0
Thursday 4 Aug 2016 16:30

عرب اسرائیل روابط(2)

عرب اسرائیل روابط(2)
تحریر: صابر کربلائی

عربوں اور اسرائیل کے مابین تعلقات کے ادوار کی تاریخ اسی روز سے شروع ہوگئی تھی، جب اسرائیل نے عربوں کے خلاف مسلح جنگوں میں واضح برتری حاصل کرنا شروع کی تھی، تاہم یہ صورتحال عین اس وقت تبدیل ہوگئی جب لبنان میں 1982ء میں اسرائیل نے اپنی فوجیں اتار دیں اور اس کے جواب میں ایران کی مدد سے بننے والی جہادی تنظیموں بشمول حماس اور حزب اللہ کے جوانوں نے مشترکہ طور پر لبنان اور فلسطین کے اندر اسرائیلی دشمن کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا، جس کا نتیجہ 2000ء میں لبنان سے اسرائیلی انخلا اور بدترین شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ عربوں نے ماضی کی تمام تر شکست اور ذلت کا بدلہ لے لیا تھا اور اسرائیل کو تمام تر قوت اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ہزیمت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح دوسری مرتبہ اسرائیل کو بدترین شکست کا سامنا 2008ء میں حماس کے ہاتھوں بائیس روزہ جنگ میں اٹھانا پڑا اور پھر یکے بعد دیگرے 2012ء اور 2014ء میں غزہ میں لڑی گئی دو جنگوں میں بھی اسرائیل کو شکست ہی رہی اور ماہرین نے اس شکست کی ایک بنیادی وجہ جو بیان کی، وہ ایران کی فلسطینیوں بالخصوص حماس کے لئے کی جانے والی مالی اور مسلح مدد تھی کہ جس نے اسرائیل کو بدترین شکست کے سامنے لا کھڑا کیا۔ غزہ میں ہونے والی آخری جنگ میں اسرائیلی علاقوں میں گرنے والے میزائل اور راکٹ جنہیں والفجر کا نام دیا گیا تھا، واضح طور پر ایران ساختہ میزائل تھے، جن کا استعمال ایران نے نہیں بلکہ فرزندان فلسطین و حماس کے ہاتھوں سے ہوا تھا، ماہرین نے اسرائیل کی شکست کی اہم ترین وجہ فلسطینیوں کے ہاتھوں استعمال ہونے والے ایرانی اسلحہ کو قرار دیا تھا، جو خود اسرائیل کے لئے بھی حیران کن اور خطرے کی گھنٹی بنا رہا۔

بہر حال یہ بات بھی واضح اور عیاں ہے کہ 2006ء میں جب فلسطینیوں کو اپنی نو زائیدہ حکومت چلانے کے لئے مالی وسائل کی ضرورت تھی تو عرب ممالک کی جانب سے حماس پر پابندی عائد کی گئی تھی کہ وہ ایران سے مدد نہ لے، لیکن بدلے میں عربوں نے حماس کی کوئی مدد نہ کی تو بالآخر حماس کو ایران سے مالی وسائل لینا پڑے اور اس طرح انہوں نے اپنی نومنتخب حکومت کو چلانے میں کامیابی بھی حاصل کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایران نے ہر موقع پر فلسطینیوں کی غیر مشروط حمایت کی ہے، جس کا اعتراف فلسطینی جماعتیں بالخصوص حماس بھی کرتی آئی ہے اور اس مدد کے بدلے میں ایران نے کبھی فلسطینیوں سے یہ نہیں کہا کہ وہ اسرائیل پر حملہ کریں یا یہ کہ ایران کے کسی اور دشمن کے خلاف کارروائی کریں، بلکہ ایران نے اسرائیل کو اپنا دشمن بھی اسی لئے قرار دیا کہ صیہونی دشمن ایک غاصب اور قاتل دشمن ہے، فلسطین پر قابض ہوا ہے اور فلسطین مسلم امہ کا قلب ہے۔ جہاں تک بات عرب اسرائیل تعلقات کی ہے تو 1967ء میں ناکامی کے بعد عرب ممالک نے غنیمت جانا کہ اسرائیل کے خلاف زیادہ سختی سے کام نہ لیا جائے اور پھر آنے والے وقت میں جب صورتحال تبدیل ہوئی تو عرب ممالک کے ان تعلقات کو اسرائیل نے اپنے فائدہ کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور عرب ممالک کو اس دھوکے کا شکار کرنا شروع کر دیا کہ ایران عرب ممالک کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس دھوکہ دہی کی سب سے بڑی وجہ ایران کی فلسطینیوں کے مابین اور پوری دنیا کے عوام میں بڑھتی ہوئی عزت اور وقار تھا کہ جو ایران کو مظلوم فلسطینیوں کی عملی مدد کے بدلے میں حاصل ہوا ہے۔

اسرائیل عرب ممالک کو اپنے دھوکے کے جال میں پھنسانے میں کامیاب رہا اور اس نے عرب ممالک کو باور کروا دیا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اسرائیل کے خلاف نہیں بلکہ عرب ممالک کے خلاف ہے، جبکہ طول تاریخ میں کہیں ایسا نہیں ملتا کہ ایران نے کسی بھی ملک کی سرحدوں میں تجاوز کیا ہو اور وہاں قبضہ کر لیا۔ بہرحال ایران دشمنی میں عرب ممالک اس قدر آگے نکل آئے کہ آج اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بنانے کو فخر محسوس کرتے ہیں، جبکہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرنا ان کے لئے ننگ و عار ہے۔ دنیا اس بات سے آشنا ہے کہ 1979ء میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے جتنی مدد فلسطینیوں کے لئے کی ہے، شاید کسی اور دنیا کے ملک نے ایسا نہیں کیا ہے۔ اگر عرب ممالک کی بات کی جائے تو انہوں نے فلسطینیوں کو اسرائیل کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے کے لئے ایک گولی یا پھر گولی کی قیمت تک بھی نہیں دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے تمام دھڑے خواہ وہ جہاد اسلامی سے وابستہ ہوں یا فلسطین کے ثقافتی گروہ ہوں، سب کے سب ایران کی فلسطین کے بارے میں پالیسی اور مدد کے بارے میں مثبت رائے رکھتے اور اعتراف کرتے ہیں کہ ایران نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو اولین ترجیح دی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ غاصب صیہونی دشمن نے پہلے مسئلہ فلسطین کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی، تاکہ اس مسئلہ کی اہمیت کو ختم کیا جاسکے، اس کے بعد اس مسئلہ کو عربوں کا خاص مسئلہ بنا کر پیش کیا جانے لگا اور اس کام کے لئے اسرائیل کے سرپرست اعلٰی امریکہ اور اس کے زیر اثر ذرائع ابلاغ نے پوری دنیا میں واویلا کرنا شروع کر دیا کہ فلسطین کا مسئلہ عربوں کا مسئلہ ہے، تاہم اس بات کی کوشش کی جاتی رہی کہ دنیا کے دیگر ممالک اور ان کی اقوام کو فلسطینیوں کی حمایت سے دور رکھا جائے اور مناسب وقت آنے پر فلسطین پر پورا اسرائیلی تسلط قائم کر لیا جائے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس سازش میں مزید تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی، جب صیہونی دشمن اور اسکے آلہ کار اس منفی پراپیگنڈے میں کہ جس میں فلسطین کو صرف اور صرف عربوں کا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا تھا، بری طرح ناکام ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنی وفاداری کا دم بھرتے ہوئے فلسطین کی اس دور کی موجودہ قیادت کو اس بات پر قائل کر لیا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کر لئے جائیں اور امن فارمولا بنا کر اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔

اس کام کے لئے انہوں نے فلسطینیوں کے اس دور کے قائدین کو مختلف حیلے بہانوں سے فلسطینیوں کی ترقی کے سہانے خواب دکھا کر بالآخر اسرائیل کے ساتھ مذاکرت پر آمادہ کر لیا، جس کے نتیجے میں اوسلو اکارڈ سمیت کیمپ ڈیوڈ جیسے سیاہ معاہدے عمل میں آئے اور اس کا سارا فائدہ اسرائیلی دشمن نے اٹھا لیا۔ ان تمام تر کوششوں کا مقصد اس مرتبہ فلسطین کو عربوں کے مسئلہ سے نکال کر فلسطین اور اسرائیل کے مابین ایک مسئلہ قرار دینا تھا، تاکہ دنیا کے دیگر ممالک انسانی ہمدردی اور مسلم امہ اپنے اسلامی رشتے کی بنیاد پر فلسطینیوں کے ہم آواز بھی نہ ہوسکے اور اس طرح کی تمام تر سازشوں کا مقصد بالآخر ایران کی فلسطینیوں کے لئے کی جانے والی کاوشیں اور مالی و مسلح مدد کو روکنا تھا۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مسئلہ چاہے فلسطین کا ہو یا کشمیر کا یا پھر بوسنیا میں سرب افواج کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام ہو یا یہ کہ دور حاضر میں شام، عراق، یمن، لیبیا اور افغانستان وغیرہ میں دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں معصوم انسانوں کا قتل عام ہو، کسی بھی طرح مسلم امہ ان مسائل سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتی اور بالخصوص مسئلہ فلسطین سے مسلم امہ ویسے بھی الگ نہیں رہ ہی نہیں سکتی، کیونکہ یہ نہ صرف ایک انسانی المیہ ہے بلکہ عالم اسلام کے سلگتے ہوئے مسائل میں سے اہم ترین مسئلہ ہے، جس کے لئے پوری امت کے دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 557704
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش