0
Monday 22 May 2017 23:56

آئندہ عام انتخابات 2018ء ۔۔۔۔۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کو درپیش سیاسی خطرات اور تیاریاں

آئندہ عام انتخابات 2018ء ۔۔۔۔۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کو درپیش سیاسی خطرات اور تیاریاں
رپورٹ: ایس جعفری

سندھ کی سیاست میں تحریک انصاف اور سندھ نیشنل فرنٹ میں ہونے والے خفیہ گٹھ جوڑ کی اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی دیگر مخالف قوتوں نے بھی بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی سے رابطے شروع کر دیئے ہیں، جس کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی مخالف کیمپ کے امیدواروں کو الیکشن میں 100 فیصد کامیابی کے ٹکٹ کی یقین دہانی کر وانے کے بعد ان کی وفاداریاں تبدیل کرانا شروع کر دی ہیں، عام انتخابات سے قبل دوسری سیاسی جماعتوں سے شمولیت کرنے والوں کے زور کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے 70فیصد اور 30فیصد کا فارمولا تیار کر لیا ہے، دوسری جانب بھٹو خاندان کی اہم غیر سیاسی شخصیت صنم بھٹو الیکشن سے دو ماہ قبل پاکستان آ کر ببنظیر بھٹو کے تینوں بچوں کی انتخابی مہم سمیت پیپلز پارٹی کا بھرپور ساتھ دیں گی، جبکہ بلاول بھٹو کے ساتھ اب آصفہ بھی سندھ کا سیاسی محاذ سنبھالنے کیلئے سرگرم ہو گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عام انتخابات 2018ء میں پیپلز پارٹی کو سندھ کی سیاست سے آﺅٹ کرنے کیلئے مسلم لیگ (ن) سمیت متعدد سیاسی قوتیں سرگرم ہو چکی ہیں، ان جماعتوں میں تحریک انصاف کا نام سر فہرست ہے۔ تحریک انصاف نے اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر سندھ نیشنل فرنٹ سے مشروط طور پر ایک معاہدہ کیا، جس کے بعد سندھ نیشنل فرنٹ نے تحریک انصاف میں ضم ہونے کا خفیہ گٹھ جوڑ کر لیا، جس کا تاحال تو اعلان نہیں کیا گیا، مگر اس کا اعلان جلد متوقع ہے۔ سندھ نیشنل فرنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے اس اتحاد کے بعد پیپلز پارٹی کی دیگر مخالف قوتوں نے بھی بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی سے رابطے شروع کر دیئے ہیں، جن میں سے ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کا نام سرفہرست ہے، جبکہ رابطے کرنے والے دیگر سیاستدانوں میں عبداللہ حسین ہارون اور گھوٹکی کی مہر برادری کا نام بھی لیا جا رہا ہے، جن کی آئندہ چند ہفتوں میں تحریک انصاف میں شمولیت کے امکان ہیں، دوسری طرف پیپلز پارٹی نے سندھ میں الیکشن سے قبل دوسری سیاسی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور وزیراعظم نواز شریف کی بڑھتی ہوئی نوازشات کو دیکھتے ہوئے اپنی صفیں درست کرتے ہوئے مخالف کیمپ کے امیدواروں کو الیکشن میں 100 فیصد کامیابی کے ٹکٹ کی یقین دہانی کروانے کے بعد ان کی وفاداریاں تبدیل کرانا شروع کر دی ہیں، جس کے تحت آئندہ چند روز میں دوسری سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اہم سیاسی رہنماﺅں کی بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا امکان ہے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی، جہاں اس وقت دوسری پارٹیوں سے شمولیت کرنے والوں کا زور ہے، کو دیکھتے ہوئے پارٹی کی قیادت نے ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے 70 فیصد اور 30 فیصد کا فارمولا تیار کیا ہے، جس کے تحت سب سے پہلے 70 فیصد ایسے نوجوانوں جو کہ اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ اچھے کردار کے حامل ہوں اور اپنے حلقہ انتخاب میں اثرورسوخ رکھتے ہوں، کو ٹکٹ فراہم کئے جائیں گے، جس میں دوسری سیاسی پارٹیوں سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے بھی ہو سکتے ہیں، جبکہ دوسری طرف 30 فیصد کے فارمولا کے تحت پارٹی کے ان سینئر رہنماﺅں کو بھی ٹکٹ دیئے جائیں گے، جنہوں نے جمہوریت کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور پارٹی سے ہمیشہ اپنی وفاداری کا برقرار رکھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق ٹکٹوں کی تقسیم کے نئے فامولے کے تحت بیشتر سینئر سیاستدان اس بار انتخابی عمل کا حصہ نہیں بن سکیں گے، جس کے پیش نظر پارٹی کی قیادت نے الیکشن میں حصہ نہ لے سکنے کے سبب فارغ ہونے والے سینئر سیاستدانوں کے لئے ایک مشاورتی بورڈ بھی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت یہ سینئر سیاستدان منتخب ہونے والے نوجوان اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنی پارلیمانی سیاست کی مہارت کے تحت گائیڈ لائن فراہم کریں گے، فارمولا تیار ہونے کے باوجود تاحال اس بات کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے، حتمی فیصلہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی توثیق کے بعد کیا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق بھٹو خاندان کی اہم شخصیت صنم بھٹو، جنہوں نے سیاست میں عدم دلچسپی کی بنیاد پر کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا اور بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد بھی جب انہیں پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالنے کی پیش کش کی گئی، تو انہوں نے قیادت سنبھالنے سے انکار کر دیا تھا، مگر اس کے باوجود آئندہ عام انتخابات کیلئے پیپلز پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز اور بھٹو خاندان کے سربراہ سردار ممتاز بھٹو نے انہیں ان کے آبائی علاقے لاڑکانہ سے بینظیر بھٹو کی نشست سے الیکشن میں حصہ لینے کی پیش کش کی، جس پر انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے سے یکسر انکار کر دیا ہے، تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے اس بات کی حامی بھر لی ہے کہ وہ عام انتخابات 2018ء سے قریب وطن واپس آکر بینظیر بھٹو کے تینوں بچوں بلاول، آصفہ اور بختاور جو کہ لاڑکانہ، نواب شاہ اور کراچی میں پیپلز پارٹی کے مضبوط حلقے لیاری سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، کی انتخابی مہم کی نگرانی کریں گی۔ پیپلز پارٹی ذرائع نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ وہ الیکشن سے دو ماہ قبل پاکستان آئیں گی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی خواہش کے مطابق الیکشن مہم میں پارٹی کا بھر پور ساتھ دیں گی۔ دوسری جانب بلاول بھٹو کے ساتھ بینظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری بھی سندھ کا سیاسی محاذ سنبھالنے کیلئے سرگرم ہو گئی ہیں، انہوں نے عملی طور پر سندھ کے سیاسی معاملات دیکھنا شروع کر دیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق آصفہ بھٹو زرداری آئندہ انتخابی مہم میں سندھ کا محاذ سنبھالیں گی۔
خبر کا کوڈ : 639463
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش