0
Friday 31 Aug 2018 19:20

صوبہ جنوبی پنجاب، وزیراعلیٰ کا امتحان

صوبہ جنوبی پنجاب، وزیراعلیٰ کا امتحان
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پنجاب میں الگ صوبوں کے قیام کے حوالے سے سامنے آنیوالی مختلف آوازوں اور مطالبات کا جائزہ لیں تو سرائیکی صوبہ، صوبہ ملتان، صوبہ بہاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کیلئے 1970ء سے ہی یہاں کے احساس محرومی اور مشکلات کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔ اس خطے کے سیاستدانوں، ادباء، شعراء، دانشوروں غرض کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے یہاں کی احساس محرومیوں اور مشکلات کو ہمیشہ اجاگر کیا۔ آئینی اور قانونی طور پر ہم ایک فیڈریشن ہیں۔ ہمارا تین سطحی حکومتی نظام ہے جن میں وفاقی، صوبائی اور بلدیات یا مقامی حکومتیںشامل ہیں۔ اب تک ہمارے 7نیشنل فنانس ایوارڈ آئے ہیں حالانکہ آئین یہ کہتا ہے کہ ہر پانچ سال بعد نیشنل فنانس ایوارڈ آنا چاہیے۔ اس حساب سے اب تک 14 فنانس ایوارڈ آنے چاہیے تھے مگر آخری فنانس ایوارڈ کو بھی 9,8 سال ہو چکے ہیں۔ 1947ء سے 71ء تک جب گریٹر پاکستان تھا تو حکمرانی کے تقاضے تھے کہ برابری کی سطح پر ملک کا نظام چلایا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان میں احساس محرومی پایا جاتا تھا جسے دور نہیں کیا گیااور اس کے نتائج بحیثیت قوم ہمیں بھگتنا پڑے۔ آغاز میں امریکا کی 13 ریاستیں یا صوبے تھے، مگر آج ان کی تعداد 50 ہے۔ اپنے نظام حکومت میں انہوں نے جو اصول وضع کیے ہیں وہ اس پر کاربند رہتے ہیں۔ امریکا، فرانس، اٹلی و دیگر ممالک صوبوں اور ریاستوں کی تقسیم کے حوالے سے باقاعدگی سے ریفرنڈم کراتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ریفرنڈم کی ضرورت تھی جو کبھی نہیں کرایا گیا۔ ہم نے دیگر موضوعات پر تو ریفرنڈم کرائے لیکن عوام کے حقوق کیلئے کوئی ریفرنڈم نہیں کرایا گیا۔

اس وقت سب سے اہم ضرورت جنوبی پنجاب صوبے کا قیام ہے کیونکہ ہم تخت رائیونڈ کے قیدی بنتے جارہے ہیں۔ صوبہ پنجاب ملک کی نصف آبادی پر مشتمل ایک بڑا صوبہ ہے یہی وجہ ہے کہ وسائل کی تقسیم بھی غیر منصفانہ ہوتی ہے۔ 652 ارب روپے کا 57 فیصد بجٹ صر ف لاہور پر خرچ کیا جاتا ہے، کیونکہ لاہور کے ساتھ شریف خاندان کے مفادات وابستہ ہیں جبکہ انہیں دیگر علاقوں کی قطعاً پرواہ نہیں ہے۔ ہم جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے میں جتنی دیر کریں گے، پاکستانی عوام کے ساتھ اتنی ہی زیادتی ہوگی، کیونکہ یہ ملک و قوم کی ضرورت ہے۔ ہم اسے سیاسی یا لسانی بنیاد پر ہرگز نہیں دیکھ رہے، بلکہ انتظامی ضروریات کے لحاظ سے الگ صوبہ کا قیام بہت ضروری ہے۔ پنجاب میں ایک نہیں زیادہ نئے صوبوں کی ضرورت ہے۔ سیاستدانوں نے تو شاید اب یہ آواز اٹھائی ہے، مگر اس خطے کے رہنے والوں نے طویل عرصہ سے الگ صوبہ کے قیام پر آواز اٹھا رکھی ہے۔ ہم کسی چھوٹے مسئلے کے حل کیلئے صادق آباد سے 10 گھنٹے کا سفر کرکے لاہور جائیں، وہاں سیکرٹری کے دربار میں حاضر ہوں، وہ ملے ہی نہ تو کتنی مایوسی ہوتی ہے اور پھر یہ دس گھنٹہ کا مشکل سفر کیوں کیا جائے؟ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا مطالبہ خدانخواستہ دشمن ملک میں شامل ہونے کا نہیں بلکہ اپنے خطے کے عوام کیلئے الگ گورنر، وزیراعلیٰ، ریونیو بورڈ اور دیگر جائز ضروریات اور حقوق کے تحفظ کا مطالبہ ہے۔ عملی طور پر سب سے زیادہ پیپلز پارٹی نے نئے صوبے کے قیام کیلئے اقدامات اور کوششیں کی ہیں۔

جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی باتیں آج سے نہیں کئی دہائیوں سے کی جا رہی ہیں۔ تاج محمد لنگاہ مرحوم نے سرائیکی پارٹی بنا کر اس کے لئے آواز اٹھائی، مگر انہیں پذیرائی نہ مل سکی، وہ جب انتخابات میں ایم این اے کی نشست پر امیدوار کھڑے ہوتے تو انہیں بمشکل دو اڑھائی سو ووٹ ملتے اور ضمانت ضبط ہو جاتی، تاہم وہ خود سرائیکی خطے کی علامت بن گئے تھے۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں سرائیکی خطے کی محرومیوں کا ذکر بہت ہوا ہے۔ اس عرصے میں الگ صوبے کی آواز بھی زیادہ توانائی کے ساتھ ابھری ہے۔ نئی سرائیکی قوم پرست تنظیمیں بھی اسی مدت میں سامنے آئیں، انہوں نے جب اسے ایک تحریک کے طورپر آگے بڑھایا تو سیاسی جماعتوں کو بھی بھنک پڑی۔ خاص طور پر انہیں اپنے ووٹ بینک کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ پھر یہ بھی سب نے دیکھا کہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف الگ صوبے کا علم لے کر میدان میں آ گئیں۔ پتہ نہیں وہ دل سے چاہتی تھیں یا نہیں، تاہم انہیں زبان سے یہ اقرار ضرور کرنا پڑا کہ وہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے حق میں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے۔ سردار عثمان احمد بزدار مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کر کے رواں سال عام انتخابات میں آزاد امیدوار الیکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے چھ ارکان قومی اسمبلی نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر کے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم کر دیا، جس کا سرپرست سابق وزیر اعظم بلخ شیر مزاری اور صدر مخدوم خسرو بختیار کو بنایا گیا۔ صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کے جنرل سیکرٹری طاہر بشیر چیمہ اور سردار فتح محمد بزدار کے درمیان مسلم لیگ (ق) حکومت میں سیاسی تعلقات تھے، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم ہوا تو انہی تعلقات کی بنیاد پر دونوں رہنمائوں کے سیاسی رابطوں کا دوبارہ آغاز ہو گیا اور جنوبی پنجاب رابطہ مہم کے دوران 27 اپریل کو طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری اور سمیع اللہ چودھری پر مشتمل وفد سردار فتح محمد بزدار سے یونین کونسل مبارکی میں ملاقات کے لئے پہنچا، جہاں سردار فتح محمد بزدار، ان کے بیٹوں سردار عثمان احمد بزدار اور جعفر خان بزدار چیئرمین یونین کونسل مبارکی نے بزدار ہاؤس میں جلسہ عام کر کے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

جہانگیر ترین کی سفارش پر سردار عثمان احمد بزدار کو ٹکٹ جاری ہو گیا، الیکشن ہوئے تو سردار عثمان احمد بزدار 26897 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ تحریک انصاف الیکشن منشور میں صوبہ جنوبی پنجاب قائم کرنے کا وعدہ کر چکی تھی، جس کے لئے جنوبی پنجاب کے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے وہاں سے وزیر اعلیٰ لینے کا فیصلہ کیا گیا، جہانگیر ترین کو مخدوم ہاشم جواں بخت اور شاہ محمود قریشی کو حسنین بہادر دریشک کے ناموں پر اختلاف پید ا ہو گیا، عمران خان نے دونوں ناموں کو مسترد کر دیا، جہانگیر ترین نے لودھراں میں اپنی رہائش پر سردار عثمان احمد سے ملاقات کر کے ان کا نام پیش کیا، جس کو عمران خان کی جانب سے منظور کر لیا گیا۔ سردار عثمان احمد بزدار کے خلاف پولیس، ایف آئی اے، انٹی کرپشن، نیب انکوائریوں کی مکمل جانچ پڑتال کرکے انہیں کلیئر کر دیا گیا، سردار عثمان احمد بزدار الیکشن جیت کر حلف اٹھانے لاہور پہنچے، تو اپنی رہائش نہیں تھی اور جوہر ٹائون میں دوست کے دو کمروں کے فلیٹ پر قیام کیا، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چار دنوں بعد وزیر اعلیٰ پنجاب بن جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں 19 اگست 2018ء کو وزیراعلیٰ کا الیکشن ہوا تو سردار عثمان احمد بزدار 186 ووٹوں سے جیت گئے۔ سردار عثمان احمد بزدار نے تحریک انصاف میں شمولیت سے وزیراعلیٰ تک سفر صرف تین ماہ 22 دنوں کے مختصر ترین وقت میں طے کیا۔

جنوبی پنجاب صوبے کے حامی ہیں اور انکا کہنا ہے کہ عمران خان نے انہیں پسماندہ علاقے کی وجہ سے منتخب کیا، تاہم سردار عثمان احمد بزدار علاقہ کے دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد سردار فتح محمد، بزدار قبیلہ کے چیف ہیں جو ڈیرہ غازی خان، تونسہ قبائلی علاقے، سندھ اور بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے، ڈیرہ غازی خان میں بزدرار قبیلہ آبادی کے لحاظ سے لغاری، کھوسہ، قیصرانی سے بڑا ہے، بتایا جاتا ہے کہ سردار فتح محمد بزدار نے میاں چنوں ضلع خانیوال میں 10مربع زرخیز اراضی ٹھیکہ پر دے رکھی ہے، 10مربع زرعی اراضی تونسہ میں ہے، جبکہ دو ہزار ایکڑ بنجر اراضی تونسہ کے قبائلی پہاڑوں میں ہے۔ سردار عثمان بزدار کی ڈیرہ غازی خان، تونسہ، ملتان میں تین کوٹھیاں اور اثاثوں کی مالیت 14کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ ان کی اہلیہ گورنمنٹ انٹر کالج ماڈل ٹائون ڈیرہ غازی خان میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، ان کی اولاد میں تین بیٹیاں ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کے پانچ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں، بھائی عمر بزدار بارڈر ملٹری پولیس جو قبائلی علاقوں میں پولیس کے فرائض ادا کرتی ہے، اس میں جمعدار (انسپکٹر)، جعفر خان چیئرمین یونین کونسل مبارکی، ایوب، طاہر اور پانچویں بھائی زمینداری سے وابستہ ہیں۔

سردار عثمان احمد بزدار کا علاقہ بارتھی پہاڑوں پر واقع ہے، دور دراز اور دشوار گزار ہونے کی وجہ سے وہاں عوام محرومیوں کا شکار ہیں، حتیٰ کہ بجلی بھی موجود نہیں اور سولر بجلی استعمال ہوتی ہے، انسان اور حیوان ایک گھاٹ میں پانی پیتے ہیں، اس علاقہ کو پاکستان بھر میں محرومیوں کا دارالخلافہ کہا جاتا ہے، سڑکیں، پانی، بجلی، صحت، تعلیم کی سہولیات موجود نہیں اور مقامی آبادی پتھر کے زمانے میں رہتی ہے، آج بھی وہاں کھیتی باڑی کے لئے بیلوں کے ذریعے ہل چلایا جاتا ہے الغرض ہر طرف زندگی ویران اور پریشان ہے لیکن یہ حال پورے جنوبی پنجاب میں ہے جہاں زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ سردار عثمان احمد بزدار، ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری، صوبائی وزیروں میں مخدوم ہاشم جواں بخت، حسنین بہادر دریشک، محسن لغاری، سمیع اللہ خان سمیت دیگر کو اہم قلمدان سونپے ہیں، مرکز میں شاہ محمود قریشی، طارق بشیر چیمہ، مخدوم خسر بختیار کو وزاتیں سونپی گئی ہیں۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نے چھوٹے صوبوں کے آئینی اختیارات اور این ایف سی ایوارڈ پر بھی کوئی بات نہیں کی اور ان کی جانب سے سی پیک پر بھی کوئی پالیسی بیان سامنے نہیں آیا۔ مردم شماری پر صوبہ سندھ کے اعتراضات اور پانی کے مسائل بھی اس تقریر کا حصہ نہیں تھے۔ عمران خان نے بھاشا ڈیم کی بات تو کی لیکن اس سے وابستہ دیگر امور پر کچھ نہیں کہا۔ جن چیلنجز کا سامنا موجودہ حکومت کو ہے، جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزراء اور سیاستدانوں کو خصوصی طور پر اپنے صوبے کیلئے محنت کرنا ہوگی۔

عثمان بزدار کے لیے سب سے بڑا چیلنج پنجاب کی نوکر شاہی ہوگی۔ سردار عثمان بزدار ایک دھیمے مزاج کے شخص ہیں اور سیاسی طور پر اپنے والد کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں عزت کا مقام رکھتے ہیں۔ سردار عثمان بزدار نے اپنی الیکشن کمپین کے دوران تونسہ شریف کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تحصیل تونسہ شریف کو ضلع کا درجہ دلوائیں گے۔ اس لیے تونسہ شریف کی عوام بہت خوش ہے اور ان کا تحصیل تونسہ شریف کو ضلع بنانے کا دیرینہ مطالبہ پورا ہونے کو ہے۔ ضلع ڈیرہ غازیخان میں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی شدید کمی کی وجہ سے اب لوگ یہ بھی امید لگا رہے ہیں کہ تونسہ شریف کو ضلع بنانے کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات کی طرف خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ الیکشن سے قبل جو وعدے عثمان بزدار نے کیے ان میں صوبے کا ذکر نہیں، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جیسے طاقتور دھڑوں کی ترجیحات اور اختلافات میں ممکن ہے جنوبی صوبے کا مستقبل مخدوش رہے۔ ان وزارتوں سے جنوبی پنجاب کی محرومیاں ختم ہوں گی؟ کیا جنوبی پنجاب الگ صوبہ بن جائے گا؟ سرائیکی وسیب کے عوام اس حوالے سے غیر مطمئن ہیں کیونکہ اصل طاقت اسلام آباد اور لاہور میں بیورو کریسی کے ہاتھوں میں ہے، جو جنوبی پنجاب کو اپنی کالونی رکھنا چاہتی ہے، ملتان میں سول سیکرٹریٹ کا ذیلی دفتر اور چند ڈپٹی سیکرٹریوں کو ٹرانسفر کر کے عارضی بندوبست ہو گا لیکن صوبہ جنوبی پنجاب کا خواب پورا نہیں ہو گا۔ 
 
خبر کا کوڈ : 747239
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش