0
Saturday 17 Oct 2015 17:06

داعش اور اسکے مقابل معتدل دہشتگرد؟

داعش اور اسکے مقابل معتدل دہشتگرد؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

اسلام دینِ فطرت ہے اور بچے فطرت کا انمول شاہکار۔ دہشت گردوں کا ذہن سازی کے لئے مگر آسان ہدف یہی بچے ہوتے ہیں۔ جنت کا لالچ، حوروں سے ملاقات کا طریقہ، دودھ کی نہریں، محلات کی داستانیں، اس سب سے بڑھ کر دو وقت کی روٹی اور رہنے کو چھت۔ ایک غریب آدمی کے بچے کو اس سے بڑھ کر کیا چاہیے کہ دنیا میں وہ آرام دہ مدرسے میں رہے گا اور آخرت میں حوروں کی بانہوں میں۔ یہ تصور ہی انسان کو بے خود کرنے کے لئے کافی ہے۔ نیم خواندہ گھرانے، قدامت پرست اور غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے والے اپنے بچوں کے روایتی تعلیمی اخراجات جب برداشت نہیں کر پاتے تو انھیں مدرسے کی راہ دکھاتے ہیں۔ والدین کی بہرحال نیت یہی ہوتی ہے کہ ان کا بچہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے لئے بھی نہ صرف آخرت میں نجات کا باعث بنے گا بلکہ دنیا میں بھی بالغ ہونے تک والدین پر بوجھ نہیں بنے گا۔ بلاشبہ مدارس دینی تعلیم کا منبع ہیں مگر ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ روس کے افغانستان پر حملے کے بعد ایک خاص مکتبہ ہائے فکر کے مدارس کی زنجیر صرف اس لئے بنائی گئی کہ وہاں سے ’’جہادی‘‘ تیار کرکے امریکی ایما پر لڑے جانے والے ’’جہاد‘‘ کو کمک پہنچائی جاتی رہے۔ بے شک بعض مدارس آج بھی اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو سکیورٹی ادارے ان پہ چھاپے کیوں مارتے ہیں؟ اور وہاں سے مشکوک افراد کی گرفتاری کیوں عمل میں لائی جاتی ہے؟

نیشنل ایکشن پلان کے بعد مگر مدارس والے بھی قدرے محتاط ہوگئے ہیں۔ اب وہ اپنے ’’مہمانوں‘‘ کی میزبانی اور طرح سے کرتے ہیں اور ’’مہمان‘‘ کو مدرسے میں ٹھہرانے کے بجائے کسی گھر یا فلیٹ میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ روز راولپنڈی میں داعش کا جو دہشت گرد اپنے سہولت کاروں اور گھریلو خواتین کے ساتھ پکڑا گیا، یہ دہشت گردوں کی بدلتی ہوئی حکمتِ عملی کا عملی نمونہ ہے۔ بچے اور عورتیں بہرحال پروپیگنڈا کا جلدی شکار ہوتے ہیں۔ القاعدہ کی تشکیل کے دوران عرب مبلغ پوری دنیا میں عموماً اور پاکستان و مصر وغیرہ میں بالخصوص ’’جہادی‘‘ تبلیغ کو آیا کرتے تھے۔ ان کا ہدف نوجوان نسل ہوا کرتی تھی۔ ایمن الظواہری مصر کی ایک مسجد سے ہی ایک عرب مبلغ کی جہادی تبلیغات سے متاثر ہو کر اسامہ بن لادن کے کیمپ میں شامل ہوا تھا، پشاور آیا اور پھر افغانستان میں کمانڈری کرنے لگا۔ سوال مگر یہ ہے کہ القاعدہ، الشباب، بوکو حرام، طالبان کی مختلف شاخیں جو افغانستان و پاکستان میں بروئے کار ہیں، ان سب کی موجودگی میں ایک نئی وحشت کو جنم دینے کی کیا ضروت تھی؟ بے شک سامراجی طاقتوں کو انتہائی سخت گیر اور زیادہ وحشی گروہ کی ضروت تھی، جو منظم بھی ہو اور تکفیر کرنے میں بھی دیگر گروہوں سے زیادہ متحرک ہو۔

داعش کی تخلیق کیوں ہوئی؟ اس کے کیا مقاصد تھے؟ آئندہ یہ وحشت ناک گروہ اسلام کے نام پہ کتنی دیر زندہ رہ پائے گا؟ روس کی فضائی کارروائیاں اس گروہ کو کس حد تک زخم لگا سکیں گی؟ بہت سے سوالات ہیں۔ کئی ایک باتیں مگر طے، یہ گروہ شام سے نکل کر عراق اور عراق سے نکل کر افغانستان تک تو آچکا ہے، پاکستان میں داعش کے ہمدرد نہ صرف موجود ہیں بلکہ گذشتہ برس کراچی اور ٹیکسلا کے علاقوں میں داعش کے حق میں وال چاکنگ بھی کی گئی تھی۔ اگرچہ اس وقت پاکستان کے اعلٰی حکومتی عہدیداران پاکستان میں داعش کی موجودگی سے انکار کرتے تھے، لیکن سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک تسلسل سے پاکستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے میڈیا کو بتاتے رہے۔ میرا سوال مگر یہ ہے کہ اگر داعش پاکستان میں نہیں یا اس کے سہولت کار پاکستان میں موجود نہیں تو پھر ایک ایسی تنظیم جو شام اور عراق میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہی ہے، اس پر پاکستان میں پابندی کیوں لگائی گئی؟ اس سادہ سا سوال کا جواب بھی بڑا سادہ ہے۔ پاکستان میں داعش پر پابندی اس لئے لگائی گئی کہ سکیورٹی اداروں کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ داعش کے سہولت کار اور اس تنظیم کی طرف نوجوانوں کو راغب کرنے والے اب پاکستان میں موجود ہیں۔

