4
0
Tuesday 12 Jan 2016 12:47

لہو رنگ سرزمینِ بلال، نائیجیریا

لہو رنگ سرزمینِ بلال، نائیجیریا
تحریر: شیخ سلمان رضا

13
دسمبر کو افریقی ملک نائیجیریا میں برپا ہونے والی کربلا، سال 2015ء کے غروب ہوتے ہوئے سورج کو خون آلود کر گئی۔ سرزمین بلال، جون و فضہ کے باسیوں کا رنگ تو سیاہ ہے، لیکن یہاں بہنے والا خون اپنی تاثیر کی سرخی میں دنیا کے بہت سے خطوں پر سبقت لے گیا۔ یہ عظیم قربانی اپنی منزلت کے اعتبار سے ایسے بہت سے خطوں کی تشیع کو مات دے گئی، جہاں تشیع صدیوں سے آباد ہیں۔ آج اس عظیم الشان قربانی کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خون کے اثر کو زائل ہونے سے بچایا جائے۔ یعنی حق تو یہ تھا کہ اس قربانی کا ابلاغ کیا جاتا لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جس ملک میں بستے ہیں وہاں شاید ہی کسی مصروف قومی اخبار میں اس دلخراش واقعے کی خبر کماحقہ لگی ہو یا ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں ہر شام ٹاک شوز میں بیٹھنے والے پنڈتوں کی توجہ اس واقعہ کی طرف گئی ہو۔ ابھی چند روز پہلے امریکی ریاست کیلی فورنیا میں 14 افراد کو ایک مسلمان جوڑے نے قتل کردیا، تو پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر یہ بریکنگ نیوز چلنے لگی اور پاکستانی میڈیا پر آنے والے چند روز تک اس واقعہ کی ذیلی خبریں چھائی رہیں۔ الیکٹرانک پر شام سجنے والی محفلوں میں ہمارے سقراط و بقراط کئی دن تک اس واقعے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے رہے، لیکن انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ سرزمین نائیجیریا میں برپا ہونے والے ظلم کی داستان پر نہ تو کوئی Ticker چلا اور نہ ہی کسی ہیومن رائٹس چمپیئن کو توفیق ہوئی کہ وہ اور کچھ نہیں تو الیکڑانک میڈیا پر آکر اپنا مذمتی بیان ہی داغ دیتا۔ ظلم پر ظلم یہ کہ آج تک اس ہولناک واقعہ کے درست اعداد و شمار (Facts & Figures) ہی دنیا کو پتا نہیں چل سکے۔

ہم جیسے پاکستانی مسلمانوں کی معلومات کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ زاریا (نائیجیریا کا شہر جہاں یہ واقعہ وقوع پذیر ہوا) میں شیخ ابراہیم زکزاکی کے پیروکاروں جو درحقیقت اسلام ناب محمدی کے پیروکار تھے، کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی، اس کے نتیجے میں 800 شیعہ مسلمان شہید ہوئے یا چار ہزار، اس بارے میں بھی کوئی حتمی تعداد میسر نہیں، لیکن اس وا قعے میں حقائق کو چھپانے کے لئے جو ترکیب (اسٹریٹیجی) استعمال ہوئی وہ سعودی عرب کی طرف سے سانحہ منٰی کے بعد اپنائی جانے والی حکمت عملی سے مشابہ ہے۔ اس واقعہ سے لیکر آج تک شیخ ابراہیم زکزاکی کی زندگی کے بارے میں بھی ہماری اطلاعات اتنی ہی ہیں، جتنی درندہ صفت نائیجیرین فوج نے مہیا کی ہیں۔ گویا پہلے نہتے شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے پھر ان کی اجتماعی قبریں بنائی جاتی ہیں تاکہ حقائق دفن کر دئیے جائیں۔ پھر ٹاپ لائن لیڈرشپ کو ختم کیا جاتا ہے اور اگر کوئی بچ گیا ہو تو اسے زخمی حالت میں وہاں سے اغوا کیا جاتا ہے اور بعدازاں یہ خبر تو دی جاتی ہے کہ وہ زندہ ہیں، لیکن ان سے ملنے اور ان کی تیمارداری کی اجازت نہیں دی جاتی۔ آج کی اس مہذب دنیا میں ایسی درندگی پرمبنی واقعہ کی مثال شاذو نادرہی ملے گی۔ پھر اس واقعے کی ساری ذمہ داری اُلٹا مظلوموں پر ڈال دینے کا ایسا فن تو شاید کسی اُموی عباسی یا تاتاری حکمرانوں کے پاس بھی نہ ہو، جو نائیجیرین فوج کی جانب سے دیکھنے میں آیا ہے، کہ جو لوگ امام رضا (ع) کی شہادت کی مجلس برپا کر رہے ہوں ان پر الزام دھردیا جائے کہ انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
نہ دامن پہ کوئی داغ، نہ خنجر پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو یا کرامات کرے ہو

اس سانحہ عظیم کے بعد ہیومن رائٹس آف نائیجیریا کے علاوہ کسی نام نہاد ’’عالمی لیڈر‘‘ جو خود کو ہیومن رائٹس کا چمپیئن کہلواتا ہو، نے کوئی مذمتی بیان تک نہیں دیا۔ ابھی کچھ ماہ پہلے ایک کرد شامی بچے ایلان کردی کی ساحل سمندر پر اوندھے منہ پڑی لاش کی تصویر نے امریکہ و یورپی ممالک کے سربراہوں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ ہمدردانہ بیانات کے راکٹ داغیں، لیکن نہیں معلوم کہ زاریا میں بہنے والے کم از کم 1000 افراد کا خون شائد ان کے رنگ کی وجہ سے اتنا ارزاں تھا کہ کسی مغربی سربراہ مملکت تو درکنار کسی ملک کی وزارت خارجہ کے نمائندے نے بھی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام حکمران اس خیانت میں شریک جرم ہیں۔ ہاں البتہ دو ممالک کے سربراہانِ مملکت نے نائیجیرین صدر محمدو نجاری کو ٹیلی فون کیا۔ ایک ایرانی صدر روحانی جنہوں نے محمدو نجاری سے اس سانحہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور متاثرین کو انصاف دلانے پر زور دیا، اور دوسرے سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز جنہوں نے محمدو نجاری کو ٹیلی فون کرکے اس کارروائی پر اپنی حمایت کا یقین دلایا اور اس کارروائی کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی قرار دیا۔ اب دو متضاد موقف سامنے آنے کے بعد ہم اپنی رائے بنانے میں آزاد ہیں کہ نائیجیرین آرمی کے اس درندہ صفت عمل میں کون ان کاحلیف اور کون ان کا حریف ہے۔

اگر ہم اس سانحہ کے واقعاتی پہلو کی بجائے تجزیاتی پہلو کی طرف آئیں تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ ظلم کیوں کیا گیا اور اس ظلم کے نتیجے میں ظالم کو کن نتائج کا حصول درکار تھا۔ ہمارے خیال میں ظالمانہ کاروائی اپنے مقاصد میں نائیجیریا کے چند شہروں جہاں تشیع نموپذیر ہو رہی تھی، تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار برِاعظم افریقہ تک پھیلا ہوا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ایک اجمالی نظر افریقہ کے (Facts & Figures) پر اور پھر ایک نظر نائیجیریا اور اس میں غیر معمولی رفتار کے ساتھ پھیلنے والی تحریک اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا پر ڈالیں۔ برِاعظم افریقہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا ایک کنارہ مشرقِ وسطیٰ سے ملتا ہے، تو دوسرا یورپ کی سمندری سرحد پر ہے۔ قدرتی وسائل سونا، تانبا، ہیرے سے مالا مال یہ برِاعظم دنیا کی جدید تاریخ میں امریکہ و یورپ کی للچائی ہوئی بھوکی نظروں کا شکار ہے۔ دنیا کی کل آبادی کا ساتواں حصہ بھی لگ بھگ ایک ارب نفوس اس برِ اعظم میں بستے ہیں، لیکن بدقسمتی سے معدنی وسائل اور جفاکش لیبر فورس رکھنے کے باوجود تقریباً پچاس فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اس خطے کے لوگ ہمیشہ سے استعمار کے ظلم و جور اور معاشی استحصال کا شکار رہے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں ان کی طرف سے مزاحمت ہمیشہ سے محدود رہی ہے۔ آج بھی استعمار ایک افریقی ملک مڈغاسگر میں 25 لاکھ ایکڑ زمین پر ایک کمپنی کے ذریعے قبضہ کرتا ہے اور 100 سال کے لئے وہاں کی زرخیز زمین کو لیز پر حاصل کر لیتا ہے، لیکن وہاں کوئی احتجاج نہیں ہوتا۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ استعماری کمپنیوں کی رالیں یہاں کے وسائل پر آج بھی ٹپکتی ہیں اور امریکہ و یورپ کسی بھی مزاحمتی قوت کو کچلنے کیلئے ہمیشہ سے کمربستہ رہے ہیں۔ اس کی ماضی قریب میں ایک مثال ہمیں مصر میں جو ایک افریقی ملک سے ایک عوامی حکومت اخوان المسلمون کی کامیابی کے بعد اس کو کچلنے کیلئے امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور مصری فوج کے گٹھ جوڑ کی صورت میں ملتی ہے۔ جہاں ایک دن میں 5 ہزار مسلمانوں کو شہید کرکے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور آج تک عوامی حکومت کے نمائندے پابندِ سلاسل ہیں۔

دو تین صدیوں پہلے امریکہ میں اسی خطے کے افراد کو شکنجوں میں کس کر لایا جاتا اور پھر ڈرائی پورٹ پر اِن جفاکش قیدیوں کو کوڑیوں کے دام ساری زندگی کیلئے کسی گورے کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا اور پھر اس غلام کو اتنے ہی حقوق حاصل ہوتے تھے، جتنے امریکہ میں ایک جانور کو حاصل ہوتے ہیں۔ پھر 18ویں صدی کے وسط میں پہلی بار ابراہم لنکن نے انہیں انسانیت کے حقوق دئیے اور 19ویں صدی کے وسط میں جان ایف کینڈی نے انہیں ووٹ کا حق دے دیا۔ گویا اس خطے کے باسیوں کی عدم مزاحمت اہل مغرب کے لئے ایک ایسی خصوصیت ثابت ہوئی، جس کے نتیجے میں وہ ان کا استحصال کرسکتے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر نائیجیریا میں کوئی اسلامک موومنٹ غیر معمولی رفتار کے ساتھ نموپاتی ہے تو اس کو کچلنے کیلئے مغرب پوری طرح سے چوکنا رہتا ہے اور اس کوکچلنے والی قوت خواہ وہ فوج ہو یا ظالم حکمران ہمیشہ سے مغرب اس کاپشت پناہ رہاہے۔ رہی آلِ سعود، آلِ خلیفہ، آلِ ثانی یا آلِ النیہان تو وہ کئی عشروں سے امریکہ و اسرائیل کے کاسہ لیں ہیں۔ ہمارے خیال میں برِاعظم افریقہ کے پسِ منظر میں شیخ ابراہیم زکزاکی کا جرم یہ تھا کہ ان کی تحریک تشیع سے بڑھ کر سرزمین حبش کے ستم رسیدہ اور مستعضف عوام کی بیداری کی تحریک تھی۔ ان کو اسلام کے حقیقی فلسفے یعنی محکومیت سے باہر نکالنے کی تحریک تھی اور انہیں ان کے حقوق دلانے کی تحریک تھی۔ اس لئے اسے کچلنے پر آلِ سعود ودیگر عرب حکمران نائیجیرین فوج کی کمر ٹھونکنے پرمصر ہیں اور امریکی و یورپی حکمران اپنی آنکھیں و کان بند رکھنے کی پالیسی پر مصر ہیں۔ ہمیں یاد رہے کہ دنیا کے براعظموں میں تناسب کے اعتبار سے مسلمان سب سے زیادہ برِ اعظم افریقہ میں آباد ہیں، یعنی افریقہ کی کل آبادی کا 53% مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ البتہ آباد ی کے اعتبار سے ایشیاء سب سے بڑا برِ اعظم ہے یعنی ایشیاء میں 1 ارب 40 کروڑ مسلمان بستے ہیں لیکن یہ ایشیاء کی آبادی کا 32% ہیں۔ گویا تناسب یعنی Percentage کے اعتبار سے مسلمان سب سے زیادہ یہیں افریقہ میں بستے ہیں اور دوسرے نمبر پر عیسیائیت ہے ۔ لہٰذا اب اگر یہاں کوئی ایسی تحریک چلتی ہے جو اپنے پیغام کے اعتبار سے بعض دیگر چھوٹے مذاہب کو اپنی طرف راغب کر رہی ہو تو وہ عیسائیت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجاتی ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ شیخ ابراہیم زاکزکی کی تحریک میں ایک قابل ذکر تعدادایسی ہے جو دیگر علاقائی مذاہب کو اپنے اندر ضم کر رہی تھی۔ شاید اسی لئے اس قتل عام پر عیسائیت کے مرکز کی طرف سے بھی کوئی آواز نہیں اٹھی یا شاید مرکز عیسائیت اور امریکہ و یورپ کے مفادات ایک ہیں۔

اب اگر ہم نائیجیریا کو برِ اعظم افریقہ میں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ نائیجیریا برِاعظم افریقہ کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے اور دنیا بھر میں آبادی کے اعتبار سے اسکا ساتواں نمبر ہے۔ یہاں کی آبادی 18کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ 9.5لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے اس ملک میں ماضی میں اسلام پہلے نمبر پر تھا اور عیسائیت دوسرے نمبر لیکن سابقہ نصف صدی میں یہاں عیسائیت اسلام پر غالب آگئی اور آج یہاں تقریباًعیسائیت 58% جبکہ اسلام 42% ہے۔ نائیجیریا کی اقتصاد دنیا کی 21ویں بڑی اقتصاد ہے یعنی اسکی کل سالانہ پیداوار 574 ارب ڈالر ہے جو کہ اسلامی ممالک میں انڈونیشیاء، ترکی اور سعودی عرب کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔ لیکن اس ملک کے وسائل کے تقریباً 44 فیصد پر 10 فیصد اشرافیہ قابض ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ تقریباً 70% آبادی یومیہ 1.25 $ سے کم آمدنی پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ وسائل کے اعتبار سے یہ ملک انتہائی امیر ہے اور برِ اعظم افریقہ میں پائے جانے والے تیل کے ذخائر کے اعتبار سے نائیجیریا کا نمبرلیبیا کے بعد آتا ہے لیکن تیل کی پیداوار کے اعتبار سے یہ ملک لیبیا سے چار گنا آگے ہے۔ اب اگر ہم مندرجہ بالا Fact کو دیکھیں اور شیخ ابراہیم زکزاکی کی کامیابیوں کو دیکھیں تو اس سانحے کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات ہمارے سامنے واضح ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اجمالاً عرض کرتے چلیں کہ شیخ ابراہیم زکزاکی امام خمینیؒ کے انقلاب اسلامی کے بعد فکر امامؒ سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ 1980ء سے پہلے نائیجیریا میں تشیع نہ ہونے کے برابر تھی لیکن پھر شیخ ابراہیم زکزاکی نے نائیجیریا میں فکرِ امام خمینیؒ کے تحت اسلام ناب محمدی کی ترویج کرنا شروع کی۔ قریہ قریہ اس پیغام کا ابلاغ کیا اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ جہاں انہوں نے نائیجیرین معاشرے میں اسلام حقیقی کو روشناس کروایا اور طاغوت، استعمار اور استکبار کا انکار کرنا سکھایا تو وہیں نائیجیریا کے پسے ہوئے طبقات کو ان کے حقوق کی جنگ کیلئے آمادہ کیا۔ ساتھ ہی ساتھ نائیجیریا میں رفا ہی فلاحی منصوبوں کو شروع کیا، تعلیم سے لیکر صحت اور میڈیا کے شعبے تک قابل ذکر خدمات سرانجام دیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہاں کے جفاکش، مخلص اور پاک فطرت انسانوں میں انکو تیزی سے پذیرائی ملنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے لشکر میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔

گذشتہ تین دہائیوں سے نائیجیریا میں کم سے کم 50 لاکھ اور بعض اندازوں کے مطابق ایک کروڑ 50 لاکھ افراد نے ان کے پیش کردہ احیاء شدہ اسلام یعنی تشیع کو قبول کر لیا۔ آج افریقہ میں شیعہ مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد نائیجیریا میں آباد ہے۔ نائیجیریا میں ہمارے سنی برادران مالکی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ تشیع سے بغض و کینہ نہیں رکھتے اسی لئے شیخ کو اپنا پیغام پہنچانے میں آسانی ہوئی، لیکن تشیع قبول کرنے والے افراد میں اہلسنت برادران کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو عیسائیت کے علاوہ وہاں کے روایتی مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر بات صرف یہاں تک رہتی کہ تشیع فروغ پارہی ہے تو شاید امریکہ اسرائیل اور آلِ سعود اس پر صبر کے گھونٹ پی لیتے لیکن بات یہیں پر رکی نہیں اور یہاں کی تشیع دن بدن اپنی استکبار دشمنی میں ایک مثال بننے لگی جیسے اس پورے برِ اعظم میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں یوم القدس شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہو لیکن نائیجیریا میں یوم القدس کی شان ہر سال بڑھتی گئی حتیٰ کہ پچھلے سال یہ روزِ برائت اِس قدر وسیع ہو گیا کہ نائیجیرین صیہونی فوج نے امریکہ و اسرائیل کے ایماء پر یوم القدس کے جلوس پر فائرنگ کرکے 33 افراد کو ابدی نیند سلا دیا۔ ان افراد میں شیخ کے تین فرزند بھی شامل تھے۔ لیکن شیخ کے پایہ استقامت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ امریکہ اسرائیل، آلِ سعود گٹھ جوڑ کے لئے دوسرا بڑا جھٹکا اس سال وہاں ہونے والا اربعین کا اجتماع تھا۔جس میں تقریباً پچاس لاکھ افراد نے شرکت کی اور یہ اجتماع کربلا کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا اجتماع تھا۔ شاید یہ وہ نقطہ تھا کہ مذکورہ بالا گٹھ جوڑ نے نائیجیریا کی صیہونی فوج کو آل آؤٹ جانے کے لئے آمادہ کیا اور نتیجتاً اس درندہ صفت فوج نے شیخ ابراہیم زکزاکی کے خاندان ، ان کی تحریک کے خلاف انتہائی سفاکی سے طاقت کا استعمال کیا۔ جس میں بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور خواتین کو بلاتفریق نشانہ بنایا گیا۔ اب اگر چیزوں کو مجتمع کریں، تو ایک ایسا ملک جہاں کی 70 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو اور ہم جانتے ہیں کہ تاریخ بشر میں انبیا کا ساتھ اور فطرت کی آواز پر لبیک ہمیشہ مستضفین نے کی ہے، لہٰذا ہمیں نظر آتا ہے، نائیجیرین معاشرے میں مستضفین کی بہتات ہے اور شیخ کی تحریک کی اتنی سرعت سے مقبولیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے جو اپنے حقوق کے حصول کے لئے شیخ کے اخلاص کو اپنے لئے غنیمت گردانتا ہے۔ دوسرا یہاں کی نصف آبادی 14 سے کم عمر ہے اور نوجوان ہمیشہ اپنے نظریات میں فطرت کی آواز کو جلدی قبول کرتے ہیں اور جوش و جذبے میں بزرگوں پر سبقت لے جاتے ہیں۔

شیخ کی تحریک میں دوسرا پہلو نوجوانوں کا استقلال بھی موجود ہے۔ پھر نائیجیریا برِ اعظم افریقہ میں مصر کے بعد اور ایک اعتبار سے مصر سے بڑھ کر اہم ہے کیونکہ مصر میں حبشی افراد نہ ہونے کے برابر اور باقی افریقہ میں حبشی افراد کی کثرت میں نائیجیریا ایک HUB کی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں سے اٹھنے والی تحریک پورے برِ اعظم کو اپنی لپیٹ میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس تحریک کو نہ کچلا جاتا تو آنے والے دنوں میں ہم پورے برِ اعظم افریقہ میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف مظاہرے دیکھیں گے اور پھر یہ مظاہرے روایتی مظاہروں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ امریکہ نواز حکمرانوں کی نیندیں اُڑا دیں گے اور ان کے تخت تاراج ہوا ہوجائیں گے۔ چونکہ پورے خطے میں مستضعفین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر اس تحریک کی سرعت کو دیکھا جائے تو اس تحریک کا نائیجیریا سے نکل پورے برِاعظم کو اپنی لپیٹ میں لے لینا یقینی ہے۔ بیداری اسلامی کے بعد دنیا نے دیکھا کہ اگر کسی ایک ملک میں انقلابیوں کو کامیابی حاصل ہو تو وہ کامیابی صرف اسی ملک تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے ہمسائیہ ممالک میں بھی اس کا DOMINO اثر ضرور پڑتا ہے۔ اگر نائیجیریا میں یہ تحریک کامیاب ہوجائے تو اس پورے خطے میں مغربی ممالک کی تجارتی کمپنیوں کی یہاں کے وسائل کو کوڑیوں کے مول لوٹ کھسوٹ بھی خطرے میں پڑجاتی اور پھر تاریخی اعتبار سے یہاں کے بے بس اور غیر مزاحم افراد اٹھ کھڑے ہوتے اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے استکبار کو مار بھگاتے لہٰذا امریکہ اسرائیل اور آلِ سعود نے یہ ضروری جانا کہ جتنی جلدی ہو اس تحریک کی جڑیں کاٹ دی جائیں۔ لیکن تاریخ شاید ہے کہ
تم نے جس خون کو مقتل میں چھپانا چاہا
وہ خون آج کوچہ و بازار میں آنکلا

پھر تاریخ میں جس خون کو بھی خون سیدالشہداء سے اتصال مل جائے اس کی تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ شیخ ابراہیم زکزاکی کی اس تحریک کے آگے لاکھ بند باندھ لئے جائیں تو بھی یہ تحریک ان رکاوٹوں کو عبور کرتی ہوئی آگے بڑھتی جائے گی لیکن اس ضمن میں دو طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ایک تو نائیجیریا میں تحریک اسلامی کے خواص جن کی بصیرت اور استقامت آنے والے دنوں میں نئی تقدیر رقم کرسکتی ہے اور دوسرے دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کے طرفداران، حامیان اور دوست جو اس خون کی ارزش کو جانتے ہوئے اس بے مثال قربانی سے اپنے ممالک میں لوگوں کو بیدار کریں اور ساتھ ساتھ اہلِ حبش کی آواز استغاثہ دنیائے عالم میں بلند کرتے ہوئے خود کو ان کی پشت پر کھڑا کریں تاکہ آنے والے دنوں میں نائیجیرین صیہونی فوج مزید ایسے جارحانہ اقدامات سے اجتناب کرنے پر مجبور ہو جائے۔
(بشکریہ: ماہنامہ افکار العارف، جنوری 2016ء)
خبر کا کوڈ : 511933
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عابس
Pakistan
ماشاءاللہ سلمان بھائی بہت ہی معلوماتی تحریر ہے۔۔
Ahsan
United Kingdom
So nicely analysed
غدیری
Iran, Islamic Republic of
زور قلم میں خدا مزید قوت عطا فرمائے۔انتہائی مفید تحریر تھی۔
راجہ جواد احمد
Satellite Provider
افسوس ایک طرف حضرت بلال رضی کا نائیجیریا، دوسرے طرف حضرت اویس قرنی رضی کا یمن اور تیسرے طرف انبیاء کی زمین فلسطین دوزخ بنے ھوئے ھیں اور مسلمان غفلت میں پژے ھوئے ھیں۔
ہماری پیشکش