1
0
Tuesday 10 May 2011 00:12

شام کیخلاف پسِ پردہ سازش اور اثرات

شام کیخلاف پسِ پردہ سازش اور اثرات
تحریر:ناصر عباس شیرازی ایڈووکیٹ
اسلامی بیداری کی لہر نے مشرق وسطیٰ کے ڈکٹیٹر حکمرانوں اور عوامی رائے کے برعکس امریکہ کے حکم پر کام کرنے والی حکومتوں کو لرزا دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے وہ حکمران کہ جنہوں نے نسل در نسل امریکہ و اسرائیل کی ہمنوائی کو اپنی حکومتوں کے برقرار رکھنے کی گارنٹی جانا اور ہر موقع پر امریکہ اور اس کے حواریوں کی آشیر باد حاصل کرنے کیلئے قومی غیرت و حمیت کا سودا کر دیا، اس لہر کا براہ راست نشانہ بنے۔ 30سال سے امریکہ کی آنکھ کا تارا علی زین العابدین پہلا شکار تھا۔ فرعون مصر حسنی مبارک کہ جس نے 2008ء کی اسرائیل فلسطین جنگ میں غزہ کا دنیا سے واحد زمینی راستہ بند کرکے فلسطینیوں کے قتل عام کو ممکن بنایا اور اسرائیل کو تمام تر سہولتیں فراہم کرکے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی، اگلے مرحلے میں تبدیلی کی لہر کی زد میں آیا اور روز بروز پھیلتی ہوئی یہ لہر لیبیا، یمن، بحرین، اردن، سعودی عرب اور عمان تک جا پہنچی اور یہی موقع تھا کہ امریکی استعمار اپنی چالبازیوں کے ساتھ میدان میں آیا۔ 
یہ جانتے ہوئے کہ اس لہر کو روکنا ناممکن ہے۔ انہوں نے اس لہر کا راستہ بدلنے اور عالمی میڈیا و اقتصادی سرمایہ کاری کے ذریعے اس کی ھییت و ماھیت بدلنے کی کوشش کی۔ یوں ایک منظم منصوبے کے تحت کہ جس پر 2005ء سے بڑے پیمانے پر کام جاری تھا، شام اور ایران کو اس لہر کی زد میں لانے کی کوشش کی گئی۔ ایران میں مضبوط حکومت اور آگاہ ملت و متوجہ رہبریت کی وجہ سے یہ منصوبہ پہلے ہی مرحلے میں ناکام ہو گیا جبکہ ایران خطے میں ان عوامی تحریکوں کی حمایت کرنے والا سب سے بڑا مرکز بن کر سامنے آیا۔ یوں ایران نے انقلابی، اسلامی و عوامی قوتوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن شام کی صورتحال مختلف تھی، شام کے خلاف اس بین الاقوامی سازش میں سرمایہ کاری سعودی عرب نے کی، جبکہ اردن اور یورپی یونین نے دیگر تمام سہولتیں فراہم کیں۔ امریکہ اس تمام منصوبے کے نگران منتظم کے طور پر سامنے آیا۔ منصوبے کی تفصیلات میں جانے سے پہلے اس ایک نقطہ کا جائزہ لیا جانا از حد ضروری ہے کہ آخر شامی حکمران دیگر عرب ڈکٹیٹروں سے کیسے مختلف ہیں اور ان کی حمایت کا کیا جواز ہے اور کیوں امریکہ اسرائیل جو تمام خطے میں تبدیلی کی اس لہر کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، شام میں اس کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔
شام دو کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل مضبوط عرب ملک ہے کہ جو قبل ازیں عرب اسرائیل جنگ میں لبنان کی حفاظت کیلئے میدان میں آیا اور لبنانی حکومت کی درخواست پر لبنان میں شامی افواج تعینات کر کے جہاں سول وار کو روکنے میں کردار ادا کیا وہاں اسرائیل کے خلاف ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آیا۔ 2005ء میں لبنان میں رفیق حریری کو منظم سازش کے تحت قتل کرا کے اس کا الزام شام پر ڈال کر شام کو لبنانی سرزمین سے انخلاء پر مجبور کر دیا گیا۔ اور یہی اسرائیل کی خواہش تھی۔ اگلے سال اسرائیل نے کمزور لبنان پر حملہ کر کے بربریت کی نئی تاریخ رقم کی کہ اب لبنان کی سرزمین پر اس کو روکنے والی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی۔ رفیق حریری کا قتل اسرائیل کے دشمن، شام کی افواج کو لبنانی سرزمین سے نکالنے اور شام کے خلاف فضا بنانے کی سازش کا حصہ تھا کہ جس نے کچھ عرصہ تک دشمن کے اہداف کو پورا کرنے میں بھرپور حصہ ڈالا، مگر بعد ازاں حزب اللہ نے اسرائیل کی سازش کو ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ نہ فقط بے نقاب کیا بلکہ جب رفیق حریری کے فرزند سعد حریری کی حکومت کا تختہ جمہوری انداز سے الٹ کر نئی قومی حکومت کے قیام کا اعلان کر کے سازش کے تار و پود بکھیر دیئے۔
شام کے موجودہ صدر بشار الاسد گزشتہ 10سال سے حکمران ہیں اور یہ درست ہے کہ شام میں مغربی طرز کی جمہوریت نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ شام میں مروجہ عرب حکمرانوں کی سی ڈکٹیٹر شپ بھی نہیں ہے۔ شام میں ایک منتخب پارلیمان وجود رکھتی ہے۔ الیکشن باقاعدگی سے ہوئے ہیں جبکہ شامی عوام نسبتاً پرسکون اور خوشحال ہیں اور سب سے بڑھ کر کہ مقامی حکمران امریکہ، اسرائیل وغیرہ کے کاسہ لیس نہیں ہیں، بلکہ مشرقی وسطیٰ میں امریکی اہداف کے مقابل ایک بڑی رکاوٹ ہیں، اور یہی شام کے عوام کے دل کی آواز بھی ہے۔ شام کے حکمرانوں نے کبھی بھی عوامی غیرت کا سودا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ عوامی رائے کے مطابق اپنی پالیسیوں کو ترتیب دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شام میں حکومت مخالف مظاہرے جاری تھے تو ایک جمعہ حکومت کی حمایت میں مظاہرین سڑکوں پر نکلے، مغربی میڈیا کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ افراد شام کے صدر کی حمایت میں سڑکوں پر آئے۔ 
پس شام کی حکومت کا پہلا جرم عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت کا ہونا ہے جو کبھی بھی امریکہ و اسرائیل کیلئے قابل برداشت نہیں ہے۔ شام کی حکومت کا دوسرا بڑا جرم فلسطینیوں کی ہر طرح سے حمایت و مدد ہے۔ شامی حکمرانوں نے اہل فلسطین کیلئے اپنے تمام تر وسائل کو نچھاور کر دیا ہے۔ بقول سربراہ حماس خالد مشعل ایک ایسے وقت میں جب تمام عرب حکمران فلسطینیوں کے قتل عام میں شریک تھے اور کوئی ملک فلسطینیوں کو پناہ دینے یا ان کی حمایت کیلئے تیار نہ تھا۔ تمام عرب ممالک اسرائیل سے معاہدہ کرکے یا اس کے ہمنوا بن چکے تھے یا امریکہ کے دباؤ میں فلسطینیوں کو تنہا کرنے کی کوشش میں تھے، فقط شام تھا کہ جس نے اپنے بازو فلسطینی بھائیوں کیلئے وا کئے، یوں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ شام فلسطینی تحریکوں کا دوسرا گھر ہے۔ شام نے فقط اپنے ملک میں فلسطینیوں کی حمایت و مدد نہیں کی بلکہ تمام بین الاقوامی فورمز، اداروں میں تحریک آزادی فلسطین کا ہراول دستہ رہا۔
عرب ممالک نے شام کا اقتصادی بائیکاٹ کیا، امریکہ و یورپی یونین نے شام کے خلاف پابندیاں عائد کیں اور اسے بدی کا محور، Axis Of Evil قرار دیا، کردوں اور متعصب مذہبی شدت پسندوں کے ذریعے شام کا امن تباہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن شام فلسطینیوں کی ہر طرح کی حمایت کے اپنے اصولی موقف سے باز نہیں آیا۔ اسرائیلی اخبار ہارتیز کے مطابق فلسطینی تحریکوں کو میسر اسلحہ کی فراہمی بھی شام ہی کے ذریعہ ہوئی ہے جبکہ حماس اور اسلامی جہاد کے مجاہدین کی تربیت کیلئے بھی لبنان اور شام ہی بیس کیمپ قرار پائے۔ اور یہ شام کا دوسرا بڑا جرم تھا ۔ ایران اور حزب اللہ کے انقلابی موقف کی تائید اور حمایت شام کا تیسرا بڑا جرم ہے کہ جو نہ تو خود عربوں کیلئے قابل برداشت ہے اور نہ ہی امریکہ و اسرائیل کیلئے۔ لبنانی حزب اللہ کے اہم رکن اور حزب اللہ اسرائیل جنگ کے ہیرو عماد مغنیہ کو شام کے دارالحکومت میں اسرائیل نے نشانہ بنایا۔ اسرائیل، حزب اللہ کو از سر نو مسلح ہونے پر شام کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ عرب ممالک میں بالخصوص عرب لیگ میں ایران و حزب اللہ کی حمایت شام ہی کا خاصہ رہی ہے اور خطے میں امریکی نفوذ کو کم کرنے اور ایران کے انقلابی اہداف کو رستہ دینے میں شام کا کردار کلیدی ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہم ملک ہونے کے ناطے امریکہ انتہائی ضروری سمجھتا ہے کہ شام کا کانٹا نکال کر یہاں مرضی کی حکومت مسلط کی جائے، تاکہ خطے میں اسرائیل کیلئے کوئی بڑا چیلنج باقی نہ رہے۔ شام کا چوتھا بڑا جرم اسرائیل کے مقابلہ میں تیاری اور مفادات ہے۔ اسرائیل نے ایک حملہ کے ذریعہ شام کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا تھا جبکہ شام کے انتہائی اہم علاقہ گولان ہائٹس بھی اسرائیلی قبضہ میں ہیں۔ اقوام متحدہ اس علاقہ کو شام کا حصہ تسلیم کرتی ہے لیکن اسرائیل اس منطقہ کو واپس کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اگر یہ منطقہ اسرائیل کے قبضہ سے نکل جائے تو پھر اسرائیل کیلئے نہ صرف شیبا فارمز پر قبضہ باقی رکھنا ناممکن ہو جائے گا بلکہ اسرائیل کا شام کی طرف والا بیشتر علاقہ شام کی براہ راست نظروں اور نگرانی میں آجائے گا۔ یوں شام عملاً اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ و اسرائیل ایک ایسے ملک کو برداشت کریں کہ جو مضبوط بھی ہو رہا ہو اور اسرائیل سے جنگ کی صلاحیت بھی رکھتا ہو، اور اسرائیل سے جنگ کیلئے عزم بھی، یوں شام کا وجود امریکہ، اسرائیل اور ان کے عرب ہمنواؤں کو مشترکہ طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں 2005ء میں رفیق حریری قتل کے بعد امریکہ نے شام کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا ڈول ڈالا وہاں دوسری طرف شام کے خلاف ایک گھناؤنی سازش کا آغاز بھی کر دیا۔
واشنگٹن پوسٹ نے وکی لیکس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اس تمام منصوبہ کیلئے رقم کی فراہمی سعودی عرب کے ذمہ تھی جبکہ امریکہ نے بھی کئی بلین ڈالر کا حصہ ڈالا۔ عملاً سعودی اور اردنی حکومتوں نے لبنان کے سعد حریری گروپ کی معاونت سے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا تھا جبکہ NGO,s سازش سے مربوط دیگر اداروں کو یورپی یونین کے ذریعے تعاون دیا جانا مقصود تھا تاکہ امریکہ کا نام زیادہ سامنے نہ آئے۔ شام میں شورش کا آغاز درعا کے علاقہ سے کیا گیا جو کہ سعد حریری کے قبیلہ سے متعلق لوگوں کا منطقہ اور لبنانی سرحد کے قریب ساحلی علاقہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سازش کی تمام تر اہم تفصیلات ایران و شام کے اداروں کو 2009ء میں پتہ چلیں، لیکن مکمل سازش حالیہ بحران میں بے نقاب ہوئی۔ مقامی حکومت کا تختہ الٹ کر ہمنوا حکومت کو قائم کرنے کی اس سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری حیفری فیلمٹن جو کہ لبنان میں امریکی سفیر رہ چکا ہے اور ابھی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے امور مشرق قریب ہیں اور سعودی عرب کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر شہزادہ بندر بن سلطان نے قبول کی۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کے تحت صرف ایک سیٹلائٹ ٹی وی چینل ابرادا، کہ جو لندن سے آپریٹ کرتا ہے اور جس کے چیف رپورٹر ملک العبدیہ ہیں کہ جو نام نہاد امریکی حمایت یافتہ تحریک برائے جشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کے سربراہ بھی ہیں کو 2009ء میں امریکہ نے 6 ملین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی۔
واشنگٹن پوسٹ، ہارتیز، العالم، وکی لیکس، رائٹرز سمیت بعض دیگر اہم اداروں نے ا س منصوبہ کی بعض جزئیات کو نشر کیا ہے یا اپنی ویب سائٹس پر اس کی تفصیل جاری کی ہے۔ فقط مغربی میڈیا پر ہی اگر انحصار کریں تو اس کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں۔ اس منصوبہ کے تحت تمام شام کی مختلف مناطق میں تقسیم بندی کی گئی ہے، جن میں سے ہر منطقہ بعض اہم شہر اور گاؤں شامل ہونگے تاکہ علاقائی تقسیم کے مطابق پروگرام کو آگے بڑھایا جا سکے۔ دوسرا مرحلہ بھرتیوں کا ہے، اس مرحلہ میں 5 نیٹ ورکس پر کام کیا جا رہا تھا۔ پہلا نیٹ ورک جو تمام ملک میں پھیلا ہو گا، بےروزگار لیکن تعلیم یافتہ جوانوں پر مشتمل یہ گروہ خاص مطالبات پر مبنی تحریک تشکیل دیں گے۔ دوسرا نیٹ ورک دہشت گردوں کا ہو گا، جس میں زیادہ تر جرائم پیشہ افراد اور مجرمانہ ماضی و ذہنیت رکھنے والے افراد شامل ہونگے، اس گروہ کی اکثریت غیر شامی افراد پر مشتمل ہو گی۔ تیسرا نیٹ ورک 22سال سے کم عمر جوانوں پر مشتمل ہو گا، جو لسانی گروہوں سے تعلق رکھتے ہونگے اور ان کے مطالبات لسانی بنیادوں پر ہونگے۔ چوتھا اہم نیٹ ورک میڈیا کا ہو گا، جس میں ٹی وی چینلز، انسانی حقوق کی تنظیمیں، ویب سائٹس، اخبارات و جرائد اور رفاہ عامہ کی بعض NGO,s شامل ہونگی، ان کی فنڈنگ براہ راست یورپی یونین سے ہونا تھی۔ جبکہ پانچواں نیٹ ورک بڑے شہروں بالخصوص صنعتی مناطق میں بزنس کمیونٹی پر مشتمل سرمایہ کاروں کا نیٹ ورک قرار پایا تھا۔ تمام نیٹ ورکس کو مربوط نعرہ جات اور شعار دیئے گئے تھے۔ انہیں خانہ جنگی کے مختلف مراحل کیلئے ہر طرح کی ٹریننگ دی جارہی تھی جبکہ انہیں جدید ٹیکنالوجی برائے روابط اور سیٹلائٹ ٹیلی فونز دیئے گئے تھے تاکہ انہیں ٹریس نہ کیا جا سکے۔ 
تمام منصوبے کے تانے بانے بنتے وقت اس قدر احتیاط کی گئی کہ پہلے مرحلے پر حقوق انسانی کے گروہ فقط جمہوریت کے احیاء کا نعرہ بلند کریں گے اور حکومت کی تبدیلی کا آخری ہدف بیان نہیں کریں گے۔ اس مرحلہ پر ان گروہوں کو افراد کی بھرتی اور انہیں ہمنوا بنانے کیلئے اضافی ٹریننگ کی فراہمی جاری تھی۔ بزنس کمیونٹی پر کام  تیز رفتاری سے جاری تھا۔ اس پلان میں عیاشانہ پارٹیوں کا انعقاد کیا جانا مقصود تھا، جس میں ان سرمایہ داروں کو مختلف منصوبوں میں منافع بخش سرمایہ کاری کے مواقع دینا اس شرط کے ساتھ کہ وہ ملک میں چلنے والی تحریک کی سیاسی و مالی مدد کریں، شامل تھا۔ انہی پارٹیوں میں انہیں بعض جنسی جرائم میں ملوث کر کے ان کی فلمیں بنا کر اور دیگر ذرائع سے انہیں تا زندگی بلیک میل کیا جانا تھا تاکہ وہ ہمیشہ اس تبدیلی کے عمل میں آ جانے کے بعد بھی اپنی حمیت کو زندہ کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں اور ہمیشہ مغرب کی فرمانبرداری میں رہیں۔
بھرتی اور تربیت کے ابتدائی مراحل کہ جس کے ابتدائی مالی وسائل کی ذمہ داری سعودی عرب نے 2 بلین ڈالر سے پوری کی، ان گروہوں کو ضرورت کے مطابق جدید ترین روابط کے آلات دیئے گئے تھے۔ طے یہ تھا کہ تقسیم کردہ مناطق میں سے جب ہر منطقہ میں پانچ ہزار تربیت یافتہ افراد بھرتی کر چکے ہونگے اور گاؤں میں 1500 جبکہ دیہات میں 500 تک تو اس مرحلہ پر نام نہاد تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔ درعا کے علاقہ سے اس کا آغاز اسی منصوبہ کے عین مطابق تھا۔ اس پلان میں بغاوت منصوبہ کو رد کرنے والوں کے سوالات کے جوابات تک شامل تھے، جس کی مثال یہ ہو گی، اگر کوئی کہے کہ تبدیلی آچکی ہے تو کہا جائے گا کہ قطعی کوئی تبدیلی نہیں، فقط جھوٹ ہے۔ اگر کوئی کہے تبدیلی آ رہی ہے تو کہا جائے کہ ہم گزشتہ 40 سالوں سے یہی سن رہے ہیں، یوں بغاوت مشترکہ نعروں، مشترکہ جوابات اور مشترکہ اہداف کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ متحرک لوگوں کے مرکزی جگہوں پر اجتماعات منعقد کرنا، جبکہ منظم طریقہ سے ان اجتماعات کی موبائل فونز وغیرہ سے فلمبندی کی جانا تھی۔ 
درعا اور لطاقیہ میں ہونے والے مظاہروں میں بالکل یہی روش اختیار کی گئی۔ یہ امور میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے ہونگے جبکہ جرائم پیشہ دہشت گرد کو دو طرح کی صورتحال کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ اگر سیکیورٹی اہلکار انہیں منتشر کرنے کی کوشش کریں تو اطراف میں چھپے ہوئے لوگ فوراً اس کے سامنے آ کر کہیں گے ہمیں اکیلا چھوڑ دو، اگر سیکیورٹی اہلکار واپس جانے پر تیار نہ ہوں تو یہ گروہ فوراً ان کے ساتھ الجھ کر ایسی صورتحال پیدا کرے گا کہ گویا وہی اس سارے مظاہرے کے منتظم ہیں اور گویا وہ مظاہرین کو پرامن منتشر کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن سیکیورٹی اہلکار ہر صورت فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہو گا کہ یہ لوگ مظاہرین کو سیکیورٹی فورسز کے ساتھ دست و گریبان کرکے خود درمیان سے ہٹ جائیں گے اور میڈیا نیٹ ورک اس کی فلمبندی کرکے اندرون ملک و بیرون ملک تشہیر کا بندوبست کرے گا، تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جاسکے اور عالمی پریشر کیلئے بنیاد فراہم کی جاسکے۔ درعا، لطاقیہ اور بعض دیگر شہروں میں ہونے والے ابتدائی فسادات اسی پروگرام کے عین مطابق تھے۔
یاد رہے کہ درعا میں حکومتی کرنل کو اس کے 3 بچوں سمیت مار دیا گیا جبکہ اب تک مارے جانے والوں میں سے بڑی تعداد حکومتی افراد، سیکیورٹی و انٹیلی جنس اہلکاروں کی ہے۔ لیکن منظم عالمی سازش کے تحت میڈیا اسے اور انداز میں پیش کر رہا ہے۔ پلان میں حتّٰی یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ کسی لمحہ بھی حکومتی اقدامات پر اطمینان نہیں ہونے دینا اور کسی بھی سمجھوتے کو سبوتاژ کرنا ہے، تاکہ کوئی درمیانی راستہ نہ نکل سکے۔ اس کام کیلئے حکمران پارٹی کے دفاتر کو جلانا، اور علامتوں مثلاً مجسمہ وغیرہ کو منہدم کرنا بھی پلان میں شامل تھا۔ منصوبہ کا ایک اہم حصہ لسانی گروہوں کی نیٹ ورکنگ کے ذریعے مختلف لسانی گروہوں کو لڑوانا اور فسادات کروانا تھا۔ اس خطہ میں عرب، کرد اور دیگر لسانی گروہوں کو دست و گریبان کرنے کا ہدف تھا۔ تاکہ مرکزی حکومت کمزور ہو اور اسکے لئے بیک وقت اتنے مسائل پر قابو پانے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ پلان کے مطابق فطری طور پر صدر بشار الاسد اپنی لیڈر شپ کو مذاکراتی عمل اور نگرانی کے کاموں کیلئے مختلف مناطق میں بھیج دیں گے اور یہی وہ بہترین وقت ہو گا، جب دارالحکومت میں لاوا پھٹ پڑے گا اور شہر بدترین فسادات کا نظیر ہو، یہی وہ وقت ہو گا جب بزنس کمیونٹی اور دیگر اہم خریدی ہوئی شخصیات فوج پر زور دیں گی کہ وہ خود کو صدر بشارالاسد سے جدا کر لیں۔ اور ایک نئی حکومت کی تشکیل دیں۔ اسی کام میں فوج کے اندر خریدے ہوئے آفیسر اہم کردار ادا کریں گے۔ نتیجتاً ایک سپریم نیشنل کونسل کی تشکیل عمل میں آجائے گی۔ جو امور مملکت سنبھال لے گی اور پہلے کاموں میں سے ایران اور حزب اللہ و حماس سے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کرے گی۔ رپورٹ کے مطابق ڈاٹ اینڈ کام نامی کمپنی کہ جس کا ہیڈ کوارٹر اردن میں ہو گا مظاہرین کی بھرتی اور ان کے مالی معاملات کو منظم کرے گی۔ یہ کمپنی جو سعودی انٹیلی جنس کی ملکیت اور شہزادہ بندر بن سلطان کے زیرانتظام و انصرام چلتی ہے اس تمام عمل کی باقاعدہ مانیٹرنگ بھی کرے گی۔
ایران جو عملاً اس مشکل سے نمٹنے میں شام کی حکومت کی معاونت نہیں کر رہا، نے اس تمام تر منصوبے کو بروقت بے نقاب کرنے میں شامی اداروں کی بے حد مدد کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شامی حکومت نے معاملات کی درست شناخت کی ہے۔ درعا میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز میں کئی ایسے گروہ کہ جو اسی منظم منصوبے کا غیر مربوط حصہ تھے پکڑے گئے، بھاری مقدار میں اسلحہ اور کمیونیکشن آلات برآمد ہوئے، جبکہ بعض ایسے جرائم پیشہ افراد بھی گرفتار کئے گئے کہ جو فقط اس ایک کام کیلئے منطقہ میں تقسیم تھے اور حیرت انگیز طور پر غیر شامی افراد کی ایک تعداد بھی زیر حراست لی گئی ہے کہ جنہوں نے سعودی عرب اور اردن کے ساتھ اپنے روابط کو قبول کرلیا ہے۔
 یقیناً دنیا کو شام کے معاملات کی درست شناخت کیلئے اسے اسلامی بیداری کی لہر سے الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ شام کا موقف ہمیشہ اسلامی انقلابی موقف سے ہم آہنگ رہا ہے اور یہاں ہونے والے مظاہرے خطے میں جاری دیگر مظاہروں کے تناظر میں نہیں البتہ وقت کا انتخاب اسی لیے ہی کیا گیا، تاکہ عالمی میڈیا سمیت خود شام کے لوگ بھی دھوکہ میں رہ کر اس سازش کا حصہ بن جائیں۔ منصوبہ کی کلیات کے سامنے آنے کے بعد منصوبہ کی جزئیات کی طرف پیش رفت شامی حکومت کیلئے آسان تو ہو گئی ہے، لیکن اسے حد درجہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کسی بے گناہ کا خون نہیں بہنا چاہیے اور نہ ہی حکومتی طاقت کا اندھا دھند استعمال درست نتیجہ دے سکتا ہے۔ شام کو انتہائی حکمت کے ساتھ ان معاملات کو دیکھنا ہو گا۔ شامی حکومت کی ذرا سی غلطی تاک میں بیٹھے دشمن کو موقع دے سکتی ہے اور یہ فقط شامی حکومت کا زوال نہیں ہو گا بلکہ خطے میں فلسطینی اہداف کو بڑا نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی ہے۔
موجودہ صورتحال سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت نے کوئی بڑی غلطی نہ کی تو ان فسادات کا تدارک کر لیا جائے گا اور شام خطے میں مزید مضبوط ملک بن کر سامنے آئے گا۔ ایمرجنسی کا خاتمہ، اصلاحات کا اعلان، کردوں کو باقاعدہ شہریت دینے کا فیصلہ، ایسے اقدامات ہیں کہ جو مثبت اور بر وقت ہیں یقیناً منصوبے کے مطابق مخصوص گروہ نہ ان اقدامات سے خود مطمئن ہونگے اور نہ دیگران کو ہونے دیں گے لیکن اگر ہوشمندی کے ساتھ اور واقعات کی درست شناخت کے ساتھ حکومت عوامی انداز سے آگے بڑھی، تو مشکل ٹل جائے گی۔ شامی صدر نے بجا طور پر درعا وغیرہ میں گرفتار و مظاہرین کو بہکاوے میں آنے والے مخلصین قرار دے کر رہائی عطا کی ہے اور درعا کو شام کا دل قرار دیتے ہوئے درعا کے مسلمانوں کا خون اپنا خون قرار دے کر ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے  جو انتہائی بہترین قدم ہے، لیکن دشمن کسی طور عوام کو اطمینان نہیں آنے دے گا۔ اہم مہروں کا بے نقاب ہونا جہاں حکومت کیلئے ضروری ہے، وہاں عوام کی تشفی کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 70762
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

agar aisa he hai tau wahan ke awam q ek islam dost hukumat ke khelaf uth khare hui hai. is ke bhe wazahat karein.

kia shami hukumat jo ap k baqoul islam ke hemayati hai apne awam ke falah o behbud k liay kam nai khai hai? us ka awam se rishta itna kamzor q hai akhir?
ہماری پیشکش