0
Sunday 26 Jan 2014 22:38

فرقہ پرست کون؟ (1)

فرقہ پرست کون؟ (1)
تحریر: عامر ریاض

پچھلے کچھ سالوں سے فرقہ واریت کے موضوع پر معتبر چینلوں پر جو بحثیں ہوئیں، انہوں نے مجبور کر دیا کہ آج ہمیں ان حساس اور انتہائی اہم معاملات پر بحثیں کرنے سے قبل کچھ بنیادی باتوں پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔ جیسے سیاست میں بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں، ایسے ہی مذاہب کے بارے میں بات کرتے ہوئے بنیادی اصول یہی ہے کہ آپ رواداری، بردباری اور اعتدال پسندی کو عملاً تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر آپ اس اصول کو مدنظر نہیں رکھتے تو پھر آپ فرقہ واریت کی مخالفت کرتے ہوئے فرقہ وارانہ استعارے ہی استعمال کرتے ہیں۔ یوں فرقہ وارانہ ماحول بدستور برقرار رہتا ہے۔ اس تحریر کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ 21ویں صدی میں ہم فرقہ پرستی کے جنجال سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ حیرت تو ان میڈیا دانشوروں پر ہے جو اکثر فرقہ واریت کی مخالفت بھی فرقہ وارانہ استعاروں سے کرتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا نظریہ یا مذہب نہیں جس کے ماننے والوں میں سو فی صد ہم آہنگی ہو کہ ہر مذہب یا نظریئے میں چھوٹے بڑے اختلافات موجود ہوتے ہیں۔

تنوع، رنگا رنگی یعنی diversity تو انسانی زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو ہے جبکہ یکسانیت یعنی uniformity کسی بھی لحاظ سے مثبت نہیں۔ اختلافات کی موجودگی بذات خود منفی نہیں اور اختلاف رکھنے والے اپنا اپنا الگ مکتبہ فکر یعنی School of Thought بنا لیتے ہیں۔ یہودیت، مسیحیت، اسلام، بدھ مت، ہندومت، سکھ مت ہی نہیں بلکہ سوشلسٹوں، قوم پرستوں اور لبرلوں میں بھی لاتعداد مکتبہ فکر ہیں۔ اختلافات کے عمل کو "چھری" سے تشبیہ دی جاسکتی ہے کہ آپ اختلافی نقطہ نظر کی بدولت نئی راہیں بھی ڈھونڈھ سکتے ہیں اور انہی اختلافات کو منفی رنگ دے کر دنگے فساد کو بھی بڑھاوا دے سکتے ہیں۔

ہر مکتبہ فکر خود کو "حق" اور دوسروں کو "باطل" قرار دیتا ہے۔ اسی طرح ہر مکتبہ فکر میں اعتدال پسند اور انتہا پسند پیروکار ہوتے ہیں۔ اعتدال پسند وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر دم رواداری اور بردباری کو اولیت دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اختلافات کو گلدستے میں لگے مختلف پھولوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ جیسے گلدستہ میں مختلف پھول باہم مل کر اک ملی جلی خوشبو سے فضا معطر کرتے ہیں، ویسے ہی کسی بھی فکر، لہر یا مذہب میں موجود مختلف خیالات اس فکر ہی کو جلا بخشتے ہیں۔ اسی لیے اعتدال پسند تو معاشرے کو گلدستہ کی خوشبو ہی سے معطر کرنے پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ وہ اختلافی امور پر عام بحث نہیں کرتے کہ یہی صوفیا کا راستہ تھا۔

اس کے برعکس انتہا پسند ہر وقت اختلاف کو سامنے رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر کوئی انہی کے مکتبہ فکر کو معتبر سمجھے۔ یہی نہیں بلکہ انتہا پسند اپنے نقطہ نظر کو دوسروں پر مسلط کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ وہ اگر اقلیت میں ہوں یا ان کے پاس نسبتاً کم طاقت ہو تو وہ اپنی مظلومیت کی رام کہانی سناتے ہیں اور اگر وہ اکثریت میں ہوں یا ان کے پاس اقتدار کی طاقت آجائے تو وہ ہر مرد و عورت پر اپنی فقہ تھوپنے کو ضروری گردانتے ہیں۔ یہ انتہا پسند ہی ہوتے ہیں جو کسی بھی مکتبہ فکر کو "فرقہ" میں ڈھال دیتے ہیں۔ یوں جس نقطہ نظر پر پہرہ دینے کے لیے وہ مکتبہ فکر بنایا گیا ہوتا ہے اس کا اصل مقصد تو کہیں کھو جاتا ہے اور فرقہ پرستی ہی کو عروج حاصل ہوتا ہے۔ 

انتہا پسند درحقیقت، مخالف یا متحارب نقطہ نظر کو برداشت نہیں کرسکتے، اسی لیے وہ اسے نیست و نابود کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں۔ یوں یاد رکھیں، ہر انتہا پسند فرقہ پرست ہوتا ہے اور ہر فرقہ پرست انتہا پسند۔ یہ لوگ رنگا رنگی یعنی diversity کے خلاف ہوتے ہیں اور اختلافات کو برداشت کرنے کی بجائے طاقت سے مٹانا چاہتے ہیں۔ اب ذرا ان باتوں کی روشنی میں اپنے خطے، اپنے مکتبہ فکر اور اپنے پنڈ، محلہ، خاندان، تعلیمی ادارے یا دفتر کے ماحول کا جائزہ لیں تو حقیقت حال آپ پر خود بخود واضح ہو جائے گی۔ آپ کو خود بخود معلوم ہوتا جائے گا کہ کہاں کہاں اعتدال پسند ہیں اور وہ کون ہیں جو انتہا پسندیوں اور فرقہ پرستیوں کے پرستار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 344741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش