1
Tuesday 16 Jan 2018 11:30

اے ماؤ! بہنو! بیٹیو! دنیا کی عزت تم سے ہے

اے ماؤ! بہنو! بیٹیو! دنیا کی عزت تم سے ہے
تحریر: ساجد علی گوندل
Sajidaligondal88gmail.com

میرے ابو کتنے اچھے ہیں، ابو نے کہا تھا کہ واپسی پر وہ میرے لئے بہت سارے کھلونے لائیں گے، ابو ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ میں ان کی اچھی بیٹی ہوں اور ضد بھی نہیں کرتی۔۔۔۔ امی نے بھی کہا تھا کہ وہ بھی میرے لئے اچھے اچھے کپڑے اور بہت ساری کھانے کی چیزیں لائیں گی۔۔۔۔۔ اور ابھی وہ دونوں اللہ کے گھر گئے ہیں، تاکہ اللہ میاں سے بولیں کہ میں ہمیشہ ان کی اچھی بیٹی بن کر رہوں۔۔۔۔ لیکن امی ابو کے بغیر بالکل بھی میرا دل نہیں لگتا۔۔۔۔ جب وہ آئیں گے تو میں کہوں گی کہ اب کبھی بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جائیں۔۔۔۔ مجھے یہاں ڈر لگتا ہے اور یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔۔ ابھی تک اس معصوم بچی کی اس طرح کی ہزاروں باتیں و خواہشیں فضا میں موجود ہیں کہ جو بار بار ایک ہی سوال کی شکل میں میرے کانوں سے ٹکراتیں ہیں۔۔۔ یہ کہ۔۔۔۔ کیا ابھی بھی ہم زندہ ہیں؟؟ اور کیا زینب مر گئی؟؟۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ ہم بھی مر چکے ہیں اور مجھے اپنے مردہ ہونے کا یقین اس وقت ہوا، جب میں نے اس دل خراش واقعہ کی آڑ میں لکھی گی چند روشن خیال تحریروں کو پڑھا۔ جن میں بجائے اس کے کہ ان جیسے انسانیت سوز واقعات کی بنیادوں کا ذکر کیا جائے۔۔۔ لگے اپنی وفاداری کا ثبوت دینے۔ کسی نے لکھا کہ یہ اس لئے ہوا کیونکہ ہماری سوسائٹی میں سیکس ایجوکیشن نہیں دی جاتی، تو کوئی بولا کہ آخر زنا کی حد کے لئے چار گواہ کیوں ضروری ہیں، تو کسی نے تو سیدھا یہ کہہ دیا کہ یہ سب مولویوں کی تنگ نظری کا نتیجہ ہے۔

تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جب تک اندر کے لوگ ساتھ نہ دیں، کسی بھی مضبوط سلطنت کی بنیادوں کو ہلایا تک نہیں جاسکتا۔ تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ آخر کون لوگ آج آزادی نسواں و روشن خیالی کی باتیں کر رہے ہیں۔۔۔ وہی کہ کل تک جن میں یہ رائج تھا کہ؛ عورت، مرد کے ساتھ ایک جگہ نہیں سو سکتی، کیونکہ اس کی نحوست کی وجہ سے مرد کی زندگی کم ہو جاتی ہے[1] اور مرد کو اختیار ہے کہ وہ عورت کو فروخت کرسکتا ہے یا پھر وہ کہ جو کل تک خواتین کی شادیاں زبردستی حیوانات سے کرتے رہے۔[2] اس روشن خیالی کا ماضی یہی ہے کہ جس میں عورت کو اجازت نہ تھی کہ وہ کسی بھی جگہ مرد کے ساتھ نظر آئے، چاہے وہ اس کی ماں یا بہن ہی کیوں نہ ہو، عورتوں کا بازار، گلیوں، سڑکوں حتٰی تمام پبلک پلیسسز پر آنا ممنوع تھا۔[3] بعض جگہ تو مرد کے مرنے کے ساتھ عورت کو زندہ دفن کر دیا جاتا اور جب کبھی گھر پر مہمان آتا تو اپنی ناموس کو اسے پیش کیا جاتا۔[4] حتٰی افریقا کے کچھ قبائل میں تو ایک گائے کے بدلے بیٹی کو فروخت کیا جاتا۔ اگر کسی کو جنگجو یا کسی بھی خوبی والا بیٹا چاہیے ہوتا تو اپنی ناموس کو اسی قسم کے مرد کے پاس بھیجا جاتا۔[5]  کبھی خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا۔[6] تو کہیں پر اپنی ناموس کا تبادلہ کیا جاتا۔[7] کہیں پہ یہ ہوتا کہ اگر مرد و عورت دونوں راضی ہیں تو آزادی سے معاشرے میں کچھ بھی کرتے پھریں۔[8] تو کہیں پیسوں کے عوض اپنی ناموس کو سرعام فروخت کر دیا جاتا۔[9]

مگر جیسے ہی اسلام جیسے مقدس دین نے طلوع کیا تو ان خرافات و واہیات کی جگہ انسانی اقدار اور انسانیت کے تقاضوں نے لے لی، دینِ اسلام نے معاشرے میں عورت کو زمین کی پستیوں سے نکال کر آسمانی بلندیاں عطا کیں اور بلند صدا دے کر کہا کہ عزت و تکریم کا معیار فقط تقویٰ ہے، نہ کہ نسب و جنسیت۔ وہی عورت کہ جسے معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا، جنت جیسی عظیم نعمت کو اس کے قدموں میں قرار دیا گیا۔ وہ بیٹی کہ جسے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، جنت کو اس کی پرورش کا صلہ قرار دیا گیا۔ آج قوانین اسلام سے ہٹ کر آزادی کا علمبردار ہونا ایسا ہی ہے کہ جیسے گھپ اندھیروں میں سیاہ ورق تلاش کرنا اور رہی بات سیکس ایجوکیشن کی تو میں اپنے ناداں دوستوں سے یہ عرض کروں گا کہ اس روشن خیالی کو پھیلانے سے پہلے اُن علل و اسباب کا ضرور مطالعہ کریں کہ جن کی بنا پر مغربی معاشرے کو اس ایجوکیشن کی ضرورت پڑی۔

اگر ہم ذرا بھی اسلام اور اسلامی تہذیب سے آشنا ہوتے تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا کہ ہمیں قطعاً ایسی مشکلات کا سامنا نہیں، جن مشکلات سے مغربی سوسائٹی گزر رہی ہے۔ مغرب میں بسنے والے پاکستانیوں سے ہی پوچھ لیجئے، جہاں آج بھی ایک عورت کے دو، دو اور تین تین شوہر ملتے ہیں اور بعض اوقات محرموں کے ساتھ بھی شادی کا پراسیس انجام دینا پڑتا ہے اور ساتھ ہی یہ یاد رہے کہ بچے کا ذہن ایک سفید ورق کی مانند ہے، جیسی بنیاد رکھو گے، ویسی ہی عمارت بنتی نظر آئے گی۔ جہاں تک چار گواہوں کا مسئلہ ہے تو بیان کرتا چلوں کہ چار گواہوں کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ خداوند متعال اصلاً نہیں چاہتا کہ ہر کوئی ہماری ناموس پہ انگلیاں اٹھاتا پھرے، جبتک کہ ٹھوس ثبوت نہ ہوں۔ حتٰی اسلام نے مسئلہ ناموس کو اسقدر محترم رکھا کہ بعض علماء کے نزدیک سورہ یوسف تک کی تعلیم کو بچیوں کے لئے مکروہ قرار دیا ہے۔ مقام فکر ہے کہ بقول اقبال ؒ آج ہم بدعملی سے بدظنی کی طرف گامزن ہیں۔[10] مگر دوسری طرف آج پھر خاتون کو آزادی کے نام پر اندھیروں کی اس دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے کہ جس کے تصور سے ہی انسانیت کانپ اٹھتی ہے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ کل  عورت بازار میں ایک جنس کے طور پر فروخت ہوتی تھی، جبکہ آج مختلف اجناس کو فروخت کرنے کے لئے اسے بازاروں میں لایا جاتا ہے۔

حوالہ جات:
[1]۔ تاریخ تمدن، جلد۱، ص۴۴
[2]۔ سیر تمدن، ص۲۹۵
[3]۔ تاریخ تمدن، جلد۱، ص۳۸
[4]۔ ایضا، ص۶۰
[5]۔ زمانہ جاہلیت میں (نکاح الاستیظاع)
[6]۔ نکاح رھط
[7]۔ نکاح البدل
[8]۔ نکاح معشوقہ
[9]۔ نکاح الاشغار
[10]۔ بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے (از جواب شکوہ)
خبر کا کوڈ : 697486
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش