0
Friday 25 Mar 2016 16:14

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر: سید محمود علی نقی

چند روز قبل 49 مسلم ممالک پر مشتمل او آئی سی کا پانچواں غیر معمولی اجلاس انڈونیشا کے دارالحکومت جکارتہ میں منعقد ہوا۔ 2 روزہ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جسکے مطابق فلسطینی ریاست کی مکمل حمایت کی جائے گی اور فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کا سختی سے نوٹس لیا جائے گا، مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل پر عمل درآمد کروایا جائے گا، عالمی برداری سے مطالبہ کیا جائے گا کہ مسئلہ فلسطین کی سنگین صورت حال کا احساس کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔ اجلاس میں 49 ممالک کے 605 نمائندوں شرکت کی۔ ہماری یاداشت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اس سے قبل بھی او آئی سی کے اجلاس میں متواتر انہی حروف کے ساتھ، اسی طرح کی قراردادیں خوبصورت الفاظ سے قیمتی صفحات پر درج کی گئیں۔ یہاں اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو حالات بہت مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ امت مسلمہ مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔ مسلمان مسلمان کے خلاف صف آراء دکھا ئی دے رہا ہے، جبکہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

گذشتہ پانچ دہائیوں میں ہزاروں افراد کو شہید کیا گیا، بے شمار مسلمان عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا گیا، بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، مگر اکثریت مسلمان ممالک صرف قراردادوں کی حد تک مذمت کرتے ہوئے نظر آئے۔ جن اسلامی ممالک نے اسرائیل کے خلاف عملی جدوجہد کی، ان میں ایران کا کردار ناقابل فراموش رہا۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جمعۃ الوادع کے موقع پر یوم القدوس کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان اور حریت پسند سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور اسرائیل کی ناجائز صیہونی ریاست کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ بلاشبہ یوم القدوس کا اہتمام ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو جاتا ہے، جنہوں نے اسکا آغاز کیا تھا۔

اسرائیل کے خلاف عملی جدوجہد میں مصروف عسکری تنظیم ’’حزب اللہ‘‘ کے کردار سے آنکھیں چرائی نہیں جا سکتیں۔ 1982ء سے لبنان میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف برسر پیکار تنظیم ’’حزب اللہ‘‘ کو گذشتہ ایام میں خلیج کی معروف تنظیم جی سی سی نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔ قاہرہ میں عرب لیگ کے ہیڈ کواٹر میں GCC کے رکن اور بحرینی سفارت کار واحد مبارک سیار کا اُس وقت میں جب اسرائیل اور امریکہ لبنان پر ایک بھرپور حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینا معنی خیز ہے۔ جی سی سی کے اس اقدام پر عربوں کے بہت سے گروپوں اور جماعتوں نے حیرت اور غصے کا اظہار کیا ہے اور لبنان کے مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ لبنان کے وزیر خارجہ نے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینا دہشت گردی کے خلاف مہم سے متعلق عرب معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

الجزائر کے وزیر خارجہ عبدالقادر نے اس اقدام کو اقوام متحدہ کے آئین و منشور کے خلاف قرار دیا ہے۔ لبنان کے سابق وزیراعظم ابو سعد حریری نے حزب اللہ کو لبنان کا بنیادی ستون قرار دیا۔ عراقی وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے بھی اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ پر پابندی کا مقصد اسرائیل کے خلاف جدوجہد کو کمزور کرنا ہے۔ دوسری جانب سعودی حکومت جسکا شام، یمن، بحرین اور لبنان میں اچھا خاصا عمل دخل ہے۔ عین اُسی وقت لبنان کو دی جانے والی 3 ارب ڈالر کی امداد کو بھی معطل کر دیا ہے۔ سعودی حکومت کی ناراضگی کی اصل وجہ یمن، شام اور عراق میں سعودی پالیسوں کی ناکامی بتایا جاتا ہے۔ سعودی حکام کے مطابق سعودی پالیسوں کی ناکامی کی بڑی وجہ ایران کی ان ممالک میں مداخلت ہے، جو حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے پر سخت غم و غصے میں مبتلا ہے۔

ایران کی سعودی حکومت سے ناراضگی شیخ باقر النمر کو پھانسی دینے کے بعد 34 اسلامی ممالک کے اتحاد میں ایران کو شامل نہ کرنے کی سعودی حمایت نے ایران اور سعودیہ کے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے اور ان دو بڑے اسلامی ممالک میں موجود کشیدگی پوری امت مسلمہ کے لئے تشویش بن چکی ہے۔ یہاں پر پاکستان جو دونوں اسلامی ممالک کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتا ہے، پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہو رہی ہیں کیونکہ ایران وہ ملک ہے، جس نے دنیا کے نقشے پر سب سے پہلے پاکستان کے وجود کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور خوش آمدید کہا اور پاکستان کے ہر مشکل دور میں ہماری مدد کرتا رہا۔ میاں نواز شریف ایران کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ سرگرم دکھائی دیئے اور تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد دو دفعہ ایران کا دورہ کرچکے ہیں۔ مشرق وسطٰی کی اس خوفناک صورت حال میں ایرانی صدر آئندہ چند دنوں میں پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔

تجزیہ نگار ایرانی صدر کے دورے کی اہمیت کو غیر معمولی قرار دے رہے ہیں، کیونکہ حال ہی میں ترکمانستان کے صدر قربان علی ممدوف پاکستان کا دورہ کرکے واپس گئے ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجیر نے دو ہفتے قبل بھارت کا دورہ کیا۔ کچھ دنوں میں میاں نواز شریف کی بھی امریکہ کے دورے پر جانے کی خبریں آرہی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں اور اس قبل عرب امارات کے دورے میں امارتی حکمرانوں سے 150 ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ کرچکے ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں ایرانی صدر کے دورے سے پاکستان قیادت کو دونوں اسلامی ممالک کے تعلقات کو بہتر اور یکسو کرنے کے لئے بہترین حکمت عملی اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا، لب کشائی کرتے ہوئے خاصی احتیاط اور سمجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا اور کوئی ایسی بات کرنے سے گریز کرنا ہوگا، جس سے ہماری سوچ میں کوئی یکطرفہ پن دکھائی دے اور کوشش کرنا ہوگی کہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری لاسکیں اور موجودہ کشیدگی ختم ہو کر دوستی اور برداشت کا ماحول قائم ہو، کیونکہ عصر حاضر میں ملت اسلامیہ کا سب سے اہم اور بنیادی فریضہ امت مسلمہ میں اتحاد اور اسکا فروٖغ ہے۔
خبر کا کوڈ : 529498
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش