1
0
Thursday 8 Oct 2015 00:22

حج کے حادثہ کی ذمہ داری کس پر؟

حج کے حادثہ کی ذمہ داری کس پر؟
تحریر: جمشید علی

آج پاکستان کے اخبار میں ایک کالم نگار نے پاک سعودیہ دوستی کا حق ادا کیا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ پاک چین دوستی کا ذکر خیر ہوتا رہا ہے، لیکن پاکستان اور پاکستانیوں نے کبھی دوسرے دوست ممالک کا ذکر نہیں کیا۔ بھلا ہو اس کالم نگار کا اس نے ایک اور دوست کو منانے اور معافی تلافی کی کوشش کی ہے۔ ذکر حج کا تھا، جس میں موصوف نے کھل کر سعودی حکومت کی طرف داری کی اور ان کی عصمت بچانے کے لئے ہاتھ پاوں مارے، لیکن شاید وہ موصوف فراموش کر بیٹھے کہ آج کے زمانہ میں کسی کی آنکھیں بند کرنا ناممکن ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر اقدامات ہوئے ہیں اور پیمرا نے بھی پابندی لگائی ہے، لیکن خدا برا کرے سوشل میڈیا کا، یہ کسی کی عزت باقی نہیں رہنے دیتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موت برحق چیز ہے اور اگر بیت اللہ الحرام میں موت آجائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت چاہیے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی معنوی مقام پر اللہ تعالٰی سے کئے گئے وعدہ کی وفا کرے۔

کالم نگار صاحب نے تحریر کیا ہے کہ ہر سال حج پر ایسے واقعات پیش آتے ہیں اور پرانے دور میں ہم حاجیوں کو اپنے شہر سے الوداع کر دیا کرتے تھے، بعض حجاج راستے میں ہی فوت ہو جاتے تھے ۔۔۔۔۔ جناب محترم لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کی کوشش مت کریں، آج کا دور اور سابقہ دور کسی حوالے سے بھی ایک جیسے نہیں ہیں، آج کی دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور سابقہ ادوار میں لوگ کی کیا کیفیت تھی، یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں؟؟ آپ کا کہنا کہ ہر سال واقعات پیش آتے ہیں، لیکن اس واقعہ کے بعد اسلامی دنیا سعودی حکومت کے پیچھے پڑ گئی ہے! بات درست ہے، واقعات تو ہر سال پیش آتے ہیں، لیکن اس سال اسلامی دنیا نے معلوم نہیں کیا کھا لیا تھا کہ سب نے ڈنڈا پکڑ لیا اور خادمین حرمین شریفین کے پیچھے پڑ گئے۔

جناب محترم آپ تو تجزیہ کرنا جانتے ہیں، ذرا تجزیہ کرنے کی زحمت کیوں نہیں کرتے کہ اس حادثہ اور گذشتہ سالوں کے حادثات میں کیا فرق تھا۔ آپ تاریخ میں کوئی ایسا حادثہ دکھا سکتے ہیں، جہاں ایک وقت میں سات ہزار انسانوں کی جان ضائع ہوگئی ہو۔ شاید آپ نے دوستی کا خیال رکھتے ہوئے شہداء کی تعداد بتانے سے بھی گریز کیا ہے، کہیں سعودی حکومت ناراض نہ ہو جائے، ورنہ سرد خانہ جات کے مسئول کا بیان تو آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ سانحہ منٰی کے بعد پہلی مرتبہ ہم نے 2700 اور دوسری مرتبہ 2000 جنازے وصول کئے۔ اس کے بعد سی این این کی رپورٹ کے مطابق سات ہزار جانوں کے ضیاع کی خبر آئی ہے، لیکن جیسا کہ آپ نے بیان کیا، امریکہ تو سعودی عرب کو بدنام کرنے کی کوشش میں ملوث تھا اور ویسے بھی سی این این کی فقط وہی خبر سچی ہوتی ہے جو امریکہ کے مدمقابل کھڑے ہونے والے ممالک مثلاً ایران، شام اور حزب اللہ وغیرہ کے خلاف ہو، ورنہ سی این این پاکستان کے میڈیا کے لئے کسی مقام پر قابل اعتماد نہیں ہے، فقط مذکورہ مواقع پر وحی سمجھی جاتی ہے۔

آپ نے اچھی مثال دی ہے کہ جہاز گر کر تباہ ہو جاتے ہیں، لیکن کسی نے دوسرے ملک کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کی، لیکن بیچاری سعودی حکومت اس واقعہ کے بعد زیر عتاب آگئی ہے! لیکن میرے محترم، ہر جہاز گرنے کے بعد ایک تحقیقی کمیٹی بھی تشکیل دی جاتی ہے، جو حادثہ کے علل و اسباب دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے، جس دن آپ کا کالم شائع ہوا، اس کے ساتھ ہی آج سے دس سال پہلے مصحف علی میر کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی تحقیقی رپورٹ بھی شایع ہوئی ہے، لیکن حیران کن طور پر سعودی حکومت نے کمیٹی بنانے سے انکار  کر دیا ہے، آخر دال میں کچھ کالا ہے!!!!

جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو خدا اس کو حق سمجھائے، یہ اپنے برادر ملکوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، اس آیت اللہ کو بھی چاہیے تھا کہ اگر باقی مسلمان ملکوں کے حجاج کرام کے جنازے گندگی کے ڈھیر پر پڑے ہیں تو کیا ہوگیا ہے، آپ کو دھمکی دینے کی کیا ضرورت ہے، جہاں دوسرے حجاج کرام کے جنازوں کو بلڈوزر اور کنٹینرز کے ذریعے منتقل کیا  جا رہا ہے تو وہاں آپ کے شھداء کے جنازے بھی شامل ہیں، اس میں حرج ہی کیا ہے؟؟ ان ایرانیوں کو عزت ِنفس کہاں سے مل گئی ہے، کسی حکومت نے اپنے شھداء کے جنازے نہیں مانگے، لیکن ایرانی اپنے سب شھداء کے جنازے واپس لے کر آ رہے ہیں اور پھر ظلم کی انتہا کر دی ہے، صدر، پارلیمنٹ کا سپیکر، چیف جسٹس اور سب عہدہ داران ان شھداء کے جنازوں کے استقبال کے لئے جا رہے ہیں، مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کام میں بھی ان کا ہدف سعودی حکومت کو نشانہ بنانا ہے، ورنہ پاکستان میں دیکھیں لوگ شھید ہوجاتے ہیں، صدر، وزیراعظم تو کیا کسی رکن ِ پارلیمنٹ کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے مقام کی ہتک کرنے کے لئے جنازہ میں چلا جائے۔ آج تک یہی سوچتا رہا ہوں کہ یہ ایرانی ہم سے سبق حاصل کیوں نہیں کرتے۔

جناب کالم نگار کو ابھی تک افسوس ہے کہ پاکستان نے اپنی فوج یمن کے ان وحشی بچوں کو کچلنے کے لئے کیوں نہیں بھیجی، جن بچوں نے ایک معزول صدر کے خلاف آواز بلند کرکے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔ عجیب تناقض گوئی کا شکار ہیں جناب کالم نگار: کہتے ہیں کہ عرب کوئی ان بدووں کا ملک نہیں ہے، جو حجاج کے صدقہ روٹی کھاتا ہے اور ادھر سے اپنی فوج ان کی مدد کے لئے بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔ بھائی وہ بدو نہیں ہیں، یمن کے حوثی کونسی اتنی بڑی طاقت ہیں کہ سعودی فوج ان سے نمٹ نہ سکے!! جناب کالم نگار سعودی حکومت کا یمن حوثیوں کے خلاف مدد مانگنا، جو کہ ان کی نگاہ میں شرک بھی ہے، لیکن پھر بھی انہوں نے ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب کر ہی دیا ہے، ان کی فوج کے بدو ہونے کی دلیل ہے۔

پاکستان آرمی کنتنے عرصہ دارز سے دہشتگردوں کے خلاف بر سر پیکار ہے، لیکن آپ آج تک نہیں دکھا سکتے کہ اس دلیر و شجاع قوم نے کسی سے فوجی مدد مانگی ہو! ہاں یہ ایک الگ بات ہے کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران روز اول سے کاسہ گدائی ہاتھ میں لئے پھر رہے ہیں اور یہی چیز ہے جو آج ہمیں دنیا کے سامنے رسوا کر رہی ہے، ہمیں اپنے شھداء کے جنازے بھی نہیں مانگنے دیتی، ہمارے میڈیا پر بھی پابندی لگوا دیتی ہے کہ آپ کسی حاجی کا انٹرویو کرکے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی کوشش نہیں کرسکتے۔ اگر ہم بھکاری قوم نہ ہوتے تو آج ہمارے شھداء بھی ایرانی شھداء کی طرح عزت و تکریم کے ساتھ واپس آتے، ہم ان کے جنازوں پر پھول رکھتے اور ایسے متبرک اجسام کو اپنے خیر و برکت کا وسیلہ قرار دے کر اپنے وطن کی مٹی کو شرف بخشتے۔ کالم نگار کی یہ بات بھی بجا ہے، اگرچہ ایک مفروضہ پر مبنی ہے کہ امریکہ آج کل سعودی حکومت سے دور ہوتا دکھائی دیتا ہے، اس بات کا دکھ جتنا اوریا مقبول صاحب کو ہے، اتنا شاید خود سعودی حکومت کو بھی نہیں ہے۔ بہرحال میرے خیال میں خادم حرمین شریفین اگر مسجد حرام یا مسجد نبوی چلے جائیں اور وہاں اللہ کے حضور دعا کریں کہ اے اللہ امریکہ جیسے خونخوار کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھ، تو یقیناً اللہ تعالٰی کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجتا۔ البتہ مجھے توبہ کرنا چاہیے کہ میں نے خادم حرمین شریفین کو مسجد نبوی میں جا کر توبہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، معذرت چاہتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ ان کو ایسے شرک سے محفوظ رکھے آمین!!

کالم نگار صاحب نے عدالت کے فیصلہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ تلور کے شکار پر پابندی لگا دی ہے، وہ تو ہمارے ملک کا پرندہ بھی نہیں ہے تو ہم اس کی حفاظت کیوں کریں؟؟؟ بات بالکل درست ہے، وہ سائبریا کا پرندہ ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی شہزادے اس کا شکار پاکستان میں کیوں کرتے ہیں، سائبریا چلے جائیں، وہاں جا کر شکار کریں؟ یا وہ پرندہ سائبریا سے ڈائریکٹ پاکستان چلا آتا ہے، کسی دوسرے ملک یا علاقہ سے نہیں گذرتا، جہاں سے سعودی شہزادے شکار کرسکیں؟؟ اصل بات بھکاری ہونے کی ہے، ورنہ ایک شخص جو کالم نگار ہے، وہ اتنا گریجوایٹ تو ہے کہ اس کو معلوم ہے کہ ہر ملک کا اپنا قانون ہوتا ہے اور باہر سے آنے والے ہر شخص کو اس کی پابندی کرنا چاہیے۔ پاکستان کیوں جنگل بنا ہوا ہے، یہاں اگر سعودی شہزادے آکر شکار کریں تو ہمیں کیا، دو پرندے ہی مار رہے ہیں، یہی بات موجب بنتی ہے کہ امریکہ کا ایک شخص دن دیہاڑے ہمارے جوانوں کو قتل کرکے چلا جاتا ہے اور بھکاری قوم کاسہ ہاتھ میں لئے معافی تلافی کے درپے ہوتی ہے۔ آیا کسی کو اجازت ہے کہ حج کے ایام میں حاصل ہونے والے گوشت یا قربانی کی کھالوں پر قبضہ کر لے، کیونکہ یہ تو باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی طرف سے قربانی کی گئی ہے، سعودی حکومت کی ملکیت تو نہیں؟؟؟؟؟؟

خانہ کعبہ پر فقط سعودی عرب کی حکومت کا حق ہے، کیونکہ قدرت نے محل وقوع ہی ایسا بنایا ہے تو اس میں مسلمانوں کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے!! درست ہے کہ محل وقوع قدرت کا بنا ہوا ہےم  لیکن اسی قدرت نے اپنی کتاب کریم میں فرمایا ہے: اول بیت وضع للناس ببکۃ مبارکا قرآن کے مطابق یہ گھر تمام لوگوں کے لئے برابر ہے، کسی کو اپنی ملکیت میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ جناب کالم نگار  نے عذر پیش کیا ہے کہ اگر ہم خانہ کعبہ پر مشارکتی تولیت کا تقاضہ کریں گے تو پاکستان میں موجود دوسرے مذاہب کے مقدس مقامات بھی ان کے حوالہ کرنے ہوں گے۔ بھائی ہم نے سعودی عرب کی مساجد کی تولیت کی بات نہیں کی، ہم نے بیت اللہ کے مشارکتی تولیت کی بات کی ہے، اگر کسی غیر مسلم کے پاس خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی حرمت برابر کوئی مقام ہے تو اس کو حق ہے کہ وہ بھی مشارکتی تولیت اختیار کریں۔ مسئلہ ایک ہے، جب تک گدائی کی زندگی بسر کریں گے، ہمیں خوشامد بھی کرنا پڑے گی، دوسروں کے ظلم و بربریت کو چھپانا بھی ہوگا، اپنے ملک کے قوانین کی خلاف ورزی بھی ہماری مجبوری  ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 489546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
جیو۔ ماشاء اللہ۔ اچھا انداز اور شگفتہ تحریر، عرفان علی
ہماری پیشکش