0
Saturday 18 Apr 2015 20:33

مسئلہ تفتان، تیری رہبری سے سوال ہے

مسئلہ تفتان، تیری رہبری سے سوال ہے
تحریر: علی عمران

گذشتہ دنوں ایک صاحب نے مسئلہ تفتان یا مسئلہ کشمیر کے عنوان سے بخوبی حقائق پیش کئے ہیں۔ انہوں نے بالکل بجا لکھا ہے کہ مسافروں کو لوٹنے کی خاطر تفتان کو جان بوجھ کر غیر محفوظ بنایا گیا ہے۔ کچھ کو ڈاکو بن کر لوٹا جاتا ہے اور کچھ کی گاڑیاں لٹوائی جاتی ہیں اور کچھ سے سرکاری اہلکار رشوت بٹورتے ہیں۔  اس راستے پر سفر کرتے ہویے انسان کو شدید خوف اور خطرہ محسوس ہوتا ہے، کیونکہ ہر وقت انسان کو یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ نجانے کس سمت سے کویی گولی، مارٹر گولہ، بم یا خودکش بمبار آئے اور ہماری جان چلی جائے یا پھر ڈاکو ہماری گاڑی کو لوٹ لیں۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خوف اور ڈر کی یہ فضا ہمارے سرکاری جیالوں نے ہمیں لوٹنے کے لئے قائم کر رکھی ہے۔  جولائی کا مہینہ تھا، گرمی زوروں پر تھی۔ ہم چار لوگ بذریعہ روڈ ایران سے پاکستان جا رہے تھے۔ راستہ اجنبی تھا، لیکن میرے ساتھی راستے سے واقف تھے، اس لئے مجھے زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔

ایران کی پاکستان سے ملنے والی سرحد کا نام میر جاوہ ہے۔ اسی کے ساتھ پاکستان کی طرف تفتان باڈر ہے اور یہ پاکستان کا  آخری شہر ہے جو ایران کی سرحد سے متصل ہے۔ وہاں پر اردو  اور فارسی دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہم صبح آٹھ بجے کے قریب میر جاوہ پر پہنچ گئے، ابھی تک باڈر نہیں کُھلا  تھا۔  ہمیں ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑگیا۔ بہت سے اور بھی مسافر تھے جو پاکستان جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ نو بجے باڈر کھول دیا گیا۔ ہم قطار میں لگ گئے، ہماری باری آتے آتے دس بج گئے۔ ایران کی سرحد سے گزر کر اپنے وطن عزیز کی پاک سرزمین پر قدم رکھا۔ پاکستانی باڈر پہ مہر لگانے کے بعد سب سے پہلے ہم نے کوئٹہ کیلئے ٹکٹیں کروائیں۔ اس کے بعد تفتان شہر جو باڈر سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے، جانے کیلئے ہم ایک پک اپ ٹویوٹا گاڑی پر بیٹھ گئے۔  ابھی گاڑی چلی نہ تھی کہ اچانک اسی گاڑی کے پاس پانچ مسلح پولیس اہلکار آگئے اور پوچھ گچھ شروع کر دی۔ سب سے پہلے کہا اپنے اپنے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نکال لیں، دیکھ لینے کہ بعد پھر کہا؛ کہاں سے آرہے ہیں، کہاں جانا ہے، کس کے پاس کتنے بیگ ہیں۔ مسافروں نے جواب دیا جناب عالی  زیارات کرکے واپس اپنے وطن جارہے ہیں، ایک اہلکار کہنے لگا اپنے سامان کی تلاشی دو۔ تین پولیس اہلکار آگے بڑھے اور سامان کی تلاشی شروع کر دی۔

فقط دو سے تین بیگ کی چیکنگ کے بعد اسی افسر نے کہا چھوڑو تلاشی۔ وہ مسافروں کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا ہمارے لئے کیا لائے ہو۔؟ ہم بھی تو آپ کی خدمت کیلئے کھڑے ہیں۔ ایک مسافر نے کہا: سرکار، ہم تو غریب آدمی ہیں۔ پہلے ہی سفر سے تھکے ہارے یہاں تک پہنچے ہیں، آگے بھی بہت سفر ہے۔ مہربانی فرمائیں اور ہمیں جانے دیں۔ تو آگے سے پولیس والا کہنے لگا، سائیں کچھ ہمارا بھی حق بنتا ہے، ہم بھی تو آپ ہی کی خدمت کیلئے کھڑے ہیں۔ کوئی چائے پانی دے دیں اور چلے جائیں، ورنہ یہیں ٹھہرنا پڑے گا۔  ہر ایک کی مکمل تلاشی لی جائے گی۔ اسی دوران ایک اور گاڑی روانہ ہو رہی تھی، انہی میں سے دو اہلکار اس گاڑی کی طرف جلدی سے لپکے اور ان سے یہی مطالبات کرنے لگے۔ پولیس نے گھنٹے سے زیادہ دیر تک ہمیں روکے رکھا۔ بہت اذیت کی اور وقت برباد کیا، جبکہ تلاشی بھی نہیں لے رہے تھے، پھر سو روپے فی نفر کے حساب سے پیسے (رِشوت) مانگنے لگے۔

اب مسافر بیچارے مجبور تھے اور ان کا کوئی بھی سننے والا نہیں تھا۔ اگر پیسے نہ دیتے تو  بہت دیر ہو جاتی اور ٹکٹیں بھی ضائع ہو جاتی۔ مجبور ہو کر سب نے فیصلہ کیا جو یہ کہہ رہے ہیں ان کا مطالبہ پورا کریں اور جان چھڑائیں۔ انہوں نے پیسے (رِشوت) وصول کئے، تب جا کر جانے کی اجازت دی اور چند روز قبل میرا ایک دوست بھی یہی بتا رہا تھا کہ اب تو اور بھی صورتِ حال بگڑ چکی ہے۔  سرِعام لوٹا جا رہا ہے۔  ایک اسلامی ملک کی سرکاری انتظامیہ اتنی ڈھٹائی سے لوگوں کو لوٹ رہی ہے، لیکن میڈیا یا اعلٰی حکام اس کا نوٹس ہی نہیں لے رہے۔ کیا ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنا میڈیا کی ذمہ داری نہیں اور کیا ہمارے سرکاری اداروں میں اتنی بھی سکت نہیں کہ وہ ان کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کرسکیں اور یا پھر اپنے اپنے پیٹی بھائیوں کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔

ہمارا ملک پاکستان جنت کی مانند ہے، جس میں ہر طرح کی نعمتیں پائی جاتی ہیں، لیکن اس ملک کو ہمارے ہی سرکاری ادارے اور اپنے محافظ ہی چوری، ڈکیتی، رشوت، قانون شکنی اور بددیانتی کے ذریعے برباد کرنے پر تلُے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کی عدم توجہی کی بدولت تفتان کے راستے میں مسافروں کو لوٹنے اور رشوت بٹورنے کا کاروبار عروج پر ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ جس ملک میں سرکاری اہلکار لوگوں کو لوٹنا شرع کر دیں، اس ملک کے سرکاری اداروں اور سرکار سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جایا کرتا ہے۔
اِدھر اُدھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری سے سوال ہے
خبر کا کوڈ : 455349
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش