0
Wednesday 1 Jan 2014 01:29
پاکستانی عوام کسی خمینی کے منتظر ہیں

پاک ایران گیس منصوبہ مکمل نہ ہوا تو نواز لیگ اقتدار میں نہیں رہے گی، رحمت وردگ

امریکہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کر کے توڑنا چاہتا ہے
پاک ایران گیس منصوبہ مکمل نہ ہوا تو نواز لیگ اقتدار میں نہیں رہے گی، رحمت وردگ
رحمت خان وردگ تحریک استقلال کے مرکزی صدر ہیں، ممتاز سیاست دان ہیں، بےباک اور مدلل گفتگو کی وجہ سے میڈیا کی مقبول اور ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ ضلع اٹک سے تعلق رکھتے ہیں، آج کل کاروبار کے سلسلہ میں زیادہ وقت کراچی میں ہی گزارتے ہیں، پارٹی کے معاملات بھی کراچی میں ہی بیٹھ کر چلاتے ہیں، ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، معیشت اور توانائی سمیت دیگر بحرانوں کا حل حکمرانوں کی سنجیدگی کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکمران اگر سنجیدہ اور مخلص ہو جائیں تو مسائل حل ہو جائیں گے، امریکہ کی پالیسیوں پر ہمیشہ بےلاگ تبصرہ کرتے ہیں۔ طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے قائل ہیں، جیو اور جینے دو کے اصول کو مانتے ہیں، فرقہ واریت کے خلاف ہیں، متصب علماء کو پسند نہیں کرتے، عالم باعمل کی قدر کرتے ہیں، گذشتہ روز لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کے ساتھ گفتگو کی، جو ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
                                        
اسلام ٹائمز: بےنظیر بھٹو کی برسی پر بلاول نے بڑی جارحانہ تقریر کی جبکہ آصف علی زرداری کا خطاب مفاہمانہ تھا، اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
رحمت خان وردگ: یہ سارا معاملہ طے شدہ تھا، پلاننگ کے تحت ایسا کیا گیا، پیپلز پارٹی اتنی بڑی پارٹی ہے، کوئی ایسی بات ایسے ہی نہیں ہو جاتی، آصف زراری نے طے کیا تھا کہ بلاول یہ خطاب کرے گا۔ بلاول نے اپنے خطاب میں مستقبل کے لئے کلیئر لائن کھینچ دی اور اس تقریر سے اس نے بہت سے ملکوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ خطاب پیپلز پارٹی کا پالیسی خطاب تھا، آصف زرداری نے معاملہ بیلنس کیا تاکہ مستقبل میں اس کے لئے مسئلہ کھڑا نہ ہو۔ اس نے صرف اس ادارے کے خلاف تقریر کی جس کا پانی سب پیتے ہیں۔ آج آپ بلا کہہ رہے جس شخص کو آپ نے گارڈ آف آنر پیش کیا اور نواز شریف کو خوش کرنے کے لئے یہ بات کر دی کہ گھبرائیں نہیں جمہوریت کی بقاء کے لئے ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اصل میں یہ نواز شریف کے لئے مسئلہ کھڑا کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ نوازشریف بھی پانچ سال گزار لیں لیکن کر کچھ نہ سکیں۔ اگر نواز شریف کی جگہ میں وزیراعظم ہوتا تو اس خطاب کو اہمیت ہی نہ دیتا۔ بےنظیر کی برسی کی تقریب میں اصل خطاب بلاول بھٹو زرداری کا تھا، اس نے جو کچھ کہا وہ اس کے دل کی آواز تھی، ایک لاش اس کی والدہ کی گئی، ایک اس کے نانا کی، ایک لاش مرتضیٰ بھٹو کی گری، جس نے بھی مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا، میں بھٹو خاندان کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں کہ لاش وصول کرنے کے باوجود سیاست میں ہیں۔ بلاول کی تقریر کے بعد چین، برطانیہ، امریکہ اور روس سمیت تمام ممالک ان کے ساتھ ہو گئے ہیں۔ بلاول نے کہا کہ پاکستان میں جو آئین کو نہیں مانتا اس کو ہم نہیں مانتے، دہشت گردی میں مارے جانے والوں کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔ اس کا جواب سمیع الحق نے دے دیا کہ طالبان تو آئین کو مانتے ہیں لیکن دوسری جانب یہ دیکھیں کہ آئین پر عمل نہیں ہو رہا، علامہ طاہر القادری نے اپنے خطاب میں بہت سے آئینی نکات اٹھائے کہ ان پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا، حکمرانوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ حکومت دوہرے معیار کا شکار ہے، جو کہتی ہے وہ کرتی نہیں، دہشت گردی کے معاملے میں بھی آپ نے دیکھا کہ حکومت کی صرف باتیں ہیں عمل نہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے مذہبی ہم آہنگی کیلئے صوبائی اور وفاقی سطح پر کونسلیں تو بنائیں ہیں، کیا اس اقدام میں کامیابی دکھائی دے رہی ہے؟
رحمت خان وردگ: حکومت دل سے کرے تو کامیابی ہو گی، منافقت نہ کریں تو یہ کوئی مسئلہ نہیں، فرقہ واریت ایک دن میں ختم ہو سکتی ہے اس کیلئے خلوص شرط ہے، نیک نیتی شرط ہے، ارادہ مضبوط ہونا چاہیئے، مصلحت پسندی کا شکار نہ ہوا جائے تو اس آسیب سے نجات ممکن ہے۔ ہمارے پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت میں 72فرقے ہوں گے تو یہ ہوں گے، میرے نبی پاک کا فرمان غلط نہیں ہو سکتا، اب جب اتنی تعداد میں فرقے ہونے ہیں تو آپ کو کیا مسئلہ ہے کہ آپ کسی کو کافر قرار دیں، یہ اللہ کا معاملہ ہے، اللہ جانے اور وہ جانے، کیوں کہ اللہ، رسول اور قرآن کو سب مانتے ہیں، فرائض پر کسی کا اختلاف نہیں، تمام فرقے ایک جیسی نمازیں پڑھتے ہیں، سارے فجر کے دو، ظہر کے چار، عصر کے چار، مغرب کے تین اور عشاء کے چار فرض ہی پڑہتے ہیں، سب کا رخ بھی ایک ہی قبلہ کی طرف ہوتا ہے سارے جھکتے بھی ایک ہی خدا کی بارگاہ میں ہیں۔ ساروں کا قبلہ کعبہ ہے، سب کی کتاب قرآن ہے، سب کے رسول بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ تو اختلاف کس بات کا، یہ تو دکانداری ہے کچھ مخصوص فسادی علماء کی، لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ ان کے اختلافات کی وجہ سے ملک کو کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ مذہبی اختلافات ختم کئے بغیر ملک مضبوط نہیں ہو سکتا۔ جب ختم نبوت کانفرنس ہوتی ہے تو اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء اکھٹے بیٹھے ہوتے ہیں، وہاں کو کافر نہیں ہوتا، سب مسلمان حرمت رسول کیلئے جمع ہو جاتے ہیں۔ لیاقت بلوچ کے بیٹے کی شادی تھی وہاں بھی تمام مکاتب فکر کے علما جمع تھے، یہ علما اگر ختم نبوت کانفرنس میں، شادی بیاہ میں مل سکتے ہیں تو عام پلیٹ فارمز پر کیوں نہیں مل سکتے؟ اس کے لئے خلوص کی ضرورت ہے، حکومت خلوص کا مظاہرہ کرے تو کامیابی ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ملک کو گھمبیر مسائل سے نکالنے کیلئے اتحاد کی ضرورت ہے، قرآن تمام زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے تو ہر شخص کو انفرادی طور پر بھی قرآن سے استفادہ کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: علامہ طاہرالقادری کی لاہور میں مہنگائی کے خلاف ریلی سے ملک میں کوئی تبدیلی آئے گی؟
رحمت خان وردگ: تبدیلی ریلیوں سے نہیں آتی، علامہ طاہرالقادری کے پاس پندرہ بیس ہزار ووٹ ہیں۔ ایک ووٹر اپنے ساتھ دس آدمی تو لا سکتا ہے، تو اس حوالے سے پاکستان عوامی تحریک کی یہ ریلی کامیاب رہی، علامہ طاہرالقادری نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنے کی غلطی کی ہے ان کی ریلی میں اس طرح لاکھوں افراد آئے ہیں اگر یہ خود ریلی میں موجود ہوتے اور خطاب کرتے تو یہ تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہو جاتی، ریلی میں علامہ طاہر القادری کا نہ ہونا بھی لوگوں کی کمی کا باعث بنا ہے۔ ریلی میں جس بات کی کمی محسوس کی گئی وہ یہ کہ علامہ طاہر القادری نے قوم کو کوئی پیغام، کوئی ہدف، کوئی لائحہ عمل نہیں دیا۔ مہنگائی تو ملک میں ہے، لیکن انقلاب کیلئے عوام کو کیسے تیار کریں، عوام انقلاب کے لئے تیار ہیں، لیکن قیادت نہیں، قوم کسی خمینی کے انتظار میں ہے، پاکستان کے عوام قیادت کے فقدان کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ علامہ طاہرالقادری اور عمران خان ایجنڈا کسی حد تک ایک ہے، اگر یہ دونوں قوتیں مل جاتیں تو نوازشریف کبھی بھی اقتدار میں نہ آ سکتے تھے۔

اسلام ٹائمز: رانا ثناءاللہ نے تو طاہرالقادری کی ریلی کو منہاج القرآن کے اساتذہ اور طلباء کا اجتماع قرار دیا ہے؟
رحمت خان وردگ: رانا ثناءاللہ کو شرم آنی چاہیئے، اس نے یہ بھی کہا کہ یہ علامہ طاہرالقادری کے ملازمین کا اجتماع تھا، اگریہ سب لوگ طاہرالقادری کے ملازم تھے تو بھی طاہرالقادر کو داد دینی چاہیئے جنہوں نے اتنے ملازم تو رکھے ہوئے ہیں کہ ان کی ریلی جی پی او چوک سے فیصل چوک تک تھی، بہر حال میں کہوں گا کہ یہ نوازشریف کی خوش قسمتی ہے کہ علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کا اتحاد نہیں ہوا، اگر یہ دونوں متحد ہو گئے تو نواز شریف کا اقتدار نہیں رہے گا۔ تبدیلی آ جائے گی، ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں تو عمران خان اور طاہر القادری کو اتحاد کر لینا چاہیئے۔ 71ء میں ہماری جماعت نے کراچی میں ریلی نکالی تھی، وہ ریلی پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی تھی، دنیا حیران ہو گئی تھی کہ اتنے سارے لوگ کہاں سے آ گئے اور ہماری اتحادیوں کی تو باچھیں کھل اُٹھیں تھیں اور وہ پھولے نہیں سما رہے تھے، کہ اتنے زیادہ لوگ ہمارے پیچھے ہیں لیکن میں نے اس وقت بھی کہا کہ تھا کہ ہمیں اتنے ووٹ نہیں ملیں گے جتنے لوگ آ گئے ہیں، ہمیں لائحہ عمل دینا چاہیئے، ہمیں کوئی مقصد قوم کو بتانا چاہے، تو علامہ طاہرالقادری کی ریلی بلاشبہ بڑی ریلی تھی لیکن افسوس کہ علامہ طاہرالقادری کو لائحہ عمل نہیں دے سکے، کو مشن نہیں بتا سکے کہ انکی جماعت اس طرح تبدیلی لائے گی۔ اب یہ سوال تشنہ ہے کہ علامہ طاہرالقادری کس طرح تبدیلی لائیں۔

اسلام ٹائمز: تو موجودہ پارلیمنٹ کیا مسائل حل کرنے میں ناکام ہے؟
رحمت خان وردگ: پارلیمنٹ کی تو بات ہی نہ کریں، پارلیمنٹ کا کیا ہے، اس کے کہنے پر کچھ نہیں ہوتا، پارلیمنٹ میں ڈرون حملے رکوانے کے لئے قرار داد پاس ہوئی ان کا کیا بنا، کچھ بھی نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے اپنی ہی قرارداد کی نفی کر دی۔ اب دیکھیں عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف دھرنا دیا، پارلیمنٹ نے دھرنے کی مخالفت کر دی، اصل میں یہ مخالفت پارلیمنٹ نے اپنی ہی منظور کی ہوئی قرارداد کی کر دی ہے جو وہ پہلے خود منظور کر چکی ہے، تو اس بارے میں کچھ کہنا یا اس سے توقع رکھنا عبث ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیرداروں کے خلاف ایجنڈا دیا، پارلیمنٹ میں پہنچے تو وہاں وہی جاگیردار آدھے سے زیادہ پہنچے ہوئے تھے تو اپنے پہلے پہلے خطاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے قوم سے معافی مانگ لی، کہ میں نے الیکشن سے پہلے جو آپ سے وعدہ کیا تھا کہ زرعی اصلاحات کروں گا اس پر معافی مانگتا ہوں کیوں کہ میں اس پارلیمنٹ میں وہ اصلاحات نہیں کرا سکتا، جن کے خلاف قانون یہاں پاس ہونا ہے وہ تو اکثریت میں یہاں بیٹھے ہیں۔ تو پارلیمنٹ بس نام کی ہے۔ اس سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیئے۔ ہاں ڈرون حملے رکوانے ہیں تو نیٹو ممالک سے رابطہ کیا جائے۔ ان سے کہا جائے کہ آپ انسانی حقوق کے لئے امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں، لیکن ڈرون حملوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو وہ یقیناً امریکہ کی مخالف کر دیں گے، تو یہ ایک راستہ ہے۔

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ نے بھی ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد پاس کی ہے؟
رحمت خان وردگ: اقوام متحدہ تو امریکہ کی لونڈی ہے، اقوام متحدہ ہی نہیں، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اور دیگر عالمی ادارے، امریکہ کے غلام ہیں، یہ جتنی مرضی قراردادیں منظور کر لیں اس وقت تک وہ قرارداد بےمعنی ہے جب تک امریکہ نہ چاہیئے۔ آپ دیکھیں کہ کشمیر کے مسئلہ پر بھی تو اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کی تھی اس کا کیا بنا؟ کچھ بھی نہیں، آج تک معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اب آپ دیکھیں ہمارا ملک توانائی بحران کا شکار ہے، پیپلز پارٹی نے پانچ سال کچھ نہیں کیا، لیکن آخر میں انہوں نے پاک ایران گیس منصوبے کا معاہدہ کر کے اپنی تمام کوتاہیوں کو کور کر لیا ہے اور اپنا وقار بنا گئے ہیں۔ اب نواز شریف نے امریکہ غلامی میں پاک ایران گیس منصوبہ سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کر کے توڑنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے روس کو بھی اسی طرح توڑا تھا، اسے معاشی طور پر کمزور کیا گیا، اور آج امریکہ پاکستان کے ساتھ بھی وہی کر رہا ہے، اور پاکستان کے چار ملک بنانا چاہتا ہے اس حوالے سے سازشیں عروج پر ہیں، پاکستان کے عوام کو بیداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
رحمت خان وردگ: اگر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنی ہے تو اسے 12 اکتوبر سے شروع کیا جائے، اس میں جس جس نے کردار ادا کیا ان کے خلاف کارروائی کی جائے، مارشل لاء تو پرویز مشرف نے لگایا، جن ججوں نے اس کی توثیق دی، انہیں بھی لٹکایا جائے، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ سندھ میں چوتھی لاش چلی گئی تو خدانخواستہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ پہلی لاش پنجاب سے لیاقت علی خان کی گئی، دوسری لاش ذوالفقار علی بھٹو کی گئی، تیسری لاش بےنظیر کی بھجوائی گئی اب چوتھی تیاری پرویز مشرف کی جا رہی ہے تو اگر یہ چوتھی لاش ہم سندھ بھجوائی تو منظر کچھ اور ہو گا، اگر نواز لیگ پاکستان توڑنا چاہتی ہے تو پرویز مشرف لٹکا دے۔ سندھی تو پہلے کہتے ہیں یہ ہمارے سیاستدانوں کو، فوجی جرنیلوں کو نہیں چھوڑتے، یہ آگ بیرونی قوتوں نے لگائی ہے، اسے بڑھاوا نہ دیا جائے، پرویز مشرف کہتا ہے میں ڈیرہ بگٹی اور سوئی میں جا کر جلسہ کرنا چاہتا ہوں تو اسے جانے دیا جائے، اکبر بگٹی کے بیٹوں کو تو نواز شریف نے ڈیرہ بگٹی پہنچایا تھا یہ خود وہاں نہیں رہ سکے کیوں کہ وہاں کے عوام انہیں اچھا نہیں سمجھتے، اس لئے مشرف کہتا ہے کہ میں جب وہاں جا کر عوام کو حقائق بتاؤں گا تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گے، تو حکمران کیوں ڈر رہے ہیں، جانے دیں پرویز مشرف کو، مارا گیا تو یہ اس کی اپنی حماقت تصور ہو گی، اور بچ گیا تو حکمرانوں کی جانب سے اس پر یہ احسان ہو گا کہ انہوں نے اسے وہاں جانے کی اجازت دیدی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے سیاست دان منافق ہیں۔ بلوچستان کے مسائل کے زیادہ ذمہ دار مقامی سیاست دان خود ہیں۔ یہ خود اپنے بندوں کو مرواتے ہیں، اور صبح اداروں کے خلاف بیان داغ دیتے ہیں، اب بلوچستان میں بلوچوں کی ہی حکومت ہے، تو کیوں نہیں وہاں سے ایف سی کو نکالتے، اختیار تو ہے نا ان کے پاس نکالیں وہاں سے، لیکن نہیں ان کی اپنی دکانداری ہے جس کے لئے یہ ایسا نہیں کر رہے۔

اسلام ٹائمز:بجلی کا بحران دوبار شروع ہو گیا، گیس بھی نہیں مل رہی، حتیٰ گھریلو صارفین بھی پریشان ہیں، اس کا مستقل حل کیوں نہیں نکالا جا رہا؟
رحمت خان وردگ: مجھے لاہوریوں پر ترس آتا ہے، ان کے پاس گیس ہے نہ بجلی، 15 سال بعد یہ لاہور ہے پانی کے لئے بھی ترسیں گے، میری بات نوٹ کر لیں، 15 سال بعد یہاں کراچی جیسی صورت حال ہو جائے گی، ٹینکروں میں پانی ملا کرے گا اور لوگ برتن اٹھائے لائنوں میں لگ کر پانی لے رہے ہوں گے، بھئی آبادی بڑھ چکی ہے، حکومت کو اس جانب توجہ دینا ہو گی، ہماری آبادی تو بڑھ گئی لیکن ہم نے اس کی ضرورت کے مطابق بجلی اور گیس پیدا نہیں کی۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ ہم نئے شہر بساتے، بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ تقسم کرتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور نئے شہر بسانے کی بجائے سارا بوجھ بڑے شہروں پر ڈال دیا گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے جب آبادی بڑھ جائے تو نئے شہر بسائے جائیں، چین میں ایسا ہے ایک خاص لمٹ تک آبادی کی اجازت ہے، جب لمٹ کراس ہونے لگے تو نیا شہر بسا لیا جاتا ہے تو میرے بھائی حکمرانوں کو علم ہی نہیں وہ مسائل کے کن اندھیروں میں بھٹکنے جا رہے ہیں۔ تو حکومت کو سنجیدگی سے مسائل پر توجہ دینی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس منصوبے کی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی دے رہی ہے؟
رحمت خان وردگ: نواز شریف اگر پاک ایران گیس منصوبہ شروع نہیں کرتا تو حکومت کیخلاف تحریک شروع ہو جائے گی، جو اس حکومت کے اقتدار کے خاتمہ پر منتج ہو گی۔ ایران نے تو اپنی دوستی نبھائی اور اربوں ڈالر خرچ کر کے منصوبے کو مکمل کیا ہے، انہوں نے تو اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھا دی ہے، آپ کو بھی اس نے تعاون کی آفر کی ہے لیکن حکومت ایسا نہیں کر رہی، مجھے حکومت کی حالت پر رحم آ رہا ہے، اگر حکومت نے اس منصوبے کو مکمل نہ کیا تو یہ اپنے پانچ سال بہت مشکل سے پورے کرے گی، عوام تیاری کر رہے ہیں، یہ ملکی تاریخ کا واحد منصوبہ ہے جس میں عوام براہ راست دل چسپی لے رہے ہیں اور وہ حکمرانوں کا منہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ کر کیا رہے ہیں، اب دیکھیں کہ حکمران صرف امریکی خوف کی وجہ سے حیلے بہانے بنا رہے ہیں کہ یہ جی گیس مہنگی ہے ریٹ کم کریں، تو جس وقت یہ معاہدہ ہوا تھا اس وقت آپ کو سانپ سونگھ گیا تھا، اس وقت یہ قیمت آپ کو درست لگی تھی تو آپ نے معاہدہ کیا تھا نا، اب آپ کو مہنگی لگنے لگ گئی ہے، عوام یہ ساری گیم سمجھتے ہیں، عوام کو پتہ ہے کہ یہ امریکہ کے غلام حکمران ہیں، اس لئے امریکہ کی ناراضگی کو مول نہیں لینا چاہتے، امریکہ کی خوشنودی کیلئے انہوں نے عوامی مفاد بھی قربان کر دیا ہے، اس لئے عوام جانتے ہیں کہ انہیں اندھیروں میں رکھ کر ہمارے حکمران اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں اسی لئے وہ تیاری کر رہے ہیں اور جس دن لاوا پھٹ پڑا تو حکمرانوں کو منہ چھپانے کیلئے جگہ نہیں ملے گی، کوئی کب تک اندھیروں میں زندگی گزارتا رہے، ہماری معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے، مہنگائی اسی وجہ سے بڑھتی جا رہی ہے اور حکمران امریکہ کو خوش کرنے میں مصروف ہیں۔ حکمران اگر اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں تو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کر دیں۔
خبر کا کوڈ : 336036
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش