0
Tuesday 15 Nov 2016 02:54

مسافران بھشت۔۔۔۔۔ (پیدل زائرین امام حسین ؑ ) کیلئے ہدیہ

مسافران بھشت۔۔۔۔۔ (پیدل زائرین امام حسین ؑ ) کیلئے ہدیہ
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اربعین امام حسین ؑ و شہدائے کربلا کے مقدس ایام گذر رہے ہیں، اربعین کا دن جیسے جیسے قریب آتا ہے، عشاق امام حسین ؑ و پیروان کربلا کے دلوں کی حالت متغیر سی ہو جاتی ہے، ایک بیقراری، ایک آس، ایک امید، ایک خواہش، ایک تڑپ، ایک تمنا، ایک درد، اس بیقراری کی کیفیت اور دل کی عجیب حالت کیساتھ آنکھوں میں کربلا کی تصویر گھومنے لگتی ہے، ہم جنہوں نے امام بارگاہوں میں جا جا کے یاحسین یاحسین بولنا سیکھا ہوتا ہے اور ساری زندگی ذات نواسہ رسول کو پکارتے گذر جاتی ہے، اگر اس امام کے اصل گھر، اصل مقام، اصل زیارت سے مشرف ہونے کا موقعہ نہ ملے تو تڑپ اور بیقراری تو بہرحال بڑھے گی، درد تو ہر حال میں محسوس کیا جائے گا، بالخصوص جب سے اربعین امام ؑ کے موقعہ پر کروڑوں انسانوں کو دیکھتے ہیں تو مولا سے ایک ہی دعا مانگنے کو زبان سے جملے نکلتے ہیں، اے آقا ہم غریبوں، بے نواؤں او بے آسراؤں کی حاضری کو بھی یقینی بنا دیں، یہ تڑپ اور یہ درد ہم سب محسوس کرتے ہیں اور ان دنوں جب بہت سے احباب اربعین امام کیلئے کربلا کو عازم سفر ہو رہے ہیں تو ہر التماس دعا کہنے والے کی یہی التماس ہے کہ اسے بھی بلاوا آجائے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر جن میں پیدل سفر کرنے والوں کی عقیدت و محبت کے نمونے ہیں، ہر عاشق حسین کو اپنی جانب اس طرح کھینچ رہی ہیں جیسے مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔

نجف سے کر بلا پیدل زیارت کرنے والوں کیلئے اہل عراق کی ایسی عقیدت کہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، ایسی محبت کہ جس کا نظارہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔ ایسی چاہت کہ دل جس کا معترف ہو جائے، ایسی اپنائیت کہ اجنبیت کا احساس مٹ جائے، ایسی مہمان داری کہ آئمہ طاہرین کی تاریخی مثالیں آنکھوں کے سامنے دکھنے لگیں، ایسا ماحول کہ جس میں آپ ایک بار جا کر ہمیشہ کیلئے کھو جائیں، ایسا منظر کہ جس کا نظارہ آپ کی آنکھوں میں گھر کر لے، ایسا سفر کہ آپ کو جنت کا احساس ہو، آپ بھشت کے مسافر بن جائیں، مجھے یہ سب اس لئے یاد آ رہا ہے کہ گذشتہ برس اس سفر اور ماحول میں رہنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی، بہت سے دوستان سے کراچی، لاہور، ملتان، ابو ظہبی وغیرہ میں رابطہ ہوا تو سب کا ارادہ تھا کہ اس بار نجف سے کربلا پیدل (مشی) کرنی ہے، ایسے میں یہ خیال آیا کہ ان برادران و خواہران کی رہنمائی کیلئے ایک کالم ہی لکھ دیا جائے، تاکہ ہماری یادیں تازہ ہونے کیساتھ ساتھ ان مسافران بھشت کی کسی بھی طرح رہنمائی ہوسکے۔ مولا امام حسین ؑ سے ہی اس کا ا جر پاؤں اور اس سعادت سے دوبارہ سرفراز ہو سکوں۔

جو احباب کسی کاروان میں شامل ہوتے ہیں، ان کو تو مکمل رہنمائی فراہم کی جاتی ہے، مگر بہت سے احباب اپنے طور پر بھی یہ سفر کر رہے ہوتے ہیں، اس لئے ان کو چاہیئے کہ جب سفر کا آغاز کریں تو اس سے پہلے اپنا سامان کسی دوسرے ساتھی کے سپرد کر دیں، جو آپ کیساتھ ہے اور پیدل نہیں جا رہا، تاکہ آپ کا باقی سامان کربلا پہنچ جائے۔ ضرورت کی چند چیزیں نکال کر شولڈر بیگ میں ڈال لیں، تاکہ پیدل سفر میں کام آسکیں۔ آپ کے شولڈر بیگ میں بہت ہی مختصر سامان ہونا چاہیئے، بس ایک کپڑے کا جوڑا اور ٹراؤزر، جرابیں، گرم مفرل، گرم ٹوپی، جیکٹ، کیمرہ اور دوائیں جو آپ کے زیر استعمال ہوں، ورنہ مختلف مقامات پر طبی سہولیات کا بہترین انتظام ہوتا ہے، کھانے پینے کی کوئی بھی چیز لینے کی ضرورت نہیں ہوتی، ہر قسم کا کھانا اور جوسز، پانی ہر جگہ میسر ہوتا ہے، تبلیغی جماعت والوں کی طرح، سفری بستر کی بھی ضرورت نہیں ہے، البتہ آپ کو عراق میں جاتے ہی ایک سم کارڈ خرید لینا چاہیئے، جو باہمی رابطہ کیلئے بہت کارآمد رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہینڈ فری ہو تو اس کا یہ فائدہ ہے کہ آپ پیدل چلتے ہوئے نوحے، دعائیں اور مناجات سے مستفید ہوسکتے ہیں، اس صورت میں آپ کو پاور بنک بھی ساتھ رکھنا ہوگا، جس کی بہرحال ضرورت رہتی ہے، ویسے جہاں بھی آرام کرتے ہیں، وہاں چارجنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے، کئی ایک جگہوں پر تو وائی فائی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ جو مکمل فری ہوتا ہے۔

ہمارے ریلوے اسٹیشنز کی طرح نہیں، جہاں چند منٹ ٹرین رکتی ہے تو چارجنگ والے اپنا کام چلا رہے ہوتے ہیں، یہاں ہر چیز مہیا کی جاتی ہے، چونکہ اس سفر میں دنیا بھر کے لوگ گروپس میں سفر کر رہے ہوتے ہیں، اس لئے ہر ایک اپنی کوئی نہ کوئی شناخت لے کر چلتا ہے، بہت سے زائرین اپنے ملک کا پرچم لیکر چلتے ہیں، اپنے نام سے پرنٹڈ شرٹس و جیکٹس اور پٹیاں لئے ہوتے ہیں۔ اگر کم از کم اپنے ملک کا پرچم ہر ایک گروپ کے ساتھ ہو تو ہم اپنے ملک کا نام بھی روشن کرسکتے ہیں۔ دوسرا اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ ہمارے ملک کا نام بدنام کرنے والے اس سرزمین پر موجود ہیں، اگر زائرین اپنے ملک کا سبز ہلالی پرچم لیکر چلیں گے تو کم از کم عراقی عوام میں طالبان اور داعش میں شامل پاکستانیوں پر غصہ کا ازالہ بھی کیا جاسکے گا۔ ویسے بھی اکثر ان ممالک میں شکلوں اور لباس کی وجہ سے اکثر لوگ سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں، آیا آپ ہندی ہیں۔؟ ایسے میں بہت دکھ ہوتا ہے، ہمیں اپنی شناخت کو بہرحال نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔

سفر کا آغاز کا بہترین وقت بعد از نماز فجر ہے، اس طرح آپ ایک ہی دن میں زیادہ وقت سے استفادہ کرتے ہوئے منزل کی جانب بڑھ سکتے ہیں، حرم امیر المومنین ؑ کے باب طوسی (بالمقابل باب قبلہ) سے باہر نکلیں اور شاہراہ طوسی پر چلنا شروع کریں تو تقریباً 500 میٹر بعد وادئ السلام قبرستان ہے۔ وادی السلام قبرستان بہت ہی قدیم ہے، اس میں ایک روایت کے مطابق ستر ہزار انبیاء کی قبور او بہت سے آئمہ طاہرین کے خاص مقامات ہیں، اس میں سے گزر کر چلتے جائیں۔ ہزاروں کی تعداد میں زائرین اس راہ پر گامزن ہوں گے اور سب کی منزل کربلا۔ اگر تو آپ کے ساتھ کوئی برادر ایسا ہے جس نے یہ راستہ دیکھا ہوا ہے تو کوئی مشکل نہیں ہوگی اور اگر کاروان کے سب حضرات و خواتین پہلی بار پیدل سفر کے تجربہ سے گزر رہے ہیں اور کسی کے پاس زیادہ معلومات نہیں تو بھی کوئی بات نہیں، کسی قسم کی پریشانی نہیں، آپ بھی ہزاروں لوگوں کے ساتھ ساتھ سفر جاری رکھیں، تاکہ منزل کی طرف بڑھ سکیں۔ جب تک پول (کھمبے) شروع نہ ہوں، چلتے رہیں۔ نجف سے نکلیں تو وادی السلام سے گزر کر اور شہر کی حدود سے باہر نکل کے مختلف راستوں پر رہنمائی موجود ہوتی ہے، اصل گنتی اس وقت شروع ہوتی ہے، جب پول سسٹم (کھمبے) شروع ہوتا ہے۔

بہرحال نجف سے نکل کر جو علاقے اور چھوٹے چھوٹے شہر اور کچھ گاؤں بھی آتے ہیں، آپ کسی فکر و پریشانی کے بغیر چلتے رہیں اور اک منفرد دنیا کا مشاہدہ کرتے رہیں۔ جو گاؤں اور علاقے راستے میں آرہے ہونگے، ان کے گھروں کے دروازے کھلے ہوئے نظر آئیں گے۔ گھروں کا فرنیچر، کرسیاں، صوفے باہر گلی میں لگا دیئے جاتے ہیں اور گھروں کے صحن میں چٹائیاں، دریاں، کارپٹ بچھائے ہوتے ہیں۔ واش رومز اور دیگر سہولیات ہر ایک "مسافر حسین ؑ " کیلئے بلا روک ٹوک میسر ہوتی ہیں۔ کوئی بھی کسی بھی گھر میں بلا اجازت جا سکتا ہے۔ گویا ان ایام میں اس راستے میں آنے والے تمام گھر زائرین امام حسین ؑ کے لئے مختص کر دیئے جاتے ہیں۔ خوش آمدیدی بینرز کے ساتھ ساتھ ماحول سے بھی واضح و عیاں ہو رہا ہوتا ہے کہ اہل عراق کے دل و چشم زائرین امام ؑ کیلئے فرشِ راہ ہیں۔ آپ کے سامان میں کیمرہ بھی ہو تو بہت اچھا ہے، اس لئے کہ ایسے مناظر آپ کی آنکھیں دیکھتی ہیں، جنہیں آپ یادگار بنانا چاہپتے ہیں، جو آپ کیلئے ہی نہیں دوسروں کیلئے بھی یادگار ہونگے۔ تقریباً چار سے پانچ گھنٹے نارمل چلنے کے بعد پول (عمود) سسٹم شروع ہوتا ہے۔

پول (عمود) سسٹم کیا ہے؟
زیارت کربلا پیدل چلنے کو عربی میں "مشیی" کہا جاتا ہے۔ یوں تو پورے عراق سے لوگ مشیی کرتے ہوئے اربعین پر کربلا جاتے ہیں، مگر سب سے زیادہ "نجف سے کربلا" مشیی کرنے والے ہوتے ہیں۔ مشیی کے حوالے سے ہم اپنے قارئین کو بتا دیں کہ یہ چار مواقع پر عمومی طور پر کی جاتی ہے۔ اربعین حسینیؑ، عاشورا، عرفہ اور 15 شعبان المعظم کے مواقع پر لوگ پیدل کربلا جاتے ہیں۔ اربعین کے موقعہ پر دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس مبارک و متبرک عمل کو انجام دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ کربلا کے عظیم شہداء کی عظمتوں کو سلام پیش کرنا ہے۔ جب سے عراق صدام اور اس کے نجس ہاتھوں سے آزاد ہوا ہے "مشیع" کا سلسلہ دوبارہ سے زور پکڑ گیا ہے، صدام نے اپنے دورِ اقتدار کے آغاز میں ہی اس پر پابندی لگا دی تھی، اگر کوئی یہ عمل سرانجام دیتا تھا تو اس کیلئے سخت ترین ایذا اور سزائیں تھیں۔ اس کے طویل ترین آمرانہ و ظالمانہ دور اقتدار میں یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ اب حکومت نے اس حوالے سے بہت آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ حکومت کی طرف سے مرکزی ہائی وے پر لگے ہوئے بجلی کے کھمبے (پول) پیدل چلنے والوں کی راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ پولز پر نمبرنگ کی گئی ہے۔ نجف شہر کے بعد چند کلو میٹر چلنے کے بعد آنے والے ہائی وے سے لے کر حرم حضرت عباسؑ کربلا تک کل 1452 پول ہیں۔ ان کھمبوں کا درمیانی فاصلہ 50 میٹر ہے، 20 کھمبے ایک کلومیٹر کا فاصلہ رکھتے ہیں، جب زائرین گروپس کی صورت میں چلتے ہیں تو ایک دوسرے کو پہلے سے بتا دیتے ہیں کہ اگلا آرام (Stay) فلاں نمبر پول پر ہوگا۔ اس طرح پول کی نمبرنگ سے انسان کو سفر کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے، وہ بہتر پلاننگ کرلیتا ہے۔ پیدل چلنے والوں کیلئے جگہ جگہ موکب بنے ہوئے ہیں، تاکہ وہ ان میں آرام کر سکیں، اصولی طور پہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں کا انتظار کریں اور انہیں ساتھ ملا لیں، تاکہ کسی کو دقت نہ ہو اور اگر کسی کو کوئی مسئلہ در پیش ہو تو اسے حل کیا جا سکے۔

موکب اور نظم و ضبط:
جب کسی نا جاننے والے کو پیدل سفر (کم از کم تین دن) کا کہا جاتا ہے تو اس کے ذہن میں اسباب سفر، کھانا پینا، راستے کی رہائش اور سکیورٹی سمیت ہزاروں سوالات ابھرتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک فطری بات ہے۔ نجف سے کربلا پیدل چلتے ہوئے جب آپ مرکزی شاہراہ پر آجاتے ہیں تو آپ کو قدم قدم پر موکب نظر آتے ہیں۔ یہ خیموں یا عالیشان عمارات کی شکل میں موجود ہیں، زائرین کے ٹھہرنے، آرام کرنے، سونے، کھانے پینے، وضو، طہارت، نماز الغرض ہر ضرورت یہاں پوری کی جاتی ہے۔ زائرین امام حسین ؑ کو ہمہ قسم خدمات، ضروریات بہم پہنچانے اور راستے کی سختیوں کو رفع کرنے کیلئے دنیا کی سب سے بڑی فلاحی و رفاہی سرگرمی ان مواکب کے ذریعے سرانجام پاتی ہے۔ یہیں پر دنیا کا سب سے بڑا دسترخوان لگایا جاتا ہے، یہ سو فیصد عوامی تحریک ہے۔ ان مواکب کو مختلف قبائل، خاندانوں، لوکل تنظیموں، مجتہدین، مختلف اقوام و ملل، سماجی و سیاسی شخصیات نے قائم کیا ہے۔ مرکزی ہائی وے پر جگہ خریدی جاتی ہے اور پھر اس جگہ پر اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے عارضی ٹینٹ سے لے کر بلند و بالا خوبصورت نقشوں اور وسائل سے آراستہ عمارات کہ جن کو دیکھ کر بڑے بڑے ہوٹلز بھی پھیکے دکھائی دیتے ہیں۔ زائرین کی خدمات کیلئے بنائے گئے ہیں۔ ان مواکب میں نوجوان، بچے، بوڑھے ایک جیسے جذبہ سے کام کرتے ہیں، جبکہ ہر موکب کا ایک حصہ خواتین کیلئے ہوتا ہے۔ خواتین کی وضو، طہارت، نماز اور آرام کی جگہیں بھی مردوں سے مکمل علیحدہ ہوتی ہیں، جہاں کا انتظام و انصرام خواتین ورکرز کے ذمہ ہوتا ہے۔

اربعین چونکہ سردیوں میں آتا ہے، اس لئے شام ہوتے ہی سخت سردی اور یخ بستہ ہوائیں شروع ہو جاتی ہیں، جو تھکے ہارے مسافروں کو زیادہ ہی محسوس ہوتی ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ آپ شام ہوتے ہی کسی موکب میں جا کر اپنی جگہ بنا لیں اور سامان کو محفوظ کرکے بستر و کمبل لیکر نماز ادا کریں۔ اس حوالے سے ایک اور بات یہاں لکھنا چاہوں گا کہ بہت سے عراقی بھائی زائرین کو مرکزی شاہراہ پر آکر شاہراہ سے ہٹ کے محلوں میں اپنے گھروں میں لے جاتے ہیں، جہاں اپنی گنجائش کے مطابق بہترین خدمت کرتے ہیں، بہت سے امیر اور عام غریب بھی یہ کام خوشی اور سعادت سے کرتے ہیں۔ نجف سے کربلا چونکہ ساری آبادی اہل تشیع ہے اس لئے یہاں تو اس بار شائد کوئی خطرہ نہ ہو، البتہ دیگر علاقوں میں متعصب و خوارجیوں سے اس قسم کے خطرات درپیش ہیں کہ زائرین کو اغوا، یا زہر خورانی کے ذریعے نقصان پہنچایا جائے۔ ہم نے بھی جب گذشتہ برس یہ سفر کیا تھا تو ایک رات ایک عراقی مومن کے گھر گذاری تھی اور ایک موکب میں۔ عراقی مومن کے گھر میں بطور مہمان ہم نے دیگر چار دینی طلباء کے ساتھ رات گزاری تھی، ان لوگوں نے جس انداز میں خدمت کی وہ ایک یادگار ہے۔

عراقی لوگ مزاج کے لحاظ سے بھی اپنے سے محسوس ہوتے ہیں۔ موکب میں رات گذارنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان ان کی ثقافت، انتظام اور کاموں کی تقسیم نیز علاقے کے حالات پر تبادلہ خیال بھی کرسکتا ہے، مگر اس کیلئے آپ کا عربی جاننا بے حد ضروری ہے۔ عراقی بھی انگلش میں ایسے ہی ہیں، جیسے ایرانی برادارن ہوتے ہیں۔ جب کوئی شہر آتا ہے تو اس وقت سکیورٹی کے حوالے سے تلاشی کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، مگر لاکھوں لوگوں کے اس کاروان میں کہیں بھی دھکم پیل یا بدنظمی نہیں ہوتی۔ یہ مراحل بڑے آرام سے طے ہو جاتے ہیں، حالانکہ ہم خبروں میں سنتے ہیں کہ حج کے موقع پر بھی رش کے باعث کئی مقامات پر بدنظمی سے لوگ مارے جاتے ہیں۔ 564 نمبر پول پر پاک میڈیکل ویلفیئر ٹرست کا کیمپ موجود ہوتا ہے، جس میں پاکستانی خدمات سرانجام دیتے ہیں، نجف سے کربلا شاہراہ پر 578 نمبر پول پر حیدریہ شہر آتا ہے۔ یہاں حیدریہ ہسپتال بھی ہے، پول نمبر1237 پر امام علی ؑ شہر جہاں بیت الخلا، مسجد، آرام کی جگہ موجود ہے،

پول نمبر1086 پر پاکستانیوں کا موکب ہے۔ یہ کافی وسیع جگہ پر دو برس سے بنایا جا رہا تھا، اب شائد مکمل ہوچکا ہو۔ یہاں پر فری طبی سہولیات، پاکستانی کھانے اور چائے کا انتظام ہوتا ہے۔ ہمیں بھی یہاں یہ سب میسر تھا، البتہ ہم نے چونکہ ہر حالت میں اسی رات کو کربلا پہنچنے کا ارادہ کر رکھا تھا، اس لئے ہم نے اپنا سفر جاری رکھا تھا۔ اگرچہ ہماری حالت بے حد خراب تھی، مگر ہمارے ارادے پختہ تھے، ہم لوگ اپنے پاؤں میں پڑنے والے چھالوں کے باوجود تیسری رات کربلا میں ہی گزارنے کیلئے چلتے رہے، لیکن ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ ہماری ہی رفتار سے یہ سفر طے کریں، بلکہ بعض لوگ اپنی ہمت و طاقت اور اپنے ہم سفروں کی کیفیت کے لحاظ سے اس مسافت کو تین سے چھ دنوں میں طے کرتے ہیں۔ جوں جوں منزل قریب آتی گئی، ہمارے اندر توانائی میں اضافہ ہوتا گیا اور جب کربلا کی حدود میں داخل ہوگئے تو ایسا ہی لگا کہ تھکن مکمل طور پر اتر گئی ہے، کربلا شہر کی حدود میں آکر ہی ہم نے ایک طبی مرکز میں اپنے پاؤں کے چھالے انجکشن سے نکلوائے، اس کے بعد تو ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اڑا کر لے جا رہا ہے، جیسے جیسے حرمین نزدیک آتے ہیں، سکیورٹی کے مراحل میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، کئی چیک پوسٹوں سے گذر کر جب حرم اباالفضل العباس ؑ سامنے آتا ہے تو نمدیدہ آنکھیں سب کچھ بیان کر دیتی ہیں۔

میں نے ایک فرمان زائر امام حسین ؑ کے بارے پڑھا تھا، جو بے حد اثر انگیز تھا کہ "جب ایک شیعہ امام حسین ؑ کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے امام ؑ کی زیارت کے لئے اپنے گھر کو غم و الم کی کیفیت میں چھوڑتا ہے تو ایک ہزار فرشتے اس کے دائیں جانب اور ایک ہزار فرشتے اس کے بائیں جانب سے اس کے ساتھ چلتے ہیں اور اسے نبی یا نبی کے وصی کی معیت میں کئے گئے ایک ہزار حج اور ایک ہزار عمرے کا ثواب ملتا ہے۔" ایک اور فرمان ہے کہ "جب زائر اپنے گھر کو چھوڑتا ہے، ہر قدم جو اس زیارت کیلئے بڑھاتا ہے، اس کیلئے دعا کی جاتی ہے۔" یہ فرامین اپنے ذہن میں رکھ کر جب آپ زیارت امام حسین ؑ کیلئے پیدل چل رہے ہوتے ہیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ جنت میں محو پرواز ہیں۔

اربعین کے دنوں میں اہل عراق کا جذبہ واقعاً ایسا ہوتا ہے کہ جس کی کوئی اور مثال نہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا، جو اہل عراق زائرین امام حسین کی خدمت میں کر جاتے ہیں۔ اس جذبے کو دیکھ کر ہی کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ نام حسین ابن علی ؑ کو مٹانے کی خواہش یا تمنا دل میں رکھتے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں بم دھماکے کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اہل ولا اہلبیت، راستہ بدل لیں گے یا کوئی کمیّ آجائے گی، ایسا سوچنا بھی گناہ ہے کہ امام حسین ؑ کے عاشقان مشکلات اور پابندیوں سے تنگ آکر زیارت کیلئے راستہ تبدیل کر لیں گے، یا باز آ جائیں گے، ایسا ممکن ہی نہیں، یا ان کو ختم کر لیا جائے گا۔ ہر سال اربعین کا رش کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور خطرات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود دنیا بھر سے تین سے چار کروڑ انسان جمع ہو کر حسینیت سے اپنا رشتہ بتاتے ہیں اور مخالفت و تخریب کرنے والے بھی اپنا یزید سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ کربلا کی طرف پیدل سفر کے دوران عاشورائی ثقافت کا احیاء اور اثرات جا بجا نظر آتے ہیں اور بین الحرمین، "حضرت ابا عبداللہ الحسین ؑ و حضرت اباالفضل العباسؑ کے مزارات اقدس کی درمیانی جگہ" میں کھڑے ہوکر ہر زائر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھشت میں آگیا ہے۔ جہاں ہر سال کم از کم دو سے تین کروڑ انسان تمام تر خطرات کو پس پشت ڈال کر حاضر ہوتے ہیں۔
و ما توفیقی الا باللہ
خبر کا کوڈ : 583901
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش