0
Wednesday 26 Apr 2017 12:11

آل سلمان کی محمد بن نائف کے خلاف نرم بغاوت

آل سلمان کی محمد بن نائف کے خلاف نرم بغاوت
تحریر: محمد علی

سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے حال ہی میں اعلی سطح حکومتی عہدوں پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ برطرفیاں اور تقرریاں 40 مختلف عہدوں پر انجام پائی ہیں جسے سیاسی ماہرین اور تجزیہ کار آل سلمان کی جانب سے محمد بن نائف کے خلاف نرم بغاوت قرار دے رہے ہیں۔ سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے ان وسیع تبدیلیوں کے ساتھ حکومتی اہلکاروں کے ان مالی انعامات کی بحالی کی خبر چلانا شروع کر دی جو خام تیل کی قیمت گر جانے کے سبب معطل کر دیئے گئے تھے اور اس طرح اس وسیع سیاسی کانٹ چھانٹ کو چھپانے کی کوشش کی۔ سعودی نائب ولیعہدہ محمد بن سلمان نے اپنے والد اور سعودی فرمانروا ملک سلمان کے حکم پر یہ وسیع تبدیلیاں انجام دی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے ذریعے محمد بن سلمان نے ولیعہد محمد بن نائف کی طاقت اور اثرورسوخ کو محدود کرنے کیلئے بڑا قدم اٹھایا ہے۔ دوسری طرف دونوں فریق اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ سعودی فرمانروائی تک پہنچنے کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر جاتا ہے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی نائب ولیعہد محمد بن سلمان اقتدار تک پہنچنے میں خود کو درپیش ہر رکاوٹ دور کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ دوسری طرف سعودی ولیعہد محمد بن نائف نے اعلی سطحی حکومتی عہدوں میں حالیہ تبدیلیوں کے مقابلے میں بدستور خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ محمد بن نائف نے اب تک نئے سعودی فرمانروا کے دستورات کے سامنے کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا جبکہ ماضی میں وہ ملک کے حساس امور کے بارے میں انجام پانے والے فیصلوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے رہتے تھے۔ مثال کے طور پر "آوٹ لک 2030" کے نام سے معروف نقطہ نظر میں انہوں نے محمد بن سلمان کو اپنا بھائی، دست راست اور بازو قرار دیا اور اس طرح یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ محمد بن سلمان کا کردار ان کے نائب کی حیثیت سے ہے اور اس سے زیادہ نہیں۔

سعودی عرب کے حکومتی امور سے باخبر ذرائع کے بقول سعودی فرمانروا کے حالیہ دستورات میں سے ایک اپنے بیٹے خالد بن سلمان کو امریکہ میں سعودی عرب کا نیا سفیر مقرر کیا جانا ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلیاں سعودی فرمانروا ملک سلمان کے دستور سے انجام پائی ہیں لیکن ماہرین کی نظر میں ان تبدیلیوں میں اصلی کردار محمد بن سلمان نے ادا کیا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نائب ولیعہد محمد بن سلمان اپنے باپ ملک سلمان کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ میں سعودی سفیر کے طور پر اپنے بھائی خالد بن سلمان کی تقرری کا مقصد امریکی اداروں میں باپ کے جانشین کے طور پر اپنا نام متعارف کروانا ہے۔ امریکی میڈیا میں ایسی متعدد رپورٹس شائع ہوئی ہیں جن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امریکی حکام محمد بن نائف کو اگلا سعودی فرمانروا بنانا چاہتے ہیں لہذا محمد بن سلمان کی کوشش ہے کہ وہ امریکہ کے با اثر حلقوں میں اپنا نام متعارف کروائیں۔ امریکی حکام کی نظر میں محمد بن نائف ایک انتہائی تجربہ کار انسان ہیں جبکہ ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایشو پر امریکی حکام اور محمد بن نائف میں قریبی تعاون رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے سعودی نائب ولیعہد محمد بن سلمان کی ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ محمد بن سلمان نے اس ملاقات میں اس بات کا احساس کیا ہے کہ امریکی صدر انہیں اہمیت دے رہے ہیں اور خطے کے اہم ایشوز پر ان سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ لہذا محمد بن سلمان نے امریکی حکام سے قریبی تعلقات استوار کرنے کا موقع غنیمت جانا اور اپنے بھائی کو امریکہ میں سعودی سفیر مقرر کر دیا۔ اب وہ واشنگٹن سے براہ راست رابطے کی پوزیشن میں ہیں اور انہیں امید ہے کہ اس چینل کے ذریعے امریکہ میں اثرورسوخ کے میدان میں اپنے رقیب محمد بن نائف پر سبقت حاصل کر پائیں گے۔ خالد بن سلمان 1985ء میں پیدا ہوئے اور انہیں واشنگٹن میں عبداللہ بن فیصل آل سعود کی جگہ نیا سفیر مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی عمر کم ہے اور انہیں کافی حد تک سیاسی اور سفارتی تجربہ حاصل نہیں اور یوں وہ امریکہ میں سعودی عرب کے کم عمر تین سفیر قرار پائے ہیں۔ خالد بن سلمان سعودی ایئرفورس میں آفیسر تھے اور انہوں نے یمن کے خلاف جنگ اور داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں بھی سرگرمیاں انجام دی ہیں۔

سعودی نائب ولیعہد محمد بن سلمان نے انہیں اقدامات پر اکتفا نہ کیا بلکہ ولیعہد محمد بن نائف سے آگے نکلنے کیلئے ایک وسیع جنگ کا آغاز کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اب صرف وزارت انٹیلی جنس امور، وزارت تیل اور ملکی سکیورٹی کے ادارے محمد بن نائف کے پاس رہ گئے ہیں اور باقی تمام اختیارات محمد بن سلمان اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔ محمد بن سلمان نے محمد بن نائف کے اختیارات محدود کرنے کیلئے وزارت داخلہ اور حال ہی میں تشکیل دی گئی سکیورٹی و سیاسی امور کی شورا کے مقابلے میں ایک اور ادارہ تشکیل دے ڈالا ہے جس کا نام "قومی سلامتی" رکھا گیا ہے۔ یہ ادارہ براہ راست طور پر شاہی عدالت سے مربوط ہے اور محمد بن الغفیلی کو قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر اعلی اختیارات کے ساتھ اس میں مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اقدام محمد بن نائف کا محاصرہ کرنے اور ملک میں ان کے اثرورسوخ اور اختیارات کو محدود کرنے کیلئے انجام دیا گیا ہے۔

سعودی نائب ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے انجام پانے والا ایک اور خطرناک اقدام احمد العسیری کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ یاد رہے احمد العسیری محمد بن سلمان کے انتہائی قریبی فرد تصور کئے جاتے ہیں اور ان کے اصلی حامیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ محمد بن سلمان نے حالیہ تبدیلیوں کے دوران یوسف الادریسی کو برطرف کر کے احمد العسیری کو انٹیلی جنس اداروں کا نیا نائب سربراہ مقرر کیا ہے۔ یہ عہدہ ملک کے حساس ترین عہدوں میں سے ایک ہے اور اس تقرری کا مقصد ان اداروں کی جانب سے اپنی حمایت کو یقینی بنانا ہے۔ اسی طرح محمد بن سلمان نے لندن میں سعودی عرب کے سابق سفیر، اپنے بھتیجے اور ملک سلمان کے نواسے احمد بن فہد بن سلمان کو بھی الشرقیہ خطے کے امیر سعود بن نائف بن عبدالعزیز کا نائب مقرر کیا ہے۔ ان کا یہ اقدام محمد بن نائف کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور ناگوار تصور کیا جا رہا ہے۔

خام تیل کی پیداوار سعودی عرب کی سب سے زیادہ آمدنی والا شعبہ جانا جاتا ہے۔ محمد بن سلمان نے حال ہی میں وزارت تیل سے ہٹ کر ایک اور وزارت تشکیل دی ہے جس کا نام "انرجی کے امور" رکھا گیا ہے اور اپنے بھائی اور ملک سلمان کے بیٹے امیر عبدالعزیز بن سلمان کو اس کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ ان کا یہ اقدام خام تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے انجام دیا گیا ہے۔ عبدالعزیز اپنے بھائی خالد کے برعکس خام تیل کی تجارت میں بہت زیادہ مہارت اور تجربہ رکھتے ہیں۔ اس نئی وزارت کے قیام سے امیر عبدالعزیز کی طاقت میں مزید اضافہ ہو گا اور وزارت کے اہم عہدے بھی آل سلمان کے قبضے میں آ جائیں گے۔

اس سے پہلے سعودی عرب کے اہم حکومتی عہدے آل عبدالعزیز کے باہمی مشورے اور اتفاق رائے سے تقسیم کئے جاتے تھے لیکن سعودی نائب ولیعہد محمد بن سلمان کے حالیہ اقدامات جن میں تمام اہم عہدے براہ راست طور پر محمد بن سلمان کی جانب سے تقسیم کئے گئے ہیں دیگر شہزادوں کی شدید ناراضگی کا باعث بنے ہیں۔ اس وقت اہم ملکی عہدوں پر ملک سلمان کے بیٹے یا نواسے براجمان ہو چکے ہیں اور دیگر شہزادے سعودی عرب کے بانی ملک عبدالعزیز کی میراث سے محروم ہونے پر شدید پریشانی اور مایوسی کا شکار ہیں۔ بہرحال، محمد بن سلمان کی جانب سے محمد بن نائف کے خلاف سفید انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے جس سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے میڈیا پر حکومتی اہلکاروں کے مالی بونس کی بحالی کی خبر چلا دی گئی۔

حکومتی عہدوں میں بڑے پیمانے پر رد و بدل سے پہلے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے محمد بن سلمان سے انٹرویو لیا جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ سعودی عرب میں کسی قسم کی سیاسی رسا کشی موجود نہیں لیکن جب اگلے ہی دن سعودی فرمانروا ملک سلمان کے حکم پر محمد بن سلمان نے وسیع پیمانے پر حکومتی عہدوں میں تبدیلیاں کیں تو اس کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا اور حقیقت عیاں ہو کر سامنے آ گئی۔
خبر کا کوڈ : 630971
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش