0
Tuesday 23 Feb 2016 04:11

محنت کشوں کی مقتل گاہ

محنت کشوں کی مقتل گاہ
تحریر: آئی اے خان

مملکت سعودی عرب میں غیر ملکی محنت کشوں کے ساتھ حکومت و نجی اداروں کا نامناسب رویہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں۔ برسوں پہلے یہاں غریب محنت کشوں، مزدوروں اور غلاموں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا تھا، اسی کا تسلسل ہے کہ آج بھی سعودی عرب میں محنت مزدوری کرنے والا طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں محنت کشوں کو اتنا بھی حق حاصل نہیں کہ اپنی محنت کا جائز معاوضہ وصول کرنے کیلئے عدلیہ سے رجوع کرسکیں، یا اپنے ساتھ ہونے والے کسی دھوکے کے خلاف کوئی آواز بلند کرسکیں۔ یہاں محنت مزدوری کرنے والوں کے ساتھ آج بھی وہی سلوک جاری ہے، جو برسوں پہلے یہاں کے نام نہاد آقا یا تاجر اپنے غلاموں سے روا رکھتے تھے۔ تیل کی پیداوار سے پہلے نجد و حجاز (سعودی عرب) کے مکین زیادہ خوشحال نہیں تھے، یہاں کے بیشتر باشندوں کا کاروبار زندگی ان قافلوں سے وابستہ رہتا، جو حج و عمرہ کی غرض سے یہاں کا رخ کرتے یا تاجروں کے وہ قافلے جو دیگر اجناس کے علاوہ غلاموں کی تجارت سے وابستہ ہوتے۔ عرب باشندے ان قافلوں کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ہر ممکن خدمت بجا لاتے، جس کی قیمت مال یا غذا کی صورت میں وصول کرتے۔ تجارتی قافلوں کی سالاری زیادہ تر یہودی تاجروں کے پاس ہوتی، جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ کم ادائیگی میں زیادہ خدمت لیتے ہیں، چنانچہ محنت کش یا غلام تو ان یہودی سالاروں کو پسند نہیں کرتے مگر قبائلی سردار، مقامی تاجر اور صاحب ثروت لوگوں سے ان سالاروں کی خوب چھنتی، کیونکہ دونوں کے ایکدوسرے سے مفادات جڑے ہوتے۔ چنانچہ ایک طبقہ آقاوں، سرداروں، سالاروں، تاجروں کی صورت میں وسائل پر چھایا ہوا تھا، تو دوسرا غریبوں، محنت کشوں، غلاموں کی صورت میں اپنا پیٹ بھرنے اور سر پہ چھت کے خواب کے ساتھ خون پسینہ ایک کر رہا تھا۔ دونوں کے درمیان طبقاتی فرق کی وسیع خلیج حائل رہی۔

صدیاں گزرنے کے باوجود بھی فرق کی یہ خلیج ختم نہ ہوسکی اور آج بھی انسانوں کو غلام بناکر ان کے ہر طرح کے استحصال کو مملکت سعودی عرب میں قانون کا درجہ حاصل ہے۔ ماضی میں غلاموں کی تجارت کرنے والے انسانی تاجر آج کفیل کی صورت میں مختلف ممالک کے دورے کرکے وہاں سے اپنی ضرورت اور پسند کے مطابق محنت کش بھرتی کرکے لاتے ہیں اور انہیں خون آشام کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ریاستی سرپرستی میں محنت کشوں کے استحصال کا یہ عالم ہے کہ چنگل میں پھنسے محنت کش نہ ہی ان سے آزادی حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی عالمی قواعد و ضوابط کے مطابق اپنی اجرت حاصل کرتے ہیں۔ روزگار کے سنہری مواقع کی چکاچوند اشتہار بازی کے نتیجے میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے محنت کش کثیر سرمایہ خرچ کرکے ورکنگ ویزا تو حاصل کرتے ہیں، مگر مملکت کی حدود میں داخل ہونے کے بعد اپنے تمام حقوق سے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی کئی وڈیوز باآسانی دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں غیر ملکی محنت کشوں کے ساتھ انتہائی اہانت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے، خاص طور پر نجی ملازمین و ملازماوں پر امیر یا مالک غیر انسانی تشدد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اس کے جبر و ستم کے خلاف کہیں کوئی سنوائی نہیں۔

مملکت سعودی عرب میں محنت مزدوری اور اپنا خون پسینہ بہانے کیلئے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش سے جانے والے شہریوں کو تین سے چار لاکھ روپے پاکستانی خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ورکنگ ویزا کے حصول کے بعد یہ افرادی قوت پاسپورٹ کی صورت میں اپنے آپ کو کفیل کے پاس رہن رکھ لیتی ہے۔ عمومی طور پر کمپنی اس افرادی قوت کی اجرت کفیل کو ادا کرتی ہے اور کفیل محنت کشوں کو ادائیگی کرتا ہے۔ اجرت اور کام کے اوقات تو طے شدہ ہوتے ہیں، مگر رہائش کے نام پر زیر تعمیر عمارتوں کے تہہ خانوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے۔ خوراک، موسمی لباس، دیگر ضروریات کی کمی کے علاوہ مخصوص سرکل سے باہر جانے پر پابندی کے باعث یہ محنت نہ فقط نفسیاتی مسائل، احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ ان کی زندگی کی اوسط شرح بھی کم ہوکر رہ جاتی ہے۔ ان تمام قربانیوں کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ حکومت غیر ملکی محنت کشوں کیلئے کوئی ریلیف یا انسانی بنیادوں پر کوئی رعایتی قوانین مرتب کرتی، الٹا مرے کو سو دے کے مصداق ان غیر ملکی محنت کشوں کے خلاف کریک ڈاون اور جبری ڈی پورٹ کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔

ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں موجود آل سعود کی بادشاہت ماضی کی اسی ذہنیت کی نمائندہ ہے، جس میں انسانوں کو غلام بنا کر ان کا ہر طرح سے استحصال جائز سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ایسی حکومت سے محنت کشوں کیلئے کسی ریلیف کی توقع عبث ہے۔ ایشیائی ممالک سمیت دنیا کے غریب ممالک سے جانے والے یہ محنت کش اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں، مگر حکومت کی جانب سے اقامہ و محنت کے قوانین میں ردوبدل کے باعث قانون کی گرفت میں آتے ہیں اور ڈی پورٹ بھی کر دیئے جاتے ہیں، جبکہ سعودی حکومت ان محنت کشوں کو خرچ ہونے والا سرمایہ واپس نہیں کرتی، حالانکہ سرمایہ خرچ پہلے جبکہ قانون سازی بعد میں کی گئی ہوتی ہے۔ شام میں حکومتی تبدیلی کی خواہش میں ناکامی اور یمن پر فضائی حملوں کے بعد آل سعود حکومت کے ستم کا نشانہ سب سے زیادہ غیر ملکی محنت کش بنے ہیں۔ انتہائی قلیل عرصے میں قوانین میں تبدیلیاں کرکے محنت کشوں کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا اور انہیں ڈی پورٹ کیا گیا۔ سعودی حکومت نے قوانین میں تبدیلی کے بعد ان تمام غیر ملکیوں کے قیام کو غیر قانونی قرار دیا، جو کہ پرانے قوانین کے مطابق سعودی عرب میں موجود تھے۔ محنت کش غیر ملکیوں پر ٹوٹنے والی قیامتوں کا سلسلہ یہیں نہیں تھما، بلکہ مسلک، قومیت یہاں تک کہ ناموں کی بنیاد پر محنت کشوں کو زبردستی سے ڈی پورٹ کیا گیا، ان میں سے کئی بے گناہوں کو تفتیش کے کڑے مراحل سے گزارا گیا، ان میں اکثر تاحال لاپتہ جبکہ بعض کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ اکثر لاپتہ غیر ملکی محنت کشوں کو بھی سعودی حکومت نے حج حادثہ کے شہداء میں شمار کر لیا ہے۔

کئی پاکستانی گھرانوں کو فقط نام یا حسب نسب کی بنیاد پر ڈی پورٹ کیا گیا، حالانکہ ان کی حیثیت سعودی عرب میں قانونی تھی۔ کچھ عرصہ قبل سعودی اخبار نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ فقط تین ماہ میں چوالیس ہزار غیر ملکیوں کو جیلوں میں لایا جا چکا ہے۔ رپورٹ میں جیل خانہ جات کے ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کو شامل کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان چوالیس ہزار میں سے نصف سے زائد غیر ملکیوں کو زبردستی اپنے اپنے ممالک واپس بھجوا دیا گیا ہے۔ یہ تمام تر گرفتاریاں غیر ملکیوں سے متعلق نئے قوانین کی مد میں کریک ڈاون کے بعد عمل میں آئیں۔ رپورٹ کی شہ سرخی میں یہ انکشاف بھی شامل تھا کہ ان غیر ملکیوں کے ساتھ قوانین کے مطابق سلوک کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ پاسپورٹ نے اعلان کیا کہ وزٹ ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد قیام کرنے والے کو 6 ماہ قید اور 50 ہزار ریال تک جرمانے کی سزا دی جائے گی اور میزبان کو سعودی عرب سے بیدخل کر دیا جائے گا۔ کوئی بھی ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد مملکت میں قیام کی کوشش نہ کرے، ہر غیر ملکی مملکت میں اقامہ قانون کی پابندی کرے۔ محکمہ پاسپورٹ کے اس اعلان کے اگلے ہی روز قصیم پولیس کے ترجمان بدر الحیانی نے واضح کیا ہے کہ اقامہ و محنت قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالے 3211 تارکین گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ پولیس نے وزارت محنت کے افسران کے تعاون و اشتراک سے چھاپے مارے اور آئندہ بھی چھاپہ مہم جاری رہے گی۔

غیر ملکیوں کے ساتھ سعودی حکومت کی زیادتیوں کی حد یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سے بڑھ کر سزائے موت بھی ان کے مقدر میں لکھی جاتی ہے۔ تین ماہ میں چوالیس ہزار غیر ملکیوں کی گرفتاری سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ مملکت میں لاکھوں غیر ملکی غیر قانونی طور پر موجود ہیں اور ان کی آمدورفت کے راستے فی الحال آل سعود کی دسترس سے باہر ہیں، جس کے باعث یہ غیر ملکی انتہائی آسانی سے مملکت سعودی عرب میں داخل ہوتے ہیں، مگر دوسری جانب سعودی عرب میں اب تک سزائے موت پانے والوں میں نصف سے زائد تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔ ان غیر ملکیوں میں اکثر پر منشیات کی سمگلنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اگر دونوں اعداد و شمار کو پرکھا جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس ملک میں غیر قانونی طریقے سے لاکھوں انسان باآسانی داخل ہوسکتے ہیں، وہاں منشیات کے سمگلروں کو سر کٹوانے کی کیا ضرورت ہے۔ اصولی طور پر تو جس راستے سے لاکھوں انسان غیر قانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں، اسی کو سمگلر بھی استعمال کرتے۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں جنوری 1985ء سے جون 2015ء کے درمیانی عرصے میں 2208 لوگوں کو موت کی سزا دی گئی۔ سزائے موت پانے والوں میں نصف سے زائد تعداد ان غیر ملکیوں کی تھی کہ جو عربی زبان سے واقف نہیں تھے اور ان سے ایسی دستاویزات اور اعترافی بیانات پر دستخط کرائے گئے، جن کو وہ پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر تھے۔ قانونی امور اور انسانی حقوق کے کئی ماہرین کی طرف سے اس بارے میں بار بار تحفظات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ سعودی عرب میں ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت شفاف اور منصفانہ طور پر نہیں کی جاتی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سلطنتِ سعودی عرب کا ناقص نظامِ انصاف بڑے پیمانے پر سزائے موت دیئے جانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بہت سے واقعات میں ملزموں کو وکیلوں کی سہولت مہیا نہیں کی جاتی اور بہت سے لوگوں کو پولیس حراست کے دوران تشدد سے حاصل کئے جانے والے اعترافی بیانات کی بنا پر موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔ جن لوگوں کو سزائے موت دی گئی ہے، ان میں کم عمر ملزمان اور ذہنی بیمار شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں میں اسی فیصد مسلمان جبکہ بیس فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، شائد ایک مثال بھی ایسی نہ ملے کہ کسی امریکی یا برطانوی باشندے کی گردن کسی جرم میں اڑائی گئی ہو، ہوسکتا ہے کہ سعودی جلاد صرف مسلمانوں کے سر اڑانا جانتے ہوں، داعش کی طرح۔
خبر کا کوڈ : 521219
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش