0
Sunday 2 Sep 2018 23:41

عراق کی تازہ ترین سیاسی صورتحال پر ایک نظر

عراق کی تازہ ترین سیاسی صورتحال پر ایک نظر
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

دو ہفتے پہلے عراقی سپریم فیڈرل کورٹ نے 12 مئی 2018ء کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کی تصدیق کر دی ہے۔ ان نتائج پر کافی عرصے سے انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں جس کے نتیجے میں ووٹوں کی بڑی تعداد کی دوبارہ گنتی کی گئی لیکن اس کے بعد بھی ان نتائج میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ عراقی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عراق کے صدر فواد معصوم نے گذشتہ ہفتے منگل کے دن اعلان کیا کہ نئی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس پیر 3 اگست کے دن منعقد ہو گا۔ عراقی پارلیمنٹ پہلے قدم کے طور پر پارلیمنٹ کے مستقل اسپیکر کا انتخاب کرے گا جس کے بعد پارلیمنٹ میں الیکشن اور دو تہائی اکثریت کے ذریعے ملک کا نیا صدر چنا جائے گا۔ صدر کے انتخاب کیلئے مختلف کرد جماعتوں سے وابستہ پارلیمانی اراکین نیز سنی اور شیعہ اراکین کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بار مرحوم جلال طالبانی اور فواد معصوم کے انتخاب کے وقت صرف ہونے والی مدت سے کہیں زیادہ وقت درکار ہو گا کیونکہ اس وقت نہ صرف شیعہ اور سنی اراکین پارلیمنٹ بلکہ مختلف کرد جماعتوں سے وابستہ اراکین کے درمیان بھی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔
 
نیا صدر منتخب ہو جانے کے بعد اس کے پاس ایک ہفتے کا وقت ہو گا تاکہ پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے نئے وزیراعظم کا نام پیش کر سکے۔ عراقی آئین کے مطابق وزیراعظم کا نام پیش کرنے کا حق ایسی پارلیمانی پارٹی کو حاصل جس کے پاس سب سے زیادہ سیٹیں ہوں گی اور عراقی اسے اپنی زبان میں "کتلہ اکبر" کہتے ہیں۔ یہ پارلیمانی گروہ وزیراعظم کیلئے نام صدر کو پیش کرے گا اور وہ اسے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے پارلیمنٹ بھیجے گا۔ اس سے پہلے وزیراعظم کا نام شیعہ پارلیمانی اتحاد کی جانب سے پیش کیا گیا تھا جس کے پاس سب سے زیادہ سیٹیں تھیں۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب انتخابات کے بعد شیعہ گروہوں نے پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کر کے کتلہ اکبر تشکیل دے رکھا تھا۔ عراق کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں شیعہ گروہوں کے درمیان بہت سخت مقابلہ ہوا جس کے نتیجے میں ایسے پارلیمانی گروہ سامنے آئے جن کی سیٹوں کی تعداد میں زیادہ اختلاف نہیں تھا۔ لہذا کتلہ اکبر تشکیل دینے کیلئے شیعہ گروہوں کے درمیان شدید مقابلہ بازی پائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ نئے وزیراعظم کا نام پیش کرنے میں مزید تاخیر سامنے آئے گی۔
 
گذشتہ الیکشن میں نوری المالکی کی سربراہی میں حزب الدعوہ کی مرکزیت میں بننے والے اتحاد "حکومت قانون" نے 91 سیٹیں حاصل کیں۔ بہت جلد چند دیگر شیعہ پارلیمانی گروہ بھی اس کے ساتھ مل گئے جس کے نتیجے میں کچھ عرصے میں ہی نوری المالکی کی صورت میں نئے وزیراعظم کا نام سامنے آ گیا۔ چار سال پہلے شیعہ پارلیمانی گروہوں نے پارلیمانی پارٹی حکومت قانون کے سربراہ کے سبکدوش ہو جانے کی شرط پر اسی پارٹی سے ایک اور شخص کا نام نئے وزیراعظم کے طور پر پیش کرنے کی اجازت دے دی اور اسی طرح ابراہیم جعفری اور نوری المالکی کے بعد تیسرا وزیراعظم بھی اسی پارٹی سے منتخب ہو گیا۔ لہذا پارلیمانی گروہوں کا حیدر العبادی کے نام پر اتفاق رائے زیادہ مشکل امر ثابت نہ ہوا۔ لیکن اب صورتحال بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ ایک طرف خود حزب الدعوہ تین حریف پارلیمانی گروہوں یعنی نصر، فتح اور حکومت قانون میں بٹ چکا ہے جن میں سے بعض کے پاس اکثریت جبکہ بعض دیگر اقلیت میں ہیں اور دوسری طرف ان کی مجموعی سیٹیں اتنی نہیں کہ آپس میں دوبارہ اتحاد کی صورت میں کتلہ اکبر ہونے کا دعوی کر سکیں۔
 
چونکہ ابھی تک شیعہ انتخاباتی گروہوں کے اندرونی اختلافات حل نہیں ہوئے لہذا حزب الدعوہ کے بعض بڑے رہنماوں کے پاس وزیراعظم کے طور پر منتخب ہونے کا امکان موجود ہے۔ یہاں یہ نکتہ بیان کرنا ضروری ہے کہ عراق میں وزیراعظم کا انتخاب اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب یا صدر کے انتخاب کی طرح صرف اندرونی قوتوں کے ذریعے ہی انجام پاتا ہے اور اس میں بیرونی قوتیں زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ مثال کے طور پر 2005ء میں جب نئے عراق کی پہلی آزاد پارلیمنٹ تشکیل پائی تو امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے ممالک نے بے تحاشہ پیسہ خرچ کر کے الیکنش کے نتائج اور اس کے قانونی اثرات کو اپنے حق میں بدلنے کی بھرپور کوشش کی لیکن عملی طور پر جو چیز سامنے آئی وہ ایک عراقی انتخاب تھا۔ ایسا انتخاب جسے یہ ممالک حقیقی طور پر ہضم نہ کر سکے اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی مدد یا کردستان کو عراق سے علیحدہ کرنے کی کوشش جیسے اقدامات کے ذریعے عراقی حکومت سرنگون کرنے کی سازشوں میں مصروف ہو گئے۔
 
عراق کے حالیہ انتخابات کے بعد پچھلے ساڑھے تین ماہ کے دوران شیعہ پارلیمانی گروپس میں پائے جانے والے غیر معمولی اختلافات کے باعث امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کی رالیں دوبارہ ٹپکنا شروع ہو گئیں اور انہوں نے عراق میں وزیراعظم کے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ یہ امر عراق کی اندرونی صورتحال مزید پیچیدہ ہونے کا باعث بنی ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ ممالک عراق کے خلاف نفسیاتی جنگ اور وہاں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں مصروف تھے۔ عراق کے انتخابات میں رونما ہونے والے واقعات سے ہر گز ایسی تبدیلی کے آثار ظاہر نہیں ہوتے جو ان ممالک کے حق میں ہو کیونکہ ایک طرف اگرچہ شیعہ، سنی اور کرد انتخاباتی گروہوں کی تعداد زیادہ ہو جانے کے باعث پارلیمانی گروپس مزید چھوٹے ہو گئے ہیں لیکن امریکہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی کوشش کے باوجود ایسے پارلیمانی گروپس تشکیل نہیں پا سکے جو سابقہ گروہوں سے یکسر مختلف طرز فکر کے حامل ہوں۔ مثال کے طور پر الدعوہ، مجلس اعلا، بدر اور صدریون جیسے سابق شیعہ گروہوں کو دوبارہ کامیابی حاصل ہوئی جبکہ کرد اور اہلسنت حلقوں میں بھی مشابہہ صورتحال سامنے آئی ہے۔
 
اس دوران امریکی اور سعودی حکام نے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کرتے ہوئے اور بعض افراد عراق بھیج کر یہ دعوی کیا کہ عراق کی سیاسی صورتحال پر اثر انداز ہو جا سکتا ہے اور اس طرح شدید نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ درج ذیل دو نکات پر توجہ کریں:
الف)۔ گذشتہ دو ہفتے کے دوران امریکہ کے وہم پرست صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق میں خصوصی نمائندہ بھیج کر پارلیمانی گروہوں کی ترکیب پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ بریٹ میک کرگ نے کردوں، سائرون کی لسٹ میں موجود رہنماوں اور بعض دیگر شیعہ رہنماوں پر دباو ڈالتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ عراقی پارلیمنٹ میں شیعہ وزیراعظم چنے جانے کا مقدمہ فراہم نہ ہو سکے۔ اس دوران حتی مسعود بارزانی نے جو کردستان میں ریفرنڈم کے دوران امریکی بے وفائی سے پہلے ہی ناراض تھے، نے ٹرمپ کے نمائندے کو کہا کہ وہ سب سے بڑے شیعہ پارلیمانی گروہ سے اتحاد میں ہی اپنا مفاد دیکھ رہے ہیں لہذا امریکی نمائندہ خالی ہاتھ واپس لوٹ گیا۔ البتہ یہ امریکی سازشوں کا اختتام ثابت نہیں ہو گا اور یقیناً مستقبل میں بھی اس کی سازشیں جاری رہیں گی۔
 
ب)۔ دوسرا اہم نکتہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے عراق میں مقررہ وقت پر نئے صدر اور کابینہ کے انتخاب کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے پر مشتمل ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں خاص طور پر گذشتہ چند روز کے دوران سعودی عرب کے مشیر خارجہ اور عراق میں سابق سفیر ثامر السہبان جنہیں گذشتہ برس عراق سے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک سے باہر نکال دیا گیا تھا نے متحدہ عرب امارات کے سفیر حسن احمد شحی سے مل کر چکنے چپڑے وعدوں کے ذریعے شیعہ انتخابات اتحادوں پر اثرانداز ہونے عراقی اور ایران شیعہ عوام کے درمیان اختلاف ظاہر کرنے کی بہت زیادہ کوشش کی۔ انہیں اس بات کا علم تھا کہ پارلیمنٹ میں سیٹوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے حیدر العبادی کے وزیراعظم بننے کے چانسز 2014ء سے بہت کم ہیں لہذا انہوں نے حیدر العبادی پر جہادی شیعہ گروہوں سے اتحاد نہ کرنے اور ایاد علاوی سے وابستہ الوطنیہ یا مقتدی صدر کی سربراہی میں سائرون اتحاد اور بعض کرد گروہوں اور اہلسنت اراکین پارلیمنٹ سے الحاق کرنے کیلئے دباو ڈالا۔
 
ان کے تین ممکنہ مقاصد تھے؛ پہلا بہت کم مدت میں پارلیمنٹ تشکیل پانے سے روکنا اور نئے صدر اور وزیراعظم کے انتخاب میں بہت زیادہ تاخیر ایجاد کر کے عراق کے جمہوری نظام کی بنیادیں کمزور کرنا، دوسرا امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی عراقی حکومت اور عوام کے خلاف سازشوں کو نتیجہ بخش کرنے کیلئے وقت حاصل کرنا اور تیسرا ممکنہ مقصد عراق کے اندرونی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اس ملک کو سیاسی اور سکیورٹی بحران کے دہانے پر ظاہر کرنا تھا۔ اس بنیاد پر سعودی حکومت جو عراق میں سیاسی استحکام اور امن و امان کے قیام کا مخالف ہے، نے اعلان کیا کہ وہ حیدر العبادی کا وزیراعظم کے عہدے پر باقی رہنے کی حمایت کرتا ہے۔ دوسری طرف سعودی میڈیا جیسے عکاظ اور الشرق الاوسط نے یہ ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ ایران حیدر العبادی کا وزیراعظم کے عہدے پر باقی رہنے کا مخالف ہے۔
 
لیکن اصل حقائق کیا ہیں؟ درج ذیل نکات پر توجہ دیں:
1)۔ عراق میں پارلیمنٹ کی تشکیل میں تاخیر کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے۔ 2010ء میں بھی پارلیمنٹ کی تشکیل میں اس سے بھی زیادہ تاخیر دیکھی گئی تھی۔ اسی طرح اگر آئندہ چند ہفتوں میں عراق کے اراکین پارلیمنٹ نئے صدر اور وزیراعظم کے انتخاب میں کسی حتمی فیصلے تک نہ پہنچ سکے تو یہ بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہو گی۔ البتہ موصول ہونے والی تازہ ترین خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت پارلیمانی گروہ "الفتح" کے سربراہ ابو حسن العامری کی قیادت میں ایک شیعہ، سنی اور کردی اتحاد تشکیل پا چکا ہے جس کے پاس عراقی پارلیمنٹ کی کل 328 سیٹوں میں سے 203 سیٹیں ہیں۔ اسی طرح موجودہ عراقی صدر فواد معصوم کا دوبارہ اس عہدے پر باقی رہنے کا بھی قوی امکان موجود ہے۔
 
2)۔ ایران کسی خاص فرد یا افراد کا عراق کے وزیراعظم یا صدر بننے کے بارے میں کوئی رائے نہیں رکھتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے صرف یہ بات اہم ہے کہ عراقی گروہوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پائی جائے جبکہ بیرونی ممالک کی مداخلت کا بھی مخالف ہے۔
 
3)۔ امریکی اور سعودی حکام اور ذرائع ابلاغ کے زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود عراقی عوام اور حکومت ایران سے قریبی اور اسٹریٹجک تعلقات کو اپنی پہلی اور اہم ترجیح سمجھتے ہیں اور خاص افراد اس پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ ایران اور عراق کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کی دشمن قوتوں کی جانب سے جاری پروپیگنڈے کا جھوٹ آشکار ہونے میں زیادہ وقت باقی نہیں بچا۔
خبر کا کوڈ : 747702
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش