0
Monday 20 Jun 2016 21:46

امام حسنؑ ابن علی ع کی سیرت

امام حسنؑ ابن علی ع  کی سیرت
ترتیب و پیشکش: ایس ایچ بنگش

آپ کی ولادت:
آپ ۱۵/ رمضان ۳ ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت سے قبل ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم(ص) کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آ پہنچا ہے۔ خواب رسول کریم سے بیان کیا آپ نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری لخت جگر فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورخین کا کہنا ہے کہ رسول کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ آپ کی ولادت نے رسول کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کر دیا اور دنیا کے سامنے سورئہ کوثرکی ایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کردی۔

آپ کانام نامی:
ولادت کے بعداسم گرامی حمزہ تجویز ہو رہاتھا لیکن سرورکائنات ص نے بحکم خدا، موسی کے وزیرہارون کے فرزندوں کے شبر و شبیر نام پرآپ کانام حسن ع اور بعد میں آپ کے بھائی کانام حسین ع رکھا، بحارالانوار میں ہے کہ امام حسن کی پیدائش کے بعد جبرئیل امین نے سرورکائنات کی خدمت میں ایک سفید ریشمی رومال پیش کیا جس پرحسن لکھا ہوا تھا ماہر علم النسب علامہ ابوالحسین کا کہنا ہے کہ خداوندعالم نے فاطمہ کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔ کتاب اعلام الوری کے مطابق یہ نام بھی لوح محفوظ میں پہلے سے لکھا ہوا تھا۔

زبان رسالت دہن امامت میں:
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن کی ولادت ہوئی اور آپ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو رسول کریم بےانتہا خوش ہوئے اور ان کے دہن مبارک میں اپنی زبان اقدس دیدی بحارالانور میں ہے کہ آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعا کی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ امام حسن کو لعاب دہن رسول کم اور امام حسین کو زیادہ چوسنے کا موقع دستیاب ہوا تھا اسی لیے امامت نسل حسین میں مستقر ہو گئی۔

آپ کا عقیقہ:
آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ( اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۳)۔ علامہ کمال الدین کابیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیا تھا (مطالب السؤل ص ۲۲۰)۔ کافی کلینی میں ہے کہ سرورکائنات نے عقیقہ کے وقت جو دعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی ”اللہم عظمہابعظمہ، لحمہا بلحمہ دمہابدمہ و شعرہابشعرہ اللہم اجعلہا وقاء لمحمد والہ“ خدایا اس کی ہڈی مولودکی ہڈی کے عوض، اس کاگوشت اس کے گوشت کے عوض، اس کاخون اس کے خون کے عوض، اس کا بال اس کے بال کے عوض قرار دے اور اسے محمد ص و آل محمد ع کے لیے ہر بلا سے نجات کا ذریعہ بنا دے۔ امام شافعی رح کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے امام حسن کاعقیقہ کرکے اس کے سنت ہونے کی دائمی بنیاد ڈل دی (مطالب السؤل ص ۲۲۰)۔ بعض معاصرین نے لکھا ہے کہ آنحضرت نے آپ کاختنہ بھی کرایا تھا لیکن میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ امامت کی شان سے مختون پیداہونا بھی ہے۔

کنیت و القاب:
آپ کی کنیت صرف ابو محمد ع تھی اور آپ کے القاب بہت کثیرہیں: جن میں طیب، تقی، سبط اور سید زیادہ مشہور ہیں، محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہ آپ کا”*سید*“ لقب خود سرور کائنات کاعطا کردہ ہے (مطالب السؤل ص ۲۲۱)۔ زیارت عاشورہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کالقب ناصح اور امین بھی تھا۔

امام حسن پیغمبر ص اسلام کی نظر میں:
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حسن اسلام پیغمبراسلام کے نواسے تھے لیکن قرآن نے انہیں فرزندرسول کادرجہ دیا ہے اوراپنے دامن میں جابجا آپ کے تذکرہ کو جگہ دی ہے، خود سرور کائنات نے بے شمار احادیث آپ کے متعلق ارشادفرمائی ہیں: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عام و خاص نے بھت زیادہ احادیث بیان کی ھیں کہ آپ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں فرمایا (۷) ”یہ دونوں میرے بیٹے امام ھیں، خواہ وہ اٹھیں یا بیٹھیں۔“ (قیام کریں یا خاموشی)۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی آپ کے والد بزرگوار کی خلافت کے بعد آپ کی جانشینی کے بارے میں بھی بھت زیادہ احادیث موجود ھیں۔( ارشاد مفید ) رسول خدا(ص) فرماتے تھے: "پروردگارا! میں اس سے محبت کرتا ھوں تو بھی اس کو دوست رکھ"۔ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: "حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ھیں۔" ایک دن امام حسن علیہ السلام اپنے نانا کی پشت پر سوار تھے ایک شخص نے کھا: واہ کیا خوب سواری ھے! پیغمبر(ص) نے فرمایا: بلکہ کیا خوب سوار ھیں! ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ص نے ارشاد فرمایا کہ میں حسنین ع کو دوست رکھتا ہوں اور جو انہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ ایک صحابی رض کا بیان ہے کہ میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ وہ ایک کندھے پر امام حسن کو اور ایک کندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے لیے جا رہے ہیں اور باری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں، ایک صحابی کا بیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پر سوار ہو گئے کسی نے روکنا چاہا تو حضرت نے اشارہ سے منع کر دیا (اصابہ جلد ۲ ص ۱۲)۔ ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں داڈھی سے کھیلتے دیکھا (نورالابصارص ۱۱۹)۔ ایک دن سرور کائنات امام حسن کو کاندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لیے جا رہے تھے۔ ایک صحابی نے کہا کہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہے یہ سن کر آنحضرت نے فرمایا یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے (اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۵ بحوالہ ترمذی)۔ امام بخاری اور امام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن کو کندھے پر بٹھائے ہوئے فرما رہے تھے، خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔

حافظ ابونعیم ابوبکررض سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نماز جماعت پڑھا رہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آ گئے اور وہ دوڑ کر پشت رسول پرسوار ہو گئے یہ دیکھ کر رسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سر اٹھایا، اختتام نماز پر آپ سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو فرمایا یہ میراگل امید ہے“۔” ابنی ہذا سید“ یہ میرا بیٹا سید ہے، اور دیکھو یہ عنقریب دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام نسائی عبداللہ ابن شداد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے، آپ کی آغوش میں امام حسن تھے، آنحضرت نماز میں مشغول ہوگئے، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے، اختتام نماز پر آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو فرمایا کہ میرا فرزند میری پشت پر آ گیا تھا، میں نے یہ نہ چاہا کہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں ،جب تک کہ وہ خود نہ اتر جائے، اس لیے سجدہ کو طول دینا پڑا۔ حکیم ترمذی، نسائی اور ابوداؤد نے لکھا ہے کہ آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین آ گئے اور حسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پر گر پڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اتر کر انہیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ شروع فرمایا(مطالب السؤل ص ۲۲۳) ۔

امام حسن کی سرداری جنت:
آل محمدکی سرداری مسلمات سے ہے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ سرور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے ”الحسن و الحسین سیداشباب اہل الجنة و ابو ہما خیر منہما“ حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد بزرگوار یعنی علی بن ابی طالب ع ان دونوں سے بہتر ہیں۔ جناب حذیفہ یمانی کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرت ص کو ایک دن بہت زیادہ مسرور پا کر عرض کی مولا آج افراط شادمانی کی کیا وجہ ہے، ارشاد فرمایا کہ مجھے آج جبرئیل
نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزند حسن و حسین جوانان بہشت کے سردار ہیں اور ان کے والد علی ابن ابی طالب ان سے بھی بہتر ہیں (کنزالعمال ج ۷ ص ۱۰۷ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۷) اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہو گئی کہ حضرت علی صرف سید ہی نہ تھے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے۔

جذبہ اسلام کی فراوانی:
مؤرخین کابیان ہے کہ ایک دن ابوسفیان حضرت علی ع کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ آپ آنحضرت سے سفارش کرکے ایک ایسا معاہدہ لکھوا دیجئے جس کی رو سے میں اپنے مقصدمیں کامیاب ہو سکوں آپ نے فرمایا کہ آنحضرت جو کچھ کہہ چکے ہیں اب اس میں سرمو فرق نہ ہوگا اس نے امام حسن سے سفارش کی خواہش کی، آپ کی عمر اگرچہ اس وقت صرف ۱۴ ماہ کی تھی، لیکن آپ نے اس وقت ایسی جرائت کا ثبوت دیا، جس کا تذکرہ زبان تاریخ پر ہے۔ لکھا ہے کہ ابوسفیان کی طلب سفارش پر آپ نے دوڑ کر اس کی داڑھی پکڑ لی اور ناک مروڑ کر کہا کلمہ شہادت زبان پر جاری کرو، تمہارے لیے سب کچھ ہے یہ دیکھ کر امیرالمومنین مسرور ہو گئے(مناقب آل ابی طالب جلد ۴ ص ۴۶)۔

امام حسن اور ترجمانی وحی:
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ امام حسن کا یہ وطیرہ تھا کہ آپ انتہائی کم سنی کے عالم میں اپنے نانا پرنازل ہونے والی وحی من وعن اپنی والدہ ماجدہ کو سنا دیا کرتے تھے ایک دن حضرت علی نے فرمایا کہ اے بنت رسول میراجی چاہتا ہے کہ میں حسن کو ترجمانی وحی کرتے ہوئے خود دیکھوں، اور سنوں، سیدہ نے امام حسن کے پہنچنے کا وقت بتا دیا ۔ ایک دن امیرالمومنین حسن سے پہلے داخل خانہ ہو گئے اور گوشئہ خانہ میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ امام حسن حسب معمول تشریف لائے اور ماں کی آغوش میں بیٹھ کر وحی سنانا شروع کر دی، لیکن تھوڑی دیر کے بعد عرض کی ”یا اماہ
قد تلجلج لسانی و کل بیانی لعل سیدی یرانی“ مادرگرامی آج زبان وحی ترجمان میں لکنت اور بیان مقصد میں رکاوٹ ہو رہی ہے، مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میرے بزرگ محترم مجھے دیکھ رہے ہیں، یہ سن کر حضرت امیرالمومنین نے دوڑ کر امام حسن کو آغوش میں اٹھا لیا اور بوسہ دینے لگے(بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۱۹۳)۔

ام حسن اور تفسیر قرآن:
علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفیر و سیط واحدی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس اورابن عمرسے ایک آیت سے متعلق ”شاہد و مشہود“ کے معنی دریافت کئے، ابن عباس نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ بتایا اور ابن عمر نے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا، اس کے بعد وہ شخص امام حسن کے پاس پہنچا، آپ نے شاہد سے رسول خدا اور مشہود سے یوم قیامت فرمایا اور دلیل میں آیت پڑھی:
۱ ۔ یاایہاالنبی اناارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا۔ ائے نبی ہم نے تم کو شاہد و مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔
۲ ۔ ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود۔ قیامت کاوہ دن ہوگا
جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع ہوں کردیے جائیں کے، اوریہی یوم مشہود ہے۔ سائل نے سب کاجواب سننے کے بعدکہا ”فکان قول الحسن احسن“ امام حسن کا جواب دونوں سے کہیں بہتر ہے۔ (مطالب السؤل ص ۲۲۵)۔

امام حسن کی عبادت:

امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام زبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایا پیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثر موت، عذاب، قبر، صراط اور بعثت و نشور کو یاد کر کے رویا کرتے تھے، جب آپ وضو کرتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد ہو جایا کرتا تھا اور جب نماز کے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے آپ کا معمول تھا کہ جب دروازہ مسجدپرپہنچتے توخدا کو مخاطب کرکے کہتے میرے پالنے والے تیرا گنہگار بندہ تیری بارگاہ میں آیا ہے اسے رحمن و رحیم اپنے اچھائیوں کے صدقہ میں مجھ جیسے برائی کرنے والے بندہ کومعاف کر دے، آپ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تھے، تو اس وقت تک خاموش بیٹھے رہتے تھے، جب تک سورج طالع نہ ہو جائے (روضة الواعظین بحارالانوار)۔

آپ کازہد:
امام شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے  اکثر اپنا سارا مال راہ خدا میں تقسیم کر دیا ہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ہے وہ عظیم و پرہیزگار تھے۔

آپ کی سخاوت:
مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے کچھ مانگا دست سوال دراز ہونا تھا کہ آپ نے پچاس ہزار درہم اور پانچ سو اشرفیاں دے دیں اور فرمایا کہ مزدور لا کر اسے اٹھوالے جا، اس کے بعد آپ نے مزدور کی مزدوری میں اپنا چغا بخش دیا (مراة الجنان ص ۱۲۳) ۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کو خدا سے دعا کرتے دیکھا خدایا مجھ دس ہزار درہم عطا فرما، آپ نے گھر پہنچ کر مطلوبہ رقم بھجوا دی(نورالابصار ص ۱۲۲)۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو فاقہ کرتے ہیں، لیکن سائل کو محروم واپس نہیں فرماتے ارشاد فرمایا کہ میں خدا سے مانگنے والا ہوں اس نے مجھے دینے کی عادت ڈال رکھی ہے اور میں نے لوگوں کو دینے کی عادت ڈالی رکھی ہے، میں ڈرتا ہوں کہ اگر اپنی عادت بدل دوں، تو کہیں خدا بھی نہ اپنی عادت بدل دے اور مجھے بھی محروم کر دے (ص
۱۲۳) ۔

توکل کے متعلق آپ کاارشاد:
امام شافعی کا بیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذرغفاری فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تونگری سے زیادہ ناداری اور صحت سے زیادہ بیماری پسند ہے، آپ نے فرمایا کہ خدا ابوذر پر رحم کرے ان کا کہنادرست ہے، لیکن میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو شخص خدا کے قضا و قدر پر توکل کرے، وہ ہمیشہ اسی چیز کو پسند کرے گا جسے خدا اس کے لیے پسند کرے(مراة الجنان جلد ۱ ص ۱۲۵)۔

امام حسن حلم اور اخلاق کے میدان میں:
علامہ ابن شہر آشوب تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن علیہ السلام گھوڑے پرسوار کہیں تشریف لیے جا رہے تھے، راستہ میں امیر شام کے طرف داروں کا ایک شامی سامنے آپڑا، اس نے حضرت ع کو گالیاں دینی شروع کر دیں، آپ نے اس کا مطلقا کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی جیسی کر چکا تو آپ اس کے قریب گئے اور اس کو سلام کر کے فرمایا کہ بھائی شاید تو مسافر ہے، سن اگر تجھے سواری کی ضرورت ہو تو میں تجھے سوری دیدوں، اگر تو بھوکا ہے تو کھانا کھلا دوں، اگر تجھے کپڑے درکار ہوں تو کپڑے دیدوں، اگر تجھے رہنے کو جگہ چاہئے تو مکان کا انتظام کر دوں، اگر دولت کی ضرورت ہے تو تجھے اتنا دیدوں کہ تو خوش حال ہوجائے یہ سن کر شامی بے انتہا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہ وں کہ آپ ع زمین خدا پر اس کے خلیفہ ہیں، مولا میں تو آپ کو اور آپ کے باپ دادا کو سخت نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا، لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کا گردیدہ بنا دیا، اب میں آپ کے قدموں سے دور نہ جاؤں گا اور تاحیات آپ کی خدمت میں رہوں گا (مناقب جلد ۴ ص ۵۳ ،وکامل مبروج جلد ۲ ص ۸۶) ۔

امام حسن ع اور امیر شام کے درمیان صلح کے شرائظ امام حسن ع و اہلبیت ع کی ابدی کامیابی:
وارث صلح حدیبیہ اور وارث مصطفی ص امام حسن ع نے امت کو فتنے سے بچانے کے لئے امیر شام سے صلح کیا۔ جس کے شرائط ہی امام حسن ع و اہلبیت ع کے برحق ہونے کی واضح دلیل ہیں۔ اس صلح کو بعد میں امیر شام نے پامال کر کے خلاف ورزی کی اور تاقیامت دنیا پر اہلبیت ع کی فتح اور بنی امیہ کی خباثت و شکست آشکار کر دی۔

شرائط صلح:
اس صلح نامہ کے مکمل شرائط حسب ذیل ہیں:

 1 ۔ امیر شام حکومت اسلام میں، کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل کریں گے۔
2- امیر شام کو اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کاحق نہ ہو گا۔
3- شام و عراق و حجاز و یمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہو گی۔
۴- حضرت علی ع کے اصحاب رض اور پیروکار جہاں بھی ہیں ان کے جان و مال اور ناموس اور اولاد محفوظ رہیں گے۔
۵- امیر شام، حسن بن علی اوران کے بھائی حسین ابن علی اور خاندان رسول میں سے کسی کوبھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ طور پر اور نہ اعلانیہ اور ان میں سے کسی کو کسی جگہ دھمکایا اور ڈرایا نہیں جائے
گا۔
۶- جناب امیرالمومنین امام علی ع کی شان میں کلمات نازیبا جواب تک مسجد جامع اور قنوت نماز میں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کر دئیے جائیں، آخری شرط کی منظوری میں امیر شام کو عذرہوا تویہ طے پایاکہ کم از کم جس موقع پر امام حسن علیہ السلام موجود ہوں اس جگہ ایسا نہ کیا جائے، یہ معاہدہ ربیع الاول یاجمادی الاول۴۱ ء ہجری کو عمل میں آیا۔

صلح نامہ پر دستخط:
۲۵/ ربیع الاول کو کوفہ کے قریب مقام انبارمیں فریقین کااجتماع ہوا اور صلح نامہ پردونوں کے دستخط ہوئے اورگواہیاں ثبت ہوئیں (نہایة الارب فی معرفتہ انساب العرب ص ۸۰)۔ اس کے بعد امیر شام نے اپنے لیے عام بیعت کا اعلان کر دیا اور اس سال کا نام سنت الجماعت رکھا پھر امام حسن کو خطبہ ع دینے پر مجبور کیا، آپ منبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا: ”ائے لوگوں خدائے تعالی نے ہم میں سے اول کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کی اور آخر کے ذریعہ سے تمہیں خونریزی سے بچایا، امیر شام نے اس امر میں مجھ سے جھگڑا کیا جس کا میں اس سے زیادہ مستحق ہوں، لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی نسبت اس امر کو ترک کر دینا، بہتر سمجھا تم رنج و ملال نہ کرو کہ میں نے حکومت اس کے نااہل کو دے دی اور اس کے حق کو جائے ناحق پر رکھا، میری نیت اس معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے، یہاں تک فرمانے پائے تھے کہ امیر شام نے کہا”بس ائے حضرت زیادہ فرمانے کی ضرورت نہیں ہے“ (تاریخ خمیس جلد ۲ ص ۳۲۵)۔ تکمیل صلح کے بعد امام حسن نے صبر و استقلال اور نفس کی بلندی کے ساتھ ان تمام ناخوشگوار حالات کو برداشت کیا اور معاہدہ پر سختی کے ساتھ قائم رہے، مگر ادھر یہ ہوا کہ امیر شام نے جنگ کے ختم ہوتے ہی اور سیاسی اقتدار کے مضبوط ہوتے ہی عراق میں داخل ہو کر نخیلہ میں جسے کوفہ کی سرحد سمجھنا چاہئے، قیام کیا اور جمعہ کے خطبہ کے بعد اعلان کیا کہ میرا مقصد جنگ سے یہ نہ تھا کہ تم لوگ نماز پڑھنے لگو روزے رکھنے لگو، حج کرو یا زکواة ادا کرو، یہ سب توتم کرتے ہی ہو میرا مقصد تو یہ تھا کہ میری حکومت تم پر مسلم ہوجائے اور یہ مقصد میرا امام حسن ع کے اس معاہدہ کے بعد پورا ہو گیا اور باوجود تم لوگوں کی ناگواری کے میں کامیاب ہوگیا رہ گئے، وہ شرائط جو میں نے حسن ع کے ساتھ کئے ہیں، وہ سب میرے پیروں کے نیچے ہیں، ان کا پورا کرنا یا نہ کرنا، میرے ہاتھ کی بات ہے یہ سن کر مجمع میں ایک سناٹا چھا گیا، مگر اب کس میں دم تھا کہ اس کے خلاف زبان کھولتا۔

شرائط صلح کا حشر:
مورخین کا اتفاق ہے کہ امیر شام جو میدان سیاست کے کھلاڑی اور مکر و زور کی سلطنت بنی امیہ کے تاجدار تھے، امام حسن سے وعدہ اور معاہدہ کے بعد ہی سب سے مکر گئے ”ولم یف لہ معاویة لشئی مماعاہد علیہ“ تاریخ کامل ابن اثیرجلد ۳ ص ۱۶۲ میں ہے کہ امیر شام نے کسی ایک چیزکی بھی پرواہ نہ کی اور کسی پر عمل نہ کیا۔ امام ابوالحسن علی بن محمد لکھتے ہیں کہ جب امیر شام کے لیے امر سلطنت استورا ہو گیا تو اس نے اپنے حاکموں کو جو مختلف شہروں اور علاقوں میں تھے، یہ فرمان بھیجا کہ اگر کوئی شخص ابوتراب یعنی امام علی ع اور اس کے اہل بیت ع کی فضیلت کی روایت کرے گا، تو میں اس سے بری الذمہ ہوں، جب یہ خبرتمام ملکوں میں پھیل گئی اور لوگوں کو امیر شام کامنشاء معلوم ہوگیا، تو تمام خطیبوں نے منبروں پر سب و شتم اور منقصت امیرالمومنین پر خطبہ دینا شروع کر دیا، کوفہ میں زیاد ابن ابیہ جو کئی برس تک حضرت علی علیہ السلام کے عہد میں ان کے عمال میں رہ چکا تھا، وہ پیروکاران علی کو اچھی طرح سے جانتا تھا۔ مردوں، عورتوں، جوانوں، اور بوڑھوں سے اچھی طرح آگاہ تھا، اسے ہر ایک رہائش اور کونوں اور گوشوں میں بسنے والوں کا پتہ تھا، اسے کوفہ اور بصرہ دونوں کا گورنر بنا دیا گیا تھا۔ اس کے ظلم کی یہ حالت تھی کہ پیروکاران علی کو قتل کرتا اور بعضوں کی آنکھوں کو پھوڑ دیتا اور بعضوں کے ہاتھ پاؤں کٹوا دیتا تھا، اس ظلم عظیم سے سینکڑوں تباہ ہوگئے، ہزاروں جنگلوں اور پہاڑوں میں جاچھپے، بصرہ میں آٹھ ہزار آدمیوں کا قتل واقع ہوا، جن میں بیالیس حافظ اور قاری قرآن تھے، ان پر محبت علی کا جرم عاید کیا گیا تھا، حکم یہ تھا کہ علی کے بجائے بنی امیہ کے فضائل بیان کئے جائیں اور علی کے فضائل کے متعلق یہ فرمات تھا کہ ایک ایک فضیلت کے عوض دس دس منقصت و مذمت تصنیف کی جائیں یہ سب کچھ امیرالمومنین سے بدلا لینے اور یزید لعین کے لیے زمین خلافت ہموار کرنے کی خاطر تھا۔

کوفہ سے امام حسن کی مدینہ کوروانگی:
صلح کے مراحل طے ہونے کے بعد امام حسن علیہ السلام اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ ابن جعفر اور اپنے اطفال و عیال کولے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے، تاریخ اسلام مسٹر ذاکر حسین کی جلد ۱ ص ۳۴ میں ہے کہ جب آپ کوفہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو امیر شام نے راستہ میں ایک پیغام بھیجا اور وہ یہ تھا کہ آپ خوارج سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں، کیونکہ انہوں نے میری بیعت ہوتے ہی پھر سر نکالا ہے امام حسن نے جواب دیا کہ اگر خونریزی مقصود ہوتی تو میں تجھ سے صلح کیوں کرتا۔

صلح حسن اور اس کے وجوہ و اسباب:
استاذی العلام حضرت علامہ سید عدیل اختر اعلی اللہ مقامہ (سابق پرنسپل مدرسة الواعظین لکھنؤ) اپنی کتاب تسکین الفتن فی صلح الحسن کے ص ۱۵۸ میں تحریر فرماتے ہیں: امام حسن کی پالیسی بلکہ جیسا کہ باربار لکھا جا چکا ہے، کل اہلبیت ع کی پالیسی ایک اور صرف ایک تھی (دراسات اللبیب ص ۲۴۹)۔ وہ یہ کہ حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی انہیں کے احکام کا اجراء چاہئے، اس مطلب کے لیے جو برداشت کرنا پڑے، مذکورہ بالا حالات میں امام حسن کے لیے سوائے صلح کیا، چارہ ہو سکتا تھا، اس کو خود صاحبان عقل سمجھ سکتے ہیں، کسی استدلال کی چنداں ضرورت نہیں ہے، یہاں پر علامہ ابن اثیر کی یہ عبارت (جس کاترجمہ درج کیاجاتاہے) قابل غور ہے: کہا گیا ہے کہ امام حسن نے حکومت امیر شام کو اس لیے سپرد کی کہ جب امیرشام نے خلافت حوالے کرنے کے متعلق آپ کو خط لکھا، اس وقت آپنے خطبہ پڑھا اور خدا کی حمدوثنا کے بعد فرمایا کہ دیکھو ہم کو شام والوں سے اس لیے نہیں دبنا پڑ رہا ہے (کہ اپنی حقیقت میں) ہم کو کوئی شک یا ندامت ہے، بات تو فقط یہ ہے کہ ہم اہل شام سے سلامت اور صبر کے ساتھ لڑ رہے تھے، مگر اب سلامت میں عداوت اور صبر میں فریاد مخلوط کر دی گئی ہے، جب تم لوگ صفین کو جارہے تھے، اس وقت تمہارا دین تمہاری دنیا پر مقدم تھا لیکن اب تم ایسے ہوگئے ہو کہ آج تمہاری دنیا تمہارے دین پر مقدم ہو گئی ہے، اس وقت تمہارے دونوں طرف دوقسم کے مقتول ہیں، ایک صفین کے مقتول جن پر رو رہے ہو، دوسرے نہروان کے مقتول جن کے خون کا بدلہ لینا چاہ رہے ہو، خلاصہ یہ کہ جو باقی ہے وہ ساتھ چھوڑنے والا ہے اور جو رو رہا ہے وہ تو بدلہ لینا ہی چاہتا ہے، خوب سمجھ لو کہ امیر شام نے ہم کو جس امر کی دعوت دی ہے نہ اس میں عزت ہے اور نہ انصاف، لہذا اگرتم لوگ موت پر آمادہ ہو تو ہم اس کی دعوت کو رد کر دیں اور ہمارا اور اس کا فیصلہ خدا کے نزدیک بھی تلوار کی باڑھ سے ہو جائے اور اگر تم زندگی چاہتے ہو تو جو اس نے لکھا ہے مان لیا جائے اور جو تمہاری مرضی ہے ویسا ہوجائے، یہ سننا تھا کہ ہر طرف سے لوگوں نے چلانا شروع کر دیا بقابقا، صلح صلح، (تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۶۲) ۔

ناظرین انصاف فرمائیں کہ کیااب بھی امام حسن کے لیے یہ رائے ہے کہ صلح نہ کریں ان فوجیوں کے بل بوتے پر (اگر ایسوں کہ فوج اوران کی قوتوں کو بل بوتا کہا جا سکے) لڑائی زیبا ہے، ہرگز نہیں ایسے حالات میں صرف یہی چارہ تھا کہ صلح کر کے اپنی اور ان تمام لوگوں کی زندگی تو محفوظ رکھیں، جو دین رسول ص کے نام لیوا اور حقیقی پیرو پابند تھے، اس کے علاوہ پیغمبراسلام کی پیشین گوئی بھی صلح کی راہ میں مشعل کا کام کر رہی تھی،(بخاری) علامہ محمد باقر لکھتے ہیں کہ حضرت کو اگرچہ وفائے صلح پر اعتماد نہیں تھا، لیکن آپ نے حالات کے پیش نظر چار و ناچار دعوت صلح منظور کر لی (دمعئہ ساکبہ)۔
خبر کا کوڈ : 546558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش