تحریر: ایس ایس ورقاء
اس سال سات محرم کو کرم ایجنسی کے مقام صدہ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ یوں کہ ایک متوقع خودکش بچے نے وقت سے پہلے خود کو پولیٹیکل حکام کے حوالے کردیا۔ تاہم موقع پر اس خبر کو حکومت نے سنسر کیا اور میڈیا پر لانے نہیں دیا گیا۔ بعد میں مقامی افراد اور کچھ سرکاری اہلکاروں تک جب رسائی ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ متوقع خودکش بمبار کا تعلق افغانستان کے ایک نامعلوم خاندان سے تھا اور ایک عرصہ سے اسکی کفالت صدہ کا ایک باشندہ کررہا تھا جو کہ تھریشر مرمت کرنے کے مشہور استاد حاجی محمد کا چچا زاد بھائی ہے۔ بچہ اپنے مالک کے ساتھ اسکی ملکیتی ورکشاپ میں تھریشر کی مرمت کا کام کرتا تھا۔
سات محرم کو یہ بچہ اپنے ورکشاپ سے نکلا اور صدہ بازار میں جگہ جگہ پوچھتا رہا کہ پولیس کا دفتر کہاں ہے۔ کبھی پوچھتا کہ حکومت کا مشر (سربراہ) کہاں ہے۔ لوگ وجہ پوچھتے رہے تو بتایا جاتا کہ کچھ ضروری کام ہے ان سے۔ لوگوں نے پولیس اسٹیشن کی نشاندھی کی، یہ آگے جاکر پولیس اسٹیشن پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ پولیس نے پہلے اسکی جامہ تلاشی لی اور پھر اپنے پاس بٹھایا۔ پولیس کے پاس پہنچے پر بھی اس نے اپنا مطالبہ دھرایا کہ آپ لوگوں کا مشر (سربراہ) کون ہے۔ وجہ پوچھی گئی تو بتایا کہ اس کے ساتھ ضروری کام ہے۔ پولیس نے بالآخر خود ہی بچے کو مجبور کیا اور اس سے یہ بیان حاصل کیا۔
اس نے کہا کہ وہ اپنے محسن کو ناراض نہیں کرسکتا تھا۔ لہذٰا اس نے انکی یہ بات بادل نخواستہ مان لی۔ تاہم دل میں مسلسل موت کا خوف رہتا تھا، ایک دن اپنے ایک دوست کے والد سے بات شیئر کی تو انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ خود کو حکومت کے حوالے کردو ورنہ تمہاری جان تو مفت میں چلی جائے گی جبکہ تمہارا کفیل تم پر کروڑوں کا سودا کرکے خود کروڑ پتی بن جائے گا۔ چنانچہ میں نے موقع ڈھونڈا اور آج خود کو حکومت کے حوالے کردیا۔ خود کش کی نشاندھی پر فوری طور پر اسکے مالک کو بھی حراست میں لیا گیا۔
حقیقت جو بھی ہو، ایک بات نہایت قابل افسوس ہے جس کا ذکر انہی صفحات میں پہلے بھی کئی مرتبہ کیا جاچکا ہے کہ کرم سرکار کے انصاف کی یہ حالت ہے کہ طوری قبائل اگر کہیں اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو انہیں پابند سلاسل کرکے بھاری جرمانوں تلے دبایا جاتا ہے، جبکہ دوسری اقوام اور قبائل کسی پر جارحیت کریں، یہاں تک کہ وہ حکومت کے خلاف بغاوت کیوں نہ کریں، سرکاری افراد یا املاک کو نشانہ کیوں نہ بنائیں۔ تب بھی انکے خلاف ایسی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی جس سے سبق حاصل کرکے باغی اقوام یا افراد اپنا قبلہ درست کرنے پر غور کریں۔
اسی واقعے کو دیکھیں کہ یہ کتنا خطرناک منصوبہ تھا۔ اسکے باوجود سرکار نے اسکی باقاعدہ تشہیر کرنے سے بھی گریز کیا۔ جبکہ چند ماہ قبل طوری قبیلے کے ایک فرد کی گاڑی سے کلاشنکوف کے کچھ راونڈ برآمد ہوئے تو اس واقعے کی اخباروں میں یوں تہشیر کرائی گئی جیسے ملکی سطح پر کسی مشہور دہشتگرد گروہ کو اپنے سرغنہ سمیت گرفتار کیا جا چکا ہو۔ ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ بالشخیل اقوام نے جب دوبارہ اپنی فریاد تحریک حسینی کو پہنچائی تو حکومت نے بالشخیل کے علاوہ تحریک حسینی کو بھی الٹی سیدھی دھمکیاں سنائیں۔ حالانکہ بالش خیل نے بار بار اپنی فریاد حکومت کے گوش گزار کرائی تھی۔ اور اسکا کوئی معقول جواب دینے کے بجائے ان سے جیل بھر دیئے تھے۔
تحریک حسینی نے اس شرط پر ایک بار پھر اس معاملے کو نمٹانے کا وعدہ کیا کہ مقامی سطح پر ہو، یا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ہو، اس مسئلے کو ہم اعلی سطح پر اٹھائیں گے۔ لیکن جب مسئلہ ایک حد تک پہنچ جائے تو اسکے بعد بالشخیل کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ معاملہ ہمارے ہاتھ سے لیکر کسی اور کے حوالے کریں۔ تاہم بالش خیل نے تحریک کی پیش کش پر آپس میں صلاح مشورہ کرنے کی مہلت مانگی۔