0
Sunday 4 Jan 2015 20:00

لال مسجد، طالبان اور قبضہ گروپس کے تعلقات کی کہانی

لال مسجد، طالبان اور قبضہ گروپس کے تعلقات کی کہانی
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع جامعہ حفصہ کی طالبات کی طرف سے عراق اور شام میں سرگرم دہشت گرد گروپ داعش کی حمایت کے اعلان کے بعد پشاور میں کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے معصوم طالب علموں کو وحشیانہ انداز میں بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ جماعت اسلامی کی طرح لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے بھی وزیرستان میں جاری آپریشن سمیت کالعدم تحریک طالبان کیخلاف ہر قسم کی فوجی کارروائی کو شریعت کے منافی قرار دیا۔ اسلام آباد کے شہریوں نے فوری طور پر لال مسجد کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا، لیکن سپاہ صحابہ کی مدعیت میں سول سوسائٹی کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ انہی حالات میں شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کے دوران سکیورٹی فورسز کو لال مسجد کے عبدالرشید غازی کے نام پر بننے والی غازی فورس کے پاکستان میں مسلح افواج، اقلیتوں اور عوام کے خلاف دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد ملے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے زیر اثر رہنے والے علاقوں درگاہ منڈی، دردونی وغیرہ میں کلیئرنس آپریشن کے دوران غازی فورس کے زیراستعمال رہنے والی عمارت پکڑی گئی ہے۔ مذکورہ عمارت 3 مکانات پر مشتمل تھی، جنہیں ایک 30 میٹر طویل سرنگ کے ذریعے جوڑا گیا تھا اور فرار کا زیر زمین راستہ بھی تھا، اس عمارت میں زیر زمین بڑے کمرے اور لائبریری تھی، جو سرنگ کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے تھے۔ ذرائع کے مطابق اس عمارت کی تلاشی کے دوران پتہ چلا کہ ایک کمرہ بارودی مواد یعنی آئی ای ڈی کی تیاری جبکہ دو کمرے دہشت گردوں کی تربیت اور برین واشنگ کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق شواہد سے تصدیق ہوتی ہے کہ یہاں رہنے والے دہشت گردوں کی لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز اور ان کے بھائی غازی عبدالرشید سے گہری وابستگی ہے اور میرانشاہ میں اس فورس کی سرگرمیوں سے ملک میں امن و امان کا مسئلہ کس طرح خراب ہوا۔ تفصیل کے مطابق یہاں سے الیاس نامی ایک شخص کی ڈائری بھی برآمد ہوئی، جس میں ملک کی مختلف جیلوں میں قید دہشت گردوں کی مکمل تفصیلات اور ڈیٹا موجود ہے۔ ڈائری میں مختلف عدالتوں سے سزا پانے والے دہشت گردوں اور ان کے مقدمے کی تازہ ترین عدالتی صورتحال بھی درج ہے۔ ڈائری میں غازی فورس کا تنظیمی ڈھانچہ، مختلف عہدوں پر کام کرنے والے لوگ اور ان کے رابطہ نمبر بھی درج ہیں۔ اس میں 2009ء سے اب تک ہونے والے خودکش حملوں کی تاریخ کے حساب سے ترتیب وار تفصیلات بھی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ غازی فورس کی اس عمارت سے تربیتی مواد بھی ملا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں دہشت گردوں کو گوریلا لڑائی کی تربیت دی جاتی تھی۔
 
مذکورہ مکان سے سے مختلف نوعیت کا بارودی مواد، آئی ای ڈی سرکٹ بک، اے کے47 رائفل، گرینیڈ، ڈیٹونیٹر اور دیگر اسلحہ اور اندرونی مواصلاتی نظام ملا۔ ایک ہاتھ سے لکھا ہوا خط ملا، جس میں وحیدہ نامی خاتون ایک دوسری خاتون سائرہ کو اپنی بہنوں سمیت غازی فورس میں شمولیت کے لئے قائل کرتی ہے اور رقم بھیجی جاتی ہے، جبکہ کچھ لوگوں کے قومی شناختی کارڈ بھی ملے۔ کاغذ کی ایک چھوٹی چٹ میں دہشت گردوں کو فون سم حاصل کرنے میں رہنمائی کی گئی ہے، جبکہ اقلیتوں کی ایک عبادت گاہ کا نقشہ بھی ملا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے حملے کی مکمل تیاری کر رکھی تھی۔ یہاں ملنے والے مواد سے پتہ چلتا ہے کہ غازی فورس پاکستان اور فوج مخالف ایجنڈا کے ساتھ نوجوان مردوں اور عورتوں کے ذہنوں کو گمراہ کر رہی ہے۔ اس عمارت سے غازی فورس کو ملنے والے فنڈز اور عطیات کی کچھ تفصیل بھی ملی ہے۔ جھنگ کے ایک مدرسے کی کیش رسید سے ظاہر ہوتا ہے کہ غازی فورس کا رقوم کے حصول کے لئے ایک مضبوط نیٹ ورک ہے، جبکہ قراقرم کوآپریٹو بینک کا ایک چیک بھی ملا ہے۔

پاکستان کے ایک موقئر روزنامے میں چپھنے والی رپورٹ کے مطابق سکیورٹی اداروں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ معروف عسکریت پسند گروپس سے روابط اور اپنے حکومت مخالف جذباتی بیانات کے ذریعے دوبارہ منظر عام پر آنے والے لال مسجد کے خطیب عبدالعزیز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال کے لئے ایک سکیورٹی خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ سکیورٹی ادارہ نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، جن کے عسکریت پسند گروپس سے کھلے یا خفیہ روابط ہیں۔ ملک کی ایک اہم انٹیلی جنس ادارے کی جانب سے وزارت داخلہ کو ارسال کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ " لال مسجد مافیا" کے عسکریت پسند گروپس اور قبضہ گروپس کے ساتھ روابط ہیں، جبکہ لال مسجد آپریشن کے بعد منتشر ہونے والی غازی فورس نامی عسکریت پسند گروپ کو بھی دوبارہ منظم کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق "مولانا عبدالعزیز اور لال مسجد انتظامیہ کی سرگرمیوں کی نگرانی/ کنٹرول نہ کی گئیں تو آگے چل کر یہ جڑواں شہروں میں امن و امان کی صورتحال کے لئے سنگین خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔"
 
خفیہ ادارے کی طرف سے اعلٰی حکام کو بھیجی گئی رپورٹ کی نقل میں طالبان اور لال مسجد کے خطیب کے درمیان روابط پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ طالبان کی نظر میں مولانا عبدالعزیز کی اہمیت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ انہیں عسکریت پسند گروپ نے حکومت سے مذاکرات کے لئے اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا۔ رپورٹ میں "زمینوں پر قبضے کے لئے بدنام" تاجی کھوکھر کو ایسا فرد قرار دیا گیا ہے جو مدارس کی تعمیر کے لئے زمینوں کا انتظام کرتا ہے، لال مسجد انتظامیہ کو فنڈز فراہم کرتا ہے اور عدالتی مقدمات کے حوالے سے بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔ رپورٹ میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور سابق رکن قومی اسمبلی شاہ عبدالعزیز کا ذکر بھی متنازع خطیب کے "ہمدردان" کے طور پر کیا گیا ہے۔ میڈیا نے ان الزامات پر ملک ریاض کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ دستیاب نہیں ہوسکے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک ریاض "مولانا عبدالعزیز کے مدارس کے یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگیوں کی شکل میں مالی امداد کرتے ہیں جبکہ انہوں نے متنازع خطیب کو بحریہ ٹاﺅن میں ایک مسجد تعمیر کرنے میں معاونت کی، جس کا نام بعد میں جامعہ حفصہ رکھا گیا۔"
 
اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون تھری میں چھوٹی بچیوں کے لئے لال مسجد انتظامیہ کے قائم کئے گئے مدرسہ کا نام سیدہ سمعیہ تھا اور پھر بدل کر "جامعہ حفصہ" رکھا گیا، رپورٹ کے مطابق "اس مدرسے سے ملحق مسجد الفلاح پر قبضے کی منصوبہ بندی کی، جس پر اس مسجد کی انتظامیہ نے مزاحمت کرتے ہوئے عدالت میں ایک مقدمہ دائر کر دیا"، مولانا عبدالعزیز بھی اس وقت اسی جامعہ حفصہ میں مقیم ہیں۔ اسی طرح رپورٹ میں مال پور گاﺅں میں مقامی رہائشیوں کی مرضی کے خلاف جامعہ حفصہ کی ایک اور شاخ کی تعمیر کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ مال پور گاﺅں کے رہائشیوں نے اسلام آباد ڈپٹی کمشنر کے پاس ایک شکایت درج کی، جس میں کہا گیا تھا کہ لال مسجد کی انتظامیہ ان کے گاﺅں کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شکایت میں مزید کہا گیا ہے "پہلے وہ جامع مسجد غوثیہ کو ہتھیانے کی کوشش کرتے رہے، مگر اس کے نتیجے میں انتظامیہ نے مسجد کو سیل کر دیا۔" ایک مقامی سیاسی کارکن سبط الحسن بخاری بتاتے ہیں "یہاں صدیوں سے بریلوی اور شیعہ برادریاں پرامن انداز سے رہ رہی ہیں مگر لال مسجد انتظامیہ نے سب سے پہلے یہاں کی برادریوں کے اندر تقسیم پیدا کی، ہم حکام کے پاس شکایت درج کرانے کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں۔"
 
دوسری جانب انتظامیہ صورتحال کے تقاضوں کے مطابق اقدام کی بجائے روایتی الزامات کی سیاست کو اپنائے ہوئے ہے۔ آئی سی ٹی انتظامی افسران کا کہنا ہے کہ جی سیون یا دیگر سیکٹرز میں مدارس یا مساجد کی غیر قانونی توسیع جیسے مسائل سی ڈی اے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ ایک عہدیدار کے مطابق "جہاں تک مال پور معاملے یا لال مسجد سے متعلق امن و امان کی صورتحال کا تعلق ہے، ہمیں وزارت داخلہ کی جانب سے پالیسی گائیڈ لائنز درکار ہیں۔" سی ڈی اے کے ایک ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ تمام تر تجاوزت کو آئی سی ٹی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے کلئیر کر دیا گیا ہے۔ اس کا کہنا تھا "ہم کسی بھی مسجد یا مدرسے کی جانب سے غیر قانونی توسیع کے معاملے کو دیکھتے ہیں، مگر پولیس کی مدد کے بغیر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔" علاوہ ازیں اسلام آباد کے ایک سابق کمشنر نے بتایا کہ صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور لال مسجد کے خطیب کو اب عوامی حمایت حاصل نہیں۔ ان کا کہنا تھا "الفلاح مسجد آئی سی ٹی کے دائرہ اختیار میں آتی ہے اور اسلام آباد کی تمام مساجد کی کمیٹیاں آئی سی ٹی کے پاس رجسٹرڈ ہیں، اگر اس وقت کچھ نہ کیا گیا تو پھر یہاں قانون کی رٹ قائم کرنے کا کوئی اور موقع نہیں ملے گا۔"

واضح رہے کہ جمعے کو مولانا عبدالعزیز نماز جمعے کی امامت کے لئے لال مسجد واپس آئے اور خطبہ دیتے ہوئے ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ مسجد کے باہر پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات تھی اور مولانا عبدالعزیز نے مطالبات کی فہرست پیش کی، جس میں ملک میں شرعی قوانین پر عملدرآمد، ملک کے موجودہ قوانین کو "اسلامی" بنانے کے لئے سینیئر علماء کی کمیٹی کی تشکیل اور مختلف روایات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا، جو ان کے مطابق غیر اسلامی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 430301
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش