1
0
Tuesday 13 Oct 2015 21:08
طاقت کی جنگ، واشنگٹن سے ریاض تک

سانحہ منٰی، پس پردہ حقائق

سانحہ منٰی، پس پردہ حقائق
تحریر: ڈاکٹر رضا سراج

اس سال حج کے موقع پر مسجد الحرام پر کرین کا گرنا اور منٰی میں ہزاروں کی تعداد میں حاجیوں کی شہادت جیسے بعض ناگوار حوادث کا سلسلہ پیش آیا، جن کے بارے میں دو مفروضے پیش کئے گئے:
1)۔ غفلت اور کوتاہی پر مبنی مفروضہ اور
2)۔ عمدی اور جان بوجھ کر ایسے اقدامات انجام دینے پر مبنی مفروضہ۔
پہلے مفروضے کے حامی ماہرین، ان ناگوار واقعات کو مس منیجمنٹ، سعودی حکام کی جانب سے حج کے انعقاد کیلئے مناسب اقدامات انجام نہ دینے، سعودی حکومت کی ناتجربہ کاری اور یمن اور بحرین میں مداخلت کی وجہ سے سعودی حکومت کی جانب سے حج کے امور پر کافی حد تک توجہ نہ دے سکنے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسرے مفروضے کے حامی تجزیہ نگاران اور ماہرین مکہ مکرمہ میں رونما ہونے والے ان حوادث کو بعض سعودی حکام اور شہزادوں کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح بعض عناصر کی کوشش ہے کہ غفلت اور کوتاہی پر مبنی مفروضے کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے، چونکہ دوسرے مفروضے کے درست ہونے کی صورت میں رائے عامہ پر ایسے گہرے اثرات پڑ سکتے ہیں، جو ان کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لہذا یہ عناصر دوسرے مفروضے کے زیادہ آشکار ہونے کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے نقصان دہ سمجھتے ہوئے اسے چھپانے کے درپے ہیں اور دوسری طرف پہلے مفروضے کا زیادہ پرچار کر رہے ہیں۔

سوانح مکہ کے غیر عمدی نہ ہونے کے شواہد:
1
آل سعود رژیم کے اس دعوے کا جھوٹا ہونا کہ مسجد الحرام پر گرنے والی کرین شدید آندھی کی وجہ سے گری، کیونکہ یہ کرین جس طرف گری ہوا اس سے الٹی سمت چل رہی تھی۔
2)۔
کرین اپنے وزن کے توازن سے الٹی سمت میں گری۔
3)۔
مسجد الحرام پر کرین گرنے کے بعد امدادی کارروائی میں تاخیر کی گئی۔
4)۔
منٰی میں رمی جمرات کے موقع پر حاجیوں کے بعض راستوں کو بغیر کسی قبلی اطلاع کے غیر متوقع طور پر بند کر دیا گیا۔
5)۔
ایشیائی اور افریقی حاجیوں کے راستوں کو بند کیا گیا، جبکہ سعودی اور عرب ممالک کے حاجیوں کے راستے معمول کے مطابق کھلے تھے۔
6)۔
منٰی میں رمی جمرات کے دوران بعض راستوں کو بند کئے جانے کی کوئی معقول وجہ بیان نہیں کی گئی۔
7)۔
رمی جمرات کے موقع پر حاجیوں کو منتقل کرنے والی ٹرینوں کو غیر متوقع طور پر روک دیا گیا، جس کے باعث حاجیوں کے راستے میں بے تحاشا رش ہوگیا۔
اس بارے میں سوشل میڈیا پر معروف سعودی کارکن "مجتہد" نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ میں لکھا: "حاجیوں کو منتقل کرنے والی ٹرین رات کو چار گھنٹے لیٹ کی گئی، جس کے باعث اسٹیشن پر بہت زیادہ حاجی انتظار کرتے رہے اور جب ٹرین پہنچی تو پوری طرح فل ہو جانے کے باوجود وہاں سے نہ چلی۔ حاجیوں سے بھری ٹرین اسٹیشن پر رکی رہی اور اس کے دروازے بھی بند تھے، جس کی وجہ سے حاجیوں کا دم گھٹنے لگا اور بعض حاجی تو بیہوش ہوگئے۔"

8
حاجیوں کے راستوں پر رش کو کنٹرول کرنے والے مرکز نے سعودی حکام کو خبردار بھی کیا، لیکن ان کی وارننگ پر کوئی توجہ نہ کی گئی۔
اس بارے میں "مجتہد" نے لکھا: "حج کنٹرول کرنے والے سعودی اہلکاروں نے منٰی میں حادثہ رونما ہونے سے دو گھنٹے قبل حاجیوں کے راستوں پر موجود شدید رش کو کیمروں کے ذریعے دیکھ لیا تھا اور سعودی سکیورٹی اہلکاروں کو وارننگ بھی جاری کر دی تھی، لیکن سعودی سکیورٹی اہلکاروں نے ان کی وارننگ کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔"
9
حج جیسے عظیم پروگرام کو کنٹرول کرنے کیلئے ناتجربہ کار اور نااہل اہلکاروں سے کام لیا گیا۔
10)۔
حاجیوں کو ایسے راستوں پر ڈال دیا گیا، جہاں پہلے سے ہی شدید رش تھا۔
11)۔
حاجیوں کے ٹریک کے باہر نکلنے والے راستوں کو بند کر دیا گیا جبکہ اس میں داخل ہونے والے راستے بدستور کھلے رکھے گئے۔
12)۔
رش بہت زیادہ ہونے اور سانحہ رونما ہونے کے کئی گھنٹے بعد تک نہ تو امدادی کارکن وہاں پہنچے اور نہ ہی طبی امداد فراہم کی گئی۔
13)۔
شدید رش اور گرمی کی وجہ سے بیہوش ہو جانے والے حاجیوں کو طبی امداد فراہم نہیں کی گئی اور انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کئے بغیر ہی شہید ہونے والے حاجیوں کے ساتھ سرد خانوں میں ڈال دیا گیا۔

14)۔
دوسرے ممالک خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کی طبی امدادی ٹیموں کو بھی حاجیوں کی مدد کرنے سے روک دیا گیا۔
15)۔
منٰی میں سانحہ رونما ہونے کے بعد سعودی سکیورٹی فورسز نے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور نہ تو حاجیوں کو وہاں سے باہر جانے دیا گیا اور نہ ہی طبی امدادی ٹیموں کو اندر جانے دیا گیا۔
16)۔
حادثے میں زخمی اور نڈھال حاجیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل نہیں کیا گیا۔
17)۔
حادثے میں شہید ہو جانے والے حاجیوں کی شناخت کیلئے متعلقہ ممالک کی ٹیموں سے تعاون نہیں کیا گیا۔
18)۔
سعودی حکام اس سے پہلے بھی موجودہ سال سے کہیں زیادہ تعداد میں حاجیوں پر مشتمل حج منعقد کروا چکے تھے اور تجربات حاصل کرچکے تھے۔
19)۔
مسجد الحرام پر کرین گرنے کے واقعے کے بعد منی میں کسی اور حادثے کی روک تھام کیلئے مناسب پیشگی اقدامات انجام نہ دینا۔

مکہ اور منٰی کے حوادث کے عمدی ہونے پر دلائل:
مکہ اور منٰی میں پیش آئے حادثات کا بغور جائزہ لینے اور مربوطہ حقائق و مشاہدات کو پرکھنے کے بعد درج ذیل تین اہم وجوہات کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے:
1)۔ واشنگٹن سے ریاض تک جاری طاقت کی جنگ اور رساکشی،
2)۔ ایران کے خلاف نفرت اور ایران سے خوف و ہراس کی فضا بنانا، اور
3)۔ شیعہ فوبیا اور مذہبی جنگ اور ٹکراو ایجاد کرنے کی کوشش۔
مستقبل میں ہوسکتا ہے کہ ان حادثات کے عمدی ہونے پر مزید دلائل بھی منظر عام پر آئیں۔ فی الحال ان تین وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں:
 
1)۔ واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی رساکشی:
امریکہ، اسرائیل اور بعض یورپی ممالک کی جانب سے خطے میں شروع ہونے والی مذہبی پراکسی وار جسے سعودی عرب کی لاجسٹک اور نظریاتی و فکری حمایت بھی حاصل ہے، اس جنگ کے بانیوں اور منصوبہ سازوں کے مدنظر اہداف و مقاصد سے منحرف ہو کر درج ذیل نتائج کا باعث بن رہی ہے:
الف)۔ خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار، اعتبار اور اسٹریٹجک گہرائی میں اضافہ۔
ب)۔ روس کی جانب سے خطے کے تنازعات میں سنجیدہ مداخلت۔
ج)۔ خطے سے متعلق امریکی پالیسیوں کے بارے میں یورپی ممالک کا شک و تردید کا شکار ہو جانا۔
د)۔ خطے میں امریکہ کے اتحادیوں، ترکی اور سعودی عرب کا خودساختہ پراکسی وار کے گرداب میں پھنس جانا۔
ہ)۔ خطے میں اسلامی مزاحمت کی ثقافت اور جغرافیا کا وسیع تر ہو جانا۔
و)۔ خطے کی رائے عامہ میں مغربی – عبری – عربی اتحاد کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات سے متعلق شدید نفرت کا وجود میں آنا۔
 
مذکورہ بالا نتائج نے نہ صرف خطے میں اسٹریٹجک موازنے کو بگاڑ دیا ہے بلکہ وہ خطے میں جدید سکیورٹی صورتحال کی پیدائش کا بھی باعث بنے ہیں۔ اس نئی سکیورٹی صورتحال میں ایران، روس اور اسلامی مزاحمتی بلاک نے دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ محاذ تشکیل دیا ہے جبکہ امریکہ، بعض یورپی ممالک، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور خطے میں امریکی اتحادی دہشت گردوں کے ساتھ جا کھڑے ہوئے ہیں۔ لہذا موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے امریکی حکام خود کو ایران اور دیگر ممالک سے اسٹریٹجک مذاکرات کیلئے ناچار محسوس کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاوس کے موجودہ حکمرانان سمجھتے ہیں کہ شام، عراق اور یمن کے مسائل جلد از جلد حل ہونے چاہئیں کیونکہ دوسری صورت میں امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کو ریپبلکنز کے مقابلے میں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہذا امریکی صدر براک اوباما اور ان کی پارٹی کے سربراہان سعودی عرب میں سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ڈیموکریٹس، سعودی عرب میں پہلی نسل کے شہزادوں سے دوسری نسل کے شہزادوں تک طاقت کی منتقلی کیلئے محمد بن نائف جو 56 سال کی عمر میں دوسری نسل کے سب سے بڑے شہزادے ہیں اور اس وقت ولیعہد بھی ہیں، کو مناسب سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ریپبلکنز اور اسرائیل سعودی فرمانروا کے بیٹے محمد بن سلمان کو برسراقتدار لانے کے خواہشمند ہیں۔ 
 
شہزادہ محمد بن سلمان جو اس وقت نائب ولیعہد ہیں، کے ریپبلکنز سے تعلقات کا آغاز اسلحہ کے کاروبار سے ہوا جو اس وقت ان کے درمیان ایک اسٹریٹجک تعلق میں تبدیل ہو چکا ہے۔ محمد بن سلمان نے ریپبلکنز اور اسرائیل کی حمایت کے ذریعے ہی اتنی تیزی سے طاقت کی سیڑھیاں طے کی ہیں۔ محمد بن سلمان نے اپنے باپ سلمان بن آل سعود کے فرمانروا بننے کے بعد عارضی طور پر محمد بن نائف سے اتحاد قائم کر کے پہلے اپنے غیر سدیری رقبا (متعب بن عبداللہ وغیرہ) کو سیاست کے میدان سے نکال باہر کیا۔ اسی طرح محمد بن سلمان نے وزیر جنگ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سابق ولیعہد مقرن بن عبدالعزیز کو یمن کے خلاف جنگ کی مخالفت کے بہانے سے اس عہدے سے فارغ کروا دیا اور خود نئے ولیعہد محمد بن نائف کے نائب کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک کے تمام اقتصادی اور ترقیاتی امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آرامکو آئل کمپنی پر بھی قبضہ جما لیا۔ 
 
محمد بن سلمان کی تیزی سے طاقت کی سیڑھیاں طے کرنے کے پیش نظر سعودی عرب کے امور سے آگاہ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ عنقریب سعودی فرمانروا ملک سلمان خود کو اقتدار سے الگ کر کے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اپنے جانشین کے طور پر تخت سونپ دیں گے۔ لیکن محمد بن سلمان کو طاقت کے مراحل طے کرنے میں محمد بن نائف اور بعض دوسرے شہزادوں کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ یہ شہزادے یمن کے خلاف جنگ میں بھی محمد بن سلمان کے مخالف جانے جاتے ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس سال حج کے موقع پر مکہ اور منی میں پیش آنے والے ناگوار واقعات اسی طاقت کی رساکشی کا شاخسانہ ہیں جو واشنگٹن سے لے کر ریاض تک جاری ہے اور اس میں امریکہ کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں اور سعودی عرب کے دو بڑے سیاسی دھڑے ایکدوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ اس امریکی – سعودی طاقت کی جنگ میں آخرکار محمد بن سلمان اور محمد بن نائف میں سے ایک شخص کامیاب ہو کر موجودہ سعودی فرمانروا ملک سلمان، جو الزائمر کے مرض اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے حکومتی امور کو چلانے کے قابل نہیں، کا جانشین قرار پائے گا۔ 
 
طاقت کی اس جنگ میں واشنگٹن کی حکمران جماعت (ڈیموکریٹس) اور سعودی عرب میں فرمانروا ملک سلمان کے مخالفین کی کوشش ہے کہ وہ مکہ اور منی میں ہونے والے سلسلہ وار حادثات کی مدد سے ملکی امور چلانے میں موجودہ سعودی فرمانروا کی عدم صلاحیت اور ناتوانی کو ظاہر کر کے سعودی عرب میں طاقت کی منتقلی کے عمل میں تیزی لائیں اور شہزادہ محمد بن نائف کو جلد از جلد سعودی فرمانروا کے طور پر سامنے لائیں۔ اس بارے میں روزنامہ گارجین نے فاش کیا ہے کہ ایک اعلی سطحی سعودی شہزادے نے بھی ملک سلمان کی اقتدار سے علیحدگی پر مبنی منصوبے کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ امریکہ میں حکمران جماعت (ڈیموکریٹس) اور سعودی عرب میں محمد بن نائف کے حامی سیاسی دھڑے کی جانب سے اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے کے بعض شواہد درج ذیل ہیں:
 
الف)۔ سعودی شہزادوں کی جانب سے ملک کو فرمانروا ملک سلمان اور محمد بن سلمان سے نجات دلوانے کی ضرورت پر مبنی خط کا منظرعام پر آنا۔
ب)۔ محمد بن سلمان کی ویڈیو کا منظرعام پر آنا جس میں اسے منی میں دکھایا گیا ہے اور یہ دعوی کیا گیا ہے کہ منی میں حاجیوں کا راستہ بند ہونے کی بنیادی وجہ وہاں محمد بن سلمان کی موجودگی تھی۔ 
ج)۔ محمد بن نائف کی جانب سے مکہ اور منی کے واقعات کے بارے میں حقائق کو جاننے کیلئے تحقیقی کمیٹی کی تشکیل۔ 
 
طاقت کی اس جنگ اور رساکشی کے دوسری طرف ریپبلکنز، اسرائیلی حکام اور محمد بن سلمان ہیں جن کی یہ کوشش ہے کہ وہ مکہ اور منی میں پیش آنے والے حوادث کی ذمہ داری حج اور سیاسی و سکیورٹی امور کا متولی ہونے کے ناطے سعودی ولیعہد محمد بن نائف پر ڈالتے ہوئے انہیں ناتوان اور نااہل ظاہر کریں اور اس طرح ان کی برطرفی کا مقدمہ فراہم کریں۔ مکہ اور منی کے حوادث کے بعد سعودی حکام کی جانب سے انجام پانے والے فیصلے اس فرضیے کو مزید تقویت بخشتے ہیں کہ ان حوادث کی بنیادی وجہ سعودی شہزادوں کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے۔ درج ذیل اقدامات پر توجہ دیں:
 
الف)۔ مسجد الحرام کے ترقیاتی پراجیکٹس (سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی سکیم) کی ٹھیکہ دار کمپنی کی تبدیلی۔ اس سے پہلے یہ ٹھیکہ بن لادن کمپنی کے پاس تھا جبکہ مکہ اور منی کے حوادث کے بعد سعودی فرمانروا کے حکم پر یہ ٹھیکہ اس سے واپس لے کر شہزادہ محمد بن سلمان سے منسلک کمپنی "نسماء" کو دے دیا گیا۔ 
ب)۔ سعودی فرمانروا کے حکم پر بن لادن کمپنی کے تمام اموال اور پیسے نسماء کمپنی کو دے دیے گئے۔
ج)۔ سعودی فرمانروا نے ولیعہد محمد بن نائف کی مرضی کے خلاف تمام حج پراجیکٹس اور حج فاونڈیشن اور اس سے منسلک اداروں کو سونپے گئی تمام ذمہ داریوں پر نظرثانی کا حکم دے دیا۔ 
د)۔ سعود فرمانروا نے محمد بن نائف کے انتہائی قریبی فرد اور سعودی عرب کے وزیر حج بندر بن حجاز کو برطرف کر دیا۔ 
ہ)۔ جنرل عثمان الحرج جنرل سکیورٹی انچارج اور تین دیگر فوجی کمانڈرز کو برطرف کر دیا گیا۔
و)۔ ولیعہد محمد بن نائف کے ایک اور قریبی شخص اور درباری امور کی تحقیقات کے انچارج سعید الجبری کو بھی برطرف کر دیا گیا۔
ز)۔ سعودی فرمانروا نے سکیورٹی فورسز کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے حج کی منیجمنٹ باڈی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ 
 
2)۔ ایران کے خلاف نفرت اور ایران فوبیا پر مبنی فضا ایجاد کرنا:
عرب ذرائع ابلاغ خاص طور پر سعودی میڈیا کی جانب سے منی میں پیش آنے والے سانحے کی ذمہ داری ایرانی حاجیوں پر ڈالنے کی کوشش درحقیقت ایران فوبیا مہم کا حصہ ہے۔ کویت کا روزنامہ القبس اس بارے میں لکھتا ہے کہ ایرانی حاجیوں کی جانب سے سعودی سکیورٹی اہلکاروں کی ہدایات پر توجہ نہ دینے کے باعث منی کا واقعہ رونما ہوا۔ اسی طرح سی ان ان عربی نے بھی اپنی رپورٹ میں ایرانی حاجیوں کو سانحہ منی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی۔ سعودی اخبار الشرق الاوسط نے بھی یہ خبر لگائی کہ 300 ایران حاجیوں کی جانب سے الٹی سمت میں حرکت کے باعث سانحہ منی رونما ہوا۔ سوشل نیٹ ورک ٹوئٹر جس کی ملکیت اب سعودی عرب کے پاس ہے نے بھی دو جملوں پر بہت زیادہ زور دیا جو "ایران تقتتل الحجاج" (ایران حاجیوں کو قتل کرتا ہے) اور "ارھاب الایرانی" (ایرانی دہشت گردی) تھے۔ 
 
خطے میں ایران فوبیا اور ایران دشمنی پر مبنی پراپیگنڈے کا اہم ترین مخاطب سلفی – تکفیری گروہ ہیں۔ ان گروہوں کی نظریاتی بنیادیں اس امر پر استوار ہیں کہ ایران نے خلافت عثمانیہ کے کمزور ہونے اور ٹوٹنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ لہذا سلفی – تکفیری گروہوں کے سرگرم عناصر کے دماغ میں یہ ڈالا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور خلافت عثمانیہ ان کے دوست جبکہ ایران ان کا دشمن ہے اور اس طرح ان میں ایران کے خلاف تعصب پیدا کیا جاتا ہے۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ  ایران فوبیا اور ایران دشمنی پر مبنی پروپیگنڈے کا اصل مقصد سلفی – تکفیری تحریکوں اور گروہوں کو ایران کے خلاف اکسانا اور اس طرح سے ایران کے خلاف پراکسی وار شروع کرنا ہے۔ یہاں اس نکتے کو بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ ایران کے خلاف پروپیگنڈے کے مخاطبین صرف عربی، ایشیائی اور افریقی ممالک میں موجود سلفی – تکفیری عناصر تک ہی محدود نہیں بلکہ اس وسیع پروپیگنڈے کے مخاطبین میں امریکہ اور یورپی ممالک کی رائے عامہ بھی شامل ہے۔ 
 
منی میں حاجیوں کی شہادت کے واقعے میں آل سعود رژیم کی جانب سے "ایرانی دہشت گردی" پر مبنی پروپیگنڈہ درحقیقت ایک اور منظرنامے کی تمہید ہے جو ظہران میں الخبر ٹاورز میں دھماکوں سے مربوط ہے۔ یہ واقعہ 1996ء میں پیش آیا تھا اور اس میں 19 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ لہذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیروت میں "احمد المغسل" کا اغوا اور مکہ میں بعض ایرانی حاجیوں کی گمشدگی ایران فوبیا اور ایران دشمنی کے نئے مرحلے کا پیش خیمہ ہے۔ احمد المغسل "حزب اللہ حجاز" سے وابستہ ان پانچ افراد میں سے ایک ہیں جن کی گرفتاری کیلئے ایف بی آئی نے 5 ملین ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔ لہذا اس تاثر کے برخلاف کہ سعودی حکام کی جانب سے سانحہ منی کا الزام ایرانی حاجیوں پر عائد کیا جانا آل سعود رژیم اور اس سے وابستہ ذرائع ابلاغ کا محض جذباتی ردعمل ہے، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایران فوبیا اور ایران دشمنی پر مبنی پروپیگنڈہ اس منظرنامے کا دوسرا حصہ ہے جس کی ایک کڑی منی کا حادثہ ہے اور اس کا باقی کڑیاں مستقبل قریب میں مزید واضح ہوتی جائیں گی۔ 
 
3)۔ شیعہ فوبیا اور مذہبی جنگ شروع کرنے کی کوشش:
آل سعود رژیم نے منی میں مجرمانہ اقدام انجام دے کر شیعہ فوبیا کے ذریعے سلفی تکفیری عناصر کو زیادہ سے زیادہ اہل تشیع کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ اس بارے میں شیخ عبدالعزیز آل شیخ کہتا ہے: "بعض حاجی جان بوجھ کر مقدس مقامات میں موت کا شکار ہونا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ ان مقامات میں دفن ہونے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے"۔ سعودی حکام منی کے حادثے کی ذمہ داری اہل تشیع پر ڈال کر درج ذیل اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں:
 
الف)۔ بحرین اور یمن میں اپنی فوجی مداخلت کو شرعی جواز فراہم کرنا۔
ب)۔ سلفی تکفیری عناصر میں موجود شیعہ دشمنی کو اہل تشیع کی مذہبی رسومات کی جانب دھکیلنا اور انہیں انتقامی کاروائیوں پر اکسانا۔ 
ج)۔ مصر اور نائیجیریا میں سلفی تکفیری تحریکوں کو ہوا دینا کیونکہ منی کے حادثے میں تقریبا 550 نائجیریا کے حاجی اور 300 مصر کے حاجی شہید ہوئے ہیں۔ 
 
معروف امریکی محقق اور اسٹریٹجسٹ جوزف نائے عالم اسلام میں مذہبی جنگ شروع کرنے کے بارے میں لکھتا ہے: "یورپ میں کیتھولیک اور پروٹیسٹنٹ فرقوں کے درمیان مذہبی جنگیں تقریبا ڈیڑھ صدی تک جاری رہیں اور 1648ء میں ویسٹ فالیا معاہدے کے نتیجے میں ان کا خاتمہ ہوا۔ اس وقت بھی پائے جانے والے اتحاد کئی فرقوں پر مشتمل تھے جن کے متحد ہونے کی وجوہات کا مذہبی امور سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آج کے مشرق وسطی میں بھی ہمیں ایسی ہی صورتحال کی توقع رکھنی چاہئے۔ یورپ میں شروع ہونے والی مذہبی جنگیں اس وقت ختم ہوئیں جب 30 سال سے زیادہ عرصے میں جرمنی کی آدھی آبادی کا خاتمہ ہو چکا تھا"۔ 
 
جوزف نائے کے اس اظہار خیال پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے اسلامی دنیا میں مذہبی جنگ شروع کروا کر درج ذیل اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے:
الف)۔ طولانی مدت مذہبی جنگوں میں مسلمانوں کی آبادی کا بڑا حصہ ختم کرنا۔
ب)۔ اسلامی ممالک کے مالی وسائل کو ضائع کرنا۔
ج)۔ اسلامی ممالک کی مسلح افواج کو کمزور یا ختم کرنا۔
د)۔ اسلامی ممالک کو توڑنا۔
 
نتیجہ:
اس سال حج کے موقع پر مکہ اور منی میں پیش آنے والے ناگوار حادثات نے ایک بار پھر عالمی استعمار اور اس کے پٹھووں کی پلید ذات کو عیاں کر دیا ہے۔ امریکی حکام نے انتہائی شیطنت اور فریبکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف تو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کا ڈھونگ رچایا اور دوسری طرف منی میں سیکڑوں ایرانی حاجیوں کو شہید کر کے دوسرے شہید ہونے والے حاجیوں کی شہادت کی ذمہ داری بھی ایرانیوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 490888
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ایس حسینی
Pakistan
یہ سراسر سازش تھی۔ کوئی حادثہ نہیں ہوا۔
وگرنہ شہید ہونے والوں میں نصف سے زیادہ تعداد ایرانیوں کی نہ ہوتی۔
یہ کیسا اتفاق ہے، ایرانی حاجیوں کی تعداد حاجیوں کی کل تعداد کے دو فیصد کے برابر تھی۔ جبکہ حادثہ میں ساٹھ فیصد سے زیادہ شہادتیں ایرانیوں کی ہوئیں۔ یہ سب کچھ بعض ایرانیوں کو اغوا کرنے کے لئے رچایا گیا اور کچھ نہیں۔
ایس حسینی
ہماری پیشکش