لامحالہ شام و عراق سے البغدادی، الظواہری یا کوئی اور عرب اپنے وحشیانہ قافلے کے ساتھ تو یہاں نہیں آئے گا۔ یہی ضربِ عضب کے شکست خوردہ دہشت گرد اپنی وحشیانہ بقاء کے لئے داعش کا جھنڈا اٹھائیں گے۔ اگرچہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کئی ایک بار یہ بات دہرا چکے ہیں کہ پاکستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے، مگر یہ امر بھی واقعی ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کا سابق شاعرانہ سے نام والا ترجمان احسان اللہ احسان داعش کے البغدادی کی بیعت کرچکا ہے۔ بے شک احسان اللہ احسان کا یک دھڑا بھی ہوگا۔ پاکستان کو کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے اہم مگر اندرونی اور داخلی خطرہ ہے، جسے پاک فوج نے اپنے عزم اور ضربِ عضب سے بہت کم کر دیا ہے۔ مگر مشاہدہ کہتا ہے کہ داعش کے ستم گر سر اٹھاتے رہیں گے۔ ملک اسحاق جو عالمی سطح پر ایک تسلیم شدہ دہشت گرد تھا، اس کی موت کا ردعمل محرم الحرام میں سامنے آسکتا ہے، جیسا کہ سکیورٹی اداروں نے اس خدشے کا اظہار کیا۔ جہلم سے بھی داعش کا یک ہمدرد بلکہ داعش کے لئے بھرتی کرنے والا شخص گرفتار کیا جا چکا ہے۔

آخری تجزیے میں داعش شام سے لے کر عراق اور افغانستان سے لے کر پاکستان و نائیجیریا اور یورپ تک، افرادی قوت کے لئے اپنی توجہ عورتوں اور نو عمر افراد پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ عورتیں کیوں؟ یہ داعش کے دہشت گردوں کے لئے ’’جہاد النکاح‘‘ کے کام آتی ہیں اور نو عمر ذہن جلدی جنت و حور کے لالچ میں آکر مسلمانوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ فطرت مگر انسان کو وحشی پن کی اجازت نہیں دیتی۔ داعش والے اپنی نام نہاد ایک وحشیانہ خلافت کا اعلان کرچکے ہیں، ان کی مشکل یہ ہے کہ اس وحشیانہ نام نہاد خلافت کا دائرہ کیسے بڑھائیں؟ اس کے لئے وہ جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو راغب کیا جا رہا ہے۔ ایک نوجوان کے لئے پیسے اور جنسی تسکین کا لالچ بڑی سکون آور چیز ہوتی ہے۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ ساری کی ساری دنیا بشمول کلمہ گو مسلمانوں کے مرتد، کافر اور مشرک ہیں اور ان کا قتل داعش کے جنگجوؤں پر واجب ہے۔ عالمی طاقتیں مگر اپنی ضروریات کو بھی دیکھتی ہیں۔ امریکی اتحاد میں اڑنے والے جنگی طیارے ایک برس سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود عراق میں داعش کو کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں پہنچا سکے۔

البتہ روس نے شام میں 30 ستمبر سے اپنے شروع کیے جانے والے فضائی حملوں میں داعش سمیت ان تمام گروہوں کی خبر لی ہے، جو القاعدہ اور النصرہ وغیرہ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ امریکہ کو تکلیف ہے کہ روس کے فضائی حملوں سے داعش مضبوط ہو رہی ہے؟ کیسے؟ اوباما انتظامیہ تا حال اس کی وضاحت نہیں کرسکی۔ البتہ اوباما کی منطق عجیب ہے۔ اہم سوال مگر یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی داعش کے خلاف لڑنے والے معتدل مزاج دہشت گردوں کو اسلحہ پہنچا رہا ہے۔ مگر کیوں؟ دوغلی پالیسی اور کس چیز کا نام ہے؟ کیا دہشت گرد ’’معتدل‘‘ بھی ہوا کرتے ہیں؟ حیرت ہوتی ہے اخباری دانشوروں پر۔ جانور جیسے جانور ہوتا ہے، اسی طرح دہشت گرد بس دہشت گرد ہوتا ہے اور دہشت گرد کا کام گردنیں کاٹنا ہی ہوا کرتا ہے۔ کیا القاعدہ و النصرہ والے خودکش دھماکوں کے بجائے موسیقی سناتے ہیں؟ اخبار نویس کا خیال ہے کہ خطے میں عالمی سامراجی طاقتوں کو ایسے دہشت گرد گروہوں کی ضروت ہے جو داعش جتنے وحشت ناک تو نہ ہوں مگر ہوں ’’جہادی‘‘ اور اپنے تکفیری رویوں میں داعش سے کم بھی نہ ہوں۔
خبر کا کوڈ : 491783
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش