0
Friday 1 Jun 2018 06:16

ایران کا جوہری معاہدہ، امریکہ کی من مانیاں اور اقوامِ عالم کا ردعمل(2)

ایران کا جوہری معاہدہ، امریکہ کی من مانیاں اور اقوامِ عالم کا ردعمل(2)
تحریر: فدا حسین بالہامی
fidahussain007@gmail.com

گذشتہ سے پیوستہ
معاہدہ شکنی کے دورس اثرات:
فی الواقع ماسوائے ایک دو ممالک پوری عالمی برادری نے اس معاہدے کا ایک مثبت تبدیلی کے طور خیر مقدم کیا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ اولین روز سے ہی اس معاہدے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے۔ ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ یہ معاہدہ اس کے گلے میں کسی آتشی طوق جیسا ہے، جو اسے کافی تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے ہے اور وہ موقع پاتے ہی اس طوق کو اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ معاہدہ اس لحاظ سے نہایت ہی پیچیدہ ہے کہ محض ایران اور امریکہ کے مابین آپسی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ روس، فرانس، چین، برطانیہ، امریکہ اور جرمنی کے درمیان یورپی یونین کی نظارت میں طے پایا ہے۔ لٰہذا محض امریکہ کا اس معاہدہ کو توڑ دینا اسکی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکتا ہے، بشرطیکہ کہ معاہدہ کے دیگر فریق اس کی ساخت کو بحال رکھنے کے لئے دلیرانہ اقدام اٹھائیں۔ فی الوقت ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امریکہ کی طینت کو ظاہر کر دیا ہے ، کیونکہ عہد شکنی اس کی طینت میں شامل ہے۔ حالانکہ بین الاقوامی اصول و قوانین کے مطابق اور معاہدہ کی رو سے اس معاہدے کو توڑنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ کسی بھی عالمی قانون کے مطابق اگر کسی بھی ملک کی حکومت کی انتظامیہ کوئی معاہدہ کرتی ہے تو یہ معاہدہ محض ملک کی نمائندگی کرنے والے مذاکرات کاروں کی طرف سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ معاہدہ پورے ملک کی جانب سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے انتظامیہ کے بدلنے کے بعد نئی انتظامہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گذشتہ انتظامیہ کی جانب سے کئے گئے تمام عالمی معاہدوں کی پاسداری کرے۔

بالفرض ٹرمپ کی طرح اگر ہر کوئی ملک انتظامیہ کے تبدیل ہونے پر تمام معاہدوں سے مکر جائے تو دنیا کی صورت حال کیا ہوگی۔ ایسی صورت حال میں عالمی سطح پر بین المللی اعتماد و اعتبار کا کیا حشر ہوگا، بخوبی اندزاہ لگایا جا سکتا ہے۔ قومیں ایک دوسرے سے بدظن ہوں گی۔ ایک ملک دوسرے ملک کو شک کی نگاہ سے دیکھے گا۔ کسی بھی عالمی رہنماء کی زبان پر بھروسہ نہیں کیا جائے گا۔ عالمی تعاون اپنے آپ ہی مفقود ہوگا۔ دنیا میں جنگل کا راج نافذ ہوگا اور عالمی امن کی بیخ کنی ہوگی۔ یہ تو معاہدہ شکنی کے دورس اثرات ہوئے۔ فی الوقت اس کے فوری نتائج و اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ چنانچہ امریکہ نے شمالی کوریا کے ساتھ طویل عرصہ سے مخاصمت کو کم کرنے کی حال ہی میں ایک کوشش کی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو جب یہ لگا کہ شمالی کوریا کے حکمران کم جانگ کو اس کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے بلکہ وہ ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہا تھا تو انہوں نے امریکہ اور شمالی کوریا میں آپسی دشمنی کو کم کرنے کے لئے شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت کرنے کی آمادگی ظاہر کی تھی۔ دونوں رہنماء کے مابین ملاقات اسی سال 12 جون کو متوقع تھی۔ لیکن ایران کے جوہری معاہدے کو توڑنے کا فوری اثر یہ ہوا کہ شمالی کوریا نے طے شدہ ملاقات پر نطرثانی کرنے کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی ساتھ جوہری معاہدے کو منسوخ کرنے کے تناظر میں طے شدہ ملاقات پر بجا طور پر اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دراصل شمالی کوریا کی قیادت کو یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ جو امریکہ متعدد ممالک کے ساتھ کئے گئے وعدے کا پاس و لحاظ نہیں کرتا، وہ دوجانبہ ملاقات میں لئے گئے فیصلوں پر کیسے کاربند رہ سکتا ہے۔

ٹرمپ نے جھوٹ کا سہارا لیا:
بہر صورت عالمی قوانین کا راگ الاپنے والا امریکہ ہر بار کی طرح اس بار بھی اپنی اصل صورت کو چھپا نہیں پایا۔ ٹرمپ نے اولین روز سے ہی اس معاہدے سے نکالنے میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے اور ان الزامات کو بنیاد بنا کر معاہدے کو ختم کرنے کا بہانہ تراشا جو ے بنیاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایٹمی معاہدے سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے ہیں۔ اس نے ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایران دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا حامی ہے اور وہ حزب اللہ لبنان، حماس فلسطین کے علاوہ القاعدہ اور طالبان کی بھی مدد کرتا آیا ہے۔ اول تو معاہدہ محض ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے اور بدلے میں اس پر اقتصادی پابندیوں کو ہٹانے کی غرض سے طے پایا ہے۔ ثانیاً یہ بات تو کسی بھی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ایران حزب اللہ اور حماس کی اعلانیہ اور ہر ممکنہ حمایت اور امداد کر رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ کا یہ کہنا مضحکہ خیز جھوٹ ہے کہ ایران نے القاعدہ اور طالبان کو پروان چڑھایا ہے اور ابھی بھی ان کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ جسے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ امریکہ نے اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لئے ہر وقت جھوٹ اور مکر و فریب سے کام لیا ہے۔ رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے اس سلسلے میں کہا کہ ایٹمی معاہدے کو توڑنے کا اعلان کرتے وقت مسٹر ٹرمپ نے ایک ہی سانس میں کم از کم دس جھوٹ بولے۔ حقائق کو مسخ کرنا امریکی حکمرانوں کی فطرتِ ثانی بن چکی ہے۔ انہیں داخلی اور خارجی سطح پر یہ اخلاقی جرأت کبھی بھی نصیب نہ ہوئی کہ وہ سچ کا سامنا کرسکیں۔

چور مچائے شور:
تعجب خیز امر یہ ہے کہ ایرانی قوم کو ایک احتمالی جرم کی سزا دی جا رہی ہے اور بقولِ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے ’’اس احتمالی جرم یعنی جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور پھر اس کے استعمال کا شوشہ وہ شخص(نیتن یاہو) بار بار چھوڑتا آیا ہے کہ جو خود چار سو کے قریب نیوکلیر ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھا ہے اور جو ممالک اس کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر سامنے آتے ہیں، انہوں نے ہی این پیٹی کی قراردادوں کو پائمال کرکے اسرائیل کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔"

کھسیانی بلی کھمبا نوچے:
بہر کیف جوہری ٹیکنالوجی ایک بہانہ ہے، جس کو بنیاد بنا کر ایران کے دشمن اسے زیر کرنے میں استعمال کر رہے ہیں، اصل معاملہ تو کچھ اور ہے۔ دراصل اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے اپنے گلے سے امریکہ کی غلامی کا طوق اتار پھینکا ہے اور اس کے مکروہ عزائم کی راہ میں بار بار مزاہم ہو رہا ہے۔ عسکری اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے امریکہ کے مقابلے میں نہایت ہی کمزور ملک ایران گذشتہ چالیس سال سے امریکہ اور اسرائیل کی گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ وہ اسے اگل پاتے ہیں اور نہ نگل پاتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایران جیسا چھوٹا سے ملک اتنی بڑی طاقتوں کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ علی الخصوص مشرق وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کو ہر بار ایران کے ذریعے ہی زک پہنچی ہے۔ اب تک تو امریکہ بلا روک ٹوک اس خطے میں کوئی بھی اپنا شیطانی منصوبہ عملاتا آیا ہے، لیکن اسکی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی وہ عراق، یمن اور شام جیسے ملکوں میں پہلی بار اسے شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ دوسری جانب خوابِ خرگوش میں مست روس اور چین جیسی امریکہ کی حریف طاقتیں بھی ایران کی جرأت دیکھ کر ایک بار پھر امریکہ کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہوگئیں اور اس طرح ایک امریکہ مخالف بلاک دنیا میں وجود پذیر ہوا۔ چنانچہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو وجود میں لاکر مشرقِ وسطیٰ کے لئے جو تازہ منصوبہ امریکہ اور اسرائیل نے مشترکہ طور بنایا تھا۔ اس کی راہ میں یہی امریکہ مخالف بلاک سدِراہ ہوا۔ جس کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل کی ایران دشمنی کا پارہ اپنی آخری حد تک جا پہنچا۔ اپنی ناکامی کا سارا کا سارا نزلہ انہوں نے نیوکلیر معاہدے پر ہی اتارا، کیونکہ کھسیانی بلی کو کھنمبا نوچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

جہاں زور نہ چلے وہاں اقتصادی پابندی:
دیکھا گیا ہے کہ جہاں امریکہ کی عسکری طاقت ناکام ہو جائے، وہاں وہ ایک اور کارگر ہتھیار استعمال میں لایا جاتا ہے اور وہ کارگر ہتھیار ’’اقتصادی پابندی‘‘ ہے۔ اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کاروباری اور اقتصادی دنیا پر فی الوقت امریکہ کی گرفت کافی مضبوط ہے۔ اس میدان میں امریکہ اپنے مخالفوں کو بآسانی چاروں شانے چت کرتا آیا ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کو امریکہ کے ’’عسکری تسلط‘‘ سے زیادہ ’’اقتصادی تسلط‘‘ کا خوف لاحق ہے اور دنیائے اقتصاد میں امریکہ کی اجارہ داری دنیائے سیاست پر بھی وقتاً فوقتاً حاوی ہو جاتی ہے۔ باوجود اس کے بہت سے ممالک کو امریکہ کے بیشتر سیاسی فیصلے منظور نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے معاشی و اقتصادی مفادات کے پیش نظر وہ اس کے ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس لئے زیرِ بحث نیوکلیر معاہدے پر بھی امریکہ کا معاشی تسلط اثر انداز ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری امریکہ کے اس حربے کا توڑ مل کرے۔ فرانس کے وزیرِ خارجہ نے اس ضمن میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی فیصلے پر کھلی تنقید کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ امریکی فیصلے کی قیمت یورپی کمپنیاں کیوں ادا کریں۔ بی بی سی اردو سروس کے مطابق اس تناظر میں فرانس کے وزیر معیشت نے کہا ہے کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ یورپی کمپنیاں امریکہ پر انحصار کرنا بند کر دیں۔ انہوں نے کھلے الفاظ میں صدر ٹرمپ کے اس اقدام کی تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ یورپ کو چاہے وہ امریکہ کی معاشی غلامی سے خود کو آزاد کرے اور اب وقت آگیا ہے کہ معاشی خود مختاری کے لئے یورپی ممالک زبانی جمع خرچ کے بجائے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے۔‘‘ علاوہ ازیں ہندوستان کی وزیر خارجہ ششما سوراج نے بھی ایک سوال کہ امریکہ کی جانب سے امریکہ کی عائد کردہ پابندیوں کو ہندوستان بھی عمل کرے گا تو انہوں نے کہا کہ ہندوستان کسی ایک ملک کی عائد کرہ پابندیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ اس کی نظر میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں معتبر اور قابلِ اطلاق ہیں۔

امریکہ کو شکست دینے کا ایک سنہری موقع:
اگر دنیا بھر کے رہنماء اپنے انہی بیانات کو عملائیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ امریکہ اقتصادی میدان میں تنہاء ہو کر رہ جائے گا۔ پوری دنیا کو اقتصادی پابندی کے بھوت سے ڈرانے والا خود ہی اقتصادی پابندی کا شکار ہوگا اور یوں عالمی معیشت پر اس کی برتری اور استحصالی حیثیت کا خاتمہ ہوگا۔ ایران اور اس کے چند ایک اتحادیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ عسکری اعتبار سے ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ اب ایرانی قیادت کو چاہے کہ وہ اپنے تدبر سے یہ بھی ثابت کر دے کہ امریکہ کو اقتصادی میدان میں بھی ہرایا جا سکتا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ اقوامِ عالم اس غیور قوم کو اپنا تعاون پیش کریں۔ یقیناً عالمی برادری بشمول یورپی یونین کو ٹرمپ نے ایک اور موقع فراہم کیا ہے کہ وہ امریکہ کی دنیائے معیشت پر اجارہ داری کو چلنیج کرے۔ اگر وہ اس معاملے میں متحد ہو کر امریکی من مانیوں کو توڑ کرنا چاہے تو کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ بہت جلد گھٹنے ٹیک دے گا۔ دراصل اس کی بدعہدی اور من مانی کا بنیادی سبب اس کا سپر پاور ہونا نہیں ہے بلکہ عالمی برادری کی بے اتفاقی اور ارادے کی کمزوری ہے۔

یہی وجہ ہے ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے یورپی یونین کے توانائی کے شعبے کے سربراہ میگوئل اریاس کانتے کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ’’ایرانی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنے کے لئے یورپی یونین کی حمایت ناکافی دکھائی دیتی ہے۔" خوش آئند امر یہ ہے کہ معاہدے کے دیگر فریقین نے اس عزم کا بارہا اعادہ کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کو موثر رکھنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ وائس آف جرمنی نے ایک جرمن اخبار کے حوالے سے یہ خبر اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہے کہ برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین اور روس کے سفارت کار آئندہ جمعے کے روز آسٹریا کے دارالحکومت میں ملاقات کر رہے ہیں، تاکہ ایران کی عالمی جوہری ڈیل کے حوالے سے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔ دیکھنا یہ ہے لائحہ عمل کیا ہوگا اور اس کو عملی جامہ پہناننے کے لئے یہ ممالک امریکہ کی دشمنی مول لے پائیں گے؟ یا ان کے بیانات کی تان بالآخر امریکی دھونس کی چوکھٹ پر آکر ٹوٹ جائے گی اور پوری دنیا کو امریکہ کی اقتصادی اجارہ داری سے آزاد کرانے کا ایک اور سنہرا موقع گنوا بیٹھیں گے۔
خبر کا کوڈ : 728739
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش