0
Monday 8 Jun 2015 20:09

امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (ع) کے سنہری اقوال (4)

امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (ع) کے سنہری اقوال (4)
تحریر: حسین ناصر
 
* صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پڑی تو فرمایا
اے وحشت زدہ، اجڑے گھروں اور اندھیری قبروں کے رہنے والو! اے خاک نشینو! اے عالم غربت کے ساکنو، اے تنہائی اور مشکلات میں زندگی بسر کرنے والو! تم نے جلدی کی اور ہم سے آگے بڑھ گئے اور ہم تمہارے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمہارے پیچھے آ رہے ہیں۔ آؤ میں تمہیں خبر دوں کہ تمہارے بعد کیا ہوا، پھر فرمایا تمہارے گھروں میں تمہارے بعد دوسروں نے بسیرا کر لیا، تمہاری بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہو چکا ہے یہ تو یہاں کی خبریں ہیں۔ اب بتاؤ تمہارے پاس  کیا خبر ہے۔ (پھر حضرت اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا) اگر انہیں بات کرنے کی اجازت مل جائے تو یہ تمہیں بتائیں گے کہ بہترین زاد راہ تقوٰی ہے۔
 
* جس شخص کو چار چیزیں عطا ہوئی ہوں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا، جو دعا کرے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا۔ جسے توبہ کی توفیق ہو جائے، وہ مقبولیت سے ناامید نہیں ہوتا جسے استغفار کرنا نصیب ہو جائے وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا اور جو شکر کرے وہ رزق میں اضافہ سے محروم نہیں رہتا اور اس کی تصدیق قرآن مجید نے فرمائی ہے دعا کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور استغفار کے متعلق ارشاد ہے۔ جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت کی دعا مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا اور شکر کے بارے میں ارشاد ہے اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمت میں) اضافہ کروں گا اور توبہ کے بارے میں ارشاد ہے، اللہ ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بناء پر کوئی بری حرکت کر بیٹھیں پھر جلدی سے توبہ کر لیں تو خدا ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خدا جاننے والا اور حکمت والاہے .
 
* نماز ہر پرہیزگار کے لیے باعث تقرب ہے اور حج ہر ضعیف و ناتواں کا جہاد ہے۔ ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور عورت کا جہاد شوہر سے حسن معاشرت ہے۔
 
* صدقہ کے ذریعہ روزی طلب کرو۔
 
* جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے۔
 
* جتنا خرچ ہو اتنی ہی امداد ملتی ہے۔
 
* جو میانہ روی اختیار کرتاہے وہ محتاج نہیں ہوتا۔
 
* غم آدھا بڑھاپا ہے۔
 
* بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں کا ثمرہ بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سے عابد شب زندہ دار ایسے ہیں جنہیں عبادت کے نتیجہ میں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، زیرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی قابل ستائش ہوتا ہے۔
 
* صدقہ سے اپنے ایمان کی حفاظت کرو او ر دعا سے مصیبت اور بلاؤں کو دور کرو۔
 
* کمیل ابن زیاد نخعی کہتے ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبرستان کی طرف لے چلے جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ کھینچی اور پھر فرمایا، اے کمیل ! یہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ حفاظت کرنے والا ہو، لہٰذا جو میں تمہیں بتاؤں اسے یاد رکھنا۔
 
اے کمیل دیکھو! ہر انسان تین قسم میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتا ہے، یا وہ عالم ربانی ہے یا پھر متعلم کہ جو نجات کی راہ پر ہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا  ہے اور ہر ہوا کے رخ پر مڑ جاتا ہے، نہ انہوں نے  کبھی نور علم سے کسب فیض کیا  اور نہ  کبھی کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی۔
 
اے کمیل! یاد رکھو کہ علم مال سے بہتر ہے (کیونکہ) علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور مال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن کسی کو تعلیم دینے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور مال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہو جاتے ہیں۔
 
اے کمیل! علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتداء کی جاتی ہے اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے۔ یاد رکھو کہ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم ۔
 
اے کمیل! مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔ بےشک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں (اس کے بعد حضرت نے اپنے سینہ اقدس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا (دیکھو! یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ ہے کاش اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے، ہاں کوئی ملا مگر ایسا جو ذہین تو ہے مگر ناقابل اطمینان ہے، جو دنیا کے لیے دین کو آلہ کار بنانے والا ہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر بڑھائی و برتری جتلانے والا ہے۔ یا وہ  جو ارباب حق و دانش کا مطیع تو ہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے۔ بس ادھر ذرا سا شبہہ عارض ہوا کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں تو پتا چلاکہ نہ یہ اس قابل ہے اور نہ وہ اس قابل ہے یا ایسا شخص جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راہ پر کھنچ جانے والا ہے، یا ایسا شخص جو مال جمع کرنے  اور و ذخیرہ اندوزی پر جان دیتا  ہے یہ دونوں بھی دین کے کسی امر کی رعایت و پاسداری کرنے والے نہیں ہیں ان دونوں چوپاؤں سے زیادہ شباہت رکھنے والے ہیں۔ اس طرح تو صاحبان علم کے مرنے سے علم ختم ہو جاتا ہے۔

ہاں! مگر زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رہتی کہ جو خد اکی حجت کو برقرا ر رکھتا ہے، چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو یا پوشیدہ و پنہان تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں اور وہ کتنے ہیں اور کہاں پر ہیں؟ خدا کی قسم وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہیں اور اللہ کے نزدیک قدرومنزلت کے لحاظ سے بہت بلند مرتبہ ہیں۔ خداوند عالم ان کے ذریعہ اپنی حجتوں اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے جیسوں کے سپرد کردیں اور اپنے جیسوں کے دلوں میں بو دیں۔ علم نے انہیں ایک دم حقیقت و بصیرت کے انکشافات تک پہنچا دیا ہے۔ وہ یقین و اعتماد کی رو ح سے گھل مل گئے ہیں اور ان چیزوں کو جنہیں آرام پسند لوگوں نے دشوار کر رکھا تھا۔ اپنے لیے سہل و آسان سمجھ لیا ہے اور جن چیزوں سے جاہل بھڑک اٹھتے ہیں ان سے وہ جی لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ ایسے جسموں کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارتے ہیں کہ جن کی روحیں ملائے اعلٰی سے وابستہ ہیں۔ یہی لوگ زمین پر اللہ کے نائب اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ ہائے ان کے دیدار کے لیے میرے شوق کی فراوانی (پھر حضرت نے کمیل سے فرمایا) اے کمیل! (مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا) اب جس وقت چاہو واپس چلے جانا۔
 
کمیل ابن زیاد نخعی رحمتہ اللہ اسرار امامت کے خزینہ دار اور امیر المومنین کے خاص اصحاب میں سے تھے، علم و فضل میں بلند مرتبہ اور زہد و عبادت میں خاص امتیاز کے حامل تھے اور 38هجری میں 90 سال کی عمر میں حجاج ابن یوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور بیرون کوفہ دفن ہیں۔
 
* انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہو جاتا ہے کیونکہ ہر شخص کی گفتگو اس کی ذہنی و اخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے جس سے اس کے خیالات و جذبات کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لہٰذا جب تک وہ خاموش ہے اس کا عیب و ہنر پوشیدہ ہے اور جب انسان کی زبان کھلتی ہے تو اس کا جوہر نمایاں ہو جاتا ہے۔
 مرد پنہاں است در زیر زبان خوشیتن
قیمت و قدرش ندانی تانیاید در سخن

 
* جو شخص اپنی قدر و منزلت کو نہیں پہچانتا وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 465636
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش