0
Friday 19 Dec 2014 14:49

فلسطینیوں کا تیسرا انتفاضہ اور اسرائیل کی قومی سلامتی پر اسکے اثرات

فلسطینیوں کا تیسرا انتفاضہ اور اسرائیل کی قومی سلامتی پر اسکے اثرات
تحریر: محمد محسن فایضی

مغربی کنارے میں تین صہیونی جوانوں کی مشکوک ہلاکت کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے غزہ کی پٹی میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے خلاف بڑے فوجی حملے کا آغاز کر دیا۔ اسرائیل کی یہ جارحیت 51 روز تک جاری رہی جس کے دوران اسلامی مزاحمت نے بےمثال شجاعت اور استقامت کا مظاہرہ کیا اور فلسطینی مجاہدین کو ماضی میں اسرائیل کے خلاف 22 روزہ اور 8 روزہ جنگوں کی نسبت زیادہ بڑی کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ ان کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی جنگ کے دوران مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کے حق میں مظاہروں کا آغاز تھا۔ غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے دوران حیفا سے مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور مقبوضہ بیت المقدس تک فلسطینی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے لگے۔ ہم نے دیکھا کہ مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی عرب شہریوں اور اسرائیلی شہریت کے حامل فلسطینی شہریوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ دوسری طرف صہیونی فوج کی جانب سے معصوم فلسطینی بچوں، خواتین اور بوڑھوں کا وحشیانہ قتل عام اور جان بوجھ کر غزہ کے اسپتالوں اور اقوام متحدہ کے ان اسکولوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنانا جہاں معصوم اور نہتے فلسطینی شہریوں نے پناہ لے رکھی تھی، یورپی ممالک اور مغربی ایشیا سمیت پوری دنیا میں اسلامی مزاحمت اور حماس کی عوامی حمایت میں بے پناہ اضافے کا باعث بن گئی۔ 
 
جنگ ختم ہونے اور جنگ میں اسلامی مزاحمت کی فتح کو چند ہفتے گزر جانے کے بعد صہیونی فوج نے مسجد اقصی میں داخل ہو کر اس کی توہین کی جس پر مشرقی بیت المقدس اور خود مسجد اقصی میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ ان مظاہروں کے خلاف غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے طاقت استعمال کئے جانے پر عوام اور سیکورٹی فورسز میں جھڑپیں شروع ہو گئیں اور تشدد آمیز احتجاج کا آغاز ہو گیا۔ اسی دوران مغربی کنارے میں کئی فلسطینیوں نے اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے خلاف شہادت طلبانہ آپریشن انجام دیئے۔ ان انقلابی اقدامات میں سے اہم ترین "عدی" اور "غسان ابوجمل" نامی دو جوانوں کی جانب سے انجام دیئے گئے جنہوں نے بندوقوں اور چاقو کی مدد سے ایک کنیسہ پر حملہ کیا جس میں 5 صہیونی ہلاک جبکہ 16 زخمی ہو گئے۔ یہ دو فلسطینی جوان مشرقی بیت المقدس کے علاقے جبل مکبر کے رہائشی تھے جو خود بھی مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔ فلسطینی جوانوں کی جانب سے اپنی گاڑی کے ذریعے دو جگہوں پر صہیونیوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد کنیسہ کے اس واقعے نے تیسری انتفاضہ کے آغاز کی باتوں کو جنم دیا اور حتی خود صہیونی تجزیہ نگار اور سیاسی محققین بھی تیسری انتفاضہ کے آغاز کی باتیں کرنے لگے۔ 
 
ہم نے تحریر حاضر میں مقبوضہ فلسطین میں انتفاضہ کے زور پکڑنے کی صورت میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم پر اس کے ممکنہ سیکورٹی اثرات اور انتفاضہ کو کنٹرول کرنے کیلئے اسرائیلی حکومت کی جانب سے ممکنہ ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کا جائزہ لیا ہے۔ 
 
1۔ صہیونی رژیم کو درپیش سیکورٹی خطرات:
الف۔ مقبوضہ سرزمین میں ہنگامے اور بدامنی:
غاصب اسرائیلی رژیم کے ناجائز قیام کے آغاز سے ہی ہر صہیونی حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ ملک کے اندر خاص طور پر مغربی کنارے میں ایسی پرامن فضا مہیا کی جائے جس سے دنیا بھر سے اسرائیل آ کر بسنے والے یہودی مکمل تحفظ اور سلامتی کا احساس کر سکیں۔ لہذا مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے میں پیدا ہونے والی حالیہ انارکی اور ہنگاموں نے موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو شدید مشکلات سے روبرو کر دیا ہے۔ اس بدامنی نے اسرائیلی شہریوں میں موجودہ حکومت کی محبوبیت اور اس کے نتیجے میں اس کے قانونی جواز کو ہی مشکوک بنا ڈالا ہے۔ یہودی شہریوں کے تحفظ اور سلامتی کے احساس کی اہمیت کی وجہ سے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل ہمیشہ ایک دراز مدت اور تھکا دینے والی جنگ سے کتراتا ہے اور مقبوضہ سرزمین میں انجام پانے والا چھوٹے سے چھوٹا شہادت طلبانہ اقدام اسرائیلی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آتا ہے اور اسرائیلی حکومت کو آخرکار ملکی رائے عامہ اور اندرونی ذرائع ابلاغ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑ جاتے ہیں۔ 
 
ب۔ مذاکرات کے مقابلے میں مسلح جدوجہد کے نظریے کا مقبول ہونا:
اکثر صہیونی تجزیہ نگار، اسرائیل کی جانب سے غزہ کی جنگ میں عقب نشینی کو حکومت کی طرف سے طولانی مدت میں ایک سنگین اسٹریٹجک غلطی قرار دیتے تھے۔ اگرچہ یہ عقب نشینی مزید اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور شہادت طلبانہ آپریشنز میں مزید صہیونی شہریوں کی ہلاکت سے بچنے کا باعث بنی لیکن ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں سرگرم اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں عقب نشینی نے سب پر اس حقیقت کو ثابت کر دیا کہ اسرائیل جیسے ظالم اور وحشی دشمن کے مقابلے میں صرف مسلح جدوجہد ہی وہ بہترین راستہ ہے جس کے ذریعے اسے پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اسی کامیابی کے نتیجے میں 2005ء کے انتخابات میں مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کے تین چوتھائی عوام نے فلسطین اتھارٹی کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو ووٹ دیئے۔

اسرائیلی حکام اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان ایک عرصے سے جاری امن مذاکرات کا بے حاصل ہونے اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی مزاحمت کی پے در پے کامیابیوں اور ترقی خاص طور پر اسرائیل کے مقابلے میں گذشتہ چند جنگوں میں شاندار کامیابی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیل کی قومی سلامتی شدید قسم کے خطرات سے دوچار ہو گئی اور مقبوضہ سرزمین خاص طور پر مغربی کنارے میں نئی انتفاضہ کے جنم لینے کے آثار واضح طور پر دکھائی دینے لگے۔ اسرائیل کا قریبی ترین اتحادی ہونے کے ناطے محمود عباس اور فلسطین اتھارٹی کی گرتی ہوئی محبوبیت اور اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی سوچ کا تیزی سے پھیلنے نے اسرائیلی حکام کو شدید خطرات سے روبرو کر دیا ہے۔ لہذا ایسے موقع پر تیسری فلسطینی انتفاضہ کا آغاز اور اس کا طولانی مدت تک جاری رہنا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے انتہائی شدید اسٹریٹجک خطرہ ثابت ہو سکتا ہے جس سے بچنے کیلئے اسرائیلی حکام اسلامی مزاحمت کی جہادی سوچ کو پھیلنے سے روکنے میں ہی اپنی نجات دیکھ رہے ہیں۔ 
 
ج۔ 1948ء کے عرب فلسطینیوں کا انتفاضہ میں شامل ہونا اور یہودیوں کا اسرائیل سے فرار:
اگر مقبوضہ فلسطین میں شروع ہونے والی حالیہ انتفاضہ تسلسل پیدا کرتی ہے تو اس بات کا قوی احتمال موجود ہے کہ مقامی عرب فلسطینی باشندے جنہیں اس وقت دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے اور وہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے شدید امتیازی سلوک اور غیرعادلانہ رویوں کا شکار ہیں، بھی اس انتفاضہ میں شامل ہو جائیں۔ یہ عرب فلسطینی باشندے اب تک یہودیوں کے نسل پرستانہ رویوں کے باعث شدید قسم کی احساس کمتری کا شکار ہو چکے ہیں لہذا ان کی کوشش ہو گی کہ وہ انتفاضہ میں شامل ہو کر خود کو "شاباک" اور فلسطین اتھارٹی کی سیکورٹی ایجنسیز کے دباو اور کنٹرول سے نجات دلا سکیں۔ بعض اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو مقبوضہ فلسطین میں انجام پانے والے حالیہ شہادت طلبانہ اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے بعد محمود عباس ان اقدامات کو محکوم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اگر 1948ء کے عرب فلسطینی باشندے جن کی تعداد 14 لاکھ تک ہے، بھی اس انتفاضہ میں شامل ہو جاتے ہیں تو اسرائیل میں بسنے والے یہودی شہریوں کے ذہن میں 2000ء کی انتفاضہ کی یاد تازہ ہو جائے گی اور ان میں اسرائیل چھوڑ کر یورپی ممالک واپس جانے کا رجحان شدت اختیار کر جائے گا۔ یہ امر اسرائیل کے ایک اہم قومی مفاد یعنی یہودی شہریوں کو اسرائیل چھوڑ کر واپس جانے سے روکنے اور 1948ء کے عرب باشندوں پر مکمل کنٹرول برقرار رکھنے کو داو پر لگا کر صہیونی رژیم کو سنجیدہ سیکورٹی بحران کا شکار کر سکتا ہے۔ 
 
2۔ نئی فلسطینی انتفاضہ کو روکنے کیلئے صہیونی رژیم کے ممکنہ اقدامات:
الف۔ فوجی طاقت کی بجائے خود فلسطینیوں میں پھوٹ ڈالنے کا طریقہ اختیار کرنا:
مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں مقیم 24 لاکھ فلسطینیوں کو فوجی طاقت سے روکنا اسرائیلی حکومت کے بس کا کام نہیں۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صہیونی رژیم فلسطینیوں کی مزاحمت کو روکنے کیلئے ان میں پھوٹ ڈال کر خود فلسطینیوں کو فلسطینیوں کے مقابلے میں لانے کا ہتھکنڈہ استعمال کرے گی۔ اسی طرح اسرائیلی حکومت اپنے مقاصد کے حصول کیلئے شدت پسند یہودیوں کو بھی استعمال کر سکتی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب بھی یہ شدت پسند یہودی اور نیم فوجی دستے بیت المقدس میں فسلطینی مظاہرین کے مقابلے میں آ چکے ہیں اور ان کے درمیان کئی موقع پر جھڑپیں بھی انجام پائی ہیں۔ اسرائیلی حکومت ان شدت پسند یہودیوں کی مدد کر کے فلسطینیوں کی حالیہ انتفاضہ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور عالمی سطح پر اس انتفاضہ کو دو عوامی دھڑوں کا آپس میں ٹکراو ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس پر بے پناہ دباو ڈال رکھا ہے تاکہ مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کو کنٹرول کرنے کا کام فتح سے وابستہ فلسطینی پولیس کے ذریعے انجام پائے۔ اس طرح اسرائیلی حکومت ایک طرف فلسطینی انتفاضہ کو کچلنا چاہتی ہے اور دوسری طرف انتفاضہ کا رخ اپنی جانب بھی نہیں موڑنا چاہتی۔ دوسرے الفاظ میں یہ چاہتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ گذشتہ پانچ ماہ کے دوران محمود عباس پر اسرائیلی دباو کے نتیجے میں فلسطین اتھارٹی کی جانب سے 1300 فلسطینیوں کو گرفتار کیا جانا اس امر کا واضح ثبوت ہے۔ اگر فلسطین اتھارٹی، فلسطینیوں کو فلسطینیوں کے ذریعے کنٹرول کرنے پر مبنی اس منحوس اسرائیلی منصوبے میں اپنا خائنانہ کردار ادا کرتی ہے تو نہ صرف فلسطینی انتفاضہ شدید خطرات سے روبرو ہو جائے گی بلکہ فلسطینی گروہوں میں شروع ہونے والے قومی مفاہمتی عمل کو بھی شدید دھچکہ پہنچنے کا امکان ہے۔ اور اگر یہ قومی مفاہمتی عمل ناکامی کا شکار ہو جاتا ہے تو یہ اسرائیل کیلئے ایک بڑی کامیابی شمار ہو گی۔ 
 
ب۔ میڈیا کے ذریعے فلسطینی مجاہدین کو داعش جیسا ظاہر کرنے کی کوشش:
مغربی ذرائع ابلاغ جن پر صہیونی لابی کا مکمل کنٹرول ہے، یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین اور داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں۔ لہذا جب بھی مقبوضہ فلسطین میں کسی فلسطینی مجاہد کی جانب سے اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے خلاف کوئی جہادی اقدام انجام پاتا ہے تو اسرائیل اور اس کا حامی میڈیا اسے غلط انداز میں پیش کر کے تکفیری دہشت گردی سے جوڑتا ہے اور اس طرح اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے ظلم و ستم کو جائز اور قانونی بنا کر پیش کرتا ہے۔ 
 
ج۔ خالص یہودی ریاست تشکیل دینے کیلئے بہانوں کی تلاش:
اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مشرقی بیت المقدس اور تمام مقبوضہ فلسطینی سرزمین کو ایک مکمل یہودی ریاست میں تبدیل کر دے۔ تاکہ اس طرح ایک تو اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنا سکے اور دوسرا اپنے وجود کا قانونی جواز بھی فراہم کر سکے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اس مقصد کے حصول کیلئے مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی شہریوں کیلئے ایک خطرہ بنا کر پیش کرتی آئی ہے اور ان کے احتجاج کی اصلی وجوہات پر پردہ ڈالتے ہوئے عالمی برادری پر یہ زور دیتی رہی ہے مقبوضہ فلسطین کو ایک مکمل یہودی ریاست بنا کر وہاں پر موجود فلسطینی باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جائے۔ جیسا کہ حال ہی میں اسرائیل اور فلسطینی گروہوں کے درمیان انجام پانے والی جنگ بندی کی ایک شرط یہ تھی کہ فلسطینی یہودی نشین علاقوں پر حملہ نہیں کریں گے۔ نیتن یاہو کی حکومت فلسطینی انتفاضہ کو کنٹرول کرنے اور جنگ بندی کی خلاف ورزی کے ذریعے اپنی اس شکست کا بھی ازالہ کرنا چاہتی ہے جو اسے اسلامی مزاحمت کی طے شدہ شروط کے مطابق پیش کی گئی جنگ بندی کو قبول کرنے میں برداشت کرنا پڑی ہے۔ 
 
نتیجہ گیری:
فلسطین، خطے کی تمام مشکلات کے حل اور اسلامی اتحاد کی چابی ہے۔ حالیہ انتفاضہ کی تشکیل میں کارفرما عوامل اور اسباب جیسے امن مذاکرات کی ناکامی، مسجد اقصی کی بے حرمتی وغیرہ پر توجہ اور ان کی صحیح پہچان اور غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں فلسطینی انتفاضہ کی حمایت اس کی روز افزوں ترقی کا باعث بن سکتی ہے۔ تیسری فلسطینی انتفاضہ صرف اس صورت میں غزہ میں جنم لینے والی اسلامی مزاحمت کی مانند فتح سے ہمکنار ہو سکتی ہے جب ایمان اور جہاد کے جذبے سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دفاع کیلئے مناسبت فوجی طاقت بھی رکھتی ہو تاکہ وہ ان نقصانات سے بچ سکے جو 2000ء میں مسجد اقصی کی انتفاضہ کو برداشت کرنے پڑے تھے۔ 
 
خبر کا کوڈ : 426746
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش