0
Saturday 21 May 2016 14:14

کراچی شہر کے نصف سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے خراب، مانیٹرنگ کا نظام رک گیا

کراچی شہر کے نصف سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے خراب، مانیٹرنگ کا نظام رک گیا
رپورٹ: ایس جعفری

سندھ پولیس کی جانب سے شہر قائد کے 195 مقامات پر لگائے جانے والے 975 سی سی ٹی وی کیمروں میں سے نصف سے زائد کیمرے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کی عدم دلچسپی کے باعث خراب ہوگئے، یا پھر پرانی ٹیکنالوجی کے باعث اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں، جس کے باعث ناصرف اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بڑھ گئیں، بلکہ دہشتگردی کے کسی بھی واقعہ کے نتیجے میں دہشتگردوں کی شناخت اور گرفتاری تقریباً ناممکن ہوگئی ہے۔ دوسری جانب آئی جی سندھ نے سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا ہے کہ پولیس کے بجٹ میں سرویلنس کیمروں اور آئی ٹی پراجیکٹ کیلئے رقم نہیں ہے، اس لئے یہ شعبے ٹھیک کام نہیں کر رہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر پر کڑی نظر رکھنے کیلئے شہر کی اہم شاہراہوں، چورنگیوں اور اہم مقامات پر سال 2011ء میں 40 مقامات پر 26XZOOM کے 200 کیمرے جبکہ سال 2012ء میں 155 مقامات پر 2 میگا پکسل کے 700 کیمرے نصب کئے تھے، جن میں سے سال 2015ء صرف 160 کیمروں کو ہی اپ گریڈ کیا گیا۔

شہر کے 195 مقامات پر نصب کئے جانے والے 975 سی سی ٹی وی کیمروں میں سے نصف سے زائد کیمرے سندھ پولیس کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کی عدم توجہی کے باعث خراب ہوگئے، یا پھر پرانے ہونے کے باعث اپنی افادیت کھو بیٹے ہیں، جس کے باعث صدر، ایمپریس مارکیٹ، پریڈی اسٹریٹ، سعید منزل، لکی اسٹار، ایم اے جناح روڈ پر نصب بیشتر کیمرے، آرام باغ، کلفٹن، ڈیفنس، شارع فیصل، طارق روڈ اور بہادر آباد سمیت شہر کی اہم شاہراہوں، چورنگیوں اور اہم مقامات کی سرویلنس نظام کے ذریعے مانیٹرنگ کا عمل رک گیا ہے، جس سے شہر میں جرائم کے ساتھ اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ ڈاکو دن دہاڑے شہر کی کسی بھی شاہراہ پر اسلحے کے زور پر شہریوں کو لوٹ لیتے ہیں اور باآسانی فرار ہو جاتے ہیں۔ متعلقہ تھانوں کی پولیس جب جائے وقوع کے اردگرد لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کیلئے متعلقہ ادارے سے رابطہ کرتی ہے، تو پولیس افسران کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ مذکورہ مقام پر نصب کیمرہ یا تو خراب ہے، یا پھر اسے مرمت کے لئے بند کیا گیا ہے۔

اگر یہ دونوں وجوہات نہ بھی ہوں تو پولیس افسران کو ایسی فوٹیج فراہم کی جاتی ہے، جس میں اس بات کا تعین کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ ملزم کون ہے اور متاثرہ شہری کون ہے۔ ذرائع کے مطابق سال 2015ء میں صرف 160 کیمروں کو ہی اپ گریڈ کرکے 5 میگا پکسل کر دیا گیا، جبکہ باقی کیمروں کو پرانی ٹیکنالوجی پر ہی چھوڑ دیا گیا، جس سے متعلقہ ادارے کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے اگر شہر میں کوئی واردات سی سی ٹی وی کیمرہ محفوظ بھی کرلیں، تو وہ فوٹیج اتنی دھندلی ہوتی ہے کہ اس میں کسی ملزم کو شناخت کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ بعض مقام پر مذکورہ کیمرے مقررہ اونچائی سے زیادہ بلند مقام پر نصب کئے گئے ہیں، جس کے باعث کیمرے صحیح طور پر مذکورہ مقام پر ریکارڈنگ نہیں کرسکتے، جس کے باعث سندھ پولیس کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پیشہ وارانہ صلاحیت کھل کر سامنے آگئی ہیں۔

دوسری جانب سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سال 2015-16ء میں سندھ پولیس کا بجٹ 61.8 ارب تھا، بجٹ کا 84 فیصد حصہ تنخواہوں، چار فیصد پیٹرول، 4 فیصد نئی گاڑیوں پر خرچ ہوتا ہے، جبکہ چار فیصد ہتھیاروں کی خریداری اور چار فیصد عمارتوں کی مرمت پر خرچ ہوتا ہے، سرویلنس کیمروں اور محکمہ آئی ٹی کے پراجیکٹ کیلئے رقم نہیں، جس کے باعث سرویلنس کیمرے اور آئی ٹی پراجیکٹ ٹھیک کام نہیں کر رہے، لہٰذا سرویلنس کیمروں کی دیکھ بھال کیلئے کمپنیز سے معاہدے کرنے ہیں، جن کیلئے اضافی بجٹ دیا جائے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی اعلٰی حکام کی توجہ متعدد مرتبہ سی سی ٹی وی کیمروں کی خرابی اور مرمت نہ ہونے کی جانب مبذول کرائی گئی ہے، لیکن متعلقہ ادارے کی بے حسی کے باعث اب تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا، جس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 540014
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش