0
Friday 27 Nov 2015 18:27

پاراچنار، متوقع خودکش حملہ آور بچے نے خود کو پولیٹکل حکام کے حوالے کر دیا

پاراچنار، متوقع خودکش حملہ آور بچے نے خود کو پولیٹکل حکام کے حوالے کر دیا

تحریر: ایس ایس ورقاء

اس سال سات محرم کو کرم ایجنسی کے مقام صدہ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ یوں کہ ایک متوقع خودکش بچے نے وقت سے پہلے خود کو پولیٹیکل حکام کے حوالے کردیا۔ تاہم موقع پر اس خبر کو حکومت نے سنسر کیا اور میڈیا پر لانے نہیں دیا گیا۔ بعد میں مقامی افراد اور کچھ سرکاری اہلکاروں تک جب رسائی ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ متوقع خودکش بمبار کا تعلق افغانستان کے ایک نامعلوم خاندان سے تھا اور ایک عرصہ سے اسکی کفالت صدہ کا ایک باشندہ کررہا تھا جو کہ تھریشر مرمت کرنے کے مشہور استاد حاجی محمد کا چچا زاد بھائی ہے۔ بچہ اپنے مالک کے ساتھ اسکی ملکیتی ورکشاپ میں تھریشر کی مرمت کا کام کرتا تھا۔

سات محرم کو یہ بچہ اپنے ورکشاپ سے نکلا اور صدہ بازار میں جگہ جگہ پوچھتا رہا کہ پولیس کا دفتر کہاں ہے۔ کبھی پوچھتا کہ حکومت کا مشر (سربراہ) کہاں ہے۔ لوگ وجہ پوچھتے رہے تو بتایا جاتا کہ کچھ ضروری کام ہے ان سے۔ لوگوں نے پولیس اسٹیشن کی نشاندھی کی، یہ آگے جاکر پولیس اسٹیشن پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ پولیس نے پہلے اسکی جامہ تلاشی لی اور پھر اپنے پاس بٹھایا۔ پولیس کے پاس پہنچے پر بھی اس نے اپنا مطالبہ دھرایا کہ آپ لوگوں کا مشر (سربراہ) کون ہے۔ وجہ پوچھی گئی تو بتایا کہ اس کے ساتھ ضروری کام ہے۔ پولیس نے بالآخر خود ہی بچے کو مجبور کیا اور اس سے یہ بیان حاصل کیا۔ بندہ کا تعلق افغانستان سے ہے۔ تاہم اپنے والدین اور رشتہ داروں کی بابت اسے کوئی علم نہیں۔ لہذا گزشتہ دو تین سال سے وہ اپنے کفیل اور استاد کے ساتھ مقیم ہے۔ جو اسکا خاص خیال رکھتا ہے۔ اس نے کہا کہ دن کے وقت اپنے مالک کی ملکیتی تھریشر ورکشاپ میں کام کرتا ہوں۔ اور رات کو انہی کے ساتھ انکے گھر جاتا ہوں۔ اس نے مزید کہا کہ گزشتہ دو ماہ سے استاد جی مجھ سے یہ مطالبہ کررہا ہے کہ خودکش حملہ کرو تاکہ دنیا کی تمام تر تکالیف اور اندیشوں سے مستقل طور پر نجات حاصل کرکے اپنی ابدی زندگی کوخوشگوار بنا سکو، اوراس کام سے تمہیں فوری طور پر اپنے گم شدہ والدین کا دیدار بھی نصیب ہوگا۔

اس نے کہا کہ وہ اپنے محسن کو ناراض  نہیں کرسکتا تھا۔ لہذٰا اس نے انکی یہ بات بادل نخواستہ مان لی۔ تاہم دل میں مسلسل موت کا خوف رہتا تھا، ایک دن اپنے ایک دوست کے والد سے بات شیئر کی تو انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ خود کو حکومت کے حوالے کردو ورنہ تمہاری جان تو مفت میں چلی جائے گی جبکہ تمہارا کفیل تم پر کروڑوں کا سودا کرکے خود کروڑ پتی بن جائے گا۔ چنانچہ میں نے موقع ڈھونڈا اور آج خود کو حکومت کے حوالے کردیا۔ خود کش کی نشاندھی پر فوری طور پر اسکے مالک کو بھی حراست میں لیا گیا۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس سے حملہ کس پر کرایا جانا مقصود تھا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ روز عاشورا کے جلوس پر حملہ کرانا مقصود تھا۔ تاہم حکومتی ذرائع نے اسی وقت جبکہ تمام تر انکشافات منظر پر نہیں آئے تھے، یہ کہا تھا کہ حکومت کے خلاف دہشتگردی کے ایک بڑے منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا۔ اسی ضمن میں یہ بات بعد میں منظر عام پر آئی تھی کہ خودکش کو پولیٹیکل ایجنٹ یا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے خلاف استعمال کرنا مقصود تھا۔

حقیقت جو بھی ہو، ایک بات نہایت قابل افسوس ہے جس کا ذکر انہی صفحات میں پہلے بھی کئی مرتبہ کیا جاچکا ہے کہ کرم سرکار کے انصاف کی یہ حالت ہے کہ طوری قبائل اگر کہیں اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو انہیں پابند سلاسل کرکے بھاری جرمانوں تلے دبایا جاتا ہے، جبکہ دوسری اقوام اور قبائل کسی پر جارحیت کریں، یہاں تک کہ وہ حکومت کے خلاف بغاوت کیوں نہ کریں، سرکاری افراد یا املاک کو نشانہ کیوں نہ بنائیں۔ تب بھی انکے خلاف ایسی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی جس سے سبق حاصل کرکے باغی اقوام یا افراد اپنا قبلہ درست کرنے پر غور کریں۔


اسی واقعے کو دیکھیں کہ یہ کتنا خطرناک منصوبہ تھا۔ اسکے باوجود سرکار نے اسکی باقاعدہ تشہیر کرنے سے بھی گریز کیا۔ جبکہ چند ماہ قبل طوری قبیلے کے ایک فرد کی گاڑی سے کلاشنکوف کے کچھ راونڈ برآمد ہوئے تو اس واقعے کی اخباروں میں یوں تہشیر کرائی گئی جیسے ملکی سطح پر کسی مشہور دہشتگرد گروہ کو اپنے سرغنہ سمیت گرفتار کیا جا چکا ہو۔ ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ بالشخیل اقوام نے جب دوبارہ اپنی فریاد تحریک حسینی کو پہنچائی تو حکومت نے بالشخیل کے علاوہ تحریک حسینی کو بھی الٹی سیدھی دھمکیاں سنائیں۔ حالانکہ بالش خیل نے بار بار اپنی فریاد حکومت کے گوش گزار کرائی تھی۔ اور اسکا کوئی معقول جواب دینے کے بجائے ان سے جیل بھر دیئے تھے۔

تحریک حسینی نے اس شرط پر ایک بار پھر اس معاملے کو نمٹانے کا وعدہ کیا کہ مقامی سطح پر ہو، یا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ہو، اس مسئلے کو ہم اعلی سطح پر اٹھائیں گے۔ لیکن جب مسئلہ ایک حد تک پہنچ جائے تو اسکے بعد بالشخیل کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ معاملہ ہمارے ہاتھ سے لیکر کسی اور کے حوالے کریں۔ تاہم بالش خیل نے تحریک کی پیش کش پر آپس میں صلاح مشورہ کرنے کی مہلت مانگی۔ خیال رہے کہ بالش خیل کئی بار یہ مسئلہ تحریک حسینی کے پاس لایا ہے، لیکن تحریک جب ایک مناسب حل تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی تو کوئی اور فرد یا پارٹی بالش خیل کو پیش کش کرتی کہ معاملہ ہمارے حوالے کریں ہم اس سے آسان شرائط پرحل کرسکتے ہیں۔ لیکن جب معاملہ طول پکڑتا اور حل ہونے کا نام نہ لیتا تو دوبارہ اور باربار یہ معاملہ تحریک حسینی کے پاس لایا جاتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 500665
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش