0
Sunday 28 Dec 2014 00:29

ایم ڈبلیو ایم نے جی بی میں سیاسی جنگ کا طبل بجا دیا، اینے حریفوں کا اعلان کرکے اپنے لائحہ عمل کا اشارہ بھی دیدیا

ایم ڈبلیو ایم نے جی بی میں سیاسی جنگ کا طبل بجا دیا، اینے حریفوں کا اعلان کرکے اپنے لائحہ عمل کا اشارہ بھی دیدیا
رپورٹ: میثم بلتی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے سیاسی جنگ کا طبل بجا دیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم نے 35 ممبران پر مشتمل پولیٹیکل کونسل اور 12 اراکین پر مشتمل کور کمیٹی کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کی سیاسیت میں کھلبلی مچ گئی ہے اور سیاسی پاپیوں کی نیندیں اڑنے لگیں ہیں۔ یہ اعلان مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی نے گذشتہ دنوں گلگت میں صوبائی و ڈویژن کابینہ کی طویل میٹنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صوبائی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان شیخ نیئر عباس مصطفوی، سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم بلتستان آغا علی رضوی اور گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کے سیکرٹری جنرلز موجود تھے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی اور 15 حلقوں میں اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارے گی۔ 

ناصر عباس شیرازی کا کہنا تھا کہ ضلع دیامر سمیت دیگر تمام اضلاع میں روابط جاری ہیں اور پاکستان مسلم لیگ نون و پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مختلف سطح پر رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان میں آئندہ انتخابات کو ہائی جیک کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے اور نگران وزیراعلٰی اور الیکشن کمشنر کی تقرری کے دوران سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر دونوں جماعتوں کا گٹھ جوڑ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شفاف الیکشن کے لئے غیر جانبدار الیکشن کمشنر اور وزیراعلٰی ضروری ہے۔ الیکشن کمشنر پاکستان مسلم لیگ نون کا باقاعدہ عہدیدار رہا ہے، اسکی موجودگی میں کسی صورت غیر جانبدار انتخابات ممکن نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ گلگت بلتستان میں انتخابات اہلیت کی بنیاد پر لڑیں گے اور اتحاد کی بنیاد بھی مسلک و مذہب سے بالاتر ہو کر اہلیت پر ہوگی۔

گلگت بلتستان کے سیاسی میدان میں مجلس وحدت مسلمین نے قدم رکھنے کا اعلان بہت پہلے کر دیا تھا اور اس سلسلے میں گلگت اور اسکردو میں تاریخی اجتماع کرکے یہ ثابت کیا تھا کہ گلگت بلتستان کی سیاسیت میں مجلس وحدت مسلمین کی حیثیت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایم ڈبلیو ایم کی گلگت بلتستان بھر میں موجود تنظیمی ہیت اور تنظیم کی فعالیت نے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔ ملکی سطح پر دہشتگردی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کی بروقت ایکشن اور دوٹوک موقوف نے اس تنظیم کو جہاں ملکی سطح پر وقعت بخشی ہے وہاں گلگت بلتستان میں آئے روز ظلم، دہشتگردی، بدعنوانی اور دیگر مسائل کے خلاف سڑکوں پر نکل آنا اور عوامی امنگوں کے مطابق آگے بڑھنا اس تنظیم کی مقبولیت کا باعث بنا ہے۔ جہاں دیگر سرگرمیوں نے مجلس وحدت مسلمین کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، وہاں گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی کے خاتمے کے خلاف چلنے والی تحریک اور تنظیم عوامی ایکشن کمیٹی میں ایم ڈبلیو ایم کے بنیادی کردار نے عوام کے دل جیت لئے ہیں۔ گندم سبسڈی کے خاتمے کے فیصلے سے جہاں حکومت کو دستبردار ہونا پڑا، وہاں گلگت بلتستان میں ایک عرصے سے جاری فرقہ واریت اور دہشتگردی کے جن کو بھی قابو کر لیا گیا، جس کے سبب گلگت کی عوام نے ایک طویل عرصے بعد سکھ کا سانس لیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین نے کم وقت میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے اور انتخابات کے حوالے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ایم ڈبلیو ایم کو ہی اپنی اصلی حریف جماعت سمجھتی ہیں، جس کا برملا اظہار سابق وزیراعلٰی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے اپنی گفتگو میں ایک نجی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کا براہ راست مقابلہ مجلس وحدت مسلمین سے ہے اور شیعہ علماء کونسل سے انہیں کوئی خطرہ نہیں۔ انکی اس بات سے شیعہ علماء کونسل سے پیپلز پارٹی کے امکانی اتحاد کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نون کے خلاف بھی کچھ بولنے سے مکمل احتراز کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ نون سے درپردہ روابط ہیں۔ 

بعض تجزیہ نگاروں کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین 6 سے آٹھ نشستیں براہ راست واضح اکثریت سے جتنے کی پوزیشن میں ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق ایم ڈبلیو ایم کا براہ راست مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون سے ہی ہوگا۔ اگر مجلس وحدت مسلمین دیگر جماعتوں کو ایک پیج پر لانے میں کامیاب ہوسکی تو گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لئے ایوان کا دروازہ بند کیا جاسکتا ہے۔ اگر انتخابات تک کوئی ڈرامائی تبدیلی نہ آئے تو پیپلز پارٹی پاکستان کے عام انتخابات کی طرح گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی شکست سے دوچار ہوجائے گی جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون بعض حلقوں میں جتنے کی پوزیشن میں ہے اور وفاق میں انکی حکومت بھی انکے لئے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ نون سمیت چند دیگر پارٹیوں کو واضح کامیابی کے لئے گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کی ہوا دوبارہ چلنا ضروری ہے۔

بعض قلمکاروں نے مجلس وحدت مسلمین کی گلگت بلتستان میں سیاسی حیثت کو قبول کرتے ہوئے نجی اخبارات میں لکھا ہے کہ گلگت بلتستان میں ایم ڈبلیو ایم آئندہ انتخابات میں جہاں بہت سارے حلقوں میں بھاری اکثریت کے ساتھ فتخ یاب ہونے کی پوزیشن میں ہے، وہاں اپنے سیاسی حریف کو بہ آسانی چت کرسکتی ہے۔ اگر کسی حلقے میں مجلس وحدت مسلمین جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو وہ اپنے سیاسی حریف کو ضرور ہرانے کی پوزیشن میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم ڈبلیو ایم تمام مکاتب فکر کے ساتھ اپنا مثالی اتحاد برقرار رکھ سکے گی اور اپنا منشور و امیداوران عوامی امنگوں کے مطابق لاسکے گی یا نہیں۔ ایک اہم بات گلگت بلتستان کے انتخابات میں یہ ہے کہ اگر اہل سنت مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو بھی ایم ڈبلیو ایم میدان میں لاسکے تو جہان انکا کام اسم باسمٰی ہوگا وہاں فرقہ واریت کو ہوا دینے اور نفرتوں کو احیاء کرنے والوں کا راستہ بھی روکا جاسکتا ہے اور یوں گلگت بلتستان ایک بار پھر امن و محبت کا خطہ بن سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 428633
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش