0
Wednesday 5 Aug 2015 11:24

شہید قائد اور آئی ایس او

شہید قائد اور آئی ایس او
تحریر: سید نثار علی ترمذی

شہید باقر الصدرؒ نے فرمایا کہ "ذُوبُوا فی الامام الخُمینی کَمَا ھُو ذاب فی الاسلام" امام خمینیؒ کی ذات میں اس طرح جذب ہوجائو، جس طرح وہ اسلام میں جذب ہوگئے۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ اس فرمان کی عملی تصویر تھے۔ تاریخ تشیع پاکستان میں شہید کو جو منفرد مقام حاصل ہے، وہ کسی اور کو حاصل نہیں۔ ان پر یہ بات صادق آتی ہے کہ وہ آیا اور چھا گیا۔ چار ساڑھے چار سال کے عرصے میں انہوں نے اپنے کردار، گفتار اور جدوجہد سے عوام کے دلوں میں جو جگہ بنائی ہے، اس کی مثال نہیں۔ ربع صدی گذرنے کے باوجود قیادت کا معیار اور مرتبہ جو آپ کی وجہ سے قائم ہوا تھا، لوگ اب کی قیادتوں کو اسی معیار پر جانچتے ہیں۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ابھی تک کوئی بھی آپ کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ آپ کی شہادت پر امام خمینیؒ نے جو پیغام دیا، اس نے آپ کی منزلت کو سمجھنے میں مدد دی اور اندازہ ہوا کہ اس قوم کا کتنا بڑا نقصان ہوچکا ہے۔ امام خمینیؒ نے پاکستان کی باشرف اور غیور عوام سے تاکید کی ہے کہ "وہ شہید راہِ حق (علامہ عارف حسین الحسینیؒ) کے افکار کو زندہ رکھیں۔" نیز انہوں نے فرمایا کہ "میں اپنے عزیز بیٹے سے محروم ہوا ہوں۔" امام خمینیؒ نے "عزیز فرزند" کہہ کر ان کے علاوہ صرف استاد مرتضٰی مطہری شہید کو یاد کیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے امام خمینیؒ کی نظر میں شہید کا کیام مقام تھا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ نے شہید عارف الحسینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ "اپنی اس زندگی میں، ان میں سے جو شخصیت جس کا نام بڑے منفرد اور نمایاں انداز میں لیا جا سکتا ہے، جو امام خمینیؒ کی ذات میں کھو گئے تھے، ختم ہوگئے تھے، وہ شہید عارف الحسینی تھے۔" شہید عارف نے آئینے سے بھی زیادہ شفاف انداز میں یہاں انقلاب کو Reflect (منعکس) کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اگر آپ کوئی نیا کام نہ کرسکیں، تو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شہید حسینیؒ کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ کافی ہے، اپنی زندگیوں کو اور آنے والی نسلوں کی زندگیوں کو راہ راست پر لانے کے لیے۔" شہید حسینی پر مزید لکھا جاسکتا ہے، مگر اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب شہید نے منصب قیادت سنبھالا تو تحریک کا کوئی باضابطہ ڈھانچہ موجود نہیں تھا، فقط اضلاع میں نامزدگیاں کرکے مرکزی کونسل کا اجلاس بلایا تھا، جس نے آپ کے سرَ پر دستار قیادت سجائی تھی۔ اس وقت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور امامیہ آرگنائزیشن منظم جماعتیں تھیں، آئی او جلد ہی کئی باہمی مسائل کا شکار ہوگئی، پھر اپنا علیحدہ تشخص رکھنے کے لئے احتیاط پر عمل کرنے لگی۔ یوں قومی دھارے سے دور ہوتی چلی گئی۔ اس وقت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک طلبہ تنظیم کے طور پر پورے ملک میں اپنے تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ موجود تھی، نیز اس کے سابقین بھی معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل تھے۔ شہید نے اسی سرمائے سے اپنے تنظیمی سفر کا آغاز کیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انہیں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے رفقاء پر مشتمل ٹیم دستیاب ہوگئی، جس کا سابقہ آئی ایس او ہی تھی۔ انہوں نے بہت جلد ہی ملک بھر میں تحریک کا ڈھانچہ کھڑا کر دیا۔ اس کا دستور بن گیا اور یہ اپنے پاوں پر کھڑی ہوگئی۔

شہید کا آئی ایس او سے اور آئی ایس او کا شہید سے جو تعلق اور محبت ہے، وہ ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی کسی ثبوت کی محتاج ہے۔ آئی ایس او نے اپنے شعوری فیصلہ سے اپنی نظارت کے اختیار شہید عارف حسین الحسینی کے سپرد کر دیئے، کیونکہ وہ اس ملک میں نمائندہ ولی فقیہ تھے۔ یوں آئی ایس او نے اپنے آپ کو ولایت فقیہ کے زیر سایہ پروان چڑھانے کا انقلابی فیصلہ کیا۔ شہید بھی ایک سرپرست اور ایک باپ کی حیثیت سے آئی ایس او پر سایہ فگن رہے۔ آئی ایس او کے جوان دیوانہ وار شہید کے گرد جمع تھے اور شہید اپنی شفقت سے انہیں اپنے حصار میں لئے ہوئے تھے۔ آج بھی اس شعر کا مصداق ہیں:
جب بھی کوئی پیار سے بلائے گا
مجھ کو ایک شخص یاد آئے گا

شہید نے آئی ایس او کے بارے میں جو فرمایا، وہ ان جذبات کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: "برادران عزیز! میں آپ کے مبارک چہروں پر نظر کرتا ہوں تو مجھے آپ کے چہروں پر اسلامی عکس دکھائی دیتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر صحیح معنوں میں مسلمان نوجوان ہیں، تو ہمارے یہی نوجوان ہیں، جو آئی ایس او کے پلیٹ فارم پر کام کر رہے ہیں، یہی صحیح مسلمان ہیں۔ یہ خدا، رسول (ص)، اسلام و قرآن اور اہل بیت اطہار (ع) کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ نہ مجھ سے اور نہ کسی اور سے شاباش کہنے کی توقع بھی نہیں رکھتے ہیں۔" (آئی ایس او کنونشن 1987ء سے خطاب۔ آداب کاروان، ناشر، العارف اکیڈمی لاہور۔1997ء ،ص 54)

اس میں شہید نے آئی ایس او کے جوانوں کے ان اوصاف کا تذکرہ کیا، جو اس تنظیم کا طرہ امتیاز ہے۔ شہید حسینی سے مبالغہ کی توقع بھی نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے جو حقیقت تھی وہ بیان کر دی۔ یہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ شہید آج کے جوانوں میں مذکورہ صفات کا جلوہ چاہتے ہیں۔ یہ فقط شہید سے مربوط نہیں ہے بلکہ اس تنظیم کے سرپرست علماء کی زحمات اور خدمات کا صلہ ہے۔ یہ یاد پڑتا ہے کہ حجۃ الاسلام علامہ مرتضٰی حسین صدر الافاضل مرحوم جب جمعیت کے نوجوانوں کو دیکھتے کہ وہ باریش، دین کے کاموں میں سرگرم اور منظم ہیں تو کہتے کہ کاش! ہمارے جوان بھی ایسے ہی ہوتے۔ جب آئی ایس او تشکیل پائی تو گویا ان کی دلی مراد پوری ہوگئی۔ شہید عارف الحسینیؒ آئی ایس او کے جوانوں سے خصوصی محبت کرتے تھے اور ہر جگہ اس کے دفاع میں پیش پیش رہتے تھے۔ اس محبت کا اظہار بہت جگہ پر کیا، مگر جو تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہو گیا وہ پیش ہے: "مجھے امامیہ اسٹوڈنٹس کے عموماً اور کراچی کے امامیہ اسٹوڈنٹس کے جوانوں سے خصوصاً محبت ہے۔ ہمارے دوسرے رفقاء ہمارے نزدیک نہیں آتے تھے تو انہوں نے رات ایک بجے تک، 2 بجے تک کام کیا اور دن کو بھی اس وقت تک (جب) ہم یہاں سے چلے گئے، یہ شب و روز کام کرتے رہے، تو میں نے ادھر بھی جا کر کہہ دیا کہ واقعاً کس خلوص کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی چیز کی توقع نہیں رکھتے۔ کام کرتے ہیں، اگر ہم ان جوانوں کے احساسات کی قدر نہیں کریں گے اور جس طرح خلوص کے ساتھ کام کرتے ہیں، ہم بھی اسی خلوص کے ساتھ، ان کے ساتھ نہیں چلیں گے، تو ہم کس منہ کے ساتھ خدا کے سامنے کل حاضر ہوں گے۔" (آداب کارواں، ناشر العارف اکیڈمی لاہور،1997ء،ص35)

شہید عارف الحسینیؒ نے اس میں جہاں آئی ایس او کے جوانوں کی خدمات، خلوص، جدوجہد اور لگن کا ذکر کیا ہے، وہیں انہوں نے تاریخ کی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ جب دیگر لوگ شہید کا ساتھ دینے سے گریزاں تھے، تو یہی جوان تھے، جو اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ شہید کے ہم رکاب ہوگئے۔ اس کردار کو نہ تو چھپایا جاسکتا اور نہ فراموش کیا جاسکتا ہے۔ شہید نے آئی ایس او کے اس کردار کو زندہ و جاوید کر دیا۔ شہید عارف الحسینیؒ نے آئی ایس او کے سالانہ مرکزی کنونشن منعقدہ 1987ء سے خطاب کرتے ہوئے، آئی ایس او کے ایک اور کردار کو سراہا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: "آپ ہی نے پاکستان میں دوسری پارٹیوں کو برسر عام سڑکوں پر مردہ باد امریکہ، مردہ باد روس اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے سکھائے ہیں اور آپ نے ہی انہیں یہ جرأت دی ہے۔ آپ نے پاکستان میں یوم مردہ باد امریکہ یا یوم القدس کے نام سے یہ ہفتہ وحدت کے نام سے پروگرام کروائے ہیں۔ یقیناً آپ کے ان اقدامات اور آپ کی ان سرگرمیوں کی وجہ سے امریکہ گھات لگا کر بیٹھا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کب اسے موقع ملے اور وہ آپ پر وار کرے۔" (آداب کارواں، ناشر العارف اکیڈمی لاہور،1997ء ،ص53)

اس میں آئی ایس او کے اس زندہ و جاوید کردار کا شہید نے تذکرہ کرکے آج کے دعوے داروں کو آئینہ دکھایا ہے۔ نیز اس بات کی بھی پیشن گوئی کی ہے کہ امریکہ اس کردار کا بدلہ لے گا۔ آج آئی ایس او پر جو مصائب و مشکلات ہیں، اس کا ایک سبب اس کی استعمار دشمنی اور دین سے محبت ہے اور اس تناظر میں آئی ایس او کو مزید مشکلات کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ یہ بات باعث حوصلہ بھی ہے کہ شہید کی پیشن گوئی جہاں ثابت ہو رہی ہے، وہاں یہ پیمانہ بھی منظر میں رہنا چاہیے کہ ہم حق پر ہیں، خواہ موت ہم پر جا پڑیں یا ہم موت پر۔ شہید نے آئی ایس او کے جوانوں کو نصیحتیں بھی کیں ہیں۔ آج کے نوجوان کو آگاہی اور عمل کی طرف بڑھنے کی سعی کرنی چاہیے۔ شہید مرکزی کنونشن 1987ء کے خطاب کے آخر میں فرماتے ہیں: "آپ اسلام و قرآن اور تعلیمات اہلبیت علیہم السلام کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ آپ اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کریں، آپ علماء کے ساتھ روابط کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں، آپ آپس میں اخوت، صحیح نیت اور برادری کے ساتھ مل کر کام کریں۔ یہ تنگ نظری ٹھیک نہیں کہ میں کہوں کہ میں ہوں اور آپ نہ ہوں۔ آپ کہیں کہ نہیں میں ہوں آپ نہ ہوں۔ نہیں! ہم سب مل کر کام کریں، اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے، ایاک نعبد و ایاک تستعین، یہ نہیں، ایاک اعبدو ایاک استعین، بلکہ کہتا ہے، نعبد و نستعین، یعنی ہم مسلمانوں میں "میں" کا لفظ نہیں ہے، ہم کا لفظ ہے۔ ہم آئی ایس او والے خواہ وہ سندھ سے تعلق رکھتے ہوں یا بلوچستان سے، خواہ پنجاب سے ہوں یا شمالی علاقہ جات سے، خواہ آزاد کشمیر سے ہوں یا فرنٹیئر اور آزاد قبائل سے، ہم سب مل کر اس تنظیم کہ جس کے لئے ہمارے بھائیوں نے قربانیاں دی ہیں، اس کے لئے کام کریں۔" (آداب کارواں، ناشر: العارف اکیڈمی لاہور،1997ء، ص61)

میرے خیال میں یہ خطاب شہید کا مرکزی کنونشن سے آخری خطاب ہے، کیونکہ 5 اگست 1988ء کو آپ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے تھے۔ یوں اسے ایک لحاظ سے شہید کی وصیت کا درجہ مل چکا ہے۔ اس میں جہاں شہید نے ہر ایک نوجوان کے لئے ایک تربیتی اور تنظیمی چارٹر پیش کر دیا ہے، وہیں اس بات کی تلقین کی ہے کہ اس کو تنظیم کے لئے کام کرنے پر زور دیا ہے۔ شہیدؒ کے اس واضح فرمان کے بعد تنظیم اور تنظیم سازی کے خلاف جاری پروپیگنڈہ کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، بلکہ تنظیم میں کام کرنے کو شہید کا حکم سمجھتے ہوئے ادا کرنا چاہیے۔ امامیہ مسجد گلگت میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شہیدؒ نے آئی ایس او کے کردار کو ایک بار پھر واضح کیا ہے اور خوبصورت دفاع کیا ہے۔ پہلے شہید کے خطاب سے اقتباس پیش ہے وہ فرماتے ہیں: "جس خلوص کے ساتھ، جس جذبے کے ساتھ یہ جوان کام کر رہے ہیں ہم تو شب و روز پاکستان کے ہر شہر میں جاتے ہیں، قسم بخدا! جس خلوص کے ساتھ ہمارے یہ نوجوان خصوصاً آئی ایس او والے لڑکے جس خلوص اور جذبے کے ساتھ اسلام و قرآن اور دین کے لیے کام کر رہے ہیں، کوئی دوسرا نہیں کر رہا ہے۔ اب اگر میں مسجد کا پیش نماز ہوں، یا خطیب ہوں، یا انجمن کا صدر ہوں، تو اگر اس طرح ان کی حوصلہ شکنی کریں، اور ان کے خلاف باتیں کریں، تو میری نظر میں یہ گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔ البتہ اگر ان میں آپ نے کوئی اشتباہ دیکھ لیا، تو ہم نہیں کہتے کہ وہ لوگ معصوم ہیں۔ اگر کسی نے اشتباہ دیکھ لیا، تو آپ ان کی اشتباہات کی اصلاح کریں، درست کریں نہ کہ آپ ان کو گھر سے باہر پھینک دیں، تاکہ وہ دشمنان اسلام کے ہاتھ لگ جائیں۔" (آداب کارواں، ناشر العارف اکیڈمی لاہور،1997ء ،ص301)

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آئی ایس او کو ہمیشہ سے مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ کردار بدلتے رہتے ہیں، مگر ان کا مرکزی نقطہ آئی ایس او ہی رہی ہے۔ شہید کے دور میں بھی مخالفین کی کمی نہ تھی۔ جہاں شہید جاتے تو لوگ اپنا بغض لے کر آئی ایس او کے خلاف زبان درازی کرتے رہتے۔ اس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ مگر شہید ؒ ایک سرپرست، ایک ذمہ دار اور آگاہ شخص کی طرح ہر موقع پر دفاع کیا ہے، اس میں تو شہید نے قسم اٹھا کر آئی ایس او کے کردار کی گواہی دی ہے۔ لگتا ہے کہ شہید کے دورہ گلگت کے موقع پر لوگوں نے جو مخالفانہ باتیں کی ہوں گی، اس کا مجمع عام میں جواب دے دیا۔ آخر میں شہید قائد کے آئی ایس او کے نام ایک پیغام سے اس مضمون کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ شہید فرماتے ہیں: "امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان متدین و فعال طلبہ کی وہ واحد ملک گیر تنظیم ہے، جو عوام الناس اور خصوصاً یونیورسٹیوں کے پڑھے لگے، نوجوانوں کو دین سے آگاہی کی بہترین خدمات سرانجام دیتے ہیں اور بھرپور توانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے دین اسلام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ خداوند متعال سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں میں شعور و بصیرت پیدا کرے، تاکہ دشمنان اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت مستعد رہیں۔" (آداب کارواں، ناشر العارف اکیڈمی لاہور،1997ء ،ص351)
شہید کو جس قدر آئی ایس او کے جوانوں سے توقعات تھیں کوشش کرنی چاہیے کہ ان پر پورا اتریں، امام خمینیؒ کے فرمان اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کے بیان کی روشنی میں شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی تمام کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ یہ افکار نا فقط کتابوں میں زندہ رہیں، بلکہ معاشرہ میں چلتے پھرتے بھی نظر آئیں۔
خبر کا کوڈ : 477991
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش