2
1
Wednesday 23 Aug 2017 23:30

ٹرمپ حکومت کی پالیسی برائے افغانستان و پاکستان

ٹرمپ حکومت کی پالیسی برائے افغانستان و پاکستان
تحریر: عرفان علی

امریکی ریاست ورجینیا میں واقع آرلنگٹن نیشنل سیمیٹری (قومی فوجی قبرستان) کے قریب فورٹ مائیر میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان اور دہشت گردی کے تناظر میں جنوبی ایشیاء کے لئے ایک حکمت عملی کا اعلان کیا ہے۔ 21 اگست بروز پیر اس وقت امریکا میں رات کے نو بج رہے تھے جبکہ پاکستان میں 22 اگست منگل کی صبح کے چھ بج رہے تھے۔ افغانستان کے لئے نئی پالیسی کے اعلان میں بنیادی طور پر دو اور ممالک یعنی پاکستان و ہندوستان (بھارت) کا تذکرہ بھی کیا ہے اور اسی پالیسی کو نہ صرف افغانستان بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کے لئے اپنی پالیسی قرار دیا ہے۔ پاکستان میں سابق صدر آصف زرداری سمیت بہت سے اہم افراد نے اس اعلان کو سننے کے لئے جاگ کر رات گذاری تھی۔ اس خطاب کے بعد پاکستان میں حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ ذرائع ابلاغ میں منگل کی صبح سے اس نئی امریکی پالیسی کا چرچا ہے۔ آخر ٹرمپ نے ایسا کیا کہہ دیا کہ جس پر یہ ردعمل آرہا ہے؟ ایک جملے میں تبصرہ کیا جائے تو امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی مفاد پر مبنی پرانی پالیسی کو نئے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے عہدہ صدارت پر براجمان ہونے کے بعد کئی ماہ متعدد اجلاسوں میں افغان پالیسی پر غور و خوض کیا اور کیمپ ڈیوڈ میں پچھلے جمعہ کو اس سلسلے کے آخری اجلاس میں نئی پالیسی کو آخری شکل دی گئی۔ اس تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد امریکی افواج کی حوصلہ افزائی اور قدردانی، امریکی رائے عامہ کے اپنے بارے میں منفی تاثر اور غیر ملکی اتحادی و شراکت دار حکومتوں کو نئی ٹرمپ سرکار کے بارے میں پائی جانے والی غیر یقینی کی کیفیت سے باہر نکالنا تھا۔

اسی عنوان پر آج بروز بدھ (23 اگست) سحر اردو ٹی وی کے سیاسی ٹاک ’’شو انداز جہاں‘‘ میں اظہار رائے کا موقع ملا اور اینکر پرسن محترم سید ساجد رضوی صاحب کے سوالات کے جواب میں بھی اس ناچیز نے مذکورہ بالا نکات عرض کئے تھے۔ امریکی صدر کی تقریر یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ امریکی عوام فرسٹریشن کا شکار تھے، خارجہ پالیسی پر بھی فرسٹریشن پائی جاتی تھی، کیونکہ اس خارجہ پالیسی پر بہت وقت، توانائیاں، پیسہ اور جانیں خرچ ہوئیں۔ ٹرمپ نے افغانستان کے مسئلے پر اپنی کابینہ اور جرنیلوں کے ساتھ اجلاس میں امریکہ کے اہم ترین مفادات سے متعلق تین بنیادی نتیجے اخذ کئے۔ پہلا یہ کہ امریکی قوم اس مسئلے کا ایسا باعزت اور دیرپا حل ڈھونڈے جو امریکیوں کی زبردست قربانیوں اور خاص طور پر جانی قربانیوں کے شایان شان ہو۔ اس لئے انکی نظر میں امریکی مرد و خواتین فوجی مستحق ہیں کہ انہیں لڑنے اور جیتنے کے لئے جس اعتماد و ساز و سامان کی ضرورت ہے، وہ انہیں فراہم کیا جائے۔ دوسرا نتیجہ یہ اخذ کیا کہ فوری انخلاء نقصان دہ ہے اور ناقابل قبول ہے، اس لئے افغانستان میں وہ غلطی نہ کریں جو اوبامہ حکومت نے سال 2011ء میں عراق سے فوجی انخلاء کی صورت میں کی تھی۔ تیسرا نتیجہ یہ نکالا کہ افغانستان اور اس کے سرحدی علاقوں میں بہت زیادہ اور شدید خطرات کا سامنا ہے، کیونکہ افغانستان و پاکستان میں بیس ایسے گروہ متحرک ہیں، جنہیں امریکہ نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیم ( FTOs) قرار دے رکھا ہے۔

ٹرمپ نے کہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے سے موازنہ کریں تو یہ تعداد یہاں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ایک اور مرتبہ پاکستان پر الزام لگایا کہ افراتفری، تشدد اور دہشت گردی کرنے والوں کو پاکستان اکثر محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے، یہ خطرہ بدتر ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت نیوکلیئر اسلحے سے لیس دو ممالک ہیں اور ان کے کشیدہ تعلقات کسی بھی وقت شدت اختیار کرکے لڑائی میں تبدیل ہوسکتے ہیں، یہ خطرہ رہتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ افغانستان اور جنوبی ایشیاء کی یہ پریشان کن صورتحال انہیں پچھلی حکومت سے ورثے میں ملی ہے اور انہیں یہ سہولت بھی حاصل نہیں کہ وہ ماضی میں جاکر اس سے مختلف یا بہتر فیصلے کرسکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب صدر بنے تو انہیں مشکلات دی گئیں اور وہ ان مشکلات و مسائل کو جانتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ مسائل حل کرنے والے ہیں اور یہ مسائل و مشکلات کسی نہ کسی طرح حل ہو جائیں گے اور آخر کار انکی حکومت جیتے گی۔ انہوں نے بارسلونا میں دہشت گردی کے تازہ واقعہ کی مثال دی اور یاد دلایا کہ سعودی عرب میں تین ماہ قبل بھی وہ تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کو انکے علاقوں اور مالی ذرائع سے محروم کر دیں گے اور انکے جھوٹے نظریئے کو بے نقاب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان و پاکستان میں امریکی مفادات واضح ہیں کہ وہ یہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے دوبارہ قیام کو ہر صورت روکیں گے، کیونکہ یہ امریکہ کے لئے خطرہ ہیں اور اس کو بھی روکیں کہ نیوکلیئر اسلحہ یا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائیں، جو وہ امریکہ کے خلاف بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

نئی امریکی پالیسی کے بنیادی ستونوں میں چار اہم ستون کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اس پالیسی کا اہم ستون یہ ہے کہ حکمت عملی کی بنیاد وقت پر نہیں بلکہ حالات پر ہوگی۔ اب یہ نہیں بتایا جائے کہ فوجی آپشن کب شروع یا ختم کرنا چاہتے ہیں، نہ امریکی فوجیوں کی تعداد پر بات کریں گے اور نہ ہی فوجی سرگرمیوں اور منصوبوں پرپیشگی کوئی بات ہوگی۔ دوسرا اہم ستون یہ ہوگا کہ امریکی طاقت کے تمام ذرائع کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا جائے گا، یعنی بیک وقت سفارتی، اقتصادی و فوجی ذرائع کا استعمال، تاکہ کامیاب نتیجہ حاصل ہو۔ مثال کے طور پر کسی دن موثر فوجی کوشش کے بعد شاید یہ ممکن ہوگا کہ سیاسی حل ڈھونڈا جائے، جس میں افغانستان میں طالبان کے سیاسی عناصر کی شمولیت بھی ہو، لیکن کوئی نہیں جانتا ایسا کب کیا جائے گا؟ ساتھ ہی امریکہ افغان حکومت اور فوج کی مدد و حمایت جاری رکھے گا کہ وہ میدان میں طالبان کا مقابلہ کریں۔ ٹرمپ نے واضح کیا کہ امریکہ کا کردار ایک شراکت دار اور دوست کا ہوگا، لیکن جمہوریت کے قیام اور قومی تعمیر نو کا کردار امریکہ ادا نہیں کرے گا۔ امریکہ ڈکٹیٹ نہیں کرے گا کہ افغانستان میں کس قسم کی حکومت ہو اور کیسے عوام زندگی گذاریں۔ ٹرمپ کے مطابق امریکہ تو صرف دہشت گردوں کو مار رہا ہے۔ ٹرمپ پالیسی کا تیسرا ستون پاکستان کے بارے میں ہے کہ پاکستان میں طالبان اور دیگر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر کہ جو خطے اور خطے سے باہر کے ممالک کے لئے خطرہ ہیں، ان پر امریکی حکومت خاموش نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی کوششوں میں شریک ہوکر پاکستان بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے جبکہ کریمنلز اور دہشت گردوں کو پناہ دے کر انکی حفاظت کرکے بہت کچھ گنوا بھی سکتا ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ ماضی میں پاکستان ایک قابل قدر شراکت دار تھا اور مشترکہ دشمنوں کے خلاف امریکہ اور پاکستانی افواج نے مل کر لڑائی بھی کی ہے۔ پاکستانی عوام دہشت گردی و انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ امریکہ انکے تعاون اور قربانیوں کو تسلیم کرتا ہے، لیکن پاکستان ان تنظیموں کو پناہ بھی دیتا ہے، جو ہر روز ہمارے لوگوں کو مارنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق پاکستان ایسے وقت میں ان دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے کہ جب امریکہ پاکستان کو اربوں پہ اربوں ڈالر دیئے جا رہا ہے۔ لیکن اب اسے تبدیل ہونا چاہیے اور یہ فوری طور تبدیل ہو۔ ٹرمپ مزید کہتے ہیں کہ کوئی شراکت داری اس طرح نہیں چل سکتی کہ وہ ہمارے فوجیوں یا دیگر سرکاری حکام کو مارنے والے دہشت گردوں کو پناہ دیں۔ اب وقت ہے کہ پاکستان مہذب پن، نظم اور امن کا مظاہرہ کرے۔ جنوبی ایشیاء کے بارے میں ٹرمپ کی حکمت عملی کا ایک اور اہم حصہ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کی تزویراتی شراکت داری کو مزید محکم کیا جائے۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، امریکہ کا کلیدی فوجی و اقتصادی شراکت دار ہے۔ افغانستان میں بھارت کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ بھارت امریکہ کے ساتھ تجارت میں اربوں ڈالر کماتا ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں مزید امریکہ کی مدد کرے، خاص طور پر افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کے لئے امریکہ کی مدد کرے۔ یہی نہیں بلکہ ٹرمپ کہتے ہیں کہ نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ وسیع تر خطہ بحر ہند میں امن و سلامتی کے مشترکہ ہدف کے حصول کے لئے امریکہ متعہد ہے۔

آخر میں ٹرمپ نے امریکی عوام کا دفاع کرنے والے بہادروں یعنی فوجیوں کو یقین دلایا کہ اس حکمت عملی پر فوری اور موثر عمل کے لئے مشغولیت کے لئے قواعد اور انکی ضرورت کا سامان فراہم کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ پہلے ہی اوبامہ حکومت کی جانب سے عائد پابندی ہٹا چکے ہیں اور اب امریکی وزیر دفاع اور فیلڈ میں موجود فوجی کمانڈرز مکمل طور پر اور فوری طور پر دشمن سے لڑائی کا فیصلہ خود کرسکیں گے، واشنگٹن ڈی سی سے اب مائیکرو منیجمنٹ نہیں کی جائے گی۔ وہ فوجی جرنیلوں کے اختیارات میں توسیع دیں گے، تاکہ وہ افغانستان میں دہشت گردوں اور کریمنلز کو ہدف بنائیں، دہشت گردوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کہیں چھپ نہیں سکتے، امریکہ کا ردعمل فوری اور طاقتور ہوگا۔ امریکی افواج کو ہر قسم کا اسلحہ دیا جائے گا۔ داعش کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے گا، القاعدہ کو کچلا جائے گا اور طالبان کو افغانستان پر کنٹرول سے روکا جائے گا اور دہشت گرد حملوں کو ہونے سے پہلے ہی روک دیا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا کہ فوجی طاقت تنہا افغانستان میں امن نہیں لاسکتی اور نہ ہی دہشت گردوں کے حملے روک سکتی ہے، بلکہ تزویراتی طریقے سے متعین کردہ فورس کا مقصد ایسے سیاسی عمل کے لئے حالات پیدا کرنا ہیں کہ جس سے دیرپا امن قائم ہو۔ اسوقت تک افغان حکومت کے ساتھ کام کریں گے، جب تک اس کے عزم اور کارکردگی کو دیکھیں گے۔ امریکہ کا عہد لامحدود نہیں ہے اور مدد و حمایت بھی کوئی بلینک چیک نہیں ہے۔ افغان حکومت فوجی، سیاسی و اقتصادی بوجھ کو خود اٹھانے میں حصے دار بنے۔ امریکہ کی برداشت بھی لامحدود نہیں ہے۔ یہ سب نکات امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں بیان کئے ہیں، جس کا ترجمہ و تلخیص و مفہوم اوپر تحریر کیا ہے۔

ہم آغاز میں ہی لکھ چکے کہ امریکہ کی پرانی پالیسی کو ٹرمپ نے نئے الفاظ میں بیان کیا ہے، ورنہ پاکستان پر الزامات اور دھمکیاں امریکہ کی پرانی پالیسی ہے۔ افغان حکومت کو طالبان یا دیگر دہشت گردوں سے ڈرا کر امریکی مفاد کے لئے بلیک میل کرنا بھی پرانی پالیسی ہے۔ بھارت کو افغانستان میں بڑے بھائی کا کردار دینا 2006ء میں جارج بش جونیئر کے دورہ بھارت میں ہوچکا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے منگل 22 اگست کو پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں اشارہ دیا تھا کہ امریکہ کے پاس دو لیوریج ہیں کہ پاکستان کی مالی و فوجی معاونت یا امداد روک دے اور اس کا نان نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کر دے۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کی حفاظت پر تشویش کا اظہار ٹرمپ کے بعد ٹلرسن نے بھی کیا، حالانکہ یہ بھی ماضی کی امریکی حکومتوں کی پالیسی رہی ہے۔ پاکستان میں کابینہ کے اجلاس میں منگل کو یہ معاملہ زیر بحث آیا اور بدھ کے روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سعودی عرب کے دورے پر نکل پڑے، تاکہ امریکہ کو سعودی عرب کے ذریعے راضی کرسکیں۔ البتہ بدھ یعنی آج کے روز ہی پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے ملاقات کی، جس میں آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کو امریکہ سے کسی مادی یا مالی معاونت کی تلاش میں نہیں ہے بلکہ پاکستان کے کردار کی قبولیت، پاکستان کے بارے میں سمجھ بوجھ اور اعتماد کا خواہاں ہے۔ امریکہ نے ایک اور مرتبہ مکاری سے کام لیا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی امریکہ کی ناکامی ہے اور ممکن ہے کہ امریکہ خود ہی اس خطے کو عدم استحکام میں مبتلا دیکھنا چاہتا ہے، تاکہ اس کی فوجی موجودگی کا بہانہ رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام، عراقی عوام کی طرح امریکہ کو اپنے ملک سے فوجی انخلاء پر مجبور کر دیں۔
خبر کا کوڈ : 663731
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہت اچھا تجزیہ کیا ہے۔ اللہ امریکہ کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین
Pakistan
Thanks. Aameen
ہماری پیشکش