0
Thursday 26 Jan 2017 20:24

گلگت بلتستان کو صوبہ بنانیکا فیصلہ کشمیر کو تقسیم کرنیکی سازش ہے، جماعۃ الدعوۃ کی قومی مجلس مشاورت کا اعلامیہ

گلگت بلتستان کو صوبہ بنانیکا فیصلہ کشمیر کو تقسیم کرنیکی سازش ہے، جماعۃ الدعوۃ کی قومی مجلس مشاورت کا اعلامیہ
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، 5 فروری کو ملک گیر سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے، اسلام آباد میں جماعۃ الدعوۃ کے زیراہتمام منعقد ہونیوالی قومی مجلس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے مذہبی، سیاسی و کشمیری جماعتوں کے قائدین، ماہرین قانون اور دانشور حضرات نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پوری قوم ایک ہے، اس پر سیاست کی بجائے حقیقی اتحاد قائم کیا جائے۔ جو کشمیریوں کی مدد کیلئے تیار نہیں، اس پر سیاست کے دروازے بند کر دینے چاہئیں۔ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے مذاکرات اور تجارت تحریک آزادی کشمیر سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ خون کے آخری قطرہ تک آزادی کشمیر اور تکمیل پاکستان کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سیاسی جماعتیں کشمیر کو اپنے منشور میں شامل کریں۔ چکوٹھی کے راستہ کشمیریوں کیلئے راشن کے ٹرک بھجوائے جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف بھی 2017ء کو کشمیر کا سال قرار دیں۔ نریندر مودی کو کشمیریوں کی مدد کیلئے پیش کشیں کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وزیراعظم مقبوضہ کشمیر کے شہداء کیلئے فی کس پانچ لاکھ روپے امداد کا اعلان کریں۔ کشمیریوں کو دل سے پاکستانی تسلیم کریں اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر قائد کے فرمان کشمیر پاکستان کی شہ رگ کو قومی موقف قرار دیا جائے۔ کراچی سے پشاور تک اور گلگت بلتستان و آزاد کشمیر میں بڑے جلسے، کانفرنسیں اور کشمیر کارواں ہوں گے۔ اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔

اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی قومی مجلس مشاورت بسلسلہ کشمیر سے دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق، پروفیسر حافظ محمد سعید، سینٹر سراج الحق، سردار عتیق احمد خاں، شاہ زین بگٹی، شیخ رشید احمد، مولانا عبدالعزیز علوی، غلام محمد صفی، اجمل خاں وزیر، سینیٹر محمد علی درانی، یوسف نسیم، جمشید احمد دستی، مولانا فضل الرحمن خلیل، پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، عبداللہ گل، جے سالک، احمد رضا قصوری، مولانا محمد امجد خاں، قاری یعقوب شیخ، سردار گوپال سنگھ چاولہ، بیرسٹر خالد خورشید، سید حفیظ الدین ایڈووکیٹ، رضیت باللہ، حافظ خالد ولید، جمیل احمد فیضی ایڈووکیٹ و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالہ سے خصوصی ڈاکومینٹری دکھائی گئی، جس میں پیش کئے جانے والے دردناک مناظر دیکھ کر شرکاء آبدیدہ نظر آئے۔ مجلس مشاورت میں چاروں صوبوں و آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سے قومی قائدین کی طرح علاقائی جماعتوں اور اقلیتوں کے نمائندگان بھی شریک ہوئے۔ سیاسی، مذہبی و کشمیری قیادت نے سال 2017ء کو کشمیر کے نام کرنے کا خیر مقدم کیا اور اعلان کیا کہ ملک گیر سطح پر ہونے والے پروگراموں میں بھرپور انداز میں شرکت کی جائے گی۔

قومی مجلس مشاورت کا اعلامیہ مولانا سمیع الحق نے پڑھ کر سنایا۔ اپنے خطاب میں دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے، نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کرنا ناقابل برداشت ہے، مسلم حکمران دین اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کیلئے مشترکہ پالیسیاں ترتیب دیں، واضح پیغام دیا جائے کہ اسلام اور شعائر اسلامی کی توہین کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، نریندر مودی کی طرف سے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں سندھ طاس معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی ہیں، حکومت پاکستان دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی پر مبنی انڈیا کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرے۔ امیر جماعۃ الدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا کہ جو دل آج کشمیر کیلئے نہیں دھڑکتا، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اسلامی حمیت سے خالی ہے، ہم نے 2017ء کو کشمیر کے نام کرنے کا اعلان کیا ہے، ہمیں صرف یہ بات ہی نہیں عملی طور پر کوششیں کرنی ہیں اور حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف بھی اسے دل سے تسلیم کریں اور اس سال کو کشمیر کا سال بنائیں، مودی ناراض ہوتا ہے تو ہو جائے، ٹرمپ کو بھی آپ خوش نہیں کرسکتے۔

یہ قرآن کہتا ہے کہ وہ راضی نہیں ہوں گے، ہمیں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، ہمیں قائداعظم کے فرمان کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اسے قومی موقف اپنانا ہے، حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرے، جو لوگ بھی کشمیر میں شہید ہوئے، ان کی مدد کریں، مودی کو کشمیریوں کی مدد کی پیشکشیں کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا، وہ تو قاتل ہے، وزیراعظم نواز شریف اعلان کریں کہ جو کشمیری شہید ہوتا ہے، ان کیلئے پانچ لاکھ روپے امداد دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج اگر کشمیری اپنے شہداء کو پاکستانی پرچم میں دفن کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ پاکستان ان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہاں دھماکوں میں شہید ہونے والوں کی مالی امداد کی جاتی ہے تو پھر کشمیریوں کیلئے امداد کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا، ہم پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے کشمیریوں کو پاکستانی تسلیم کیا ہے۔؟ اس کیلئے آپ کو ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے، اگر کشمیری آپ کو اپنا وکیل کہتے ہیں تو آپ عملی کام کریں، اگر یو این میں آپ کی کوئی نہیں سنتا تو وزراء اور کابینہ کے ہمراہ اقوام متحدہ میں جا کر کرسیوں کی بجائے دھرنا دے کر بیٹھیں اور کہیں کہ مسئلہ کشمیر حل کیا جائے، آپ کی بات مانی جائے یا نہ مانی جائے کشمیریوں کے دل تو ٹھنڈے ہوں گے کہ ان کی وکالت کسی نے کی ہے، آپ روایتی انداز چھوڑیں اور 2017ء کو کشمیر کا سال قرار دیں۔

حافظ محمد سعید نے کہا کہ ہم 26 جنوری سے پانچ فروری تک عشرہ کشمیر منا رہے ہیں، پاکستان کے ہر شہر میں جا کر جلسے کریں، گلگت بلتستان اور کراچی سے پشاور تک پروگرام ہونے چاہئیں، ایک تحریک برپا ہو جانی چاہیے، حکومت بھی اس کیلئے اپنا کردار ادا کرے، شاید کشمیر پاکستان کیلئے وہ مسئلہ ہے، جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، بلاول بھی اس پر بات کرتے ہیں، مسئلہ کشمیر پر سیاست کی بجائے حقیقی اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے، جو کشمیر کیلئے کھڑا نہیں ہوتا، اس کیلئے سیاست کے دروازے بند کر دینے چاہیے، عوام کو بھی اس بات کا شعور دلانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سی پیک کا مسئلہ ہے، روس اور باقی ملک اس میں شامل ہونے کی درخواستیں کر رہے ہیں، پاکستان فیصلہ کرے کہ جو ملک کشمیر کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا، ہم انہیں کسی پروگرام میں شریک نہیں کرتے، مسئلہ کشمیر کے حل تک انڈیا سے تجارتی معاہدات ختم، سعد رفیق نوجوان وزیر ہیں، آپ ان کی قیادت میں کنٹینر بھریں اور چکوٹھی کے راستہ ان کشمیریوں کیلئے راشن بھیجیں، جن کی تجارت اور سب کچھ قربان ہوگیا۔ انکا کہنا تھا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کشمیریوں کو بچوں کیلئے دودھ نہیں مل رہا، ان کیلئے خوراک بھیجنے کے فوری اقدامات کئے جائیں، بھارت خوراک لیجانے والوں پر گولی چلائے گا تو ان شاء اللہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا، یہ شدت پسندی کی بات نہیں ہے، مودی گولیاں چلائے اور ٹرمپ ان کی ڈھارس بندھائے، جبکہ دوسری طرف ہمیں کشمیریوں کی مدد سے روکا جائے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں بنیادی فیصلے کرنے چاہئیں جب کشمیری اور پاکستانی مل کر میدان میں کھڑے ہوں گے تو آزادیاں ملیں گی، یہ قربانی سے ملتی ہیں، اس مسئلہ پر سیاست نہ کی جائے، کشمیریوں کا حق انہیں دیا جائے، یہ تحریک ضرور کامیاب ہوگی، یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جب آپ دین پر کھڑے ہوں گے تو وہ ان کی ضرور مدد کریگا۔

جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے مجلس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جائے، کشمیر کے بغیر مذاکرات اور تجارت کشمیر کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، کشمیریوں کو تقسیم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے، اس سے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا کیس کمزور ہو جائے گا، سی پیک میں آزاد کشمیر کا کوئی حصہ نہیں، مانسہرہ کے قریب سے سی پیک نے گزرنا ہے، مطالبہ کرتا ہوں کہ مظفر آباد کو بھی سی پیک میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کے نظریئے، جغرافیے کو تسلیم نہیں کرتا، یہ معیشت نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت کی لڑائی ہے، ہماری قیادت اس کو جدا رکھنے کی کوشش کرتی ہے، پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن اسلام آباد مکمل طور پر خاموش ہے، وزیراعظم ہاؤس میں سمری تیار ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں پابندی ختم کی جائے، کشمیر میں قتل عام جاری ہے اور حکومت پاکستان میں انڈیا کا کلچر چاہتی ہے، تاکہ کشمیر کی جدوجہد کو کمزور کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ2017ء کو کشمیر کے نام کرنے کی جماعۃ الدعوۃ کی تجویز کی حمایت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ممالک وفود بھجوانے کی ہماری تجویز پر حکومت نے عمل تو کیا لیکن وہ صرف شاپنگ کرکے واپس آگئے، جن کو کشمیر کا حدود اربعہ، دارالخلافہ معلوم نہیں، انکو ترجمانی کے لئے بھیجا، اس لئے ناکامی ہوئی۔

سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خاں نے کہا کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ کشمیر کو اپنے منشور میں شامل کریں، الگ الگ کشمیر پالیسی نہیں ہونی چاہیے، آج جو چینل کشمیر اور نظریہ پاکستان کیلئے کام کر رہا ہے، ان پر پابندیوں کے نوٹیفکیشن جاری کئے جا رہے ہیں، تقسیم کشمیر کی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنانا چاہیے، ریاست جموں کشمیر کو تقسیم کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے، یہ تاثر پھیلانا درست نہیں ہے کہ چین یہ چاہتا ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے قاتل کا استقبال کرنا قائداعظم کے دو قومی نظریہ کی توہین ہے، کشمیریوں کی تحریک آزادی بھرپور انداز میں جاری ہے اور جاری رہے گی۔ جمہوری وطن پارٹی کے چیئرمین شاہ زین بگٹی نے کہا کہ میں مجلس مشاورت کے پندرہ رکنی اعلامیہ کی حمایت کرتا ہوں، کشمیر کا مسئلہ بہت پرانا ہے دنیا اس سے واقف ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں کو کشمیر کی پرواہ نہیں، حکومت کو کشمیر کیلئے کھڑا ہونا چاہیے، بلوچ قوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہے، اگر حکومت پہلے کھڑی ہوتی تو کشمیر آزاد ہوچکا ہوتا، بھارتی فوج کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، پچاس ہزار بلوچ نوجوان کشمیریوں کی مدد کیلئے حاضر ہیں، یہ سیاسی بیان نہیں ہے، ہم مکمل طور پر کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ کشمیر پر ایک ایجنڈہ بنانا چاہئے، کشمیری ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، الیکٹرانک، پرنٹ و سوشل میڈیا پر کشمیریوں کو سپورٹ دینی چاہئے، کیونکہ بھارت نے کشمیریوں سے یہ سہولیات چھین رکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملانا چاہئے، کشمیر کے مسئلہ پر تمام سیاسی جماعتوں کو متحد کرکے چارٹر آف فریڈم آف کشمیر پیش کریں، جو زیادہ سے زیادہ چھ سے سات نکات شامل کئے جائیں، تحریک آزادی کشمیر کی ویب سائیٹ بھی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ برہان مظفر وانی کو کشمیر میں ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔ 2017ء کو کشمیر کے سال کے طور پر منانے کی بھرپور منصوبہ بند ی ہونی چاہئے۔ تحریک آزادی جموں کشمیر کے چیئرمین مولانا عبدالعزیز علوی نے کہا کہ کشمیری قیام پاکستان سے قبل الحاق پاکستان چاہتے تھے، وہ آج بھی اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے اسی نظریہ پر قائم ہیں اور پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں، کشمیری تھکے نہیں ہیں بلکہ میدانوں میں غاصب بھارتی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں، انڈیا طاقت و قوت کے بل بوتے پر کشمیریوں کو غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری ہے اور جاری رہے گی، شہداء کی قربانیاں جلد ان شاء اللہ رنگ لائیں گی۔

حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے کنوینر غلام محمد صفی نے کہا کہ کشمیری عوام، حریت رہنماؤں کی جانب سے حافظ محمد سعید کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ قومی مجلس مشاورت کا اہتمام کیا، 2017ء کو کشمیر کا سال قرار دینے اور عملاً آزادی کے لئے بات ہوئی، جموں کشمیر تین اکائیوں پر مشتمل ہے، تین اکائیوں اور پاکستان کا جموں کشمیر کے مسئلہ پر ایک مؤقف ہونا ضروری ہے، کشمیریوں کو حق خود اردادیت کا حق سلامتی کونسل نے دیا، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے، کشمیری تھکے نہیں، مبنی بر حق و انصاف حل چاہئے، جس کے لئے لاکھوں قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالہ سے باتیں کرنے والی قیادت کو کہتے ہیں کہ اپنے تنظیمی منشور کو دیکھیں، اگر کشمیر کو جگہ نہیں دی تو اس ڈرامہ بازی کو بند کریں، کشمیر پاکستان کی شہہ رگ، بقا کا مسئلہ ہے، اس پر کھیل تماشا نہیں ہونا چاہئے، کشمیر تنظیموں اور حکومت کی بھی ترجیح بننی چاہئے، پالیسی میں تسلسل کی ضرورت ہے، حریت کانفرنس کشمیر کا ایجنڈا رکھنے والوں کے ساتھ ہے، حق خود ارادیت پر جو بات نہیں کرتے ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

مسلم لیگ (ق) کے سینئر نائب صدر اجمل خان وزیر نے کہا کہ پاکستان کو لیڈر شپ کی کمی ہے، وزیراعظم کو استعفیٰ دینا چاہئے، کیونکہ وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہے، حکومت کی ترجیح کشمیر نہیں، بلکہ تجارت ہے، ملک کو لوٹنے والے حکمران بنے ہوئے ہیں اور محب وطن مذہبی جماعتوں پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، پارٹیوں سے بالا تر ہو کر کشمیر کے حوالہ سے ذمہ داری ادا کریں۔ سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ فنکشنل کے جنرل سیکرٹری سینیٹر محمد علی درانی نے کہا کہ 2017ء میں پانچ فروری کو جوائنٹ سیشن ہونا چاہے، جس میں وزیر اعظم کو قوم سے خطاب اور کشمیریوں کو بھرپور حمایت کا یقین دلانا چاہئے، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا منشور دوبارہ لکھنا چاہئے اور اس میں کشمیر کو لازمی شامل کرنا چاہئے، بھارت سے تجارت صرف اور صرف آزادی کشمیر پر ہونی چایئے، پاکستان کی تکمیل کے لئے کام کرنے والوں پر دہشت گردی کے الزامات لگانا اور پابندیاں لگانا درست نہیں، اس سے دنیا کو بھی غلط میسج ملے گا اور قوم بھی قبول نہیں کرے گی، دنیا میں کہیں بھی کشمیر کی آزادی کے لئے کام کرنے والے تکمیل پاکستان کی جدوجہد کر رہے ہیں، سیاسی پارٹیاں کشمیریوں کو اپنا ممبر بنائیں۔

حریت کانفرنس کے مرکزی رہنما سید یوسف نسیم نے کہا کہ کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ ایمان کا رشتہ ہے، کشمیری مسلم امہ کے لئے پاکستان کو ایک طاقتور ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کی آنکھیں تو چھین سکتا ہے لیکن کشمیریوں کے دماغ سے آزادی کی امید نہیں چھین سکتا، کشمیری آزمائشوں کے باجود منزل کی جانب رواں دواں ہیں، کشمیریوں کی مدد کے سلسلے میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو ختم کیا جائے، بیس کیمپ کو فعال کیا جائے، تحریک آزادی جموں کشمیر کے لئے بجٹ رکھا جائے۔ رکن قومی اسمبلی جمشید احمد دستی نے مجلس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کا ایجنڈا اور پالیسیاں پاکستان کے خلاف ہیں، کشمیر آزاد ہو گا، حافظ محمد سعید کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں، حکمرانوں کے پاس امریکہ کا ایجنڈہ ہے، کشمیر کے حوالہ سے سال منائیں گے اور پارٹی منشور میں بھی کشمیر کو شامل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حافظ محمد سعید کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ہر فورم پر کشمیر کے حوالہ سے آواز اٹھائیں گے۔

انصار الامۃ کے امیر مولانا فضل الرحمان خلیل نے مجلس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں، قرآن ان کی مدد کا حکم دیتا ہے، کشمیر کی آواز اٹھانے والوں کی آواز دبانے کی سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی، کشمیر کے حوالہ سے حکومت، سیاستدانوں کی الگ الگ پالیسیاں ہیں، موجودہ حکومت بھی مخلص نظر نہیں آتی، کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو سب کو سپورٹ کرنا چاہئے، مغربی بارڈر غیر محفوظ ہے کیونکہ کشمیر میں پالیسی کمزور ثابت ہوئی اور اسی لئے انڈیا مغربی بارڈر پر سازشیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالہ سے پالیسی پر یکجہتی ہونی چاہئے، جمعیت اہلحدیث کے ناظم اعلیٰ علامہ ابتسام الہیٰ ظہیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی سیاست میں المیہ موجود ہے کہ صرف ووٹوں کے لئے کشمیر کا نام لیا جاتا ہے اور اقتدار میں آنے کے لئے بھارت سے دوستی و تجارت کی جاتی ہے، وزیراعظم کشمیری ہونے کے باوجود کشمیر کا مقدمہ نہیں لڑنا چاہتے تو علماء کرام کو یہ کام کرنا چاہئے، کشمیر میں نوجوانوں کو ذبح کیا جارہا ہے، خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے، غیرت کا راستہ اپنانا چاہئے، کشمیریوں کے لئے عملی مدد کی ضرورت ہے۔

دفاع پاکستان کونسل کے مرکزی رہنما پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی اور متحدہ جمعیت اہلحدیث کے امیر سید ضیاء اللہ شاہ بخاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی بیٹیوں کی عزتوں کے دفاع کے لئے نوجوانوں کو محمد بن قاسم کا کردار ادا کرنا چاہئے، ہمارا پانی کشمیر سے آتا ہے، مایوسیاں پھیلانے کی بجائے کشمیریوں کی بھر پور مدد و حمایت کی جائے، پاکستان کی تمام محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتیں حافظ محمد سعید کے ساتھ کھڑی ہیں۔ تحریک نوجوانان پاکستان کے چیئرمین عبداللہ حمید گل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے کشمیریوں کو حق خودارادیت نہ دیا تو جہاد کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ڈیسک میں تبدیلیاں آنے والی ہیں، کیونکہ ان کی پیشرفت صفر رہی ہے اور پاکستان کو کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکیں۔ سابق وفاقی وزیر جے سالک نے کہا کہ ستر سالوں سے حکمرانوں کے رویئے دیکھ رہے ہیں، حکومت کشمیر کے مسئلہ پر کچھ نہیں کرے گی، لیڈر کو کشمیر کو سامنے رکھتے ہوئے نیند نہیں آنی چاہئے لیکن ایسا نہیں، آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان چھڑائی جائے، اقلیتی براداری کشمیریوں کے ساتھ ہے۔

آل پاکستان مسلم لیگ کے چیف کو آرڈینٹر احمد رضا قصوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کو ایک ایمبسڈر کی کانفرنس کشمیر پر بلانی چاہئے، دو یا تین روزہ کانفرنس میں کشمیر پر لائحہ عمل دیا جائے، ہر سفارتخانے میں کشمیر سیل بنایا جائے تا کہ آگاہی ملتی رہے، کشمیر پر بنی ویڈیوز تمام سفارتخانوں میں جانی چاہئے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا امجد خان نے کہا کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کے منفی کردار کی شدید مذمت کرنی چاہئے، نہتے کشمیری اپنی تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں، جلد تحریک کامیاب ہو گی، کشمیر اور پاکستان کا کلمہ کا رشتہ ہے، گولیوں، جیلوں کے باوجود تحریک آزادی کو بھارت نہیں دبا سکا، مذہبی جماعتیں کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ سردار گوپال سنگھ چاولہ نے مجلس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی سکھ سنگت کا چیئرمین ہوں، ہر سال چھ سے سات ہزار بھارتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ صرف حافظ محمد سعید سے خوفزدہ ہیں، ہمارے کسی حکمران میں طاقت نہیں، مودی نواز شریف کے گھر آیا اس کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا، انڈیا نے ہمارے ساتھ بھی ظلم کیا، کشمیریوں کے لئے جماعۃ الدعوۃ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ دفاع پاکستان کونسل کے رہنما قاری یعقوب شیخ، حافظ خالد ولید اور جمیل احمد فیضی ایڈووکیٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیریوں کا آزادی مانگنا جرم بن گیا ہے، سوشل میڈیا پر کشمیریوں کی آزادی کیلئے جو لوگ کام کر رہے ہیں ان کے اکاؤنٹ بلاک کئے جارہے ہیں۔ ہدیۃ الھادی گلگت بلتستان کے صدر بیرسٹر خالد خورشید، پاک سرزمین پارٹی کے رہنما سید حفیظ الدین ایڈوکیٹ، ہدیۃ الھادی پاکستان کے وائس چیئرمین رضیت بااللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سی پیک گلگت بلتستان سے گزر رہا ہے، گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی کشمیر کی تحریک میں شامل اور کشمیر کمیٹی میں بھی گلگت بلتستان کو نمائندگی دی جائے، اسی طرح کشمیرکے حوالہ سے گلگت میں کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔

مشترکہ فیصلے اور اعلامیہ:
تحریک آزادی جموں کشمیر کے زیر اہتمام اسلام آباد مقامی ہوٹل میں ہونے والی قومی مجلس مشاورت بسلسلہ کشمیر کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ قومی مجلس مشاورت میں شامل دفاع پاکستان کونسل سمیت تمام سیاسی، مذہبی و کشمیری جماعتیں تحریک آزادی جموں کشمیر کی طر ف سے سال 2017ء کو کشمیر کے نام کرنے اور 26 جنوری سے پانچ فروری تک عشرہ کشمیر منانے کا خیر مقدم کرتی ہیں اور اس امر کا اعلان کیا جاتا ہے کہ کراچی سے پشاور تک ہونے والے جلسوں، کانفرنسوں، کشمیرکارواں اور ریلیوں میں بھرپور انداز میں شرکت کی جائے گی۔ 27 جنوری سے 31 جنوری تک تمام بڑے شہروں میں ضلعی سطح پر آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں ہر ضلع کی مقامی قیادت اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شریک ہوں گی۔ یکم اور دو فروری کو ملک بھر میں کسان کشمیر کارواں ہوں گے۔ اسی طرح وکلاء، تاجروں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی طرف سے کشمیر ریلیاں نکالی جائیں گی۔ 3 فروری جمعہ کو علماء کرام کشمیر میں بھارتی مظالم کو خطبات جمعہ کا موضوع بنائیں گے اور بعد نماز جمعہ مقامی علماء کرام کی قیادت میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔ 4 فروری کو پاکستان بھر میں طلباء کی بڑی کشمیر ریلیاں نکالی جائیں گی اور تعلیمی اداروں میں کشمیر کے حوالہ سے زبردست مہم چلائی جائے گی۔

پانچ فروری کو لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بڑے کشمیر کارواں اور جلسے ہوں گے، جبکہ چاروں صوبوں و آزاد کشمیر کے دیگر شہروں و علاقوں میں بھی تحصیل سطح پر ریلیوں، کانفرنسوں اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔ کشمیری برستی گولیوں میں پاکستانی پرچم اٹھائے ہوئے ہیں اس لئے قومی مجلس مشاورت میں شریک قائدین کی طرف سے متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بھی ہم اپنے جماعتی تشخص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک گیر سطح پر ہونے والے پروگراموں میں صرف پاکستانی پرچم لہرائیں گے تاکہ کشمیریوں سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا جاسکے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ جموں کشمیرمیں بھارت سرکار کی طرف سے مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنے، علیحدہ سے پنڈت وفوجی کالونیاں اور اقتصادی زون بنانے جیسی سازشوں کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔ حکومت پاکستان غیر کشمیریوں کو مستقل آباد کرنے کیلئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس جاری کرنے جیسے اقدامات کیخلاف تمام بین الاقوامی فورمز پر آواز بلند کرے اور اس مقدمہ کو عالمی عدالت انصاف میں لیجائے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت قائدین سمیت ہزاروں کشمیریوں کو جیلوں میں ڈالنے، مسلسل کرفیو اور پیلٹ گنوں سے معصوم نوجوانوں کی بینائی چھیننے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان فریڈم فوٹیلا طرز پر کشمیریوں کو راشن، ادویات اور آنکھوں کے ماہر ڈاکٹرز بھجوانے کے عملی اقدامات کرے۔ کشمیر پالیسی کو کنفیوژن سے پاک کر کے واضح اور دوٹوک بنایا جائے اور قائداعظم کے اس فرمان کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کو قومی موقف قرار دیا جائے۔ کشمیر کی اصل قیادت کو اعتماد میں لیا جائے اور گرفتار کشمیریوں کو فی الفور رہائی کیلئے مضبوط آواز بلند کی جائے۔ ملکی و بین الاقوامی سطح پر آزادی کشمیر کی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے آئینی جدوجہد قرار دیا جائے۔ آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنایا جائے۔ ہم تمام کشمیری قائدین، وکلاء، مساجد و سنگباز کمیٹیوں اور نظربندوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے، نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کرنا ناقابل برداشت ہے۔ نریندر مودی کی طرف سے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں سندھ طاس معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو چاہیے کہ اگر یو این او میں ان کی بات نہیں سنی جاتی تو انہیں مسئلہ کشمیر حل کروانے کیلئے کابینہ سمیت اقوام متحدہ میں دھرنے پر بیٹھ جانا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر پر اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔ سی پیک منصوبہ میں آزاد کشمیر کو شامل کیا جائے۔ بھارت سرکار کشمیری شہداء کے اہل خانہ کو پانچ لاکھ اور گھر کے ایک فرد کو نوکری دینے کے پیش کشیں رہی ہے۔ کشمیری قوم سوال کرتی ہے کہ جس پاکستان کیلئے یہ شہید ہوئے اور انہیں پاکستانی پرچموں میں دفن کیا گیا، پاکستانی حکومت ان کیلئے کیا کر رہی ہے؟۔ اجلاس گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے فیصلہ کو تقسیم کشمیر کی سازش قرار دیتا ہے، حکومت پاکستان کو ایسے گھناؤنے اقدامات سے باز رہنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 603797
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش