1
0
Thursday 25 Sep 2014 02:08

تہذیب و ترقی اور حقیقی دہشتگرد۔۔۔!

تہذیب و ترقی اور حقیقی دہشتگرد۔۔۔!
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اہل مغرب کی تعلیمی ترقی، سائنسی فتوحات اور معاشرتی اقدار و تہذیبی ترقی نیز سیاسی نظام و روایات کی مضبوطی کا ڈنکا نہ صرف ہم بجاتے ہیں بلکہ ساری دنیا ہی انہیں بہ طور مثال پیش کرتی ہے، یہ بات بہت زیادہ کہی جاتی ہے کہ دنیا میں وہ لوگ دہشت گردی و قتل و غارت کے مرتکب ہو رہے ہیں جو ان پڑھ، جاہل اور گنوار ہیں، یا تہذیب سے عاری ہیں، تعلیم کے نزدیک بھی نہیں گئے، عمومی طور پر ایسا مسلمان ممالک میں ہونے والی دہشت گردی، قتل و غارت اور خون خرابے کے مسلسل عمل کے باعث بھی کہا جاتا ہے، اس وقت اگر ہم دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو عالم اسلام میں ہر سو باہمی جھگڑے، لڑائیاں، قتل مقاتلہ، آگ و خون اور افراتفری و بے چینی کے روح فرسا مناظر دکھائی دیتے ہیں، مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کو کفر کے فتووں سے نوازتے ہیں اور کئی ممالک میں حکومتوں کو اسی وجہ سے گرانے اور قبضہ کرنے کی کوششیں سامنے آرہی ہیں، یہ بات اپنی جگہ درست مانتے ہوئے کہ مسلمان ممالک میں ہی اس وقت سب سے زیادہ امن و سکون کی غارت گری ہے اور اس میں مسلمان ہی ملوث ہیں، ہم اگر ان تمام ممالک میں جاری لڑائیوں کا دقت نظر سے جائزہ لیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ تمام لڑائیاں دراصل وہ تہذیب یافتہ، سائنسی ترقی سے مالا مال اور جمہوری و سیاسی نیز معاشرتی اقدار کے حامل ممالک ہی لڑ رہے ہیں۔

ہاں کسی جگہ وہ خود پہنچے ہوئے ہیں اور کھلے عام دور جاہلیت کی طرح جنگل کا قانون نافذ کیا ہوا ہے اور کسی جگہ انہوں نے اپنے لے پالکوں کو اس کام پر لگا دیا ہے، یہ لے پالک اور اہل مغرب کی ڈوریوں پر ناچنے والے مسلمانوں کے روپ میں ہی نظر آتے ہیں، آپ کو یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ جنہیں ہم بہت با اصول سمجھتے ہیں وہ دراصل سب سے زیادہ بے اصول ہیں، ہم جنہیں قانون کی پابندی کی مثال جانتے ہیں اور جہاں ٹریفک سگنل کی پابندی نہ کرنے والے کو جاہل و بدتہذیب سمجھا جاتا ہے، ایسا کرنے والے کو شدید نفرت سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں ٹریفک سگنل توڑنا بہت معمولی خلاف ورزی جانا جاتا ہے، وہ جو ٹریفک سگنل کی پابندی نہ کرنا سب سے زیادہ قابل نفرین جانتے ہیں، وہی سب سے بڑے قانون شکن ہیں، ان کے اپنے قانون اور ضابطے ہیں، یہ اپنی من مانی کرتے ہیں، اگر ہم دیکھیں تو مسلمان ممالک عالمی قوانین کی پابندی کرنے والے ہیں، عالمی اصولوں، ضابطوں اور معاہدوں کی پابندی کرنے والے ہیں، جبکہ جن ممالک کو ہمارے لوگ بہ طور مثال پیش کرتے نہیں تھکتے، وہ عالمی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، قانوں ان کی منشا و مفاد کا نام ہے۔
 
آپ خود دیکھیں کہ اقوام متحدہ کی سب سے زیادہ مخالفت اور قانون شکنی کون کر رہا ہے، کس نے اقوام متحدہ کو اپنی لونڈی بنا کر رکھا ہوا ہے، کون اس ادارے کی افادیت کو تاراج کئے ہوئے ہے، کس نے آج تک اس کے مقاصد کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں، کوئی مسلمان ملک ایسا تصور بھی کرسکتا ہے کہ وہ جھوٹ بول کر کسی دوسرے ملک پر قبضہ کر لے، اس کو تہس نہس کر دے اور اس کا جھوٹ پکڑا بھی جائے تو اسے کوئی کچھ نہ کہے، ہرگز نہیں، ایسا کسی مسلمان ملک کیلئے سوچنا بھی محال ہے، جبکہ امریکہ نے ایسا کیا اور برملا کیا، اب بھی آپ دیکھیں کہ ایک طرف شامی باغیوں کو اپنی کانگریس سے بجٹ منظور کروا کے دے رہے ہیں اور دوسری طرف اسے نشانہ بنانے کی ڈرامہ بازی بھی کی جا رہی ہے، امریکہ جو تہذیب و تمدن اور علم و ہنر کی ترقی کا شہنشاہ اور انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن بنتا ہے اس نے شام پر اپنے اتحادیوں کیساتھ ملکر جنگ مسلط کر رکھی ہے، تین سال سے زیادہ عرصہ ہوا شام اس کے راستے کی دیوار بنا ہوا ہے، یہ اپنی تمام تر طاقت اسے سرنگوں کرنے کیلئے لگا چکا ہے۔۔ مگر۔۔۔ اسے شرمندگی کے ماسوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔
 
اس دوران دنیا نے دیکھا کہ امریکہ کے لے پالک اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں پر بدترین جنگ مسلط کی ہے، نہتے اور ظلم کی چکی میں پستے بیسیوں برس سے اپنے حقوق طلب کرتے فلسطینیوں کے گھروں، محلوں، بازاروں کو تہس نہس کر دیا گیا۔ دنیا نے دیکھا کہ غزہ میں شہری آبادیوں، بچوں کے اسکولز اور عالمی امن فورس کے مراکز تک کو نشانہ بنایا گیا مگر امریکہ نے اسرائیل کی مذمت تک کرنی گوارا نہیں کی بلکہ اس کے مقابل فلسطینیوں کے خلاف اس کی بھرپور مدد کرتا نظر آیا ہے، اب اگر یہی کام جو اسرائیل نے فلسطینیوں کیساتھ کیا اگر کوئی مسلم ملک کسی امریکی اتحادی کے ساتھ کرتا تو اس کا وجود ہی دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جاتا، اسے جدید دنیا جینے کا حق نہ دیتی اور اس کے وسائل کو ہڑپ کرنے کیلئے اس مسلمان ملک میں اپنی افواج اتار دی گئی ہوتیں، گیارہ ستمبر کے نام نہاد القاعدہ کے حملوں کے بہانے امریکہ بہادر جو تہذیب و تمدن اور جمہوریت کا چیمپئن ہے، نے دو ملکوں افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو برباد کر رہا ہے اور عراق میں ظلم و ستم کی تاریخ رقم کرکے ایک بار جا کے دوبارہ آنا چاہتا ہے۔

اسی مقصد کیلئے تو اس نے اپنے لے پالکوں کو تیار کیا ہے، داعش نامی سفاک درندوں کو کس نے بنایا، یہ بات کوئی راز نہیں رہی، شام کے خلاف اس سفاک، درندوں کے گروہ کو ایک منظم و سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سامنے لایا گیا، اس کی سفاکیت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس کا خوف بیٹھ جائے اور ان کا مقصد باآسانی پورا ہوجائے، اب امریکہ انہی دہشت گردوں کو اپنے طیاروں کے ذریعے نشانہ بنا رہا ہے۔۔۔
جن کیلئے کانگریس میں بھاری بجٹ منظور کروایا گیا ہے۔۔
جن کو زخمی ہونے پر اسرائیل میں علاج کیلئے بھیجا جاتا ہے۔۔۔
جن کیلئے ترکی اور اردن نے اپنی سرحدیں کھول رکھی ہیں۔۔۔
جو لبنان کی مزاحمت اسلامی کے خلاف استعمال کئے گئے اور لبنان میں ایرانی سفارت خانوں اور حزب اللہ کے حامیوں کے علاقوں میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں، جو کسی بھی طرح اسرائیلی موساد کے بغیر ممکن نہ تھے۔۔
جو عراق میں تباہی مچا رہے ہیں اور سفاکیت کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔۔۔
جو شام میں اس کے اتحادیوں کے دیئے ہوئے کیمیکل گیسیز و ہتھیار استعمال کرچکے ہیں ۔۔
جن کیلئے مقدسات اسلامی کی کوئی اہمیت نہیں، انبیاء و صحابہ کرام کے مزارات کو بم دھماکوں سے اڑانا جن کا محبوب مشغلہ ہے۔۔

بھلا کون اس بات کو تسلیم کرے گا کہ امریکہ کی موجودہ جنگ اور حملے دراصل داعش کے خلاف ہیں، جب داعش عراق میں وارد ہو رہی تھی تو اس کو روکنے کیلئے عراق کی کسی قسم کی مدد نہیں کی گئی، جس کے باعث اس نے عراق کے بہت بڑے ایریا پر قبضہ کر لیا اور نام نہاد دولت اسلامی قائم کرنے کا اعلان کر دیا، اس کے بڑھتے ہوئے اثر اور عراقی کمزور دفاع کو دیکھتے ہوئے اسلامی جمہوری ایران نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے جب عراق کے دفاع کو اپنا دفاع سمجھتے ہوئے اس کے لے پالک دہشت گردوں کا راستہ روکا ہے تو اس کو یاد آگیا ہے کہ داعش دہشت گرد ہے جس کو روکنا ہوگا، اب سعودی فتوے بھی بدل رہے ہیں، مصری علماء بھی چیخ پڑے ہیں اور تمام عرب اپنے لئے خطرات محسوس کرنے لگے ہیں۔

ذرا سوچیئے کہ عراق و شام میں لڑنے والے دہشت گردوں کیلئے کیسے ممکن بنایا گیا ہے کہ وہ انگلینڈ، امریکہ، آسٹریلیا، چیچنیا، ازبکستان، افغانستان، پاکستان، یمن، سعودیہ، مصر، اردن، قطر، امارات، فرانس، جرمنی اور دنیا بھر سے باآسانی ان ممالک میں پہنچ جائیں جبکہ امریکہ نے گیارہ ستمبر کے بعد دنیا بھر میں اپنے جاسوسی اور اینٹی ٹیرریست اسکواڈ کو الرٹ کر رکھا ہے، پاکستان سمیت دنیا کے کے کئی ممالک کے داخلی و خارجی، زمینی و فضائی راستوں کو اپنی نگرانی میں لیا ہوا ہے۔ یہ سب ثابت کرتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جسے چاہے، جس وقت دہشت گرد قرار دے دیں اور جسے چاہتے ہیں امن کے پیامبر کا خطاب دے کر اسے نوبل انعام سے نواز دیتے ہیں، اس کیلئے انعامات کی بارش کر دیتے ہیں اور اسے اپنے حلقہء اعتبار میں شامل کر لیتے ہیں، اصل بات یہی ہے کہ خود بڑا دہشت گرد ہے، امام خمینی نے صحیح فرمایا تھا کہ ہمارے تمام تر مصائب کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ اگر یہ بات دنیا کو سمجھ آجاتی تو امریکہ کو اس قدر آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوتی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا جیسے جیسے ترقی و پیش رفت کر رہی ہے،زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے، سائنسی علوم جیسے جیسے آشکار و ظاہر ہو کر انسان کی حیرت کو بڑھا رہے ہیں، تہذیب و تمدن اور سماجی رشتے و تعلقات جیسے جیسے اپنی اہمیت ثابت کر رہے ہیں اور باطل قوتیں جیسے جیسے اپنے ایجنڈے کیساتھ کھل کر سامنے آ رہی ہیں، یہ سب اس دور کی نشانیاں ہیں، جس کا ہم سب کو انتظار ہے، یہ خون خرابہ، یہ قتل و غارت گری، یہ استحصال، یہ گھٹن زدہ ماحول و معاشرہ، یہ لوٹ مار، یہ برائیوں کا بام عروج، یہ انسانیت کی تذلیل، یہ مظلوموں کی چیخ و پکار، یہ حقائق کا منکشف ہونا دراصل اس دور کی علامات ہیں جس کیلئے آئمہ و انبیاء نے احادیث نقل فرمائی ہیں اور خبریں دی ہیں۔ اس وقت سب سے اہم یمن کے حالات ہیں جو اس دور کی جانب بڑھنے کی خبر لئے ہوئے ہیں، ہم سب کو اس دور کا انتظار ہے، جب حق ظاہر ہوجائے گا، جب باطل کا نام و نشاں مٹ جائے گا، جب مظلوموں کو زمین کا وارث بنا دیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 411506
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سو فیصد درست۔
ہماری پیشکش