0
Thursday 21 May 2015 19:27

امام حسین ؑ بےمثال و لازوال شخصیت

امام حسین ؑ بےمثال و لازوال شخصیت
تحریر: ارشاد حسین ناصر

4 ہجری شعبان المعظم کی تیسری تاریخ تھی، جب آغوش سیدہ فاطمہ بنت محمد ؐ میں امام حسین کی آمد ہوئی۔ یہ وہ گھرانہ ہے جس کی پاکیزگی و طہارت کی گواہی اللہ کا کلام ان الفاظ میں دیتا ہے۔
انما یُرید اللہ لیذھب عنکم الرّجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا"
بے شک اللہ کا ارادہ ہے کہ اہل بیت سے رجس و ناپاکی کو اس طرح دور رکھے، جس طرح رکھنے کا حق ہے۔

یہی وہ آیہ مجیدہ ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے امام حسینؑ نے نے یزید کے والی مدینہ کے سامنے انکار بیعت کیا کہ وہ اہل بیت نبوت و معدن رسالت سے ہیں اور یزید فاسق و فاجر ہے، اس کی بیعت نہیں کرسکتا۔ قرآن اس گھرانے کی طہارت و پاکیزگی کا گواہ ہے۔ اس گھر میں جو پروردہ نبوت و رسالت تھا، میں جب امام حسین کی ولادت مبارک ہوئی، جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو نام رکھنے والے سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں، اس مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ اس روایت سے ہٹ کر کسی نے رسول اللہؐ سے سبقت نہیں لی، بلکہ آپ ؐ کا انتظار کیا کہ زبان وحی سے کیا نام سامنے آتا ہے، حالانکہ آپ کی والدہ ماجدہ سیدۃ نساءالعالمین، دختر رسول ؐ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ ہیں، اور آپ کے والد گرامی شیر خدا، برادر و داماد پیغمبر خاتم، امیر المومنین حضرت علی ؑ ہیں۔

کتب تاریخ میں رقم ہے کہ جب آپ کی ولادت باسعادت کی خبر ختمی مرتبت سیدالانبیاء، محبوب الٰہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچائی گئی تو آپ ؐنے انتہائی خوشی اور مسرت و شادمانی کا اظہار فرمایا اور پیارے نواسے حضرت امام حسین ؑ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر اپنا لعاب دہن بطور اولین خوراک نومولودکے منہ میں ڈالا، اور نومولود کا نام حسین تجویز کیا اور فرمایا کہ حضرت موسیٰ کے بھائی ہارون ؑ کے دو بیٹے تھے ان کے نام شبر اور شبیر تھے میں ان کے ناموں پر اپنے نواسوں کے نام رکھتا ہوں۔ یاد رہے کہ شبر کا عربی میں ترجمہ حسن ہے جو بڑے فرزند امام حسن کا نام رکھا گیا اور شبیر کا ترجمہ حسین ہے اسی لیے آپ کا نام حسین رکھا گیا اور علماء دین نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ نام عرب میں اس سے پہلے نہ تھے، سب سے پہلے یہ نام امام حسن اور امام حسین کے لیے رکھے گئے۔ حضرت ختمی مرتبت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام حسین کا عقیقہ خود کیا اور ایک مینڈھا بطور عقیقہ ذبح کیا اور ولادت باسعادت کے ساتویں روز آپ ؐنے امام حسین کے بال منڈوائے اور بالوں کے برابر چاندی راہ خدا میں صدقہ کر دی۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی نومولود اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا ذاتی تعارف نہیں ہوتا اس کے بارے عامۃ الناس سوال کرتی ہے کہ اس کے باپ کا نام کیا ہے، اس کے دادا کا نام کیا ہے، اس کا خاندان کونسا ہے، کس خاندان کا چشم و چراغ ہے، اس خاندان کی کیا خدمات ہیں، کیا کارنامے ہیں، کیا مقام ہے، یہ وہ حوالے ہوتے ہیں جو عموماً کسی بھی بچے کیلئے پیدا ہونے سے لیکر زندگی کے آخری سانس تک بطور تعارف ساتھ رہتے ہیں، اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی دینی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتا ہے، یا کسی بڑی سیاسی و سماجی شخصیت یا گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، کسی معتبر علمی نام، بلند پایہ خطیب، معروف ادیب، ممتاز شاعر، کسی نامور مجاہد و مبارز، کسی حکمران خاندان کا چشم و چراغ ہے تو کئی پشتوں تک اس کا نام لوگوں کی زبان پر سنا جاتا ہے، اسے اہمیت ملتی ہے، اور اگر اس نے مزید کارنامے سرانجام دیئے، کوئی علمی، دینی، سائنسی یا معاشرتی خدمت کی اور کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا تو اس کے بعد آنے والی نسلوں کو اس کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے، اس کی تعظیم کی جاتی ہے، اس کا احترام کیا جاتا ہے، یہ سونے پہ سہاگہ والی بات ہو جاتی ہے۔ امام حسین ؑ تاریخ انسانی کی بہت ہی منفرد شخصیت ہیں جن کو چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی پڑھا، لکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔ تحقیق و جستجو کے خوگر انہیں تلاش کرنا چاہتے ہیں، ان سے محبت و عشق کرنے والے اپنی انتہاؤں کو چھونے کیلئے بیقرار نظر آتے ہیں۔

اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ہم فرزند علی و بتول حضرت امام حسین ؑ کی تاریخ کا دھارا موڑنے والی، عظیم المرتبت شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ امام حسین ؑ اپنی دیگر خصوصیات کی طرح اس خصوصیت میں بھی انفرادی شان کے حامل نظر آتے ہیں۔ کوئی شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ کیا نسبتیں اور کیسی کیسی عظمتیں حضرت امام حسین ؑ کے حصے میں آئیں، وہ کس کے نواسے، کس کے نورِ نظر، کس کے لخت جگر اور کس کے بھائی ہیں؟ ایک ایک نسبت کی بزرگی اور رفعت کو دیکھنے کیلئے کوہ ہمالیہ جیسا قد کاٹھ چاہیئے، اس کے بعد بھی ٹوپی گرنے کا احتمال بلکہ یقین ہے۔

یہ لازوال شرف و مقام فقط امام حسینؑ کو حاصل ہے کہ وہ سید عالم پیغمبر آخر و اعظم ؐ کے نواسہ ہیں۔ حسین ؑ کا نانا ؐ کوئی عام نانا نہیں یہ وہی ہیں جن کے نام سے نبضِ ہستی تپش آمادہ اور خیمہ افلاک ایستادہ ہے، جس کی نسبت معراج انسانیت ہے جس کی ذات سے اعتبار کائنات ہے، جس کا وجود برہان الٰہی ہے، جس کی ہستی آیہء ربانی ہے، جس کا قول حدیث اور جس کا عمل سنت ہے۔ جس کی خلوت خود آگاہی اور جلوت خدا آگاہی کا مرقع تھی جس کی بشریت آبروئے آدمیت اور جس کی نبوت رہبر انسانیت ہے، جس کے نور سے شبشتان عالم چمکے اور جس کے رنگ و بُو سے چمنستان دہر مہک رہا ہے، جس کی خاکِ راہ سُرمہ چشم بصیرت اور جس کا نقشِ کفِ پاجادہ طریقت و معرفت ہے، جس کا خیال الہام اور جس کا نطق وحی ہے، وہی سید عالم ؐ، حسین ؑ کے نانا ہیں جن کے قدموں کی آہٹ سن کر کوئی خضر بنا اور جن کے در کی بھیک پاکر کوئی سکندر کہلایا۔

حسین ؑ کا بابا کون؟ علی ؑ، جس کی پیشانی سجدہ غیر اللہ کبھی آلودہ نہیں ہوئی، جس کی ایک ایک سانس میں خوشبوئے نبی ؐ بسی رہی، جس کو "باب العلم" کا لافانی خطاب حاصل ہے، جو ہر میدان جنگ میں حیدرکرار کہلایا جس کی سیاست پر عبادت کا رنگ غالب جس کی روحانیت ہر سلسلہ تصوف کا سرچشمہ ٹھہری جس کو کعبے میں ولادت اورمسجد میں شہادت نصیب ہوئی۔ حسین ؑ نے کس کی آغوش میں جنم لیا؟ خاتون جنتؑ کی آغوش میں! جس کی آغوش کا تقدس عرش کے تقدس سے کسی صورت کم نہیں، جس کی چادر کا گوشہ سایہ جنت ہے، جس کے گھر کی چاردیواری کا جبرائیلؑ نے کئی بار طواف کیا، جس کے وجود کو زبانِ نبوت نے "گوشہ  دل" اور "لخت جگر"کہا، جس کی عفتِ دلیل عصمت ہے، جس کو قرآن نے چادرِ تطہیر اوڑھائی جس کا نام لینے کیلئے زبان کو کئی بار مُشک و گلاب سے وضو کرنا پڑتا ہے، جس کی ناخوشی کا کبھی رسول ؐ بھی متحمل نہیں ہوا، جس کے گھر میں احتراماً سورج کی شعاع نے کبھی جھانک کر نہیں دیکھا۔ حسین ؑ بھائی کس کے ہیں؟ اُس کے بھائی جس نے صلح کا پرچم بلند کیا تاکہ دین باقی رہے، اصول باقی رہیں۔

امام حسین ؑ کا اصل کمال اور انفرادیت یہ ہے کہ وہ اتنی عظیم نسبتوں اور بلند حوالوں کے ہوتے ہوئے اپنی انفرادیت جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوا قائم رکھے ہوئے ہیں، جو کار ناممکن ہے اور اما حسین نے ہی اسے ممکن بنایا ہے۔ یہ انہی کا خاصہ ہے، یہ انہی کا اعزاز ہے، یہ انہی سے ممکن ہے ، بڑے باپ کا بیٹا ہونا، عظیم ماں کا فرزند ہونا، جلیل القدر خانوادے کا فرد ہونا، پرشکوہ گھرانے کا چشم و چراغ ہونا باعثِ سعادت تو ہے ہی مگر کسی امتحان اور آزمائش سے بھی کم نہیں ہوتا ۔ وہ یوں کہ بڑے باپ کی عظمت کی لاج رکھنا، عظیم ماں کی آغوش کا حق ادا کرنا، خاندان کی قدر و جلالت کا پاس و لحاظ اور گھرانے کی شان و شوکت کا تحفظ کرنا کوئی معمولی آزمائش نہیں اور ساتھ ہی الگ سے اپنی شناخت بنانا کارے دارد!

امام حسینؑ کی چند اور خاص باتیں جن کا جائزہ لینا بےحد ضروری ہے یہاں ذکر کرتے ہیں۔ آپ کی شخصیت صرف ایک مبارز، ایک مجاہد، ایک حریت پسند کے طور پر نہیں دیکھنی چاہیئے۔ تاریخ کے اوراق میں آپ ہر حوالے سے ایک رہبر و رہنما اور مکمل انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
خالص خدا کیلئے قیام:
خداوند کریم نے قرآن کریم میں اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ صرف اُس کی رضا اور خوشنودی کیلئے اعمال انجام دیں۔ "صبغۃ اللہ و من احسن اللہ صبغۃ" کہ الٰہی رنگ چڑھا لو کیونکہ الٰہی رنگ سے بہتر کونسی چیز ہے اور ایک اور آیہ کریمہ میں پیغمبر اسلام ؐ کو فرمایا کہ "ان تقوم اللہ مثنیٰ و فرادیٰ" کہ دو دو ہو کر اور تنہا راہ خدا میں قیام کریں۔ قرآن کریم راہ حق میں جہاد کرنے والوں کی مدح و ستائش میں فرماتا ہے کہ "اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ" بےشک خداوند تعالیٰ مومنوں سے ان کی جان اور مال کو بہشت کے بدلے میں خرید لیا ہے۔ جیسا کہ ملاحظہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس آیہ کریمہ میں خداوند تعالیٰ نے مجاہد مومنین کی جان اور مال کی قیمت بہشت کو قرار دیا ہے اور ایک اور آیہ کریمہ میں بعض عالی مرتبہ انسانوں کی مدح و ستائش میں فرمایا "و من الناس من یّشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ" اس آیہ شریفہ میں اس بات پر تاکید وارد ہوئی ہے کہ وہ لوگ جو اپنی جان اور مال کو خدا سے عشق کے بدلے میں فروخت کرتے ہیں اور ان کا ہدف اور مقصد صرف رضائے خدا تعالیٰ ہے۔ امام حسینؑ نے کربلا کی طرف جو سفر کیا، وہ صرف اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کیلئے تھا، اسی وجہ سے سفر کے آغاز کے وقت اپنے جد مبارک رسول اللہ ؐ کی قبر مطہر کے پاس خداوندِ تعالیٰ سے دعا فرماتے ہیں کہ وہ انہیں اس میں کامیابی عطا فرمائے اور انہیں ایسے راستے پر چلائے کہ جس میں اُس کی اور اس کے رسول ؐ کی رضا اور خوشنودی ہو اور اسی چیز کا آنحضرت ؑ کے دیگر خطابات میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

جود و سخا:
امام حسین علیہ السلام پیکر سخاوت تھے، روایت میں ہے کہ "ابو ہشام قناد "بصرہ سے امام حسین ؑ کیلئے کچھ مال و اسباب ارسال کرتے تھے اور آنحضرت ؑ اپنی جگہ سے اُس وقت اُٹھتے تھے جب سب کچھ لوگوں کو ہدیہ فرما دیتے تھے۔ "ابن عسکر" روایت کرتے ہیں کہ ایک گداگر مدینہ کی گلیوں میں گدائی کرتا پھر رہا تھا کہ چلتے چلتے وہ امام حسین علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا۔ دروازے پر دستک دی اور اس طرح کا شعر پڑھنے لگا۔ "(ترجمہ) کہ کیا آج وہ شخص ناامید پلٹا ہے جو آپ ؑسے امید رکھتا ہے اور اس نے آپ ؑ کے دروازے پر دستک دی ہے۔ آپ ؑ صاحب جود و سخاوت ہیں، آپ ؑبخشش کی معدن ہیں اور آپ ؑ کے والد ماجد فاسقوں کے قاتل تھے"۔ امام حسین ؑنماز میں مشغول تھے، آپ ؑ نے نماز کو جلدی جلدی ختم کیا اور باہر تشریف لائے، آپ ؑ نے اس اعرابی کے چہرے سے اس کی تنگدستی کو دریافت فرما لیا تھا، آپ ؑواپس پلٹ گئے اور قنبر کو آواز دی۔ قنبر نے جواب دیا لبیک یابن رسول اللہ ؐ، آپ ؑ نے فرمایا ہمارے اخراجات کے پیسوں میں سے کتنے باقی ہیں، قنبر نے عرض کیا وہی دو سو (۲۰۰) درہم ہیں کہ جن کے بارے میں آپ ؑ نے فرمایا کہ اہل بیت ؑ میں تقسیم کروں۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ وہ تمام (دوسو درہم) لاؤ، کوئی شخص آیا ہے جو ان دوسو درہم کا اُن (اہلبیتؑ ) سے زیادہ مستحق ہے، اُس اعرابی نے وہ درہم لے لئے اور یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ "اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ"کہ "خداوند عالم بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں پر قرار دے۔

نماز سے عشق:
امام حسین علیہ السلام نماز کے ساتھ خصوصی انس رکھتے تھے ان کا بچپن آغوش نبوت و رسالت میں گذرا تھا وہ نماز بچانے ہی تو نکلے تھے، انہوں نے نانا کا دین بچانے کیلئے ہی تو قیام کیا تھا، حضرت ؑ نے اپنے برادر ابوالفضل العباس ؑ کو کہا کہ امویوں سے ایک رات کی مہلت لو تاکہ اس رات کو وہ صر ف دعا، نماز، تلاوت قرآن، استغفار اور خدا سے راز و نیاز میں بسر کریں اور پھر ایسے ہی اپنی مہلت کی رات کو تقسیم کیا، عشق خدا میں رات کربلا والوں نے جو رات بسر کی وہ تاریخ کا ایسا روشن و تابندہ باب ہے کہ اس کی مثالیں آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی دی جا رہی ہیں اور دی جاتی رہیں گی، ادھر آپ دیکھیں کہ ظہر عاشورا جب جنگ اپنے زوروں پر تھی، جب نماز کا ذکر ہوا تو آپ ؑ اقامہء نماز کے لئے متفکر ہوئے اور جس شخص نے وقت نماز کا ذکر کیا اُس کو فرمایا خدا تمہیں نماز گزاروں میں سے قرار دے۔ بلکہ اب اس کا وقت ہے لہٰذا دشمن کو کہئے کہ جنگ روک دے تاکہ ہم نماز پڑھ سکیں، پھر جب وہ لوگ اس بات پر راضی نہ ہوئے تو سعید ابن عبداللہ اور زہیر ابن قین نے امام ؑ کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سرلی اور نماز گزاروں کی حفاظت کرتے ہوئے جان جان آفرین کے سپرد کی۔ دین سے یہ محبت، نماز سے یہ عشق ان کے ماننے والوں کیلئے کافی نہیں کہ وہ ماتم و عزاء کے دوران ساری سرگرمیاں روک کے اسوہ حسینی پر عمل پیرا ہوں اور نماز کو اولیت دیں۔ امام حسین ؑ کو تو یہ خراج محبت و عقیدت تاحشر ملتا رہے گا کہ وہ خانوادۂ رسالت کے چشم و چراغ ہیں مگر خاندان نبوت بھی اس پر ہمیشہ فخر کرتا رہے گا کہ حسین ؑ اس کا ایک فرد ہے جس کے نام سے تحریک اُٹھی اور جس کی ذات سے ایک نئی تاریخ مرتب ہوئی امام حسین ؑ نے یزید کے مقابلے میں استقامت دکھا کر میدان کربلا میں دادِ شجاعت دے کر نہ صر ف اپنے عہد میں غرور ملوکیت توڑا بلکہ پوری تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔

آج بھی دنیا بھر میں اٹھنے والی تحریکیں جن میں ظالموں اور غاصبوں سے حقوق حاصل کرنے اور غلامی سے نجات کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی جاتی ہے ان کا منبع یہی حسینی تحریک ہے جسے امام حسین ؑ نے میدان کربلا میں بپا کیا تھا، یہ ملوکیت کے خلاف نعرے کا جذبہ شہادت حسین ؑ کا ثمرہ ہے، یہ بنیادی حقوق کا شہرہ، خون حسین ؑ کا معجزہ ہے، یہ معاشی انصاف کا نعرہ، تحریک حسینیؑ کا صدقہ ہے اور یہ حق خود ارادیت کا چرچا، قافلہ سالار کربلا ؑ کا کرشمہ ہے۔ جس طرح پھول کی ترو تازگی، طراوت اور شادابی اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اس کے باریک ریشوں میں پانی کی نمی کارفرما ہے، یہ نمی نہ رہے تو پھول مرجھا جاتا ہے اسی طرح دنیا میں جاری جہادی تحریکیں اس امر کا پتہ دیتی ہیں کہ ان کی رگوں میں روحِ حسین ؑ کارفرما ہے جبھی تو یہ تحریکیں زندہ ہیں بلکہ نشوونما پا رہی ہیں، ان تحریکوں نے اگر روحِ حسین ؑ سے اپنا ناتا توڑا، اور کسب فیض کرنا چھوڑا تو پھر یہ تحریکیں سُوکھے ہوئے پھول کی طرح صرف کتابوں میں نظر آئیں گی نہ ان میں تازگی رہے گی اور نہ توانائی، نہ زندگی رہے گی اور نہ شادابی، جس طرح پھول کی شگفتگی پانی کے قطرے کی محتاج ہے اسی طرح ہر اسلامی انقلابی تحریک امام حسین ؑ کے جذبے کی محتاج ہے۔ تاریخ کا دھارا موڑنے والی اس بے مثال ہستی کا کردار جان لینے کے بعد ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اتنی عظمتوں اور رفعتوں میں گھرے ہونے کے باوجود امام حسین ؑ کیونکر انمٹ اور لازوال منفرد شخصیت ہیں۔
خبر کا کوڈ : 462280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش