0
Friday 9 Mar 2018 11:32

شام کا معاملہ، زمینی حقائق اور پاکستانی میڈیا

شام کا معاملہ، زمینی حقائق اور پاکستانی میڈیا
تحریر: تصور حسین شہزاد

شام میں کیا ہو رہا ہے،؟ امت مسلمہ کی اکثریت اس پر کنفیوز ہے۔ کلام حق کی ایک آیت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یہود و نصاریٰ تمھارے پاس کوئی خبر لائیں تو پہلے اس کی تصدیق کر لیا کرو۔ قرآن چونکہ قیامت تک آنیوالوں کیلئے چراغ ہدایت ہے، اس لئے یہ آیت موجودہ دور کے ضمن پر 100 فیصد صادق آتی ہے، آج خبریں پہنچانے کا سارا کام یہود و نصاریٰ ہی سرانجام دے رہے ہیں۔ مغربی میڈیا پوری دنیا پر اپنا نیٹ ورک رکھتا ہے۔ سی این این، ہو یا روئیٹر ایجنسی، بی بی سی ہو یا سکائی نیوز، اے ایف پی ہو یا کوئی اور بڑا ادارہ، پورے میڈیا پر یہود و نصاریٰ کا قبضہ ہے۔ بطور پاکستانی صحافی راقم یہ جانتا ہے کہ ہمارا میڈیا کہاں سے معلومات "کشف" کرتا ہے۔ ہمارے پورے میڈیا کا انحصار یہود و نصاریٰ کے میڈیا پر ہے۔ شام میں ہمارا کوئی چینل اپنا نمائندہ نہیں رکھتا، یمن میں کیا ہو رہا ہے، ہمارا میڈیا اس معاملے میں بے بس ہے۔ ریاض سے لے کر قاہرہ تک اور بغداد سے دمشق تک، واشنگٹن سے ماسکو تک اور قاہر سے کویت تک غرض دنیا بھر میں ہمارے میڈیا کو براہ راست رسائی حاصل نہیں۔ ہمیں صرف اس خبر کا علم ہوتا ہے جو مغربی میڈیا فراہم کرتا ہے۔ مغربی میڈیا ہر خبر میں "اینگلنگ" کرتا ہے۔ وہ ہر خبر سے اپنا مفاد حاصل کرتا ہے۔ مغرب کے اس منہ زور میڈیا کا مقابلہ کرنے کیلئے کچھ مسلمانوں نے بھی اپنے میڈیا گروپ بنائے مگر ان کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی مغرب کی گرفت مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج شام کے معاملے پر جہاں پاکستانی میڈیا گمراہ ہو چکا ہے وہیں پاکستانی عوام بھی مغربی میڈیا کی دی گئی "لائن" پر ہی چلتے دکھائی دیتے ہیں۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ شام میں دہشتگردوں کی ٹھکائی ہو رہی ہے۔ یہ وہ دہشتگرد ہیں جن کو سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ عین ایسے، جیسے افغانستان کیلئے امریکہ نے ہمارے "مرد مومن" سے طالبان بنوائے تھے اور انہیں "مجاہدین اسلام" کا لقب دیا گیا، بعدازاں جب روس کے ٹکڑے ہو گئے تو وہ "مجاہدین اسلام" دہشتگرد قرار پائے۔ اور ان مجاہدین کے بانی نے "دہشتگردی کیخلاف عالمی جنگ" میں ہمیں بھی اس لئے شامل کر لیا کہ اس شیطان نے بندوق ہمارے کندھے پر رکھ کر چلائی تھی۔ افغانستان میں تو امریکی مقاصد پورے ہوگئے۔ اس لئے طالبان کی مزید ضرورت نہیں رہی اس لئے انہیں دہشتگرد قرار دے کر ان کی سرکوبی کا پروانہ جاری ہو چکا ہے۔ جبکہ شام میں ابھی امریکی و اسرائیلی مقاصد پورے نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شامی فورسز نے دہشتگردوں کو پسپائی مجبور کر دیا تو دہشتگردوں کے حامیوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ انہیں نام نہاد مجاہدین کی ہلاکتوں کا نہیں بلکہ اپنے منصوبے میں ناکامی کا دکھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جعلی لاشیں اور غزہ و فلسطین کے مظلوموں کی تصاویر کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر "نہتے شامی عوام" بنا کر دکھایا جا رہا ہے۔ ہمارا چونکہ خبر کا ماخوذ مغربی میڈیا ہے اس لئے ہم اس کی ہی زبان بول رہے ہیں اور مغرب کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں کہ بشارالاسد بڑا ظالم حاکم ہے، اپنے ہی نہتے اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دہشتگردوں کا ٹھکانہ تباہ ہو تو مغربی میڈیا زمین آسمان کے کلابے ملا دیتا ہے۔ اور دوسری جانب لاکھوں شامی عوام بشارالاسد کی حمایت میں نکل آئیں تو میڈیا کو دکھائی ہی نہیں دیتا۔ کیا ہم نے کبھی مغربی میڈیا اور اس کے پاکستانی "مقلدین" سے یہ پوچھا ہے کہ یہ دوہرا معیار کس لئے؟؟

مشرقی غوطہ 2013ء سے دہشتگردوں کے قبضے میں ہے۔ دہشتگردوں نے عام شہریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ 5 سال سے دہشتگردوں نے خود ہزاروں شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے۔ اس پر مغربی میڈیا نے کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ اب اگر شامی حکومت نے اپنے شہر کو دہشتگردوں سے چھڑوانے کیلئے آپریشن شروع کیا ہے تو پوری دنیا میں واویلا مچ گیا ہے۔ دہشتگردوں نے ہسپتالوں پر قبضہ کر رکھا ہے، سکولوں میں بچوں کو جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ خوراک کے ذخائر بھی دہشتگردوں کے قبضے میں ہیں۔ جبکہ عوام کی جانب سے مسلسل حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کرکے انہیں نجات دلائیں۔ اب اگر آپریشن میں دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ ہو رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے بشارالاسد حکومت نہتے عوام کا قتل عام کر رہی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جائیں، ان کا قتل عام کیا جائے تو اقوام متحدہ سمیت مغرب اسے میانمر کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں اور اگر شام میں حکومت دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کرے تو پوری دنیا چڑھ دوڑتی ہے۔ مسلمانوں عتاب کا شکار رہیں تو کسی کو انسانی حقوق یاد آتے ہیں نہ اقوام متحدہ کا چارٹر دکھائی دیتا ہے اور اگر دہشتگردوں کا صفایا کیا جائے تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے، یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی پامالی ہے۔ کشمیر میں بھارت برسوں سے انسانی حقوق پامال کر رہا ہے، فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن داعشی دہشتگردوں کو انسان کہنے والا مغربی میڈیا کشمیر اور فلسطین میں کیوں اندھا ہو جاتا ہے؟ کیا پاکستانی میڈیا کے کرتا دھرتا اس سوال کا جواب دیں گے؟؟

شام کی صورتحال پر حزب اللہ اور پاسداران انقلاب کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ ان دونوں گروہوں پر تنقید کلی طور پر اسرائیلی موقف ہے۔ حزب اللہ شیعہ ملیشیاء ضرور ہے مگر لبنان میں سنی اور عیسائی حزب اللہ کی موجودگی میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ حزب اللہ نے کبھی کسی مسلمان کو نقصان نہیں پہنچایا، لبنان میں سنی عوام حزب اللہ کے بڑے حامی ہیں، اسی طرح شام میں بھی اگر حزب اللہ موجود ہے تو وہ مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے ہے، لیکن اسرائیل حزب اللہ کی شام میں موجودگی کے باعث ہی خوفزدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو اس بات پر بھی دکھ ہے کہ شامی فورسز نے اسرائیلی ایف سولہ مار گرایا ہے۔ اسرائیل یہ شور تو مچا رہا ہے کہ شامی فورسز نے اس کا طیارہ مار گرایا ہے لیکن یہ نہیں بتا رہا کہ اسرائیلی ایف سولہ طیارہ شامی حدود میں کیا کر رہا تھا؟ جہاں تک پاسداران انقلاب کی بات ہے تو ایران اور شام کے درمیان دفاعی معاہدہ ہے۔ یہ ایسا ہی معاہدہ ہے جس طرح پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے کے مطابق سعودی عرب کی سلامتی کو جب بھی خطرہ ہو گا پاکستان مدد فراہم کرے گا۔ اسی طرح تہران اور دمشق کا بھی دفاعی معاہدہ ہے کہ اگر شام کی سلامتی خطرے میں ہوئی تو تہران مدد کرے گا اور ایران کی سلامتی کو کوئی خطرہ ہوا تو شام مدد دے گا۔ یہ معاہدے قانونی ہیں اور دنیا میں بہت سے ممالک نے یہ معاہدے کر رکھے ہیں، خود اسرائیل کا امریکہ کیساتھ معاہدہ ہے، جب ایسی صورتحال ہے تو پھر اس بات کو ایشو بنانا کہ ایران شام میں کیا کر رہا ہے، بے بنیاد پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔ اس معاملے میں پاکستانی میڈیا کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ مغربی میڈیا کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر یہ منصبی خیانت تصور کی جائے گی اور اللہ کی مقدس کتاب سے روگردانی بھی۔
خبر کا کوڈ : 710094
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش