنوانی کا مسکن بن چکا ہے۔ مسائل کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ذہن ماوف ہوجاتا ہے کہ کس مسئلے کا ذکر کرے اور کس کو نظر انداز کیا جائے۔ ان تمام حالات میں وزیراعلٰی کا کردار بے حد مایوس کن رہا ہے۔ خطے میں تعمیری اقدامات تو دور کی بات، موصوف رشوت اور سفارش کو جائز بنا کر پیش کرنے کی سعی میں ہیں۔ بے شمار افراد ان کے دور میں انکی آشرباد سے کھلے عام رشوت دیکر بھرتی ہوئے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دوسری طرف وزیراعلٰی صاحب کھل کر ان تمام ناجائز اقدامات پر محو دلالت ہیں۔ وہ شخص جس کے فرائض منصبی میں ہے کہ وہ لوگوں کے حقوق کا ضامن بنے، انصاف کا نظام وضع ہو۔ تعلیم اور ترقی کو عام آدمی کی دسترس میں لے آئے۔ صد افسوس! توانائیوں کا استعمال رشوت ستانی عام کرنے پر ہو رہا ہے۔ کوئی ایک بھی کام ایسا قابل ذکر نہیں کہ جس پر قلم اٹھایا جاسکے۔

مجھے لوگوں کے ایس ایم ایس اور ای میلز میں یہ جان کر نہ صرف حیرت ہوئی بلکہ صدمہ بھی پہنچا کہ اکیسویں صدی کے اس سائنسی دور میں گلگت بلتسان کے اکثر علاقے ایسے ہیں جہاں مہینے مہینے بجلی ہوتی ہی نہیں۔ بدامنی سے لوگوں کا بائی روڈ سفر کرنا محال ہے۔ دوسری طرف پی آئی اے میں کھلے عام کمیشن وصول کرکے ٹکٹیں کنفرم کروانے کا دھندہ بھی اپنے عروج پر ہے۔ پی آئی اے میں بھرتیوں کا کوئی قاعدہ ہے ہی نہیں۔ سفارشیوں کی بھرمار ہے۔ واپڈا اور پی ڈبلیو ڈی میں ایسے افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جو سرے سے دفاتر کا رخ کرتے ہی نہیں۔ تنخواہوں سے کچھ فیصد آقاوں کو دلائی جاتی ہے اور حرام خوری کا کام جاری و ساری ہے۔

آخر میں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ فرعون و یزید سے لیکر بڑ ے بڑے ظالم حکمران اپنے دور حکومت میں بدمستیوں میں گھرے رہے اور عیش و نشاط میں غرق رہے، مگر ایک نہ ایک دن اپنے انجام کو ضرور پہنچے۔ خود ہمارے ملک کو ہی لے لیجئے، بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں اور اہم عہدوں پر فائز افراد کا احتساب ہوا تو وہ گم نامی اور بدنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کر قصہ پارینہ بن گئے۔
خبر کا کوڈ : 334486
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سجاد بھائی آپکو محمکہ تعلیم میں ہونے والی بدعنوانیاں نظر نہیں آرہی کیا۔۔
ہماری پیشکش